تحریر: محمد زاہد علی مرکزی( کالپی شریف)
چئیرمین: تحریک علمائے بندیل کھنڈ
انڈین سیاست میں دو طرح کے لیڈران ہیں ایک نفرتی ایک محبتی ، عام طور پر سیکولر پارٹیاں اور انکے لیڈران کو غیر نفرتی یعنی محبتی ٹولہ سمجھا جاتا ہے جب کہ نفرتی ٹولہ بی جے پی کو یا پھر مجلس اتحاد المسلمین یا مسلم قیادت کا دعویٰ کرنے والے لیڈران کو سمجھا جاتا ہے، لیکن گہرائی میں جائیں تو محنتی ٹولہ یعنی سیکولر جماعتوں میں بھی نفرتی ٹولے کی دو قسمیں ہیں ایک اعلانیہ نفرتی ٹولہ اور ایک غیر اعلانیہ، اعلانیہ نفرتی ٹولہ کبھی کبھی مسلمانوں کے خلاف بیان دیتا رہتا ہے ، اور پارٹی ان کا ذاتی بیان بتا کر پلہ جھاڑتی نظر آتی ہے، اور غیر اعلانیہ ٹولہ مسلمانوں سے ہمدردی کا اظہار کرتا رہتا ہے، اس طرح نفرتی گروہوں کی کل تعداد چار قسموں میں منحصر ہے اور اسی کے ارد گرد پورے انڈیا کی لیڈر شپ گھومتی نظر آتی ہے –
آج ہم اپنی اس تحریر میں آپ کے سامنے کچھ اعداد و شمار پیش کریں گے تاکہ آپ بھی نفرتی اور محبتی گروہوں کے درمیان کے فرق کو محسوس کرسکیں اور فیصلہ کر سکیں کہ اصل نفرتی کون ہے؟ –
چونکہ بی جے پی کو دنیا جانتی ہے کہ وہ کھلے طور پر نفرت کی سیاست کرتی ہے اس لیے اس کا ذکر کرنا سورج کو چراغ دکھانا ہے لہذا ان کا ذکر نہیں کرتے، اسی کے اپوزٹ جناب اسد الدین اویسی صاحب کی مجلس اتحاد المسلمین ،بدر الدین اجمل کی AIUDF اور کیرلا کی
مسلم لیگ کو پیش کیا جاتا ہے کہ یہ بھی نفرت کی سیاست کرتی ہیں، فی الحال انھیں بھی ہٹا دیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ باقی سیکولر کہلانے والی پارٹیاں اور انکے محبتی لیڈران نے محبت کے کتنے دریا بہائے ہیں –
محبت کے دریا بہانے والی پارٹیاں
کسی شاعر نے کہا تھا کہ
عزیز اتنا ہی رکھیے کہ جی سنبھل جائے
پیار اتنا نہ کریے کہ دم نکل جائے
کانگریس :شاید کانگریس نے اس شاعر کی پیدائش سے پہلے ہی یہ جان لیا تھا اور ہم سے اسی قدر پیار کیا کہ ہمارا دم نکل گیا ہے، جس طرح بنیا تلوں سے تیل نکالنے کے بعد بھی" کھلی" سے تیل نکالنے کی کوشش کرتا رہتا ہے اسی طرح کانگریس بھی ہمارے ساتھ کرتی رہی ہے اور آگے بھی ایسی ہی امید ہے، کانگریس انڈین سیاست کی سب سے بڑی اور پرانی پارٹی ہے اس لیے اس کا ذکر سب سے پہلے ہونا چاہیے، کانگریس نے جس قدر مسلمانوں کے ساتھ محبت بانٹی ہے اس کا شمار ہی نہیں ہو سکتا، کانگریس نے ہی 1952 میں مسلمانوں کو ملنے والے ریزرویشن کو آرٹیکل 341 میں مذہب کی قید لگاکر ختم کردیا اور اس طرح مسلمانوں کو معاشی طور پر کمزور کرنے کا پہلا کام کانگریس نے ہی کیا، کانگریس نے ہی مسلمانوں کو اپنی لیڈر شپ ختم کرنے کو کہا اور کانگریس کے درباریوں نے قبول ہے قبول ہے قبول ہے کہہ کر دیش کے کروڑوں مسلمانوں کو اغیار کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، جب کبھی کوئی مسلم پارٹی اٹھی کانگریس نے اس کا گلا اتنی محبت سے دبایا کہ مرنے والے کو بھی بعد فاتحہ سوم کے ہی احساس ہوا کہ ہمارا کام ہوگیا ہے –
انڈیا میں 55 سال سے زائد حکومت کرنے والی کانگریس کے زمانے میں ہی قریب پچاس ہزار فسادات ہوے، اور مسلمانوں کو اپنی جان، مال، عزت سب کچھ گنوانا پڑا، کبھی ایسا موقع نہیں آیا کہ کانگریس کو اپنے کیے دھرے کا افسوس کرنا پڑا ہو، بابری مسجد، ہاشم پورا، بھیونڈی، بھاگل پور، نیلی (آسام) کہاں تک شمار کرائے جائیں، سب کانگریس ہی کی کرم فرمائیاں اور محبتیں ہیں، کانگریس ہی کی یہ محبت بھی دیکھیں کہ آزادی کے بعد مسلمان 30 فیصد نوکریوں سے گھٹ کر 1.50 فیصد ہی رہ گیے، کانگریس ہی کی مہربانیوں میں ایک مہربانی یہ بھی دیکھتے چلیں ، این سی آر بی کے اعداد و شمار کے مطابق، مسلم کمیونٹی کی ملک میں کل آبادی 14.2 فیصد ہے، جب کہ جیلوں میں بند کل قیدیوں میں سے 16.6 فیصد افراد مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں – کانگریس نے کبھی فسادیوں کے خلاف کوئی کارروائی کی ہی نہیں، نیز شدت پسند لیڈروں کو پارٹی میں شامل کرکے بھی ان کی خاموش حمایت ہمیشہ کی، آج بھی مہاراشٹر میں شو سینا سے ہاتھ ملا کر سیکولر ہے، بابری مسجد پر تو خاموش رہی لیکن رام مندر پر مسرت کا اظہار خوب کیا – پھر بھی یہ محبت کے سب سے بڑے علمبردار ہیں اور مسلم قیادت کا دعویٰ کرنے والی ساری پارٹیوں اور ان کے لیڈروں کو" نفرتی" ہونے کا سرٹیفکیٹ بانٹ رہے ہیں –
سماجواد پارٹی، محبت کا سنگم ہے
سماجوادی پارٹی : یہ پارٹی بھی کہنے کو تو مسلم حمایتی مشہور ہے لیکن اس پارٹی کے اقتدار میں رہتے ہوئے بھی نا انصافیوں اور وعدوں سے فرار کے انگنت رکارڈ موجود ہیں، او بی سی، دلت اور مسلمانوں کو آگے لانے، ترقی یافتہ قوموں کے شانہ بشانہ چلنے اور پچھڑی قوموں کے حقوق کے حصول کے نام پر وجود میں آئی یہ پارٹی مسلمانوں کے لئے دوسری کانگریس ہی ثابت ہوئی، سات سے 8 فیصد ووٹ والی یہ پارٹی قریب بیس فیصد مسلمانوں کا ووٹ لے کر چار مرتبہ وزیر اعلی کی کرسی تک پہنچی اور اپنی قوم کو خوب فائدہ پہنچایا، مسلمانوں سے ہر بار صرف وعدے ہی ہوے اور الیکشن بعد ان وعدوں کو اگلے الیکشن تک بھلا دیا جاتا رہا، اس پارٹی کے رہتے ہوئے بھی مسلمانوں پر خوب مقدمات ہوے، نوکریوں کے نام پر ووٹ تو لیا گیا مگر نوکریاں ملی کبھی نہیں، فسادیوں پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی، 2013 کے فسادات میں کیمپوں میں رہ رہے پناہ گزینوں پر بلڈوزر چلایا گیا، مسلمانوں کی عورتوں کو قبر سے نکال کر ریپ کرنے والا شخص پارٹی میں شامل ہے، مسلم نوجوانوں کی لنچنگ ہو یا پولیس کسٹڈی میں ہونے والی اموات پر پارٹی کی خاموشی، ہر فیصلے نے یہ ظاہر کردیا ہے کہ مسلمان ان کے لیے صرف ووٹ ڈالنے کی مشین ہیں اور کچھ نہیں –
الغرض مسلمانوں کے لیے یہ پارٹی بھی صرف چھلاوہ ہی ثابت ہوئی،اب اس پارٹی کے سپریم لیڈر اور سابق وزیر اعلٰی بھی اویسی صاحب کو نفرتی قرار دے رہے ہیں، ساری پارٹیوں سے اتحاد کر رہے ہیں لیکن اویسی صاحب سے نہیں کیوں کہ اویسی صاحب بھڑکاؤ ہیں، سیدھی بات یہ ہے کہ سات فیصد والے بیس فیصد والوں کو ایک چھڑی ے ہانک رہے ہیں –
بہوجن سماج پارٹی
بہوجن سماج پارٹی: اس پارٹی کی سپریم لیڈر محترمہ مایاوتی ہیں یہ پارٹی مشہور دلت لیڈر کانشی رام کی کوششوں کا نتیجہ ہے، ان کا نعرہ بھی دبے کچلوں کو اوپر لانا تھا، اتر پردیش میں قریب 22 فیصدی ووٹ رکھنے والی یہ پارٹی اگر کانشی رام کے اصولوں پر چلتی تو آج وزیر اعظم اسی پارٹی کا ہوتا، اتر پردیش میں 22 فیصد دلت اور قریب بیس فیصد مسلم اگر ایک ہوں تو کون حکومت کر سکتا ہے، لیکن بہن جی ہم سے صرف لینا چاہتی ہیں دینا کچھ نہیں چاہتیں، مسلمانوں نے اس پارٹی پر بھی خوب بھروسا کیا اور چار بار وزیر اعلی بنایا مگر کہانی یہاں بھی وہی رہی، جب جیتے تو کچھ دیا نہیں اور جب بھی ہارے تو الزام کہ مسلمانوں نے ووٹ نہیں کیا، تین بار بی جے پی سے مل کر سرکار بنانے والی بہن جی کو بھی اویسی صاحب نفرتی لگتے ہیں اور مختار انصاری غنڈہ لگتے ہیں، انھیں بھی مسلم قیادت قبول نہیں ہے، پچھلے سات سالوں سے بی جے پی کے اکثر قوانین پر اس پارٹی کی مکمل حمایت رہی ہے، بہن جی مسلمانوں کو کٹر پنتھی مانتے ہوے اپنا ووٹ بھی بی جے پی جیسی سیکولر پارٹی کے لیڈر کو ٹرانسفر کرا دیتی ہیں، لیکن محبت کا یہ عالم ہے کہ پارٹی کے اکلوتے نیتا جناب نسیم الدین صدیقی آج در بدر مارے مارے پھر رہے ہیں، نیز مسلمانوں کو کطھی کچھ نہیں دیا –
نیتیش کمار، لالو پرساد یادو اور ممتا بنرجی
جنتا دل یونائٹڈ : نیتیش کمار اس پارٹی کے سربراہ اور فی الوقت بہار کے وزیر اعلیٰ ہیں، بی جے پی کے پرانے ساتھی ہیں، دوسری بار ان کی حمایت سے سرکار میں ہیں، کمال کی بات یہ ہے کہ مسلمان نیتیش کمار کو ابھی بھی سیکولر ہی جانتے ہیں، جب کہ پچھلی حکومت میں لنچنگ کے ساتھ ساتھ فسادات اور شر انگیزی بھی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی اور اب بہار ودھان سبھا میں "وندے ماترم" گایا جانا سب عیاں کر رہا ہے –
جنتا دل : یہ جناب لالو پرساد یادو کی پارٹی ہے، بہار الیکشن میں مجلس سے ہاتھ نہیں ملایا کیوں کہ انھیں مسلمانوں کے ووٹوں سے تو محبت ہے لیکن مسلم پارٹی سے نہیں، نتیجہ حکومت سے دور ہیں، انھیں جتنا غصہ اویسی صاحب پر ہے اتنا نیتیش کمار یا کانگریس پر نہیں ہے، لالو پرساد یادو کو بھی مسلمان کئی مرتبہ وزیر اعلی بنا چکے لیکن نوکریوں میں جگہ نہیں ملی، نہ امید ہے، مسلمان صرف اس لئے لالو یادو سے خوش ہیں کہ انھوں نے کبھی اڈوانی کا رتھ روکا تھا، مسلمان یہ سمجھنے کو تیار نہیں ہیں کہ لالو جی نے صرف اڈوانی کا رتھ ہی نہیں روکا بلکہ مسلمانوں کو نوکریوں اور سیاست سے بھی روک رکھا ہے، کچھ ملے یا نہ ملے یہ ان سے ہی چپکے رہیں گے، یادو سماج کہاں سے کہاں پہنچ گیا اور مسلمان جھنڈا اور دری ہی بچھا رہا ہے –
ترنمول کانگریس : ممتا دیدی اس پارٹی کی سربراہ اور سیاہ و سفید کی مالک ہیں، ہم نے بنگال الیکشن میں ان کے تیور دیکھے ہیں، دیدی کو جتنا غصہ اویسی صاحب پر تھا اتنا بی جے پی پر نہیں تھا، بنگال میں مسلمان قریب تیس فیصد ہیں، یعنی حکومت بنانے میں اہم رول ادا کرتے ہیں لیکن جس قدر بنگال کے مسلمان پچھڑے ہیں اتنے پورے انڈیا میں پچھڑے نہیں ہیں، پھر بھی ممتا ہیرو ہیں اویسی زیرو ہیں، دیدی کی محبت ہی ہے کہ سیکڑوں کی تعداد میں مسلم بچیوں کو ملازمت کے لئے ہونے والے امتحانات میں صرف اس لئے شریک نہیں ہونے دیا گیا کیونکہ انھوں نے حجاب پہنے ہوئے تصاویر کھنچواکر ملازمت کے لئے عرضیاں دی تھیں، سرکاری ملازمتوں میں بنگال کا بھی وہی حال ہے جو پورے ملک میں سیکولر پارٹیوں نے مسلمانوں کا کر رکھا ہے، یہ کیسی محبت ہے کہ ہمیں آگے بڑھنے بھی نہیں دیا جاتا اور کسی کو لیڈر بھی نہیں ماننے دیا جاتا، اگر یہ مسلمانوں سے محبت ہے تو پھر نفرت کیا ہے، ہاں اتنا کہہ سکتے ہیں کہ خاموش نفرت ہے –
اللہ ایسے محبین سے بچائے
نفرتی لوگوں کی دو قسمیں جو بظاہر محبت بانٹتی ہیں سیکولر پارٹیوں میں اعلی عہدوں پر ہوتی ہیں ، ایک کا کام پہلے فسادات کرانا یا فسادات کرنے والوں کی پشت پناہی کرنا ہوتا ہے، یہ بظاہر محبتی اور اندر سے نفرتی ہوتے ہیں، انھیں کی ایک دوسری قسم ہے جو فسادیوں کے کیسز کو عدالت تک پہنچنے نہیں دیتی اگر پہنچ جائیں تو عدالت میں ٹکنے نہیں دیتی ، یہ سیکولر اور محبت کے دریا بہانے والی پارٹیوں کے لوگ ہیں، اور اصل نفرتی بھی یہی ہیں، انھیں کی وجہ سے مسلمانوں کو اتحاد میں شامل نہیں کیا جاتا، یہ دونوں قسمیں صرف سیکولر کہلانے والی اور ہماری محبت کا دم بھرنے والی پارٹیوں میں پائی جاتی ہیں، اب فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ ایسے شدید محبین کو اور کتنا برداشت کرنا ہے یا پھر اپنی قیادت کے سائے میں اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل روشن کرنا ہے –
مسلمانوں کی بھی پریشانی یہی ہے کہ وہ پچھلے 74 سالوں سے پٹائی کرنے والی پارٹیوں کو ووٹ دینے کو تیار ہیں لیکن کسی مسلم پارٹی کو ووٹ کرنا انھیں پسند نہیں ہے، اتنی سی بات مسلمانوں کی سمجھ میں نہیں آتی کہ ان نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے ہمیں دیا ہی کیا ہے جو ہم انھیں ووٹ دیتے ہیں، انکی محبت بھی عجیب ہے یہ ہر ایک قوم کے حقوق دینے کو تیار ہیں لیکن مسلمانوں کے نہیں، یہ ساری پارٹیاں اویسی صاحب کو تو نفرتی بتاتی ہیں لیکن اصل نفرتی تو یہی ہیں، ورنہ ہمیں ہمارے حقوق کیوں نہیں دیتیں ؟ اور ہمارے ووٹ کا صلہ کیوں نہیں دینا چاہتیں؟ ان کی محبت سے اتنا تو سمجھ آگیا کہ یہ ہمارے سارے دشمنوں سے ہاتھ ملا سکتی ہیں لیکن مسلم قیادت سے ہرگز ہاتھ نہیں ملائیں گی –
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں