ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ
خوشی اور مسرت کے جذبات ہر انسان میں ہوتے ہیں، ہر شخص چاہتاہے کہ وہ خوش ہو، خوشی اس کا پیدائشی حق ہے۔ البتہ غم اور دکھ بھی انسان کے ساتھ ہیں، یہ اللہ کی حکمت ہے۔انسانی فطرت یہ چاہتی ہے کہ انسان کی زندگی میں کچھ ایسے مواقع ضرورآنے چاہئیں جب وہ تمام غموں کو بھول کر خوشیاں منائیں، اچھے اچھے کپڑے پہنیں، قسم قسم کے مزے دار کھانے کھائیں، دعوت، میل ملاپ اور بے تکلفی کی مجلسیں ہوں۔ بھلا اسلام کیوں کرانسانی فطرت کے اس تقاضے کو نظر انداز کرسکتا تھا۔ اس نے اپنے ماننے والوں کو دو بے مثال تیوہارعطا کیے۔ ایک رمضان المبارک کے بعد عید الفطر کے نام سے اور دوسرا ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو عید الاضحی کے نام سے۔
تیوہار کے موقع پر دیگر اقوام مختلف طرح کے ناچ اور رنگ کے پروگرام کرتی ہیں، جلسے اور جلوس نکالتے ہیں، آتش بازی کرتے ہیں لیکن اسلام اس موقع پر بھی سنجیدگی اور متانت کونہیں چھوڑتا۔ وہ اچھے کھانے نوش کرنے اور اچھے کپڑے پہننے سے نہیں روکتا لیکن وہ بے ہودہ اور بے حیائی، نیز فضول اور بے فیض کاموں سے ضرور روکتاہے۔ وہ خوشی کے موقع پر بھی خدا کے سامنے سر جھکانے کی تعلیم دیتا ہے۔ وہ یہ احساس کراتاہے کہ یہ خوشیاں بھی عطائے الٰہی ہیں، اگر اللہ نہ چاہتا تو یہ خوشی کے لمحات میسر نہ آتے۔ لہٰذا اس کے سامنے سجدہ ریز ہونا چاہیے۔
عید کا لفظ ”عود“ سے بنا ہے، جس کا معنیٰ ہے: ”لوٹنا“، عید ہر سال لوٹتی ہے اور اسکے لوٹ کر آنے کی خواہش کی جاتی ہے۔ ”فطر“ کا معنیٰ ہے: ”روزہ توڑنا یا ختم کرنا“۔ عید الفطر کے روز روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہے، اس روز اللہ تعالیٰ بندوں کو روزہ اور عبادتِ رمضان کا ثواب عطا فرماتے ہیں، لہذا اس دن کو ”عید الفطر“ قرار دیا گیا ہے۔
ہجرت مدینہ سے پہلے یثرب کے لوگ دوعیدیں مناتے تھے، جن میں وہ لہو و لعب میں مشغول ہوتے اور بے راہروی کے مرتکب ہوتے، چنانچہ نبی اکرمﷺ نے زمانہ جاہلیت کی دو غلط رسوم پر مشتمل عیدوں کی جگہ ”عید الفطر“ اور ”عید الضحیٰ“ منانے اور ان دونوں عیدوں میں شرع کی حدود میں رہ کر خوشی منانے، اچھا لباس پہننے، اور بے راہ روی کی جگہ عبادت، صدقہ اور قربانی کا حکم دیا۔ چنانچہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
”جس نے پانچ راتوں 8، 9، 10 ذوالحج کی راتیں، عید الفطر کی رات، اور 15شعبان کی رات کو شب بیداری کی اس کیلئے جنت واجب ہو گئی۔“ (ترغیب و ترھیب)
ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا:
”جب مسلمانوں کی عید یعنی عید الفطر کا دن آتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پر فخر فرماتا ہے، ایے میرے فرشتو! اس مزدور کی کیا جزاء ہے جو اپنا کام مکمل کر دے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں: اسکی جزاء یہ ہے کہ اس کو پورا اجرو ثواب عطا کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے فرشتوں! میرے بندو ں اور باندیوں نے اپنا فرض ادا کیا پھر وہ (نماز عید کی صورت میں) دعاء کیلئے نکل آئے ہیں، مجھے میری عزت و جلال، میرے کرم اور میرے بلند مرتبہ کی قسم! میں اِن کی دعاؤں کو ضرو ر قبول کروں گا۔ پھر فرماتا ہے: بندو! تم گھروں کو لوٹ جاؤ میں نے تمہیں بخش دیا اورتمہارے گناہوں کو نیکیوں میں بد ل دیا۔ پھر وہ بندے (عید کی نماز سے) لوٹتے ہیں حالانکہ اُن کے گناہ معاف ہوچکے ہوتے ہیں“
حضرت عبدُ اللہ ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی ایک رِوایت میں یہ بھی ہے:
جب عید کی صبح ہوتی ہے تواللہ اپنے فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے، چنانچہ وہ فرشتے زمین پر تشریف لاکر سب گلیوں اور راہوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور اِس طرح ندا دیتے ہیں: ”اے مومنوں! اُس رب کی بارگاہ کی طرف چلو!جو بہت زیادہ عطا کرنے والا اور بڑے سے بڑا گناہ معاف فرمانے والا ہے“۔ پھراللہ اپنے بندوں سے یوں مخاطب ہوتا ہے: ”اے میرے بندو!مانگو!کیا مانگتے ہو؟ میری عزت وجلال کی قسم! آج کے روزاِس (نماز عیدکے) اِجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو کچھ سوال کرو گے وہ پورا کروں گا اور جو کچھ دنیا کے بارے میں مانگوگے اُس میں تمہاری بھلائی کی طرف نظر فرماوئں گا(یعنی اِس معاملے میں وہ کروں گا جس میں تمہاری بہتر ی ہو)میری عزت کی قسم! جب تک تم میرا لحاظ رکھو گے میں بھی تمہاری خطاوں کی پردہ پوشی فرماتا رہوں گا۔میری عزت وجلال کی قسم!میں تمہیں حد سے بڑھنے والوں (یعنی مجرموں) کے ساتھ رُسوا نہ کروں گا۔ بس اپنے گھروں کی طرف مغفرت یا فتہ لوٹ جاؤ۔تم نے مجھے راضی کردیا اورمیں بھی تم سے راضی ہوگیا۔“ (ترغیب و ترھیب)
عید کی نمازواجب ہے، اس میں دو رکعتیں ہیں۔پہلی رکعت میں ثناء کے بعد اور دوسری رکعت میں سورت پڑھنے کے بعد ہاتھ آٹھا کر تین تین زائد تکبیریں مسنون ہیں۔
نماز عید الفطر کے بعد خطبہ سنت ہے۔ نماز عید میں آتے اور جاتے ہوئے آہستہ تکبیریں ”اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد۔“ اور راستہ تبدیل کرنا سنت ہے۔ نماز عید سے پہلے طاق عدد میں کھجور کھانا سنت ہے۔ عید کے روز غسل کرنا، خوشبوو استعمال کرنا، اور اچھا لباس پہننا سنت ہے۔ نماز عید کے لیے اذان اور تکبیر سنت نہیں ہے۔ عید الفطر کے دن روزہ رکھنا حرام ہے۔ عید الفطر کے بعد مسلسل یا وقفہ کے ساتھ ماہِ شوال کے 6روزے رکھنا بہت زیادہ ثواب کا باعث ہے۔
عید کے دن کی طرح اس کی رات جسے ہم چاند رات کہتے ہیں بہت بابرکت ہے۔حدیث کے مطابق جب عید الفطرکی رات آتی ہے تو اس کا نام آسمانوں پر لیلۃ الجائزہ یعنی انعام کی رات سے لیا جاتا ہے۔سُمِّیَتْ تِلْکَ اللَّیْلَۃُ لَیْلَۃَ الْجَاءِزَۃِ.(شعب الایمان بیہقی)
لیلۃ الجائزہ خاص امتِ محمدیہ کے لیے ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:میری امت کو رمضان المبارک سے متعلق پانچ خصوصیات ایسی عطا کی گئی ہیں جو سابقہ امتوں کو نہیں ملیں، من جملہ ان کے ایک یہ ہے کہ رمضان المبارک کی آخری رات میں روزے داروں کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔رسول اللہﷺ سے دریافت کیا گیا:اے اللہ کے رسول!کیا یہ شبِ قدر ہے؟آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:نہیں،یہ رات شبِ قدر نہیں بلکہ یہ اس رات میں کام کرنے والے کو کام پورا کرنے پر مزدوری دی جاتی ہی۔(کشف الاستار)
لیلۃ الجائزہ کی عبادت کا ثبوت تابعین کے اقوال سے بھی ملتا ہے۔حضرت ابو مجلز ؒ فرمایا کرتے تھے کہ عید الفطر کی رات اس مسجد میں گذارو جس میں تم نے اعتکاف کیا ہو، پھر صبح عیدگاہ کی طرف جاؤ۔(مصنف ابن ابی شیبہ)اس کے علاوہ عیدین کی راتوں میں عبادت کا ذکر تو متعدد احادیث میں موجود ہے۔حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا:جو عیدین کی راتوں میں جاگ کر عبادت کا اہتمام کرے گا، اس کا دل اس وقت بھی زندہ رہے گا،جس وقت سب کے دل مردہ ہو جائیں گے۔(ابن ماجہ،طبرانی اوسط)
عید اللہ کا بڑا انعام ہے اس دن اچھے کپڑے پہننا اور اچھے کھانے کھانا اور کھلانا دونوں سنت ہیں لیکن فضول خرچی کرنا،بے حیائی اور بے شرمی اختیار کرنا عورتوں کا اس طرح بناؤ سنگھار کرنا غیر مرد دیکھے تو فتنے کا اندیشہ ہو جائز نہیں۔ عورتوں کا بے پردہ اور نیم عریاں لباس میں گھر سے باہر نکلنا ہمیشہ ممنوع ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
”یٓایُھَا النَّبِیُّ قُل لِاَزوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَآءِ المُومِنِینَ یُدنِینَ عَلَیہِنَّ مِن جَلابِیبِہِنَّ۔“(سورہ احزاب، آیت:۹۵)
”اے نبی! اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں کو فرما دو کہ وہ اپنی بڑی چادروں کا ایک حصہ اپنے چہرے پر ڈالے رہیں۔“
اور حدیث پاک میں ہے:
جو عورت اپنے شوہر کے سواکسی اور کو اپنا حسن دکھانے کیلئے سنگار کرے، اسکے چہرے کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سیاہ کر دے گا اور اس کی قبر کو جہنم کا گڑھا بنادے گا۔(بیہقی)
عیدالفطر جو کہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور مغفرتوں اور روزہ و عبادتِ رمضان کا انعام خاص حاصل کرنے کادن ہے، اس روز اللہ تعالیٰ کی شریعت کی خلاف ورزی کرنا اور کفار کے طریقے کے مطابق بے راہ روی اختیار کرنا، گندی فلمیں اور ڈرامے دیکھنا، اور لڑکیوں کا نیم عریاں لباس میں گلی کوچوں میں گھومنا بہت ہی بڑا گناہ ہے۔ لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ اس روز اچھے کاموں میں مشغول رہیں۔ برادران وطن کو اپنی خوشیوں میں شریک کریں۔
تیوہار کے موقع پر دیگر اقوام مختلف طرح کے ناچ اور رنگ کے پروگرام کرتی ہیں، جلسے اور جلوس نکالتے ہیں، آتش بازی کرتے ہیں لیکن اسلام اس موقع پر بھی سنجیدگی اور متانت کونہیں چھوڑتا۔ وہ اچھے کھانے نوش کرنے اور اچھے کپڑے پہننے سے نہیں روکتا لیکن وہ بے ہودہ اور بے حیائی، نیز فضول اور بے فیض کاموں سے ضرور روکتاہے۔ وہ خوشی کے موقع پر بھی خدا کے سامنے سر جھکانے کی تعلیم دیتا ہے۔ وہ یہ احساس کراتاہے کہ یہ خوشیاں بھی عطائے الٰہی ہیں، اگر اللہ نہ چاہتا تو یہ خوشی کے لمحات میسر نہ آتے۔ لہٰذا اس کے سامنے سجدہ ریز ہونا چاہیے۔
عید کا لفظ ”عود“ سے بنا ہے، جس کا معنیٰ ہے: ”لوٹنا“، عید ہر سال لوٹتی ہے اور اسکے لوٹ کر آنے کی خواہش کی جاتی ہے۔ ”فطر“ کا معنیٰ ہے: ”روزہ توڑنا یا ختم کرنا“۔ عید الفطر کے روز روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہے، اس روز اللہ تعالیٰ بندوں کو روزہ اور عبادتِ رمضان کا ثواب عطا فرماتے ہیں، لہذا اس دن کو ”عید الفطر“ قرار دیا گیا ہے۔
ہجرت مدینہ سے پہلے یثرب کے لوگ دوعیدیں مناتے تھے، جن میں وہ لہو و لعب میں مشغول ہوتے اور بے راہروی کے مرتکب ہوتے، چنانچہ نبی اکرمﷺ نے زمانہ جاہلیت کی دو غلط رسوم پر مشتمل عیدوں کی جگہ ”عید الفطر“ اور ”عید الضحیٰ“ منانے اور ان دونوں عیدوں میں شرع کی حدود میں رہ کر خوشی منانے، اچھا لباس پہننے، اور بے راہ روی کی جگہ عبادت، صدقہ اور قربانی کا حکم دیا۔ چنانچہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
”جس نے پانچ راتوں 8، 9، 10 ذوالحج کی راتیں، عید الفطر کی رات، اور 15شعبان کی رات کو شب بیداری کی اس کیلئے جنت واجب ہو گئی۔“ (ترغیب و ترھیب)
ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا:
”جب مسلمانوں کی عید یعنی عید الفطر کا دن آتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پر فخر فرماتا ہے، ایے میرے فرشتو! اس مزدور کی کیا جزاء ہے جو اپنا کام مکمل کر دے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں: اسکی جزاء یہ ہے کہ اس کو پورا اجرو ثواب عطا کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے فرشتوں! میرے بندو ں اور باندیوں نے اپنا فرض ادا کیا پھر وہ (نماز عید کی صورت میں) دعاء کیلئے نکل آئے ہیں، مجھے میری عزت و جلال، میرے کرم اور میرے بلند مرتبہ کی قسم! میں اِن کی دعاؤں کو ضرو ر قبول کروں گا۔ پھر فرماتا ہے: بندو! تم گھروں کو لوٹ جاؤ میں نے تمہیں بخش دیا اورتمہارے گناہوں کو نیکیوں میں بد ل دیا۔ پھر وہ بندے (عید کی نماز سے) لوٹتے ہیں حالانکہ اُن کے گناہ معاف ہوچکے ہوتے ہیں“
حضرت عبدُ اللہ ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی ایک رِوایت میں یہ بھی ہے:
جب عید کی صبح ہوتی ہے تواللہ اپنے فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے، چنانچہ وہ فرشتے زمین پر تشریف لاکر سب گلیوں اور راہوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور اِس طرح ندا دیتے ہیں: ”اے مومنوں! اُس رب کی بارگاہ کی طرف چلو!جو بہت زیادہ عطا کرنے والا اور بڑے سے بڑا گناہ معاف فرمانے والا ہے“۔ پھراللہ اپنے بندوں سے یوں مخاطب ہوتا ہے: ”اے میرے بندو!مانگو!کیا مانگتے ہو؟ میری عزت وجلال کی قسم! آج کے روزاِس (نماز عیدکے) اِجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو کچھ سوال کرو گے وہ پورا کروں گا اور جو کچھ دنیا کے بارے میں مانگوگے اُس میں تمہاری بھلائی کی طرف نظر فرماوئں گا(یعنی اِس معاملے میں وہ کروں گا جس میں تمہاری بہتر ی ہو)میری عزت کی قسم! جب تک تم میرا لحاظ رکھو گے میں بھی تمہاری خطاوں کی پردہ پوشی فرماتا رہوں گا۔میری عزت وجلال کی قسم!میں تمہیں حد سے بڑھنے والوں (یعنی مجرموں) کے ساتھ رُسوا نہ کروں گا۔ بس اپنے گھروں کی طرف مغفرت یا فتہ لوٹ جاؤ۔تم نے مجھے راضی کردیا اورمیں بھی تم سے راضی ہوگیا۔“ (ترغیب و ترھیب)
عید کی نمازواجب ہے، اس میں دو رکعتیں ہیں۔پہلی رکعت میں ثناء کے بعد اور دوسری رکعت میں سورت پڑھنے کے بعد ہاتھ آٹھا کر تین تین زائد تکبیریں مسنون ہیں۔
نماز عید الفطر کے بعد خطبہ سنت ہے۔ نماز عید میں آتے اور جاتے ہوئے آہستہ تکبیریں ”اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد۔“ اور راستہ تبدیل کرنا سنت ہے۔ نماز عید سے پہلے طاق عدد میں کھجور کھانا سنت ہے۔ عید کے روز غسل کرنا، خوشبوو استعمال کرنا، اور اچھا لباس پہننا سنت ہے۔ نماز عید کے لیے اذان اور تکبیر سنت نہیں ہے۔ عید الفطر کے دن روزہ رکھنا حرام ہے۔ عید الفطر کے بعد مسلسل یا وقفہ کے ساتھ ماہِ شوال کے 6روزے رکھنا بہت زیادہ ثواب کا باعث ہے۔
عید کے دن کی طرح اس کی رات جسے ہم چاند رات کہتے ہیں بہت بابرکت ہے۔حدیث کے مطابق جب عید الفطرکی رات آتی ہے تو اس کا نام آسمانوں پر لیلۃ الجائزہ یعنی انعام کی رات سے لیا جاتا ہے۔سُمِّیَتْ تِلْکَ اللَّیْلَۃُ لَیْلَۃَ الْجَاءِزَۃِ.(شعب الایمان بیہقی)
لیلۃ الجائزہ خاص امتِ محمدیہ کے لیے ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:میری امت کو رمضان المبارک سے متعلق پانچ خصوصیات ایسی عطا کی گئی ہیں جو سابقہ امتوں کو نہیں ملیں، من جملہ ان کے ایک یہ ہے کہ رمضان المبارک کی آخری رات میں روزے داروں کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔رسول اللہﷺ سے دریافت کیا گیا:اے اللہ کے رسول!کیا یہ شبِ قدر ہے؟آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:نہیں،یہ رات شبِ قدر نہیں بلکہ یہ اس رات میں کام کرنے والے کو کام پورا کرنے پر مزدوری دی جاتی ہی۔(کشف الاستار)
لیلۃ الجائزہ کی عبادت کا ثبوت تابعین کے اقوال سے بھی ملتا ہے۔حضرت ابو مجلز ؒ فرمایا کرتے تھے کہ عید الفطر کی رات اس مسجد میں گذارو جس میں تم نے اعتکاف کیا ہو، پھر صبح عیدگاہ کی طرف جاؤ۔(مصنف ابن ابی شیبہ)اس کے علاوہ عیدین کی راتوں میں عبادت کا ذکر تو متعدد احادیث میں موجود ہے۔حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا:جو عیدین کی راتوں میں جاگ کر عبادت کا اہتمام کرے گا، اس کا دل اس وقت بھی زندہ رہے گا،جس وقت سب کے دل مردہ ہو جائیں گے۔(ابن ماجہ،طبرانی اوسط)
عید اللہ کا بڑا انعام ہے اس دن اچھے کپڑے پہننا اور اچھے کھانے کھانا اور کھلانا دونوں سنت ہیں لیکن فضول خرچی کرنا،بے حیائی اور بے شرمی اختیار کرنا عورتوں کا اس طرح بناؤ سنگھار کرنا غیر مرد دیکھے تو فتنے کا اندیشہ ہو جائز نہیں۔ عورتوں کا بے پردہ اور نیم عریاں لباس میں گھر سے باہر نکلنا ہمیشہ ممنوع ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
”یٓایُھَا النَّبِیُّ قُل لِاَزوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَآءِ المُومِنِینَ یُدنِینَ عَلَیہِنَّ مِن جَلابِیبِہِنَّ۔“(سورہ احزاب، آیت:۹۵)
”اے نبی! اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں کو فرما دو کہ وہ اپنی بڑی چادروں کا ایک حصہ اپنے چہرے پر ڈالے رہیں۔“
اور حدیث پاک میں ہے:
جو عورت اپنے شوہر کے سواکسی اور کو اپنا حسن دکھانے کیلئے سنگار کرے، اسکے چہرے کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سیاہ کر دے گا اور اس کی قبر کو جہنم کا گڑھا بنادے گا۔(بیہقی)
عیدالفطر جو کہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور مغفرتوں اور روزہ و عبادتِ رمضان کا انعام خاص حاصل کرنے کادن ہے، اس روز اللہ تعالیٰ کی شریعت کی خلاف ورزی کرنا اور کفار کے طریقے کے مطابق بے راہ روی اختیار کرنا، گندی فلمیں اور ڈرامے دیکھنا، اور لڑکیوں کا نیم عریاں لباس میں گلی کوچوں میں گھومنا بہت ہی بڑا گناہ ہے۔ لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ اس روز اچھے کاموں میں مشغول رہیں۔ برادران وطن کو اپنی خوشیوں میں شریک کریں۔
جواب دیں