وزیر خارجہ سشما سوراج پر للت مودی کی مدد کا الزام ہے ۔ وہ للت مودی جو کہ آئی پی ایل میں بدعنوانیوں کے ذریعے کروڑوں روپئے جمع کرنے کا ملزم ہے ۔الزام ہے کہ للت مودی کی بیو ی کو بیرون ملک جانے میں سشما نے مدد کی تھی۔ حالانکہ دوسری طرف بی جے پی کی طرف سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ انسانیت کی بنیاد پر سشما نے مودی کی بیو ی کی مدد کی تھی۔ کیونکہ وہ کینسر کی مریضہ تھی اور اسے علاج کے لئے باہر جانا تھا۔ واضح ہوکہ للت مودی بیرون ملک اپنی بیوی کو لے کر گئے اس کے بعد ،اب تک عدالت کا سامنا کرنے کے لئے واپس نہیں آئے۔حالانکہ ابھی سشما سوراج اور للت مودی کے رشتے پر چرچا گرم تھی کہ وسندھرا راجے کے ساتھ للت مودی کے رشتے اور مائیگریشن میں مدد کرنے کی خبریں بھی آئیں جس سے بی جے پی دوطرفہ طور پر گھر گئی ہے۔اسی کے ساتھ سرکار کی طرف سے یہ بھی اشارہ دیا گیاکہ اب للت مودی کا پاسپورٹ منسوخ کیا جائے گا۔ البتہ اب پورا سنگھ پریوار اپنی دونوں نیتاؤں کے بچاؤ میں سامنے آگیاہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جہاں ایک طرف کانگریس ان کے خلاف
سخت نظر آرہی ہے، وہیں دوسری طرف بعض اپوزیشن جماعتیں بھی سشما کی حمایت میں سامنے آگئی ہیں۔ ان کی حمایت کرنے والوں میں سماج وادی پارٹی، راشٹریہ جنتادل اور این سی پی بھی شامل ہیں۔اس معاملے میں اپوزیشن بکھراہوا دکھائی دے رہا ہے۔لالوپرساد یادو تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ سشما اچھی انسان ہیں،انھیں تنگ نہ کیا جائے۔
کانگریس کے سخت تیور
کانگریس کو مرکزی سرکار پر حملہ کا ایک اچھا موقع ہاتھ لگا ہے، للت مودی تنازعہ کے سبب۔اس کے ورکر وں نے سشما کے گھر کے سامنے مظاہرہ کرکے وزیر خارجہ کا استعفیٰ بھی مانگا۔ ایسا پہلی بار ہوا کہ ان کے گھر کے سامنے احتجاج کیا گیا۔کانگریس کے نیتا آئے دن اس معاملے میں سرکار کو گھیرتے نظر آرہے ہیں۔کانگریس کے راجیہ سبھا رکن غلام نبی آزاد نے پوچھا ہے کہ سشما سوراج نے للت مودی کو مدد کرنے سے پہلے اسے بھارت لانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہی ہے کہ للت مودی اور سشما میں قریبی تعلقات ہیں۔ آزاد نے وسندھرا راجے اور ان کے بیٹے دشینت کی للت مودی کے معاملے میں ملوث ہونے کو انتہائی سنگین بتایا۔انہوں نے کہا کہ دونوں ماں، بیٹے نے للت مودی کے آئی پی ایل چیف رہنے کے دوران بدعنوانی کے معاملوں میں مدد کی۔
آئی پی ایل کے سابق چیئرمین للت مودی کی مدد کرنے کو لے کر وزیر خارجہ سشما سوراج کو برخاست کرنے کی مانگ پر اڑی کانگریس نے الزام لگایا کہ سوٹ بوٹ کی سرکار کروڑوں روپے کا گھوٹالہ کرنے کے ملزم کو بچانے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ کانگریس کے ترجمان اجے کمار نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو اس مسئلے پر خاموشی توڑنی چاہئے اور ملک سے ’’من کی بات‘‘ کرنی چاہئے۔کانگریس نے پوری بی جے پی اور مرکزی حکومت پر وزیر اعظم نریندر مودی کی ’’خاموش منظوری‘‘ کے ساتھ للت مودی کی مدد کرنے کا الزام لگایا۔
وسندھرا بھی ملوث؟
ابھی سشما سوراج اور للت مودی کے رشتوں کی گونج تازہ تھی کہ اس معاملے میں ایک نیا نام راجستھان کی وزیر اعلیٰ وجے راجے سندھیا کا آگیا۔الزام ہے کہ للت مودی کے ملک سے جانے کے سلسلے میں ایک سفارشی خط راجے کا بھی تھا۔ دستاویزات میں جو لیٹر راجے کی طرف سے لکھا بتایا گیا ہے، اس کے مطابق بی جے پی لیڈر نے کہا تھاکہ للت مودی کے جو بھی امیگریشن معاملے ہوں، میں اس کی حمایت کررہی ہوں، لیکن اس کے ساتھ یہ شرط ہے کہ میں جو مدد کر رہی ہوں، اس کی معلومات بھارتی حکام کو نہیں ملنی چاہئے۔للت تنازعہ میں اس نئے موڑ نے کانگریس کو موقع دے دیا ہے کہ وزیر اعلیٰ راجستھان کو بھی نشانے پرلے۔ راجستھان پردیش کانگریس صدر سچن پائلٹ نے کہاکہ، بی جے پی کی ٹاپ لیڈرشپ اور للت مودی کی ملی بھگت سے پردہ ہٹ چکا ہے۔ اب تو وزیر اعظم خاموشی توڑیں۔وہ تو لوگوں سے دل کی بات کرتے رہتے ہیں۔ انہیں بتانا چاہئے کہ وہ للت کو سپورٹ دیتے رہے ہیں یا نہیں؟
یہ دوستی نئی نہیں ہے
آئی پی ایل کے سابق سربراہ للت مودی اور راجستھان کی وزیر اعلی وسندھرا راجے کی دوستی بھلے ہی آج کمزور پڑ گئی ہو، لیکن ایک وقت تھا جب راجستھان میں دونوں کی قربت پربحث ہوتی تھی۔للت مودی نے ٹی وی چینل کو دیے انٹرویو میں راجے کے ساتھ اپنی دوستی
قبول کی تھی۔انہوں نے ایک اخبار سے اس ہفتے کہا، میری دوستی وسندھرا راجے سے 30 سال پرانی ہے۔ وہ میرے خاندان اور میری بیوی کی قریبی دوست ہیں۔وہیں راجے نے بیان جاری کر قبو ل کرلیا ہے کہ وہ آئی پی ایل کے سابق سربراہ کے خاندان کو جانتی ہیں، جن پر مالی بے ضابطگیوں اور دولت کی ہیرا پھیری کے الزام ہیں۔راجستھان کے لوگوں نے مودی کو اس وقت جانا جب وہ 2005 میں راجستھان کرکٹ ایسوسی ایشن کے صدر بنے، جب راجے کی قیادت میں بی جے پی حکومت ریاست میں اقتدار میں تھی۔ اس کے بعد مودی نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، اور وہ آئی پی ایل کے پہلے سربراہ بنے۔راجے کے 2003 میں وزیر اعلی بنیں ا ور 2008 تک رہیں،اس دوران مودی پر متوازی حکومت چلانے کا الزام لگا۔کانگریس لیڈروں نے ان پر حکومت کے کام کاج میں مداخلت کرنے کا بھی الزام لگایا تھا۔دونوں کے تعلقات اتنے قریبی تھے کہ مودی کے مطابق راجے ان کی بیوی کو کینسر کا علاج کرانے کے لئے 2012 اور 2013 میں پرتگال لے گئی تھیں۔ انہوں نے جے پور میں جدید کینسر انسٹی ٹیوٹ قائم کرنے کے لئے اسی ہسپتال کے ساتھ معاہدہ بھی کیا تھا، جہاں للت کی بیوی کا علاج چل رہا تھا۔تاہم، دونوں کے درمیان کا تعلق وقت کے ساتھ تلخ ہوتا گیا۔اس کے پیچھے کوئی ایک خاص وجہ تو نہیں، لیکن ایک وجہ 2013 اسمبلی انتخابات میں ٹکٹ تقسیم بھی سمجھا جاتا ہے۔
وندھرا راجے سے للت مودی کے تعلقات کی بات سامنے آنے کے بعد بی جے پی نے ان کا ساتھ دینے میں پس وپیش سے کام لیا مگر اب وہ کھل کر ان کے ساتھ آگئی ہے۔بی جے پی نے اپنی خاموشی توڑتے ہوئے راجستھان کی وزیر اعلی وسندھرا راجے کا دفاع کیا اور للت مودی تنازعہ میں راجے یا وزیر خارجہ سشما سوراج کے استعفیٰ سے انکار کیا، جبکہ کانگریس نے ان کے عہدے نہ چھوڑنے پر پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں خلل ڈالنے کی دھمکی دی ہے۔
للت مودی کا جوابی حملہ
