سب جانتے ہیں کہ وہ ملک کا وزیر اعظم بننے کے خواہشمند رہے ہیں مگر انھیں لنگڑی مار کر مودی آگےنکل گئے۔ یہ بات اڈوانی کو ہضم نہیں ہوئی کہ جس شخص کو انھوں نے سیاست میں آگے بڑھایا اور اس کی سرپرستی کی وہی ان سے آگے نکل جائے۔اس وقت پارٹی کے اندر باہر یہ چرچا گرم ہے کہ اڈوانی اب مودی کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے لہٰذا بیانات کے ذریعے ان کے لئے مشکلیں پیدا کر رہے ہیں۔
اڈوانی کا بیان، مودی پر نشانہ
ایمرجنسی کی برسی سے قبل بی جے پی کے بانی رکن اور سابق نائب وزیر اعظم لعل کرشن اڈوانی نے ایمرجنسی کو لے کر خدشہ ظاہر کیا۔ان کا کہنا ہے کہ بھارت کے سیاسی نظام میں آج بھی ایمرجنسی کا خدشہ ہے۔اسی کے ساتھ یکساں طور پر مستقبل میں شہری آزادی کی معطلی کے خدشہ سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ غور طلب ہے کہ ملک میں اندرا گاندھی نے 40 سال پہلے 25 جون 1975 کو ایمرجنسی کا اعلان کیا تھا۔ یہ ایمرجنسی بھاری مخالفت کے بعد 1977 میں ختم ہوئی تھی۔ اس وقت اندرا گاندھی نے اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کو جیل میں ڈال دیا تھا۔ایک اہم انگریزی اخبار کو دیئے انٹرویو میں اڈوانی نے کہا کہ 1975۔77 میں ایمرجنسی کے بعد،اب تک ایسا کچھ نہیں کیا گیا جس سے مجھے یقین ہوکہ دوبارہ شہری آزادی معطل نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ظاہر ہے کوئی بھی اسے آسانی سے نہیں کر سکتا، لیکن ایسا پھر سے نہیں ہو سکتا، میں یہ نہیں کہہ پاؤں گا۔ایسا دوبارہ ہو سکتا ہے کہ بنیادی آزادی میں کمی کر دی جائے۔اڈوانی نے کہا ملک کے نظام میں ایسا کوئی اشارہ نہیں دیکھ رہا ہوں۔ قیادت سے بھی ویسا کوئی بہترین اشارہ نہیں مل رہا۔جمہوریت کو لے کر عزم اور جمہوریت کے دیگر تمام پہلوؤں میں کمی صاف دکھائی دے رہی ہے۔ آج میں یہ نہیں کہہ رہا کہ سیاسی قیادت بالغ نہیں ہے، لیکن خامیوں کی وجہ سے یقین نہیں ہوتا۔ مجھے اتنا بھروسہ نہیں ہے کہ پھر سے ایمرجنسی نہیں تھوپی جا سکتی۔
اپوزیشن کے نشانے پر آئے مودی
بی جے پی کے سینئر لیڈر لعل کرشن اڈوانی نے ملک میں پھر سے ایمرجنسی کے خدشہ سے انکار نہیں کیا ہے۔اڈوانی کے اس خدشہ نے مخالف جماعتوں کو بی جے پی اور مودی حکومت پرتنقید کابیٹھے بٹھائے موقع دے دیا ہے۔اڈوانی کے خدشہ کو دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے صحیح قرار دیا ہے۔انھوں نے ٹویٹ کر کہا کہ اڈوانی کی بات بالکل درست ہے۔ ملک میں پھر سے ایمرجنسی لگ سکتی ہے۔انھوں نے دلی میں جمہوری قدروں کی معطلی کی طرف بھی اشارہ کیا۔کیجریوال کے علاوہ اوربھی کئی ایسے لیڈر ہیں جنہوں نے مودی حکومت کو گھیرنے کی کوشش کی۔بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار نے کہا کہ اڈوانی جی ملک کے اتنے سینئر لیڈر ہیں، اب انھیں فکر ہے تو سب کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ہم لوگ تو جھیل ہی رہے ہیں۔بی جے پی پر تنقید کرنے والوں میں ’’آپ ‘‘کے رہنما آشوتوش بھی شامل ہو گئے ہیں۔ آشوتوش نے کہا کہ اڈوانی کا انٹرویو مودی کی سیاست پر پہلا کلنک ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں مودی کی قیادت میں جمہوریت محفوظ نہیں ہے۔
عذرگناہ،بدتر از گناہ
ایمرجنسی کو لے کر اپنے بیان سے تنازعے میں آئے بی جے پی لیڈر لال کرشن اڈوانی نے سنگھ کی طرف سے ناراضگی کے اظہار کےبعداپنے بیان سے پلہ جھاڑ تے ہوئے کہا ہے کہ ان کا تبصرہ کسی شخص خاص کو لے کر نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایمرجنسی کے لئے تو کانگریس کو معافی مانگنی چاہئے۔وہ ایک دوسرا انٹرویو دے رہے تھے اور اس انٹرویو میں انھوں نے انٹرویور کے اس سوال پر اعتراض نہیں جتایا جس میں نریندر مودی کو بی جے پی میں ون مین شو کہا گیا تھا۔جرنلسٹ نے بات چیت میں اڈوانی سے پوچھا کہ آپ نے ایمرجنسی کا خدشہ ظاہر کیاتھایا وزیر اعظم مودی کی طرف اشارہ کیا تھا، تب انہوں نے کسی خاص شخص کی طرف اشارے سے انکار کیا۔انھوں نے کہا کہ میں تمام طرح کی آمریت کا مخالف ہوں۔ آج کے لیڈروں کو سابق وزیر اعظم اٹل بہاری کی طرح شریف ہونا چاہئے۔ اقتدار کے ساتھ حق ملتے ہیں، حق کے ساتھ عاجزی نہیں ہوگی تو ملک کی خدمت نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے سیاسی جماعتوں میں’’ون مین شو‘‘ کے رجحان پربھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ میں سیاسی جماعتوں میں ون مین شو کے خلاف رہا ہوں۔ واجپئی اتنے بڑے لیڈر تھے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ’’ واجپئی اِز انڈیا اور انڈیا اِز واجپئی‘‘ بولا گیا ہو۔ایسا ہوتا تو میں کبھی ساتھ نہیں رہتا۔حالانکہ سوال میں واضح کیا گیاتھا کہ بی جے پی کے اندر اب صرف مودی نظر آرہے ہیں اور پارٹی ون مین شو ہوتی جارہی ہے جیسے سماج وادی پارٹی میں ملائم سنگھ، جنتادل( یو) میں نتیش کمار، بی ایس پی میں مایاوتی اور کانگریس میں سونیا گاندھی ہیں۔اس انٹرویو میں را م جنم بھومی تحریک کے بارے میں اڈوانی نے کہا کہ، پچھتاوے کی بات تو دور مجھے اس پر فخر ہے۔ ہم نے بھگوان رام کے تئیں ملک میں آستھا کو مضبوط کیا۔یہ اپنے آپ میں بڑی بات ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا بابری مسجدانہدام اور ایمرجنسی نافذ کرنا جمہوریت کے لئے سیاہ باب نہیں ہے تو اڈوانی نے کہا، میں اس سے متفق نہیں ہوں۔ ایمرجنسی پر بنی شاہ کمیٹی کی رپورٹ کی کانگریس نے ساری کاپیاں غائب کر دیں۔ ایک صفحہ بھی نہیں چھوڑا ۔نہرو اور اندرا گاندھی کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا نہرو نے آزادی کے بعد جمہوریت کی مضبوطی کے لئے جس طرح سے کام کیا وہ تعریف کے قابل ہے لیکن انہوں نے چین کے ساتھ غلط حکمت عملی اپنائی اور فوج کو کمزور کر دیا۔ اندرا گاندھی نے بھی اچھا کام کیا۔پاکستان کے دو ٹکڑے کر دیے، بنگلہ دیش بنایا لیکن ایمرجنسی لگا کر انہوں نے بہت نقصان کیا۔
