عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ
ماہ رمضان کی مخصوص عبادتوں میں روزہ کے بعدجس عبادت کوبنیادی اہمیت حاصل ہے وہ نمازِ تراویح ہے۔علماء امت کے نزدیک تراویح،اس نماز کو کہتےہیں جو اہتمام جماعت کے ساتھ رمضان کی تمام راتوں میں عشاء کے بعد پڑھی جاتی ہے ۔(فتح الباری : ج ۴،ص: ۱۷۸)
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب نوراللہ مرقدہ ماہ رمضان میں مشروعیتِ تراویح کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ"رمضان میں افعال بِر اور تقوی کو باہم اس طرح گوندھ دیاگیا کہ وہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے۔چناں چہ ہلال رمضان نظر آتے ہی اول شب ہی سے اس ماہ کا افتتاح ان دو چیزوں سے کیا گیا جو اعمال بِر کی جان ہیں یعنی تلاوت قرآن اور نماز تراویح۔یہی دو چیزیں ہیں جس سے انسانی نفس کو قرب خداوندی اور لذت وصال کی دولت میسر آتی ہے،نماز تراویح سے تو انتہائی قرب ہوتا ہے؛کیوں کہ بہ نص قرآن اور بہ تصریح حدیث، سجدہ ہی کمال قرب کا درجہ ہے جو افعال صلوة کا اصلی مقصود ہے؛جیساکہ ارشادخداوندی ہے :" سجدہ کرو اور قریب ہوجاؤ"،اسی طرح ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:"بے شک بندہ اپنے رب سے قریب تر اس وقت ہوتا ہےجب کہ وہ سجدے میں ہو"اور یہاں قرب بہ معنی اتصال ہی نہیں؛بل کہ بہ معنی الصاق بھی ہے؛کیوں کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تصریح ہے کہ بہ حالت سجدہ انسان کا سر اللہ کے قدموں پر گرتا ہے۔ پس اقربیت یعنی کمال قرب وبقا تو نماز سے ملا اور پھر اس کمال قرب کی بھی تکمیل اور باثمرہ ہوجانا روزانہ کے چالیس سجدوں سے ہوجائے گا؛کیوں کہ بیس رکعت میں چالیس سجدے ہوتے ہیں اور چالیس کے عدد کو تکمیل شی میں خاص دخل ہے۔پھر اس کمال قرب کو بے ثمر نہیں چھوڑ دیا گیا، بل کہ اس کے ساتھ کمال وصال کی سبیل، تلاوت قرآن سے کی گئی، کیوں کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں قرآن کو اللہ کے باطن کی چیز فرمایا گیا ہے۔ارشاد ہے: قرآن سے برکت حاصل کرو،کیوں کہ وہ اللہ کا کلام ہے جو اس کے اندر سے نکل کر آیا ہے۔اس سے واضح ہوا کہ قرآن اللہ کے اندر سے نکلی ہوئی چیز ہے جو تلاوت کے ذریعے ہمارے اندر پہنچ جاتی ہے یعنی اس کے باطن سے چلتی ہے اور ہمارے باطن میں پہنچ جاتی ہے،جس سے اللہ اور اس کے بندے کے درمیان باطنی ربط پیدا ہوتا ہے۔(ملخص ازخطبات حکیم الاسلام)
مشروعیتِ تراویح:
نماز تراویح ایک ایسی عبادت ہے جو صرف ماہ رمضان المبارک ہی میں ادا کی جاتی ہے اور یہ زمانۂ رسالت سے آج تک مسلمانوں میں متواتر چلی آرہی ہے۔ نماز تراویح کی ترغیب خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے آپ نے فرمایا :اللہ تبارک وتعالیٰ نے تم پررمضان کے روزے فرض کیے اورمیں نے اس کے قیام یعنی تروایح کی نمازکوسنت قراردیاہے،پس جوشخص رمضان کے روزے اوراس کی نمازایمان کے ساتھ اورثواب کی نیت سے اداکرتاہے وہ گناہوں سے اس طرح نکل جاتاہے جیسے اس دن تھاجس دن اس کی ماں نے اس کوجناتھا۔(ابن خزیمہ)ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ’’ جس شخص نے رمضان میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے قیام کیا، اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ (مسلم) امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح صحیح مسلم میں لکھا ہے کہ اس حدیث مبارکہ میں قیام رمضان سے مراد نماز تراویح ہےنیز دیگر شارحین حدیث نے بھی اس کا مصداق تراویح ہی کو قرار دیا ہے۔ صحیحین کی بعض روایات کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح پڑھی؛لیکن مصلحتاً جماعت کے ساتھ پورا مہینہ نہیں پڑھی۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آدھی رات کے وقت مسجد تشریف لائے اور نماز ادا کی، لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھنی شروع کردی۔ صبح لوگوں نے رات کی نماز کا آپس میں تذکرہ کیا، چنانچہ پہلی مرتبہ سے زیادہ (اگلی رات میں)لوگ جمع ہوگئے، دوسری رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اورلوگوں نے آپ کی اقتدا میں نماز پڑھی پھر لوگوں نے صبح اس واقعہ کا دیگر لوگوں سے ذکر کیا تو تیسری رات مسجد میں بہت زیادہ لوگ جمع ہوگئے،(مگر رسول اللہﷺتشریف نہیں لائے) جب صبح کی نماز ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، کلمہ پڑھا اور اس کے بعد فرمایا:گذشتہ رات تمہارا حال مجھ پر مخفی نہیں تھا؛لیکن مجھے یہ خوف تھا کہ تم پر رات کی نماز (تراویح) فرض کردی جائے اور تم اس کی ادائیگی سے عاجز ہوجاؤ۔ (مسلم)
معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز تراویح باجماعت پسند تھی؛ مگر اس خوف سے کہ کہیں اللہ تعالیٰ اسے فرض ہی قرار نہ دے دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلسل کے ساتھ مسجد میں باجماعت یہ نماز ادا نہیں فرمائی۔ پھر اس طرح حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور میں الگ الگ بغیر جماعت کے نماز تروایح کا سلسلہ رہا یہاں تک کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک روز مسلمانوں کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں مسجد میں نماز تراویح باجماعت کے لئے جمع فرمایا، پس اس روز سے رمضان کے پورے ماہ میں باجماعت نماز تراویح ادا کرنے کا رواج ہوگیا۔
پیش نظر تحریر کا مقصدتراویح کے حوالے سے ان کوتاہیوں کی نشان دہی ہے جو بہت تیزی کے ساتھ ہمارے مسلم ماحول کا حصہ بنتی جارہی ہیں اور افسوس تو اس بات پر ہے کہ ان غلطیوں کو گناہ اور ناقدری تصور کرنے کےبجائے کمال اور ہنر سمجھاجارہاہے۔
تراویح مکمل ماہ باجماعت سنت ہے:
مروجہ شبینوں اور چند یوم میں تکمیل قرآن کےرجحان کی بناءپر عوام کی بڑی تعداد اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ سنتِ تراویح صرف ایک قرآن مجید کاختم کرنا ہے،خواہ وہ ایک قرآن ایک دن میں مکمل ہو یا تین دن میں؛جب کہ فقہاء کرام کی تصریحات کے مطابق تراویح کی نماز پورے ماہ پابندی سے ادا کرنا سنت مؤکدہ ہے۔
مکمل قرآن تروایح میں سننا الگ سنت ہے،اور پورا ماہ پابندی سے تراویح پڑھنا الگ سنت۔ ہاں جن لوگوں کو رمضان المبارک میں سفر وغیرہ درپیش ہو یا اور کسی وجہ سے ایک جگہ روزانہ تراویح پڑھنی مشکل ہو ان کے لئے مناسب ہے کہ اوّل قرآن شریف چند روز میں سن لیں تاکہ قرآن شریف کی سماعت سے محرومی نہ رہے پھر جہاں وقت ملا اور موقعہ ہوا وہاں تراویح پڑھ لی کہ قرآن شریف بھی اس صورت میں مکمل ہوگا اور اپنے کام کا بھی حرج نہ ہوگا۔
تراویح وتہجد دو مستقل نمازیں ہیں :
نماز تہجد سال بھر پڑھی جانیوالی مستقل نماز ہے،احادیث میں اس کے بہت سارے فضائل وارد ہوئے ہیں،اور نماز تراویح بھی مستقل نماز ہے جو رمضان المبارک کا خاص تحفہ اور رمضان کی راتوں کے ساتھ مخصوص ہے؛مگر بعض حضرات کی جانب سےمسلسل یہ شوشہ چھوڑا جارہاہے کہ تہجد اور تراویح دونوں ایک ہی نماز کے الگ الگ نام ہیں اور دلیل میں بخاری شریف کی یہ روایت پیش کی جارہی ہے جوحضرت ابوسلمہؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہؓ سے دریافت کیا ،آپ ﷺکی نماز ، رمضان میں کیسی ہوتی تھی؟ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ آپﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں فرماتے تھے اس طور پر کہ چار رکعت پڑھتے جن کی خوبی اور طوالت کے بارے میں مت پوچھو الخ۔
یہاں یہ بات ملحوظ ِخاطر رہنی چاہئے کہ مذکورہ حدیث ِعائشہؓ کا اصل تعلق تہجد کی نماز سے ہے نہ کہ تراویح سے جبکہ ان دونوں عبادتوں کے درمیان ماخذ، زمان ، مکان اور کیفیت ان چاروں اعتبارسے نمایاں فرق ہے جس فرق کو محدثین کی ایک بڑی جماعت نے تسلیم کیا ہے ۔ (تفصیل کے لئے رجوع ہوں:فتاوی ابن تیمیہ :ج۲، ص ۲۷۲، نیل الاوطار :ج ۳ ص ۶۶)
