صدیقِ اکبرؓ نے عمرؓ کی یہ حالت دیکھی تو انہوں نے قرآن کی چند آیتیں تلاوت کیں اور بتلایا کہ افضل الانبیاء کا ہمارے بیچ سے اٹھ جانا اس کائنات کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ان سے پہلے بھی دنیا میں جو نبی آئے انہیں موت کا مزہ چکھنا پڑا،خدا کے اس بنائے ہوئے نظام سے کسی بھی نفس کو نجات نہیں ہے۔تب جاکر عمرؓ ہوش میں آئے۔کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی چاہے جو بھی ذہنی کیفیت ہو قرآن کی آیت اگر بطورِدلیل پیش کردی جاتی تو بلا چوں چراں تسلیم کرلیا کرتے تھے۔
رسولِ رحمت ﷺکی رحلت سے جہاں صحابہ کرام غموں سے سخت نڈھال تھے وہیں دشمنانِ اسلام کو بھی ایسا لگا جیسے ان کے پر نکل آئے ہوں۔برسوں سے دبی ہوئی بغاوت کی چنگاڑیاں شعلوں کی شکل اختیار کر گئیں۔مسیلمہ کذّاب نے باضابطہ طور پر اپنی جھوٹی نبوت کا پرچاروپرسار شروع کردیا۔ایمان وایقان کے پیکر،رسولِ رحمت کے یارِ غار خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیقؓکو جب اس بات علم ہوا کہ نبیﷺکی نبوت پر ڈاکہ ڈالنے تیاری کی جا رہی ہے،مسیلمہ کذّاب اپنی خود ساختہ تحریک کو ہوا دینا چاہتا ہے تو وہ سخت متفکر ہوئے۔سوچنے لگے کہ کس طرح اس ’’کذّابِ وقت‘‘کو سبق سکھایا جائے ؟اسکی افتراء پردزی کا سر کچلا جائے؟چنانچہ انہوں نے صحابہ کرام کو ان حالات سے آگاہ کرایااور بتایاکہ خاموش تماشائی بن کر اگر ہم رہیں گے تو خدشہ ہے کہ مسیلمہ کذّاب ہمیں کمزور نہ سمجھنے لگے ۔ اسی لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ناپاک عزائم کو پورا نہ ہونے دیا جائے اس کے لئے فوری طور پر شیدائیانِ اسلام کی ایک ٹیم تشکیل دی گئی تا کہ جھوٹی نبوت کا دعویدارمسیلمہ کذّاب کو نارِجہنم کا راستہ دکھلایا جا سکے۔لیکن سوال یہ تھا کہ جو وفد اس کی سر کوبی کیلئے جائیگا اس کا چیف کون ہو؟ اس موقع پر ایسے شخص کا انتخاب کرنا ضروری تھاجس کے اندر ناموسِ رسالت پہ مرمٹنے کا جذبہ ہو،تمام صحابہ کرام اس بات کے متمنّی کہ اس تاریخی وفد کی قیادت انہیں سونپی جائے۔لیکن ابوبکرؓ کی دور رس نگا ہیں ایک صحابیِ رسول پہ جاکر مرکوز ہو گئیں۔اس خوش نصیب صحابی رسولﷺ کا نام’’طفیل بن عمرودوسیؓ ‘‘تھا۔حضرت ابو بکرؓ نے انہیں مسیلمہ کذّاب کی جانب کوچ کرنے والے وفد کا افسر مقرر کردیا۔جب یہ خوش خبری حضرت طفیل بن عمروؓ کو سنائی گئی تو ان کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا،ناموسِ رسالت پہ قربان ہونے کی تمنّا انگڑائیاں لینے لگیں،فکروخیال کی دنیا جگمگا اٹھی ۔باالآخرحضرت ابوبکرصدیقؓ نے طفیل بن عمرودوسیؓ کواسلامی لشکر کا چیف بنا کر رخصت کر دیا ۔آنکھوں میں شہادت کے حسین خواب سنجوئے فدائیانِ اسلام کی جماعت دھیرے دھیرے آگے بڑھنے لگی۔دورانِ سفر راستے ہی میں شام نے دستک دیدیا ،سورج تاریکیوں میں چھپ جانے کے لئے بے چین تھا،چہار جانب اندھیرا پھیلنے لگا۔اکیسویں صدی کی طرح اس زمانے میں لوگوں کو جدید سہولیات میسّر نہیں تھیں،ٹارچ یا بلب وغیرہ کا نظم نہیں تھاکہ اس کی روشنی کے سہارے مزید سفر کا سلسلہ جاری رکھا جاتااسی بناپر صحابہ کرام نے موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ایک کھلی جگہ میں شب بھر آرام کرنے کا فیصلہ کیا۔دیر رات تک عبادت و ریاضت میں مصروف رہنے اور اللہ کی تحمیدوتقدیس بیان کرنے بعد صحابہ کرام آرام کرنے لگے ۔مقدّمتہ الجیش ،اسلامی لشکر کے جرنل طفیل بن عمرودوسی کی بھی آنکھ لگ گئی ،نیند کے عالم میں انہوں نے عجیب و غریب خواب دیکھا ۔انہوں نے دیکھاکہ:
(1) ان کا سرمونڈدیا گیا ہے
(2)ایک پرندہ ان کے منہ سے نکل کر اڑ گیا
(3)ایک عورت نے انہیں اپنے پیٹ میں چھپالیا
اپنی ذات سے متعلق حضرت طفیل بن عمرو دوسیؓ کے ذہن ودماغ میں خواب کے تینوں مناظر پیوست ہو کر رہ گئے۔جن کی تعبیر نکالنی تھی ،آج کے دور کی طرح صحابہ کرام کا ایمان کمزور نہیں تھا،ان کی ایک ایک سانسیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نام ہوتی تھیں اسی لئے رب تعالی نے انہیں بصارت کے ساتھ ساتھ بصیرت کی روشنی بھی عطا کی تھی ،وہ اپنے تصورات کی دنیا میں عیش ومستی کا محل تعمیر نہیں کرتے تھے،ان کی ہرحرکت اسلامی سانچے میں ڈھلی ہوئی ہوتی تھی چنانچہ اسلامی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے دیکھے گئے خواب کے ایک ایک پہلو پر سنجیدگی سے غور کرنا شروع کردیا ،آخرکار ان کی مومنانہ فراست نے یہ تعبیر نکالی-
(1)سر مونڈے جانے کا یہ مطلب ہے کہ انہیں شہادت کی موت نصیب ہوگی
(2)منہ سے پرندہ نکل کر اڑنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر جائے گی
(3)عورت نے انہیں اپنے پیٹ میں چھپا لیا اس کا مطلب یہ ہے کہاانہیں زمین میں دفن کردیا جا ئے گا
صحابہ کرام نے ان کے خواب کی جب یہ تعبیر سنی تو رشک کرنے لگے۔کیونکہ ایک مردِ مجاہد کے لئے اس سے بڑی اور تمنّا کیا ہوگی کہ اسے شہادت کا جام نصیب ہو۔اللہ اکبر!صحابہ کرامؓ کس قدر مومنانہ فکرو خیال کے حامل تھے،کس درجہ ان کے ذہن ودماغ میں اسلامی جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہواتھا۔
مقتل کی فضاؤں میں جینا میری فطرت ہے
مجھے تو دیکھنا ہے ظالم کہ تو قاتل کہاں تک ہے
طفیل بن عمرو دوسیؓ کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ بھی بڑا دلچسپ ہے ان کا شمار ’’قبیلہ دوس‘‘ کے بارعب سردا روں میں ہوتا تھا۔اللہ انہیں بے پناہ دولت سے نوازا تھا،آرام و آسائش کی تمام چیزیں ان کے گھر کی لونڈی تھیں ،بڑے بڑے لوگ انہیں آداب کہتے تھے،پورے وقار وعظمت کے ساتھ وہ زندگی کے حسین لمحات سے گزر رہے تھے۔جب انہیں اس بات کا علم ہوا کہ مکہ میں ایک شخص محمدﷺ نام کا ہے ،جو یہ کہتا ہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے،اس کے پاس آسمان سے آیتیں اترتی ہیں تو قلب میں جستجو نے سر ابھارا وہ یہ سوچنے لگے کہ کیوں نہ مکہ پہونچ کر اس عجیب و غریب شخص کا دیدار کیا جائے۔چنانچہ وہ ایک روز اپنی پوری رئیسانہ شان وشوکت کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے تو عرب کے رؤسا اپنے اپنے گھروں سے ان کے استقبال کے لئے نکل پڑے۔کیونکہ عربوں کی ایک بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ مہمانوں کی بڑی تکریم کیا کرتے تھے۔شوقِ میزبانی میں انواع واقسام کی چیزوں سے دستر خوان سجا دیا جاتا اور باہر سے آنے والے مہمان عربوں کی اس خاطرداری سے بے حد متأثر ہوتے ،یہی وجہ ہے کہ عرب کے مشہور شعراء کے شعروں میں بھی جابجا ان کی عمدہ میزبانی کا تذکرہ ملتا ہے۔
تمام لوگ دیکھتے ہی دیکھتے طفیل بن عمرودوسیؓ کے ارد گرد جمع ہوگئے،خوش آمدید ،مرحبا مرحبا کی صدائیں سرد پڑیں تو لوگوں نے ان کا کان بھرنا شروع کیا ۔آپ کو توپتہ ہی ہوگا کہ مکہ کے اندر ایک شخص نے ہم لوگوں کا جینا دو بھر کر دیا ہے؟ آپ ہی بتا ئیے ہم لوگ جو صد یوں سے’’ لات و غزّیٰ‘‘ کے پجاری ہیں باپ دادا کی روا یتوں کے امین ہیں ۔ خا ندا نی وقا رو عظمت کے محا فط ہیں ۔ وہ محمد ﷺ ہے نا کہتا ہے اس کی پوجا چھوڑدوں ۔پر ستش کا حقدا رایک ہی ا للہ ہے ویسے بھی ہم لوگ ایک اللہ کے منکر ہی کب تھے وہ تو مانتے ہی ہیں ۔لیکن یہ ہا تھوں کے بنا ئے ہوئے بت بھی تو تعظیم کے لا ئق ہیں ۔یہ ہما رے بزرگوں کا مجسّمہ ہے اور ہم اس کے وسیلے سے دعا کرتے ہیں، ان ہی بتوں کی وجہ سے آسما نی وزمینی مصیبتو ں سے ہمیں نجات ملتی ہے ۔ان تمام سچائیوں کے باوجود یہ محمد ہے کہ کہتا ہے ان بتوں کی کوئی ا ہمیت نہیں ہے طفیل صا حب ! ممکن ہے اس شخص سے کعبہ کے ارد گرد آپ کا بھی سا منا ہو،ا س کا ایک خا ص اندا ز ہے ۔ الگ طریقے سے عبا دت کرتا ہے ۔ایسی ایسی غیر معتدل با تیں کرتا ہے جو ہم نے سنی ہی نہیں ہے،بس اتنا سمجھ لیجیے کہ وہ ایک پا گل اور مجنوں انسان ہے ۔ حد تو یو یہ ہے کہ جو بھی اس کی با ت سن لیتا ہے وہ بے وقوفی کے سمندر میں ایسا غوطہ لگا تا ہے کہ پھر نکلنے کا نام ہی نہیں لیتا ۔ارے ہمیں کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے اس نے جادو وغیرہ سیکھ رکھا ہے ۔جس سے گفتگوکر تا ہے اسکو اپنا ہمنوا بنا لیتا ہے ۔دو بھا ئیوں کے در میا ن پھوٹ ڈال دیتا ہے ۔ایک دوست کو دوسرے دوست سے جدا کر دیتا ہے ۔اسی بنا پر ہم لو گوں نے آپ کو پہلے ہی ان خطرا ت سے واقف کرا نا اپنا اخلا قی فریضہ سمجھا ۔خدا نخوا ستہ اس شخص پر نظر پڑ جائے تو اسے دیر تک مت دیکھیے گا اور نہ اس کی بات سنیے گا ،کیو نکہ دور رہنے میں ہی ہم سبھوں کی بھلا ئی ہے۔ طفیل بن عمرودوسیؓ بیا ن کر تے ہیں :مکہ کے لوگو ں نے محمد ﷺ کے تعلق سے اس حد تک بد گمان کر دیا کہ مجھے دل ہی دل میں بنی ﷺکے سا ئے سے نفرت ہو نے لگی اور ایک طرح کا ڈر بھی سما گیا کہ کہیں وہ شخص مجھے بھی اپنا دیوا نہ نہیں بنا لے ۔ کہیں اس کی آوا ز میرے کا نو ں میں نہ پڑجائے ۔اس سے بچنے کے لئے احتیا تی طور پر میں نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی ۔ تا کہ کچھ سنائی نہ دے لیکن اس پورے عمل کو انجام دینے کے بعد بھی پتہ نہیں کیوں میں اپنے آپ سے مطمئن نہیں تھا۔ دل کے اندر طرح طرح کے خیا لات سر ابھا رہے تھے کہ محمد ﷺ کو دیکھوں ،ان کی بات سنوں آخر ان میں کیا ہے جو اہل مکہ اس درجہ سہمے نظر آتے ہیں ؟
’’کچھ تو ہے جس کی پر دہ دار ی ہے ‘‘
اس قسم کے ڈھیر سا رے سوا لا ت ذہن کے دریچے سے جھا نک رہے تھے ۔اسی بیچ اللہ کے نبی ﷺ کعبۃ اللہ کے قریب نظر آئے ۔مخصو ص طریقے سے جب میں نے ان کو عبادت و ریا ضت میں مصرو ف دیکھا تو دل کی دنیا بدل گئی ،دل و د ماغ رو شن ہو تا چلا گیا۔روحا نی مسرت کا احساس ہوا ۔ایسا لگا جیسے میری منزل مل گئی ہو ۔نماز سے جب اللہ کے رسول فا رغ ہوئے تو میرے پیر خود بخودان کی جا نب بڑھنے لگے ۔ وہ اپنے گھر کی جا نب جا رہے تھے اور میں ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا ۔ جب آپ ﷺ اپنے حجرے کے اندر تشر یف لے جا نے لگے تو میں نے آواز دی ۔قریب پہنچا ۔چہرے پہ نظر پڑی تو حسب روا یت کا ئنا ت کے اما م نے دلنواز تبسم فر ما یا ۔موتی کی طرح چمکتے دا نت ظا ہر ہو گئے ۔ رسو ل پاک ﷺ کی اسی ادا نے پتہ نہیں کتنے متلا شیا ن حق کو اپنا گر ویدہ بنا لیا ۔میں نے اپنا تعا رف کرا یا اور رسول ہا شمی سے التجا کی کہ خدا کے لئے مجھے اپنی غلا می کا پر وا نہ عطا کر دیجئے ۔ میرا دل اسلام کے سا یہء رحمت میں جگہ پا نے کے لئے بے قرار ہے۔ افصل الا نبیا نے انہیں کلمہ طیبہ پڑ ھوا کر مسلمان کر لیا ۔سبحان اللہ ۔
یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے وا سطے دار و رسن کہاں
نا موس رسا لت کے لئے سر بکفن ہو نے وا لے طفیل بن عمر ودوسیؓ اپنے دیکھے گئے خواب کے عین مطا بق جنگِ یما مہ میں کفر وشرک کے علمبرداروں کو جہنم رسید کر تے کرتے شہید ہو گئے ۔انا للہ وانا الیہ را جعون ۔
(تفصیل کیلئے دیکھیں۔مختصرتاریخ دمشق،7/59-64۔اُسدالغابہ3/54-55۔شہدائے اسلام138-143-۔البدایہ والنہایہ۔6/337۔الاصابہ فی تمیز الصحابہؓ3/286-288۔الاستیعاب لابن عبدالبر ،طبع حیدرآباد1/211-213-)۔
جواب دیں