آئی پی ایل کے سابق سربراہ اور فیما کی خلاف ورزی کے ملزم للت مودی نے ایک انٹرویو میں گزشتہ یو پی اے حکومت کے وزراء کو بھی لپیٹ لیا۔برطانیہ میں امیگریشن دستاویزات تیار کروانے میں مدد کے سلسلے میں وزیر خارجہ سشما سوراج کا نام سامنے آ چکا ہے۔ اب کانگریس لیڈر راجیو شکلا، این سی پی صدر شرد پوار اور پرفل پٹیل کا نام خود للت مودی نے لیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کانگریس لیڈر ششی تھرور نے وزیر کا عہدہ اس لئے گنوایا کیونکہ انہوں نے جھوٹ بولا تھا کہ ان کا کوچی ٹیم سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
اس درمیان،سابق مرکزی وزیر راجیو شکلا نے للت مودی کے بیان پر ٹویٹ کیا کہ وہ گزشتہ تین سالوں سے ان سے نہیں ملے ہیں، جبکہ پوار نے کہا کہ انہوں نے سابق آئی پی ایل کے سربراہ کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ بھارت واپس لوٹ آئیں اور تحقیقات کا سامنا کریں۔ پرفل پٹیل کی جانب سے اب تک اس بارے میں کوئی صفائی سامنے نہیں آئی ہے۔
مانسون سشن میں کیا ہوگا؟
کانگریس نے للت مودی کے بہانے وزیر اعظم ،بی جے پی او رمرکزی سرکار پر اپنے حملے تیز کردیئے ہیں۔اس نے للت مودی، وزیر اعظم، بی جے پی صدر، سشما اور راجے کے درمیان ساز باز کا الزام لگایا اور کہا کہ حکومت کے پاس خود کو اور پارلیمنٹ سیشن کو بچانے کا
واحد راستہ یہ ہے کہ دونوں خواتین رہنماؤں کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جائے۔کانگریس لیڈر جے رام رمیش نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ یوگا دیوس اور للتاسن کے بعد وزیر اعظم کوئی ٹھوس کارروائی کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔غورطلب ہے کہ للت مودی تنازعہ کی آگ اگلے ماہ شروع ہونے والے پارلیمنٹ کے مونسون سیشن تک پہنچنے جا رہی ہے۔راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے رہنما غلام نبی آزاد نے کہا کہ اگر وزیر خارجہ سشما سوراج اور راجستھان کی وزیر اعلی وسندھرا راجے سندھیا عہدے پر قائم رہتی ہیں تو وزیر اعظم کے لیے پارلیمنٹ کا سامنا کرنا ناممکن ہو جائے گا۔انھوں نے کہا کہ کانگریس اس مسئلے کو پارلیمنٹ میں اٹھائے گی۔توجہ طلب پہلو یہ بھی ہے کہ لیفٹ اور کانگریس کو چھوڑ اس معاملے میں سشما سے کسی نے استعفیٰ کا مطالبہ نہیں کیا ہے، بلکہ سماج وادی پارٹی، راشٹریہ جنتا دل اور این سی پی نے توسشما سے ہمدردی جتائی ہے۔کانگریس سے وابستہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں پارٹی ضرورت کے حساب سے الگ راہ بھی اختیار کر سکتی ہے۔ غور طلب ہے کہ راجیہ سبھا میں کانگریس کے 68 ممبران ہیں۔ لیفٹ کے 10 ممبران بھی ایوان میں کانگریس کا ساتھ دیں گے۔ یہ ارکان سشما اور وسندھرا کے استعفی کا مطالبہ کریں گے۔ سی پی ایم کے جنرل سکریٹری سیتا رام یچوری نے کہا کہ اس مسئلے کو ہم پارلیمنٹ میں اٹھائیں گے کیونکہ بی جے پی نے بڑے اونچے وعدے کئے تھے۔یچوری نے پوچھا کہ اب وزیر اعظم خاموش کیوں ہیں؟لیکن بی جے پی کے لئے راحت کی بات یہ ہے کہ اس معاملے پر اپوزیشن بکھرا ہوا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ملائم سنگھ یادو کی پارٹی اس معاملے میں مودی سرکار کے ساتھ کھڑی نظر آرہی ہے۔
جواب دیں