ناگہانی آفات اور حادثاتی اموات میں عبرت اور نصیحت کے پہلو

از: محمد عاکف ندوی 

 موت ایک حقیقت ہے جس سے کسی انسان کو مفر نہیں، یہ ایک پل ہے جس سے ہر انسان کو گزرنا ہے 

لیکن اِدھر چند دنوں سے بھٹکل میں نوجوانوں کی مسلسل حادثاتی اموات نے ہمیں سوچنے اور غور کرنے پر مجبور کردیا ہے کہ آخر وہ کون سے اسباب ہیں جن سے ہم غفلت اور بے پروائی برت رہے ہیں جن کے نتیجے میں مائیں اپنے جگر گوشوں سے محروم ہورہی ہیں اور والد اپنی آنکھوں کے تاروں کو الوداع کہہ رہے ہیں۔

 اس طرح کی حادثاتی اموات ہمیں سوچنے اور غور کرنے کی دعوت دیتی ہیں کہ ان واقعات سے ہمیں اپنی زندگی میں کیا درس و عبرت کے سامان حاصل ہوتے ہیں ۔ ان ناگہانی آفات اور واقعات کے تناظر میں ہمیں چند پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔

1) قضا و قدر پر ایمان:
 اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو اس دنیا میں بھیجا تو اسکی زندگی اور موت کے متعلق پہلے سے تقدیر میں لکھ دیا کہ اس دنیا میں کون کتنی زندگی جیے گا اور کس کی موت کب واقع ہوگی اور کس سرزمین پر انسان اپنی آخری سانسیں لے گا۔ قرآن مجید میں بھی اِسکی طرف اشارہ کیا گیا ہے: وَمَا تَدْرِى نَفْسٌۢ بِأَىِّ أَرْضٍۢ تَمُوتُ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌۢ۔
 اسلیے ہمیں ایسے موقعوں پر تقدیر پر ایمان کو مستحضر رکھنا چاہیے اور اپنے ذہن میں اس بات کو تازہ رکھنا چاہیے کہ جس انسان کی موت ہوئی ہے وہ اپنے مقررہ وقت پر ہی اس دُنیا سے رُخصت ہوا ہے ۔ 
إِنَّ أَجَلَ ٱللَّهِ إِذَا جَآءَ لَا يُؤَخَّرُ ۖ لَوْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ(سورة نوح )جب اللہ کا وقت آتا ہے تو اسے ٹالا نہیں جاسکتا کاش کہ تم اس بات کو جان لیتے ۔ 

ایسے نازک موقعوں پر تقدیر پر ایمان انسان کے ایمان کو مضبوط بنانے میں اہم رول ادا کرتا ہے ورنہ ہم اگر مگر کی اٹکلوں میں پھنس جائیں کہ اگر وہ وہاں نہ جاتے تو ایسا نہ ہوتا اگر ایسا نہ کرتے تو ایسا نہ ہوتا اس طرح کے خیالات شیطانی وساوس ہیں جنکی طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ارشاد فرمایا ہے : 

 إن أصابك شيء فلا تقل: لو أني فعلت كان كذا وكذا. ولكن قل: قدر الله وما شاء فعل؛ فإن لو تفتح عمل الشيطان رواه مسلم.
 اگر تمھیں کوئی مصیبت لاحق ہو جائے تو ایسا مت کہو کہ اگر میں ایسا کرتا تو ایسا ہو جاتا بلکہ یہ کہو کہ یہ سب تقدیر اور اللہ کی منشا کے مطابق ہوا ہے کیونکہ اگر مگر کرنا شیطان کے دروازوں کو کھول دیتا ہے ۔ 

2) احتیاطی تدابیر اور توکل علی اللہ
 
دوسری چیز جو ہمیں ان واقعات سے سیکھنی کو ملتی ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی زندگی کے سلسلے میں احتیاط کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے ۔ یہ ہماری جان اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت اور بڑی قیمتی شے ہے لہذا ہمیں ہر ایسی  چیز سے چوکنا رہنا چاہیے جس سے ہماری زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہو ۔اس لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے ہمیشہ اللہ پر توکل کرنا چاہیے کیونکہ نبوی تعلیمات میں ہمیں اسی طرف رہنمائی ملتی ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے پوچھا : اے اللہ کے رسول کیا میں اپنی اونٹنی کو چھوڑدوں اور اللہ پر توکل کروں؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پہلے تم اسکو باندھ لو پھر اللہ پر توکل کرو۔ اس سے معلوم ہوا کہ احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے اللہ پر توکل کرنا ایمانی اور عقلی تقاضا ہے ۔

3) مسنون دعاؤں کا اہتمام 
تیسری چیز ہمیں جن چیزوں کے اہتمام کی ضرورت ہے وہ یہ کہ ہم صبح شام کے مسنون اذکار اور حوادث اور آفات و بلیات سے محفوظ رہنے کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جو مسنون دعائیں منقول ہوئی ہیں ان کا ہمیشہ اہتمام کرنے والے بن جائیں ۔ ہمیں اس  حقیقت کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دعاؤں میں بہت زیادہ تاثیر چھپی ہوئی ہے اور یہ مسنون دعائیں ہمیں ہر طرح کے واقعات سے محفوظ رکھنے کے لیے ڈھال کا کام کرتی ہیں اسلیے ہمیں ان اذکار اور مسنون دعاؤں کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے پابندی سے ان کا اہتمام کرنا چاہیے ۔ 

4) سرپرستوں کی اطاعت:

چوتھی چیز ہمیں ان واقعات سے یہ سیکھنے کو ملتی ہے کہ ہمارے والدین، اساتذہ اور سرپرست ہمیں جن چیزوں سے دور رہنے اور بچنے کی تاکید کریں ہم اس کو اپنے حق میں بہتر اور مفید سمجھ کر ان سے بچنے کی کوشش کریں  اور ان کی اطاعت گذاری کو اپنا شیوہ بنائیں کیونکہ وہ اپنے جگر کے ٹکڑوں کی جان کو جوکھم میں پڑنے والے تمام اسباب سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں اور ان چیزوں کو انکے حق میں مضر سمجھ کر ہی انہیں ہر طرح کی ایسی نامناسب چیزوں سے منع کرتے ہیں جنکے خطرات تک ہماری محدود عقل کی رسائی نہیں ہو سکتی اور انکی  اطاعت میں ہی ہماری کامیابی اور بھلائی مضمر ہوتی ہے اسلیے اپنے والدین اساتذہ اور سرپرستوں کی اطاعت کو اپنا شیوہ بناکر انکے سامنے سرِ تسلیم خم کردینا چاہیے ۔

( 5) آخرت کی تیاری 
پانچویں اور آخری چیز جو ہمیں ان واقعات سے سیکھنے کو ملتی ہے وہ یہ کہ ہمارے متعلقین اور خاص طور پر نوخیز جوانوں کی اموات ہمارے لیے ایک الارم کی حیثیت رکھتی ہیں اور ہمیں خاموش انداز میں یہ پیغام دیتی ہیں کہ اس زندگی میں وقتِ فرصت کو غنیمت سمجھ کر خدا کی اطاعت میں گزارنے کی کوشش کی جائے اور اپنی زندگی کا جائزہ لیکر اسے ایک صحیح سمت میں لگانے کی حتی المقدور کوشش کی جائے ۔ نہ معلوم ہمارا وقتِ موعود کب آجائے اور ہماری روح ہمارے جسم سے الگ ہوکر دربار خداوندی تک پہنچ جائے۔

 یہ ہماری زندگی مختصر سی ہے اور ان دیکھی بھی۔ پتہ نہیں جوانی میں موت آجائے یا بڑھاپے میں، آپ نے چھوٹی قبریں بھی دیکھی ہونگی اور بڑی قبریں بھی، چھوٹی عمر کے لوگ بھی مدفون ہیں اور بڑی عمر کے لوگ بھی ،یہ حقیقت ہے کہ آنے کی ترتیب ہے لیکن  جانے کی کوئی  ترتیب نہیں ۔  کتنے بوڑھے بیٹھے رہتے ہیں اور پوتے ان کی آنکھوں کے سامنے اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ 

 اسلیے عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کی اصلاح کرنے والے بن جائیں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گزشتہ گناہوں کی توبہ کرکے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے والے بن جائیں ورنہ ہمارے سامنے ہونے والی ایسی ناگہانی آفات اور بے شمار اموات اگر ہمارے لیے عبرت اور نصیحت کا سامان فراہم نہ کرسکیں تو اس سے بڑھ کر خطرے کی کوئی بات ہمارے حق میں نہیں ہوسکتی ۔ 
 
اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے واقعات سے نصیحت حاصل کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سے رخصت ہونے والوں کی مغفرت فرما کر انکو اعلیٰ علیین میں مقام عطا فرمائے ۔ آمین 

 زندگی ہے اپنے قبضے میں نہ اپنے بس میں موت 

آدمی مجبور ہے اور کس قدر مجبور ہے*

«
»

مولانا شبر صاحب علی باپو قاسمی ، ایک مثالی شخصیت

انتخابی سیاست سے غائب ہوتے ہوئے مسلمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے