نائیجیریا کی انتخابی بہار

نائیجیریاکے اندر گذشتہ دنوں انتخابات کا انعقاد ہوا اور ایک غیر معمولی تبدیلی رونما ہوگئی۔ اس انقلاب کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتاہے کہ الجزیرہ چینل کے جن دو صحافیوں کو انتخاب سے قبل بوکوحرام کے خلاف فوجی اقدامات کی تحقیقات کا الزام لگا کر حراست میں لیا گیا تھا رہا کردئیے گئے۔ یہ اقتدار کی منتقلی سے پہلے ہی رونما ہونے والی تبدیلیاں ہیں جبکہ مصر کے اندر گرفتار شدہ دو صحافیوں میں سے ایک برسوں بعد بھی قید و بند کی صعوبتیں میں مبتلاء4 ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نائیجریا کے اندر انتخابی عمل کے نتیجے میں رونما ہونے والے اس پرامن انقلاب کوافریقہ کی بہار سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ نیچونکہ اسے کوئی خاص اہمیت نہیں دی اس لئے ہمارے قومی میڈیا نے بھی اس کو نظر انداز کردیا۔
نائیجیریا کے حالیہ انقلاب کو نظر انداز کرنا مغرب کی مجبوری ہے۔ اگر شکست خوردہ صدر جوناتھن گڈلک کے بجائیمحمد بخاری ہوتیاور ان پر بدعنوانی کے سنگین الزامات بھی ہوتے۔ عوام ان کی نااہلی سے بیزار ہوکر بدعنوانی سے نجات کی خاطر جوناتھن کو ۰۲ لاکھ ووٹوں کے فرق سے کامیاب کردیتے تو یقیناًً یہ مغرب کیلئے ایک بہت بڑی خبر بن جاتی۔ اس لئے کہ محمد بخاری کی ا?ڑ میں مسلمانوں کو اور اسلام کو بدنام کرنے کا نادر موقع اس کے ہاتھ آجاتا لیکن وہاں توسب کچھ الٹا ہوگیا۔ نائیجیریا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی برسراقتدار صدر کو انتخاب کے ذریعہ اقتدار سے بے دخل کرنے کا کارنامہ ایک مسلمان رہنما محمد بخاری نے انجام دے دیا اس سے بھلا اسلام اور مسلمانوں کے دشمن کیونکرخوش ہو سکتے ہیں ؟
نائیجیریا کا انتخابی نظام اس قدر سیدھا سادہ بھی نہیں ہے کہ کئی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف انتخاب لڑیں اور ایک جماعت کسی طرح ۰۳ فیصد کے لگ بھگ ووٹ حاصل کرکے بلاشرکت غیرے اپنی سرکار بنالے یا ۰۲ فیصد کے آس پاس ووٹ بھی اگر مل جائیں تو جوڑ توڑکر کے مخلوط حکومت قائم کردے۔ وہاں اول تو صدارتی امیدوار کو براہِ راست عوام سے ۰۵ فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے پڑتے ہیں دوسرے کامیاب امیدوار کیلئے لازم ہے کہ وہ کم از کم دو تہائی ریاستوں میں ۲۵ فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرے۔ اس لئے کسی ایک علاقہ میں مقبول رہنما اقتدار پر قابض نہیں ہوسکتا۔
نائیجیریا کا شمالی حصہ مسلمانوں کی آبادی پر مشتمل ہے اور جنوب میں عیسائی آباد ہیں لیکن اس مرتبہ یہ بات دیکھنے میں آئی کہ جنوب کے لوگوں نے ایک تو رائے شماری میں دلچسپی نہیں لی اور جو ووٹ دینے گئے انہوں نے بخاری کی اے پی سی کو پسند کیا۔ اس لئے کہا جارہا ہے کہ پہلی مرتبہ نائیجیریا کی عوام نے نسلی ، علاقائی اور مذہبی عصبیت سے اوپر اٹھ کر بدعنوانی کے مسئلہ پر ووٹ دیا ہے۔محمد بخاری کے خلاف پی ڈی پی والے ان کے ماضی کاحوالہ دے کرعوام کو ورغلاتے تھے۔ انہیں ڈرایا جاتا تھا کہ اس سابق فوجی کو اگر پھر سے حکمرانی کا موقع مل جائے تو جمہوریت کا خاتمہ ہو جائیگا۔ انسانی حقوق سلب کردئیے جائیں گے۔ شریعت کے سخت قوانین نافذ ہو جائیں گے اور بوکو حرام جیسے جنگجو طاقتور ہوجائیں گے۔
لیکن جب عوام نے دیکھا کہ ان کا چہیتا رہنما جوناتھن گڈ لک بوکو حرام کے خلاف بری طرح ناکام ہو گیا ہے اور بدعنوانی کے دلدل میں سر سے پیر تک دھنس چکا ہے۔ انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سے تیل کی برآمد کے عوض ملک کے اندر آنے والے ۶۰۰ بلین ڈالر میں سے۴۰۰ بلین ڈالر یعنی دوتہائی اہل اقتدار کی جیب میں چلے گئے ہیں۔ اس کے برعکس۷۰فیصدعوام غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور کررہے ہیں۔۸۰ فیصد نوجوان بیروزگارہیں۔اس مایوس کن صورتحال میں عوام نے بڑی امیدوں کے ساتھ محمد بخاری سے رجوع کیا ہے جو ۲۰۰۳کے بعد سے لگاتار تین مرتبہ حزب اختلاف اے پی سی کے رہنما کی حیثیت سے پی ڈی پی کا مقابلہ کرتے رہے لیکن دل شکستہ نہیں ہوئے۔ یہ۷۲ سالہ محمدبخاری کی صبرو استقامت کا ثمرہے کہ انہیں بالآخر فتح نصیب ہو گئی اور وہ اڈوانی جی کی مانند مستقل امیدوار کیلقب سے بچ گئے۔
اس موقع پر بچپن کی ایک کہانی یاد آتی ہے۔ کسی جنگل میں ایک مرتبہ جانوروں نے سوچا کہ شیر حکمرانی خاصی طویل ہو گئی ہے اب اسے تبدیل ہونا چاہئے۔ شیر بھی انسانوں کی طرح حرص و ہوس کا مارا نہیں تھا ،حکومت کرتے کرتے تھک گیا تھا۔ اس لئے اس نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا اور کہا ٹھیک ہے آپ لوگ مل جل کر سربراہ مقرر کرلو میں اس کواقتدار کی باگ ڈور سونپ کر سبکدوش ہوجاتا ہوں۔ اب جانوروں میں اس بات پر اختلاف ہوگیا شیر کے بعد جنگل کا راجہ کون بنے۔ ایسے میں لومڑی نے ترکیب سجھائی کیوں نہ انسانوں کی طرح انتخاب کرلیا جائیجس کے حق میں سب سے زیادہ رائے آئے وہی سربراہ ہو۔ سارے جانوروں نے اس تجویز پر اتفاق کرلیا۔
جنگل میں بندروں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ اس کے علاوہ کچھ اور پیڑوں پر رہنے والے بھی ان کے ہمنوا ہوگئے اور ایک قلندر نما بندر کے حق میں اپنی رائے دے دی۔ بندر کے اقتدار میں آتے ہی سارے جانوروں کے دل سے شیر کا خوف ختم ہو گیا اور پھر وہاں بھی انسانی بستیوں کی مانندجس کی لاٹھی اس کی بھینس والا جنگل راج قائم ہو گیا۔ جانور ایک دوسرے کے ساتھ زیادتی کرنے لگے لیکن بندر بادشاہ اس سے بے نیاز شاخوں پر اچھل کود کرتا رہا۔طاقتور جانور کمزوروں کی حق تلفی کرتے رہے اور بندر بادشاہ بندریہ کے جوں نکال نکال کر کھاتا رہا اس طرح گویا جنگل کی پرامن فضا میں کہرام مچ گیا۔
اس درمیان ایک دن بھیڑئیے نے ہرن کا بچہ اٹھا لیا۔ ہرنی بیچاری دوڑی دوڑی بندر بادشاہ کے پاس آئی اور اس کے سامنے رونے دھونے لگی۔بندر اس کی بات سن کر اپنی جگہ سے اٹھا اور بھیڑئیے کی جانب بڑھا لیکن بھیڑئیے پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ بندر سوائے مختلف شاخوں پر اچھل کود کے علاوہ کچھ نہ کرسکا یہانتک کہ بھیڑیا ہرن کے بچے کو چیر پھاڑ کر کھا گیا۔ اس واردات کے بعدبندر نے ہاتھ جوڑ کر ہرنی سے معذرت کرلی کہ میں نے تو اپنے بہت کوشش کی لیکن افسوس کہ تمہارے کسی کام نہ آسکا۔ اس واقعہ نے جانوروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ان سب نے دوبارہ شیر کو بادشاہ بنانے کا فیصلہ کرلیا۔
شیر کے پاس جب وہ لوگ اپنی تجویز لے کر پہنچے تو شیر بولا تم لوگ پانچ سال انتظار کرلوجب دوبارہ انتخابات ہوں تو مجھے منتخب کرلینا۔ جانوروں نے کہا پانچ سال کا انتظاربہت طویل ہے آپ فوراً دوبارہ بادشاہ بن جائیں۔ شیر بولاجب تک بندر راجہ ہے میں اپنی خانقاہ سے نہیں نکلوں گا اور میں اپنے اقتدار کی خاطر انسانوں کی طرح خون خرابہ بھی نہیں کروں گا۔ جانور بندر سے نجات حاصل کرنے کی ترکیب سوچنے لگے پھر ایک بار لومڑی نے عقل لگائی اور بولی بندر نقلچی ہوتا ہے۔اس کے سامنے جو بھی حرکت کی جائے وہ اسے دوہراتا ہے اس لئے اگر کوئی اس کے سامنے کنوئیں چھلانگ لگا دے تو وہ بھی کود جائیگا۔ اس طرح ہمیں بندرکی حکمرانی سے نجات مل جائیگی۔ 
اس تجویز سے جانور پریشان ہو گئے کیوں کہ جنگل کی فلاح وبہبود کیلئے کوئی موت کے کنوئیں میں کودنے کیلئے تیار نہیں تھا ایسے میں مینڈک سامنے آیا اور اس نے اپنی خدمات پیش کیں۔ سارے جانور خوش ہوگئے اور مینڈک کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد مینڈک بندر بادشاہ کے سامنے گیا اور اچھلنے کودنے لگا بندر بھی وہی حرکتیں کرنے لگا۔ مینڈک اچھلتے کودتے کنوئیں کے پاس آگیا اور اس میں چھلانگ لگا دی بندر بھی اس کے پیچھے پیچھے کود گیا۔ سارے جانور خوشی سے جھوم اٹھے مینڈک اندر سے پھدک کر باہر آگیا اور بولا میں نے پہلے ہی کنوئیں کی دیوار میں ایک سوراخ دیکھ لیا تھا اس لئے چھلانگ لگا کر وہاں بیٹھ گیا اور پھر واپس آگیا۔ شیر کے اقتدار کا راستہ صاف ہوگیا اور وہ دوبارہ جنگل کا راجہ بن گیا۔ بدقسمتی سے نائیجیریا میں نہ لومڑی تھی اور نہ مینڈک اس لئے محمد بخاری کو ۳۰سالوں تک اقتدار کا انتظار کرنا پڑا لیکن آخرکار وہ شیر کی مانند دوبارہ کرسی اقتدار پر متمکن ہو گئے۔ 
محمد بخاری کی پیدائش ? ۱۹۲۴ میں ہوئی۔ نوعمری میں وہ فوجی بن گئے اور ?۱۹۶۷ کے اندر اولوسیگون اوبسانجو نامی فوجی حکمراں کے زمانے میں وزیر کی حیثیت سے سیاست میں قدم رکھا۔دسمبر ?۱۹۳۸ کے اندر ہونے والی غیر خونی بغاوت کے بعد فوجی افسران نے انہیں اقتدار سونپ دیا۔ ان کے دوراقتدار میں سرکاری فضول خرچ پر لگام کسی گئی۔ بدعنوان سیاستدانوں کے علاوہ منشیات کے اسمگلروں اور ہتھیار بند لٹیروں کو جیل بھیج دیا گیا۔ اگست ۱۹۵۸ میں جنرل ابراہیم باباگنڈا نیمحمد بخاری کا تختہ الٹ کر اور انہیں پابند سلاسل کر دیا۔ ۴۰ ماہ تک قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعدوہ رہا ہوئے۔ نائیجیریا میں انگریزی استعمار کے بعد چار سالوں کے علاوہ فوجی حکومت کرتے رہے۔بعدمیں انتخابات ہونے لگیتواس پورے عرصہ پی ڈی پی حکومت کرتی رہی۔ 
اگست ?۲۰۱۰میں پی ڈی پی کیسابق صدر یاعدو علیل ہوگئے تو نائیجیریا کے عوام جوناتھن گڈلک کے ہاتھوں میں ملک کو باگ ڈور سونپنے کا مطالبہ کرتیہوئیسڑکوں پر نکل آئیجو اس زمانے میں بے حد مقبول رہنما تھے۔ ?۲۰۱۱کے انتخابات میں انہوں نے محمد بخاری کو شکست بھی دی لیکن اس کے بعد وہ عوام سے کئے گئے خوشنما وعدوں کوبھول گئیاور ۲۰۱۵ کا انتخاب جیتنے کی خاطر وہی گھسا پٹا حربہ استعمال کرنے کی کوشش کی جس کا آج کل دور دورہ ہے۔ دنیا بھر کے سیکولر سیاسی رہنماوں کی مانند اپنی ناکامیوں کیاوپر پردہ ڈالنے اورعوام کی توجہ ہٹانے کیلئے دہشت گردی کا ہنگامہ کھڑا کردیا۔ 
نائیجیریا کے اندر انتخاب کے سال میں بوکو حرام کے ذریعہ ۳۰۰طالبات کے اغواء4 کا واقعہ ذرائع ابلاغ میں بحث کا موضوع بن گیا۔ اس کے حوالے سے جومضحکہ خیز خبریں ذرائع ابلاغ کی زینت بنتی تھیں اس کو کسی تصدیق کے بغیر پھیلایا جاتا رہا۔ لیکن اس درمیان ایک ایسا واقعہ رونما ہوگیا کہ ساری قلعی اپنے آپ کھل گئی۔ ان طالبات کی رہائی میں ناکامی کے خلاف نائیجیریا میں قومی سطح پر احتجاج ہو رہے تھے اور مظاہرین صدر جوناتھن کی بے حسی پر غم و غصے کا اظہار کررہے تھے۔ اس دوران خواتین کے ایک وفد نے جوناتھن کی اہلیہ پیشنز سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے دوران پیشنز کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور انہوں نیدو مظاہرین کو حراست میں لینے کا فرمان جاری کردیا۔ 
پیشنز نے(جو اس وقت نائیجیریا کی خاتون اول تھیں ) نہ صرف اغواء4 کی واردات کے وقوع پذیر ہونے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا بلکہ مظاہرین کو بوکو حرام کے ارکان قرار دے دیا۔ گرفتار ہونے والی خاتون ندیر پایا کے مطابق پیشنز نے ان پراپنے خاوند کا مخالف ہونے کا اورحکومت کو بدنام کرنے کے الزام کے ساتھ ساتھ اغواء4 کی داستان گھڑنے کا الزام بھی لگا دیا۔گرفتاری سے قبل پیشنز نے دھمکی دی کہ اگر یہ احتجاج جاری رہا تو ان کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے اور اپنے انجام کیلئے وہ خود ذمہ دار ہوں گی۔اس واقعہ سے دو باتوں کا پتہ چلتا ہے؟ ایک تو حکمراں کی بیوی خود اغواء4 کی واردات کو من گھڑت بتا رہی ہے اور دوسرے مظاہرین کو اسی سلوک کی دھمکی دے رہی ہے جس کا الزام بوکو حرام پر لگایا جارہا ہے۔ 
یہ حسن اتفاق ہے کہ اروند کیجریوال کی مانند محمد بخاری کی اے پی سی کا انتخابی نشان بھی جھاڑو ہے۔ لوگ ان سے بھی یہ توقع کررہے ہیں کہ وہ ملک کو بدعنوانی کی لعنت سے پاک کردیں گیجبکہ سابق صدر جوناتھن پر ۰۰۵ ملین ڈالرکے غبن کا الزام ہے۔ بخاری نے یہ اعلان کرررکھا ہے کہ قوم کی دولت پر صرف عوام کا حق ہے جو بھی اس پر ہاتھ صاف کرے گا اسے سیدھے جیل بھیج دیا جائیگا۔ محمد بخاری قومی معیشت کو صرف تیل کی حد تک محدود رکھنے کے بجائے وسعت دینے کے قائل ہیں تاکہ ۳۰ لاکھ بیروزگار نوجوانوں کو روزگار مہیا کیا جاسکے۔تشددکے خاتمہ کی بابت وہ زخموں پر مرہم رکھنے اور حالات کا جائزہ لے کر اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ نہایت معقول حکمت عملی ہے پی ڈی پی نے یہ کیا تھا کہ اپنے علاقہ کے جنگجو گروہوں کو مراعات دے کر ہمنوا بنا لیا اور شمال کے شدت پسندوں کے خلاف صلیبی جنگ چھیڑ دی۔ اگر شمال کے نوجوانوں کے مسائل پر بھی ہمدردی کے ساتھ غور کیا جائے تو انہیں بھی حل کیا جاسکتا ہے اور دیر پا امن و آشتی کا ماحول بن سکتا ہے۔
انتخابات کے ذریعہ حکمرانوں کے متعلق رائے عامہ کا پتہ لگایا جاتا ہے اس کا مقصدعوام کی نفسیات کا اظہار نہیں ہوتا لیکن اس دوران اپنے ا?پ قومی نفسیات بھی سامنے آجاتی ہے۔نائیجیریا کے لوگوں نے لگاتار چار بار پی ڈی پی کو کامیاب کیا جو ہندوستان کے ابتدائی ایام میں کانگریس کے ساتھ اختیار کئے جانے والے رویہ سے مطابقت رکھتا ہے لیکن پانچوین مرتبہ تبدیلی واقع ہوگئی۔ تبدیلی کی عام طوردو وجوہات ہوتی ہے۔ ایک سبق سکھانے کیلئے اس میں لوگ 
متبادل کی شخصیت پر غورنہیں کرتے جیسا کہ ایمرجنسی کے بعد ہوا لوگوں کو اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ اندراجی کے بعد کون آئیگا وہ توبس انہیں سبق سکھانا چاہتے تھے اس لئے کانگریس کے ہر مخالف کی حمایت کی گئی۔ اس کے برعکس اگر تبدیلی کسی خاص مقصد کے پیش نظر ہوجیسے بدعنوانی کا خاتمہ تو عوام متبادل کی جانب غور سے دیکھتے ہیں۔ مثلاً وی پی سنگھ نے جب راجیو گاندھی کے خلاف بوفورس کی توپ داغی تووہ لوگوں کیلئے جانے پہچانے تھے۔ وہ سیاست میں ہونے کے باوجود ایک بے داغ شخصیت کے حامل تھے اوربدعنوانی کے خاتمہ کیلئے انہوں نے وزارت کو چھوڑاتھا اس لئے عوام نے ان پر اعتماد کیا۔ ایسا ہی کچھ محمد بخاری کے ساتھ بھی ہوا۔ ماضی میں ان کا نظم و ضبط اور بدعنوانی کے خلاف کئے گئیاقدامات ان کے کام آئے۔تبدیلی کا یہ لازمی عنصر ہے۔
محمد بخاری کے سرپر نائیجیریا کی عوام نے اپنی توقعات کا تاج رکھا ہے۔ یہ کوئی معمولی بوجھ نہیں ہے۔ اگر وہ اس کا حق ادا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اپنی جماعت اے پی سی کے روشن مستقبل کے ضامن بن جائیں گے۔ ان کے سامنے بے شمارخارجی چیلنجز ہیں ان میں سے ایک اہم ترین داخلی محاذ بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ تبدیلی کے خواہشمند یہ نئے رائے دہندگان کیا ۲۰۱۹میں بھی ان پر اعتماد کا اظہارکریں گے جبکہ وہ ۷۶سال کے ہوچکے ہوں گے؟ اگر نہیں تو ان چار سالوں کے اندر محمد بخاری اپنے ساتھیوں کی ایک ایسی فعال ٹیم عوام کے سامنے پیش کرنی ہوگی جن کے درمیان سے وہ اپنے مستقبل کے رہنما کا انتخاب کرسکیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ اے پی سی کا جائزہ لیں۔ باصلاحیت لوگوں کو مختلف اہم امور کی ذمہ داریاں تفویض کریں۔ مختلف وزارتوں میں انہیں اپنے جوہر دکھانے موقع دیں۔ ان پر اعتماد کریں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں ۔ اگر خدا نخواستہ محمد بخاری اس ہدف میں ناکام ہو جائیں گے تو کوئی بعید نہیں کہ عوام پھر سے پی ڈی پی جانب لوٹ جائیں جیسا کہ ہندوستانی سیاست میں ہوتا رہتا ہے کہ لوگ وقتی طور پر اِدھر اْدھر جاتے ہیں مگر پھر لوٹ کر کانگریس کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوجاتے ہیں۔ نائیجیریا کے علاوہ ساری دنیا کے لوگوں کی نیک خواہشات اور دعائیں محمد بخاری کے ساتھ ہیں۔ 

«
»

سعودی عرب میں مسجد توڑی جاسکتی ہے تو بھارت میں کیوں نہیں؟ سبرامنیم سوامی

کیامصرکا فوجی ڈکٹیٹرالسیسی اسرائیل اور روس کا ایجنٹ ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے