جس کوان کے اپنے دل بھی تسلیم کرتے ہیں لیکن وہ اپنی زبان سے اس کا اقرارنہیں کرتے۔یہی وجہ ہے کہ اہل مغرب کا سارازوراس بات پرمرکوزہے کہ کسی طرح مسلمانوں کودنیابھرمیں ناعاقبت اندیش، رجعت پسند ، انتہا پسند اور دہشت گردبناکرپیش کیاجائے تاکہ وہ سلیم الفطرت غیرمسلم جن میں اسلام قبول کرنے کارحجان بڑھ رہاہے ،ان کو مسلمانوں سے متنفرکرکے دائرہ اسلام کی وسعتوں کو کومحدودکیاجاسکے ع پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
مسلم دنیاکواس وقت کئی چیلنجزکاسامناہے جن میں سے ایک اہم چیلنج انسانی وقار اورعظمت کااحترام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے انسانی عظمت اوروقارکیلئے جوجدوجہدکی ہے اس کاایک عالم ہی اعتراف نہیں کرتابلکہ تاریخ کا ایک ایک ورق اس کی گواہی بھی دیتا ہے۔امت مسلمہ کاتصورنہائت قابل احترام ہے اوراس کے ساتھ مختلف معاشروں میں پائے جانے والے ثقافتی تنوع کااحترام اورشناخت بھی ضروری ہے۔مغربی معاشرہ اس اہم ترین مسئلے پرروایتی گروہوں پرمشتمل ہے۔ بایں ہمہ اگر عالمی امن اور گلوبل ولیج کے تصور کو اجاگر کر نے کی اقوام عالم کو واقعی ضرورت درپیش ہے تواسلام کے تصورانسانی عظمت ووقارپرعمل درآمدوقت کااہم ترین تقاضاہے تاکہ بین الاقوامی سطح پرامن و مفاہمت کا قیام اور فروغ یقینی بنایاجاسکے۔اسلام کسی خاص گروہ یانسل کیلئے نہیں ہے، کسی ایک ظرف زماں اور ظرف مکان کے لئے نہیں بلکہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے جوہرانسان کی نجی آزادیوں ، عظمت اوروقار کی اہمیت پرزوردیتاہے۔ لہندامغربی معاشروں کومسلمانوں سے تعصب برتنے کے بجائے مسلمانوں کی عزت اوروقار کا احترام کرناچاہئے تاکہ ان سے زمین پر سلیقہ مند طریقے پرجینے کا درس پاسکیں۔گوکہ پورامغربی معاشرہ مسلمانوں کے ساتھ تعصب نہیں برتتااورنہ ہی سارے مغرب میں مسلمانوں کودہشت گردسمجھاجاتاہے لیکن مغربی معاشروں میں اچھے اوربرے مسلمانوں کاتصورموجودہے اورایساتودنیاکے ہرمذہب کے بارے میں کہاجاسکتاہے کہ اچھے اوربرے لوگ توہرمذہب اورقوم اور سماج میں پائے جاتے ہیں لیکن کسی بھی قوم کے چندبرے لوگوں کی وجہ سے پوری قوم کودہشت گرد اور انسانیت کا مخالف قراردیناکہاں کا حق وانصاف ہے؟ افسوس کہ اکثرمغربی ممالک میں یہ ناانصافی ہورہی ہے جس کے خلاف مسلمان اورمسلمانوں کو اچھاسمجھنے والے دیگرقومیتیں دنیابھرمیں احتجاج کررہی ہیں ۔ اس کااظہاربرطانوی مسلمان بھی اکثر وبیشتر یہاں لندن میں بھی انصاف پسند عناصرکرتے نظرآتے ہیں۔
مغربی دنیامیں مسلمانوں کے حوالے سے دوہرامعیاراوررویہ بھی پایاجاتاہے۔مغربی معاشرے میں اچھے اوربرے مسلمانوں کاتصورکچھ یوں پایا جاتا ہے کہ ایران کے شیعہ مسلمان علامہ آیت اللہ خمینی کی سر براہی میں انقلاب ایران کے بعدبرے مسلمان ہوگئے جب کہ عراق کے سنی مسلمان ایران اورعراق جنگ کے دوران اچھے مسلمان تھے لیکن عراق اور امریکا کے درمیان لڑی جانے والی جنگ میں وہ بھی برے مسلمان ہوگئے۔افغانستان کے مسلمان جب تک روس کے خلاف جہادمیں مصروف تھے توبہت اچھے مسلمان تھے لیکن بعدمیں یہی لوگ برے مسلمان اور رجعت پسندطالبان ہوگئے۔ یوں مسلمانوں میں مسلکی تفرقات کو ہو ادینے کے علاوہ ان میں شکوک وشبہات اور منافرتوں کا جہنم زار بھی سلگایا جاتارہاہے ۔ اس طرح کا غیر انسانی رویہ اپناکرمغربی ممالک اپنی جانبداری،مفادپرستی،مسلم دشمنی اوربدترین تعصب کا جومظاہرہ کررہے ہیں،اس کی وجہ سے مسلم دنیامیں بڑاغم وغصہ پایا جاتاہے ۔ا س کااظہارمسلم ممالک کے عوام کی جانب اکثرہوتارہتاہے لیکن مغربی دنیاکے کان پرجوں تک نہیں رینگتی۔خاص طورپرنائن الیون کا تحقیق طلب ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا دہشت گردانہ سانحہ پیش آیا،مسلمانوں کے ساتھ مغربی دنیاکابرتاو انتہائی متعصبانہ ہوگیااوراس کی نظرمیں ہردوسرامسلمان دہشت گردہے۔اب تومغربی دانشوروں کی طرف سے بھی اس بات کاخدشہ ظاہرکیاجارہاہے کہ مغرب کومسلمانوں کے بارے میں اپنا یک طرفہ اورجانبدارانہ رویہ بدلناہوگاورنہ مسلمانوں کے دلوں میں مغرب کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کسی بڑے اسلامی انقلاب کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتی ہے جو دیار مغرب کو بہا لے جائے۔
برطانیہ بھی ایک ایساملک ہے جس میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعدادآبادہے اورتمام تر ناموافق حالات کے باوجودوہاں کے مسلمان اپنے دین اسلام پرنہ صرف قائم ہیں بلکہ وہ اپنے مذہب کی تبلیغ و اشاعت میں بھی مصروف ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مغرب کے دیگرممالک کی طرح برطانیہ میں بھی اسلام بہت تیزی سے پھیل رہاہے جس سے باطل طاقتیں اور آزادی عقائدومذاہب کے مخالف بوکھلاہٹ کا شکار ہوکرکسی بھی منفی واقعے کاذمہ دارمسلمانوں کوقراردینے میں لمحہ بھرکی تاخیرنہیں کرتے۔انہیں ہرداڑھی رکھنے والاشخص دہشت گرددکھائی دیتاہے اورہرحجاب کرنے والی خاتون دقیانوسی نظر آتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اب برطانیہ کے بعض تعلیمی اداروں میں بھی مذہبی تعصب کی بنیادپرحجاب پہننے پرپابندی عائدکی جانے لگی ہے جس کے خلاف آج کل مسلمان گھرانوں کی خواتین اورطالبات اکثروبیشترلندن کی سڑکوں پراحتجاج کرتی نظرآتی ہیں۔ادھربرطانیہ میں ملازمت کے حصول میں بھی مسلمان ہوناایک مانع بنتاجارہاہے ،خاص طورپرشرعی داڑھی رکھنے والوں مردوں اوربرقعہ پہننے یاحجاب کرنے والی عورتوں کیلئے ملازمت حاصل کرناجوئے شیرلانے سے کم نہیں۔برطانیہ جیسے سیکولرکہلائے جانے والے ملک میں مسلمانوں کے ساتھ جوشرمناک اور قابل صداافسوس تعصب برتاجارہاہے ،وہ ہرلحاظ سے قابل مذمت ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ امریکاہویابرطانیہ وہ اپنے ان غلط رویوں پرشرمندہ ہونے کی بجائے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف اپنے دلوں میں چھپی نفرتوں کے اظہارکاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور مسلمانوں کے خلاف دشنام طرازی اورہرزہ سرائی میں مصروف نظرآتے ہیں اوران ہی ممالک میں مسلمانوں کے آخری نبی حضرت محمدﷺکے بارے میں خاکم بدہن کبھی کسی اخبارمیں خاکے بناکرشائع کردیے جاتے ہیں کبھی کسی جوتے یا کپڑے کا قابل اعتراض ڈیزائن بنادیاجاتاہے جس سے نعوذباللہ شعائر اسلامی کا تمسخر اڑایا جاتا ہے یاپھرقرآن کریم کے ساتھ اشتعال ا نگیز چھیڑ خوانی کی جاتی ہے ۔واضح طور پردیکھاجاتا رہاہے کہ کبھی مغرب میں کوئی ایسی بے ہودہ فلم بنادی جاتی ہے جومسلمانوں کے مذہبی جذبات کومجروح اورمشتعل کرنے کاذریعہ بنتی ہے ، خاص طورپرتوہین رسالتمآبؓ کے نت نئے طریقے مغربی ممالک ان ہی کے ذریعے کر جاتے ہیں اورجب مسلمان اپنے خلاف ہونے والے اس متعصبانہ و غیر مہذبانہ رویے کے خلاف صدائے احتجاج بلندکرتے ہیں توانہیں جاہل،دقیانوس اوردہشت گرد قرار دے کران پرعرصہ حیات تنگ کردیاجاتاہے اورایساکرتے وقت انہیں یہ بھی احساس نہیں ہوتاکہ ان کے ملک میں بسنے والے مسلمان ان کی معیشت کومضبوط کرنے میں کتنااہم کرداراداکررہے ہیں۔
ابھی کل پرسوں کی بات ہے کہ برسلزبلجیم کی پولیس نے ایک پاکستانی سفارتکار کے نوجوان بیٹے کی تصویراپنی ویب سائٹ پربطورایک دہشت گردلگاکراس کی خوب تشہیرکی ۔اس کاقصوریہ تھاکہ وہ اپناکرکٹ بیٹ کوبارش سے محفوظ رکھنے کیلئے ایک کپڑے میں لپیٹ رکھاتھا۔بعدازاں تحقیق کے بعد پولیس کواپنی فاش غلطی کااحساس توہوالیکن اتنی سنگین غلطی پرندامت کاایک لفظ بھی ادانہیں کیاگیا۔ایک عام مسلمان بھی اس رویے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اہل مغرب سے یہی پوچھناچاہتاہے کہ آخرمغرب چاہتاکیاہے؟کیامغرب کی نظرمیں سب مسلمان دہشت گردہیں اور قابل گردن زنی ہیں؟ کیا برے لوگ مغربی معاشرے میں نہیں پائے جاتے؟ کیا انہیں صیہو نیوں کا قتل عام نظر نہیں آتا ؟ کیا ان کی نظر عیسائی گھرانوں میں پیدا ہونے و الے اور عیسائی مت ماننے والے ہٹلر ، مسولینی ، سٹالین ، پنوشئے کی تاریخ فراموش ہوچکی ہے ؟ کیایہی ظلم وتعدی جمہوریت ہے؟کیایہی سیکولرازم جس کاڈھنڈورہ مغربی دنیادن رات پیٹتی رہتی ہے؟اگریہی جمہوریت اوریہی سیکولرازم اور آزاد خیالی ہے تواس سے توہزاردرجہ بہتروہ لوگ ہیں جنہیں دقیانوسی ہونے اوردہشت گردہونے کے طعنے شب وروز دئیے جاتے ہیں،جوکم سے کم انسانیت کااحترام کرناتوجانتے ہیں ا ور تمام مسلمان ممالک میں رہنے والے تمام غیرمسلموں کومکمل مذہبی آزادی فراہم کرتے ہیں۔ایسے سیکولراورجمہوری نظام کاکیاکرناجس میں انسانیت کااحترام ہی نہ کیاجائے ؟؟؟اورشاباش ہے ان لوگوں پرجودین اسلام پرکاربندرہنے کی پاداش میں تعصب کاشکارہوکردقیانوسی اور دہشت گردی کاٹائیٹل سجاکربھی غیرمسلموں سے اپنے ممالک میں حسن سلوک کرتے ہیں اور اسلام کی انسان دوست تعلیمات پر عمل درآمد کرنے میں کوئی بخل نہیں کر تے ۔یہی وہ مثبت اور ما بہ الامتیاز فرق ہے جودین اسلام کے پیروں کاروں اورمغرب کے انتہا پسندانہ اور فاسدانہ رویوں میں پایاجاتاہے۔
مغربی دنیاکی جانب سے اسلامی دنیاپرلگائے گئے الزامات کااگرغیرجانبداری سے جائزہ لیاجائے تویہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں کی ایک قلیل التعداد (میکارسکوپک مینارٹی)یاچندگمراہ گروہ ایسے ہیں کہ اسلامی تعلیمات کے برعکس اہل مغرب کے خلاف متعصبانہ اوردہشت گردانہ کاروائیاں کرنے میں ملوث ہیں۔ان چندلوگوں یاگروہوں کے فعل کودلیل بناکر پورے عالم اسلام کے مسلمانوں کودقیانوسی اوردہشت گردقرارنہیں دیاجاسکتا۔پھرہمیں یہ بھی دیکھناہوگاکہ مسلمان ہونے کے باوجوداگرچندافرادیاگروہوں نے مغربی ممالک کے خلاف جارحانہ رویہ اختیارکرتے ہوئے منفی راستے کوچناہے اورہتھیار اٹھا کرعلم بغاوت کیاہے تواس کے اسباب ومحرکات کیاہیں؟ہرایکشن کاری ایکشن ہوتاہے۔ جب کسی قوم سے مسلسل تعصب برتاجائے ، اس پر ظلم و جبر کا تیشہ چلایا جائے یامعاشرے میں اس کے کردارکی منفی تشہیرکی جائے،ا س کے حقِ حیات پر ڈاکہ ڈال جائے ، طاقت کے بل پر اس کے حقو ق سلب کیا جائے توپھراس کے غصے یاجذبات سے مغلوب ہوکرمنفی راستے پرچلناکوئی ناممکن بات نہیں۔ لہندامغرب کواسلامی دنیا پر دہشت گردی کے الزامات عائدکرنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانک کران رویوں پرغورکرناچاہئے، جن کی وجہ سے اسلامی دنیااہل مغرب سے متنفرہورہی ہے اور پتہ لگاان چاہیے کہ وہ کیاوجوہات ہیں جن کی وجہ سے مغربی دنیامیں اسلام نہایت تیزی کے ساتھ پھیل رہاہے۔اگربرطانیہ اوراس جیسے دیگرمغربی ممالک مسلمانوں کے خلاف منفی پروپیگنڈہ بندکرکے ان اسباب کودورکرنے کی کوشش کریں جن کی وجہ سے مسلمان ان سے متنفرہورہے ہیں اورانگریزاپنامذہب تبدیل کرکے شد ومد سے مسلمان ہو کر دامنِ عافیت ، دنیائے انسانیت اور جہانِ صداقت میں وارد ہو رہے ہیں توشایدآنے والاکل امن اطمینان کا ضامن ثابت ہو وگرنہ تونفرت ہمیشہ ردعمل میں جوابی نفرت اورانتقام کوجنم دیتی ہے جس سے سوائے تباہی کے اورکچھ حاصل نہیں ہوتا۔
میں امریکاکے ٹوئن ٹاورپردہشت گردانہ حملے تک برطانیہ میں اسلام قبول کرنے والوں کی سالانہ تعدادساٹھ ہزارسے زائدنہیں تھی لیکن اس واقعے کے بعدان کی تعداداب تک تقریباً ڈیڑھ لاکھ ہوچکی ہے اورابھی اس تعدادمیں مزیداضافے کی بھی توقع ہے اوراس کی بڑی وجہ مغربی میڈیاکی اسلام دشمن مہم کے خلاف ردعمل بھی ہے جواسلام اور مسلمانوں کو بنیادپرستی ،دہشت گردی اورانتہاپسندی کے خلاف اوراندیشوں کی عینک لگاکردیکھ رہاہے۔ انگلستان،ویلزاورسکاٹ لینڈ کی مساجدسے حاصل ہونے والے اعدادوشماراورمذہب اسلام قبول کرنے والی عورتوں اورمردوں کی بڑھتی ہوئی تعدادکی بنیادپرکہاجاسکتاہے کہ مغربی میڈیا کے زہریلے تشہیری حملے کی زدمیں آنے والے مذہب اسلام کومغرب میں بہت تیزی کے ساتھ توجہ اوراحترام حاصل ہورہاہے ۔چونکہ ہرعمل کاردعمل ہوتاہے اس لئے مغربی میڈیانے اسلام کوبدنام کرنے کیلئے جوپروپیگنڈہ مہم شروع کی اس کاایک مثبت فائدہ بھی ہواکہ انگلستان کے عوام کواسلام کے اندرجھانکنے اوراسلام کے خلاف مغربی میڈیا کی بے جازہریلی مہم کی وجہ جاننے پراکسایاجس کی وجہ سے غیر مسلموں میں اسلامی کتب کا مطالعہ کرنے کاشوق پیداہوااورجب ان کواسلام کی اصل تعلیمات کا حقیقی علم ہواتوانہوں نے دین حق کواختیارکرناشروع کردیااوریوں مغربی میڈیاکی منفی مہم ہی ان ممالک میں اسلام پھیلنے کابہت بڑاسبب بن گئی اورچونکہ برطانیہ کے شہروں میں جہاں ٹی وی نیٹ ورکس ،ریڈیوٹی وی چینلزاوراخبارات کی بھرمارہے اس لئے وہاں اسلام کوبطورمذہب اختیار کرنے والوں کی تعدادمیں مسلسل اضافہ ہورہاہے اورعام لوگوں کے ساتھ بہت سے نامورلوگ اور مشاہیر زمانہ بھی دائرہ اسلام میں داخل ہورہے ہیں جس کی ایک بڑی مثال پیٹر سیلرز بھی ہیں جوبرطانیہ کے ایک بہت بڑے اور معتبر فوٹو گرافرہیں۔اسلامی تعلیمات سے متاثرہوکرانہوں نے کئی سال قبل اسلام قبول کیا۔پیٹرسیلرزکاکہناہے کہ: برطانیہ کے لوگوں کومشرقی مذاہب اورمشرقی معاشروں میں ان روحانی قدروں کی تلاش ہے جومغربی معاشروں اورمغربی مذاہب میں مفقودہوچکی ہیں۔مغربی معاشروں میں بیماری کی حدتک بڑھی ہوئی ہوسِ زرنے لوگوں کے ناموس کواس حدتک غارت کردیاہے کہ انہیں ناموس جیسی شے کی عدم موجودگی کا احساس بھی نہیں رہااورناموس کی غارت گری ، انتہاپسندی ،بنیاد پرستی بلکہ دہشت گردی کی بدنامی سے بھی واضح اوردکھائی دینے والی ہے۔برطانیہ کے ایک نامورشہری کے ان خیالات کوپڑھ کربخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ مغربی دنیامیں اسلام قبول والوں کی تعدادمیں مسلسل اضافے کااصل سبب کیاہے ۔ع
یہ چمن مامور ہوگا جلوہ خورشید سے
جواب دیں