تراویح اور تہجد کے ایک ہونے پرحدیث ِمذکور سے استدلال کسی اعتبار سے درست نہیں اس لئے کہ روایت میں تو اس نماز کا ذکر ہے جو رمضان اور غیر رمضان دونوں میں پڑھی جاتی ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ تراویح غیر رمضان میں نہیں پڑھی جاتی ؛بلکہ صرف رمضان میں پڑھی جاتی ہے مزید برآں سائل کا سوال کیفیت ِصلوٰۃ کے تعلق سے تھا نہ کہ کمیت ِصلوٰۃ کے تعلق سے جیساکہ حضرت عائشہؓ کا قول" فلا تسأل عن حسنھن وطولھن" اس جانب مشیر ہے ۔
تلاوت میں صحیح تلفظ وحسن ادا مطلوب ہے:
اس وقت نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ اس طرف مائل دکھائی دیتا ہےکہ ایسے حافظ یا ا مام کے پیچھے نماز تراویح ادا کی جائےجو انہیں کم سے کم عرصہ میں جلد از جلد تراویح پڑھا کر فارغ کردے اوربعض حفاظ بھی اس بات کو دلیلِ کمال سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید اس طرح سرعت و تیزی کے ساتھ پڑھاجائے کہ سامعین میں سے کوئی شخص بھی نہ صحیح طور پر سن سکے اور نہ ہی لقمہ دے سکے۔ نیز بسا اوقات قرآن پاک کے مخارج اور صفات کی ادائیگی بھی بہت مشکل ہوجاتی ہے،اکثر لوگ جلدی میں’’ا،ع،س،ص،ذ،ز،ض اور ق،ک ‘‘کے درمیان تمیز اور فرق نہیں کرپاتے جس سے ’’لحن جلی‘‘واقع ہوتی ہے اور لحن جلی کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرنااور سننادونوں حرام ہے۔ قرآن پاک کا یہ حق ہے کہ اسے اچھی طرح ٹھہرٹھہر کرپڑھاجائے۔ارشاد ربانی ہے:’’اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔‘‘(سورۂ مزمل: ۴)اس لیے ضروری ہے کہ تراویح اور خاص طور پرشبینہ تراویح میں اس بات کا خاص خیال رکھا جائے ورنہ ثواب کی جگہ گناہ لازم ہوگا۔بہتر بات تو یہ ہے کہ تراویح کسی ایسے حافظ کے پیچھے پڑھی جائے جو پورے احترام اور ذوق وشوق کے ساتھ اس طرح سکون و اعتدال سے قرآن پڑھے کہ مقتدی بھی نہ اکتائیں اور قرآن پاک کی تلاوت کا حق بھی ادا ہو۔ قرآن کو غیرمعمولی روانی کے ساتھ بے سوچے سمجھے اس طرح پڑھنا کہ گویا سر سے ایک بوجھ اتارا جارہا ہے،درحقیقت قرآن کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہے۔ خدا کی کتاب کا حق یہ ہے کہ اس کو دل کی آمادگی، طبیعت کی حاضری اور انہماک کے ساتھ پڑھا جائے اور اس کو سمجھنے اور اس میں غور وفکر کرنے کی عادت ڈالی جائے۔
بعض آداب ومسائل:
- رمضان کے مہینے میں مردوں اور عورتوں دونوں کو بیس رکعات تراویح پڑھنی چاہیے۔
- تراویح میں بہتر یہ ہے کہ دو دو رکعات کرکے پڑھی جائیں۔اگر چار رکعات کے ساتھ تراویح پڑھی تب بھی درست ہے۔
- اگر عشاء کی نماز کسی وجہ سے فاسد ہوگئی تو اب اس کے بعد پڑھی جانے والی تراویح بھی درست نہیں ہوگی۔
- تراویح رمضان کی ہر رات کو پڑھنی چاہئے۔
- تراویح میں کم از کم ایک مرتبہ قرآن ختم کرنا بھی سنت ہے۔
- گھر میں اگر تراویح پڑھی جائے تب بھی درست ہے مگر مسجد کی فضیلت نہیں ملے گی۔
- ایک مسجد میں تراویح کی متعدد جماعت ہونا اچھا نہیں بلکہ مکروہ ہے۔
- جس شخص نے عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ نہیں پڑھی ،تو وہ تراویح جماعت کے ساتھ پڑھ سکتا ہے۔
- بلاعذر تراویح بھی بیٹھ کر نہیں پڑھنی چاہیے۔
- مقتدی بیٹھا رہے او رجب امام رکوع میں جانے لگے تو رکوع میں امام کے ساتھ چلا جائے ایسا کرنا درست نہیں۔
- نابالغ لڑکے کے پیچھے تراویح کی نماز درست نہیں ہوگی۔
- تراویح پڑھانے والے نے داڑھی ایک مشت سے کم رکھی ہو، یا رمضان کے بعد وہ مونڈدیتا ہو تو ایسے شخص کے پیچھے تراویح نہیں پڑھنی چاہئے۔ (مکروہ ) ہے۔
- تراویح کی چار رکعات کے بعد اتنی دیر بیٹھنا اچھا اور مستحب ہے جتنی دیر میں چار رکعات پڑھی گئی ہیں۔
- رمضان میں وتر جماعت کے ساتھ پڑھنی چاہئے، اگر کسی کی تراویح کی رکعتیں رہ جائیں تو وہ وتر جماعت کے ساتھ پڑھ کر تراویح کو پھر پڑھ لے۔
جواب دیں