نظم کو نثر پر فو قیت اِس لئے بھی حا صل ہے، کہ یہ فکر و شعور کو متا ثر کر نے کی صفت ر کھتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ، سب سے پہلی دینی کتاب اللہ تعالی سبحا نہ نے نظم کی شکل میں ہی نا زل فر ما ئی۔ حضرت دا ؤد علیہ السلام جب ’’زَبو ر‘‘ کی نظم لحن دا ؤ دی میں پڑ ھتے تھے تو اِس کے مفا ہیم کے علا وہ اِس کی غنا ئی کیفیت، وسیع حلقۂ مخلو ق کو ایک نغما تی طلسم میں مسحور کر لیتی تھی ۔
نظم۔۔۔یا شعر۔۔۔کی اہم ترین صفت اِس کا علو ئے فکر ہے۔ الفا ظ کی منا سبت اور مفہو م کی خو بی ، اسی وقت جمیل ہو تی ہے، جب شعر میں ادا ئے فکر یہ اور اندا زِ تر سیل شا مل ہو۔
عزیز بلگا می، مو جو دہ دَور کے مجمع ا لشعراء میں ایک منفرد اور ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ اِن کی شعری کا و شات میں جو بے سا ختگی اور ار تکاز ہے، اِس میں ایک تا ز گی پا ئی جا تی ہے، اور اِس کے لئے اِن کے علمی پس منظر، وسعتِ مطا لعہ اور تہذیبی ر جحا نا ت کا عنصر نما یا ں ہے۔
اُنھو ں نے اپنے کلام میں او صاف بیا ن پیدا کر نے کے لئے جو ما حولِ شعری تخلیق کیا ہے، اِس میں لطا فت کے سا تھ سا دگی، اور قد یم و جدید کیفیات کا ایک دِلکش اِ متزا ج ہے:
جیسے پہا ڑ یو ں پہ ہو جھر نو ں کی تا ز گی
تخلیق کا ریو ں میں ہو لہجو ں کی تا زگی
۔۔۔
ظا ہر ہے، عزیز بلگا می، خود آ گا ہی کے اِس حلقے میں ہیں ،جہا ں وہ اپنی تخلیقی صلا حیتو ں سے پو ری طر ح کام لیتے ہیں۔
موجو دہ عصر شعر و سخن کے کسی ایک نہج پر مجتمع نہیں ہو سکا ہے۔ یہی سبب ہے کہ شعرا ء کے کلام میں اِقدار کی پا ما لی زیا دہ نما یا ں ہے، جس میں ادراک کی کوتاہی اور خار جیت معلوم ہو تی ہے۔ غا لباً یہ شعر و سخن کا ایک پر آ شوب دور ہے، جہا ں کچھ شعرا نے شا عری کو اس مقام پر پہو نچا نے کی کو شش کی ہے، جہاں ایک سڑک کے کنا رے مدا ری ڈگڈگی بجا کر ’’عوا می‘‘ گیت گا تا ہے، جس کی زبان فصا حت نا آ شنااور مفہوم کبھی فحش، کبھی مبذل ہو تا ہے۔ با قی لوگ، جد ت طرا زی کے تعا قب میں سر گر دا ں ہیں۔
عزیز بلگا می نے اِس عہد کی زبان کو اپنے قرینے اور سلیقے سے آ را ستہ کر کے، ایسا اسلوب ا ختیار کیا ہے، جس میں سا دگی بڑ ھ کر سہل ممتنع کے کنارے تک آ گئی ہے:
مجھ کو خود اپنے ہی بل پر کام کر نا آ گیا
پیٹھ پر تھے ثبت میری ہمت افزا ئی کے دا غ
۔۔۔
بے فیض ہو ں ابھی مری خوا ہش کاکیا ہو ا
اے محسنو! تمھا ری نوا زش کا کیا ہو ا
۔۔۔
اُنھو ں نے زند گی کو زندگی سمجھ کر دیکھا اور اپنے مشا ہدات کو سلیقے سے شعر کی شکل دے دی ہے، یہی سبب ہے کہِ ان کے کلام میں مشا ہدا تی شعور کی جھلک نظر آتی ہے، جو ابھی مکمل جلوہ گر بھی نہیں اور مستو ر بھی نہیں۔ یہ کیفیت بھی اُنھیں مزید تجر بات کی طرف متو جہ کر سکتی ہے، اُنھو ںے خود ہی کہا ہے:
دِلو ں کادرد ذ ہنو ں کا اُجا لا بن کے پھیلے گا
یہ خا مے کی چبھن، قر طاس کی تا بش کا مو سم ہے
۔۔۔
اُنہوں نے جما لیا تی تا ثر پیدا کر نے کی کو شش کی ہے۔ اِن کے اشعار کے لہجے میں ا حتجا ج کا عنصر کم ہے، حقا ئق کی طرف تو جہ زیا دہ ہے، اور اُنھیں حقا ئق سے اُنہو ں نے نتا ئج بھی اَ خذ کئے ہیں۔ ان کی شا عری تخلیقی ہے۔ دا خلی کیفیات کا مجمو عہ ہے۔ خا رج سے بحث کم اور خا ر جی ا ثرات سے اِ ستفا دہ بھی نہیں ہے۔
اِن کے اشعار میں تجر بے اور مشا ہدے کے عنا صر بھی نظر آ تے ہیں، جو اِن کے کلام کو زیا دہ قا بل تو جہ قر ا ر دیتے ہیں:
یہ الگ بات کہ چلتے ہیں ترے سا تھ مگر
ہم نشینی بھی گوا را نہیں،ہم سفری بھی
۔۔۔
ہم انھیں محفل میں چپ کر نے کی خا طر چپ ہو ئے
اورہما ری خا مشی نے ان کو رسو ا کر دیا
۔۔۔
کو ن کہتا ہے مرا گھر پہ سفر ختم ہو ا
میری منزل تومرے گھر سے کہیں آ گے ہے
۔۔۔
اسے میں ایک اما نت سمجھ کے جیتا ہو ں
یہ زند گی ہے کسی اور ز ند گی کے لئے
۔۔۔
عزیز بلگا می نے اپنے اشعار میں شعر یا ت سے وا قفیت کا بھی ثبوت دیا ہے جو ان کے کلام کو ایک تہذیب سے ہم کنار کر تی ہے، اور اپنا ایک انفرا دی شعری ما حول بھی مر تب کر تی ہے ، جس میں ان کے اپنے ا صول اور اقدار ہیں ، جیسے:
ز ند گی عر صۂ محشر سے کہیں آ گے ہے
میری تدبیر مقدر سے کہیں آ گے ہے
۔۔۔
ہے سمندر کا یہی روز از ل سے رو نا
کیو ں مقدر میں ہے قطرے کے سمندر ہو نا
۔۔۔
دور حا ضر میں سمجھ میں کچھ نہیں آ یا کہ ہم
دوست کے ہمراہ تھے یا اجنبی کے سا تھ تھے
۔۔۔
عزیز نے اپنی شا عری میں حقیقت آ شنا ئی کا ثبوت دیا ہے، اور محسو سات کو ایک نئے انداز سے بیان کر نے کی کا میاب کو شش کی ہے، ان کی شا عری بامعنی ہے، اور اس کے پس پر دہ، شعور و فکر کی بعض اِ شا ریا تی خو بیا ں بھی مضمر ہیں، یہی خو بیا ں مستقبل قریب میں اُنھیں مزید تا ز گی بخشیں گی اور ان کے کلام میں در خشا ں رنگتو ں کا تا زہ امتزا ج پا یا جائے گا۔ جیسا کہ انھو ں نے خود کہا ہے:
مجھے تسلیم کر لو یا مرے قا ئل ہی ہو جا ؤ
مرے اقر ا ر کی ہر سمت گنجا ئش کا موسم ہے
(۲۲؍جوالائی،۲۰۱۳ء)
جواب دیں