کیا اڈوانی کا بھروسہ ٹوٹ رہا ہے؟
جب سے مودی نے اڈوانی کو حاشیئے پر ڈالا ہے اور خودمنظر پر ابھرے ہیں تب سے اڈوانی کے انداز کچھ بدلے بدلے سے محسوس ہورہے ہیں۔ جب مودی کو عام انتخابات سے قبل پرچار کمیٹی کا صدر بنایا گیا تھا تب ہی اڈوانی نے ناراضگی ظاہر کردی تھی مگر اس کے بعد مودی کی قوت میں مزید اضافہ ہوتا رہا اور اڈوانی بے وقعت ہوتے گئے۔ حالانکہ ان کی خواہش تھی کہ مودی انھیں ملک کا صدر بنادیں مگر اب جس قسم کے بیانات ان کی طرف سے آرہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ ان کا بھروسہ ٹوٹ رہاہے،لہذا وہ بالواسطہ طور پر مودی اور ان کی حکومت پر وار کرنے لگے ہیں۔ انہیں کہیں نہ کہیں یہ بھی لگتا ہے کہ ان کی قریبی سشما سوراج کو بحران میں ڈالنے میں پارٹی کے کچھ ان رہنماؤں کا ہاتھ ہے، جو انہیں بھی نہیں چاہتے۔بی جے پی کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ اڈوانی کے دل کے کسی کونے میں پرنب مکھرجی کے بعد ملک کا صدر بننے کا خواب تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ بدلتے حالات میں وہ ملک کے وزیر اعظم تو نہیں بن سکتے لیکن صدر کے عہدے کا خواب انہوں نے پال رکھا تھا۔ انہیں امید تھی کہ مکھرجی کے 2017 میں اپنے عہدے کو چھوڑنے کے بعد وہ ملک کے صدر بن سکتے
ہیں۔حالانکہ اب جس قسم کے بیانات ان کی طرف سے آرہے ہیں ان کا مطلب یہ لیا جارہا ہے کہ وہ مودی سے مایوس ہوچکے ہیں اور تسلیم کرچکے ہیں کہ اب مودی انھیں ملک کا اگلا صدر نہیں بننے دیں گے۔وہ اپنے انٹرویوز میں جس قسم کی باتیں کہہ رہے ہیں اس کا مطلب یہ نکالا جارہا ہے کہ پارٹی اور حکومت کی جانب سے انھیں نظر انداز کیا جارہا ہے جس کے خلاف وہ بھڑاس نکال رہے ہیں۔ بی جے پی کے ایک لیڈر نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر کہا کہ پارٹی ان سے عاجز آ چکی ہے۔وہ کچھ بھی کہہ دیتے ہیں۔ کبھی بالکل خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔جب بولنا چاہئے تو چپ ہوجاتے ہیں اور جب چپ رہنا چاہئے تو بول پڑتے ہیں۔کچھ وقت پہلے بی جے پی کی بنگلور میں ہوئی کانفرنس میں وہ مکمل طور پر خاموش رہے۔ اگر انہیں چپ ہی رہنا تھا تو وہ وہاں پر گئے ہی کیوں؟ چپ رہ کر ایک طرح سے انہوں نے اشارہ دے دیا ہے کہ وہ بی جے پی کے موجودہ سربراہ کی قیادت سے خفا سے ہیں۔کانگریس کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ اڈوانی نے سال 2002 میں مودی کی حفاظت کی تھی، جب سابق وزیر اعظم واجپئی، انہیں وزیر اعلی کے عہدے سے ہٹانا چاہتے تھے لیکن دہلی کے اقتدار میں آنے کے بعد مودی نے اڈوانی سمیت اپنے تمام اعلیٰ لیڈروں کو کنارے لگا دیا۔لیکن سے پچھتاوے سے کیا فائدہ؟
جواب دیں