نافرمان اولاد، والدین اور معاشرے کے لیے ناسور

 

  

  تحریر: حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی جمشید پور

 

رب تبا رک و تعالیٰ نے انسانوں کو بے شمار نعمتوں سے نوازا، ان نعمتوں میں اولاد بھی شامل ہے۔’’اولاد اللہ کی نعمت ہے بیٹا ہو یا بیٹی‘‘ اس کا اندازہ آپ روز مرہ کی زندگی کی گفتگو سے بھی لگا سکتے ہیں،لوگ ایک دوسرے کی خیرو خیریت پوچھتے ہیں،اپنے رشتے داروں اور دوست احباب کے گھر میں سب خیریت ہے (فیملی) بال بچے سب بخیر ہیں۔آپ کے کتنے بچے ہیں؟ اس طرح کے سوال وجواب عام بات ہے، اس بات کے پوچھنے کو کوئی بُرا بھی نہیں مانتا،کوئی یہ نہیں پوچھتا آپ کے پاس کتنی دولت ہے؟ رب العالمین نے جوبھی نعمت عطا فر مائی ہے وہ ہر حال میں قیمتی اور قابلِ قدر ہے۔ پھر اولاد جیسی نعمت کے کیا کہنے اس کی قدر کون نہیں کرتا،جنگل کے وحشی درندے بھی اپنی اولاد سے پیار کرتے ہیں۔ فر مانِ مصطفی ﷺ ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا: اللہ کی100(سو) رحمتیں ہیں جن میں سے اس نے صرف ایک حصہ جن و انس،چوپایوں اور حشرات الارض(چھوٹے چھوٹے کیڑے جو اکثر زمین میں سوراخ کرکے رہتے ہیں) میں اُتارا،جن کی وجہ سے وہ باہم شفقت کرتے اور ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں۔’’اسی وجہ سے وحشی جانور اپنے بچے کی طرف مائل ہوتے ہیں‘‘۔ اور ننا وے رحمتوں کو اس نے رکھ چھوڑا ہے،اُن سے وہ قیامت کے روز اپنے بندوں پر رحم فر مائے گا۔(صحیح مسلم،کتاب التوبہ،باب فی شعبۃِ رحمۃاللہ تعالیٰ وانھا تغلب غضبۃ،ج:2ص:356،مجلس برکات،حدیث:2752 -بخاری،حدیث:5654)

رب کی دی ہوئی رحمت رب ہی کی دی ہوئی محبت ورحمت کی وجہ کر والدین اپنی اولاد سے بے پناہ محبت کرتے ہیں،اُنکی ذرہ سی تکلیف میں بے چین ہو جاتے ہیں،اپنے سکھ چین کو چھوڑکر بچے کے چین کے لیے تگ ودومیں لگ جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ آج کی اولاد یہ سوچ بیٹھی ہیں کہ ہمارے ماں باپ ہمارے قرض دار ہیں،اِن کا یہی کام ہے ہماری خدمت کرنا ہماری دلجوئی کرنا،ہماری ہر ضد کو پوری کرناچاہے اس کے لیے ان کو کتنی ہی تکلیف کیوں نہ ہو۔ بچوں نے یہ سوچ بنالی ہے کہ ہمارا کام ہے ضدکرنا اپنی من مانی کرنا،اچھے بُرے سے کو ئی مطلب نہیں،ماں باپ کی ناراضگی سے کوئی سروکار نہیں ہمیں تو اپنی ہی بات پوری کرنی ہے،چاہے اس سے میرے ماں باپ کو کتنی ہی تکلیف پہنچے میرے ٹھینگے سے۔آج کی اولاد یہ نہیں سوچتیں۔

؎ باپ زینہ ہے جو لے جاتاہے اونچائی تک ٭ ماں دُعا ہے جو صدا سایہ فگن رہتی ہے (سرفراز نواز)

؎ عزیز تر مجھے رکھتا ہے وہ رگے جاں سے ٭ یہ بات سچ ہے میرا باپ کم نہیں ماں سے (طاہر شہیر)

نافرمان بچے ماں باپ کے لیے د ہکتی آگ سے کم نہیں:

    آج کے موجودہ معاشرے میں اولاد کی نافرمانی بہت پریشان کُن مسئلہ بن گیا ہے،آج کے بچے سدھار کم بگاڑ کی طرف زیادہ مائل ہیں۔یہ بگاڑ الگ الگ وقت میں،الگ طرح سے نقصان کا باعث ہوتا ہے ،بچپن کا بگاڑ ماں باپ معاف کردیتے ہیں، سمجھاتے ہیں یہ سوچ کر کہ ابھی بچپنا ہے،سن بلوغ تک پہنچنے،شادی شدہ ہو جانے کے بعد بھی بگاڑ پر قائم رہنا،ضد کرنا،اپنی ہی بات منوانا، اپنی انا پر قائم رہنا "ماں باپ کے لیے دہکتی آگ سے کم نہیں ہوتا، جس کی گر می وہ برداشت نہیں کر پاتے اپنے بڑھاپے کی وجہ کر ، اللہ کی دی ہوئی محبت ورحمت کی وجہ کر اور اپنی کمزوریوں کی وجہ کر ،وہ دن رات تڑپتے ہیں،اولاد ماں باپ کو دکھ پہنچاکر چین سے سوتی ہیں”۔اور ماں باپ بچوں کی نافر مانی پر کڑھتے ہیں راتیں کر وٹیں بدل کرگزارتے ہیں۔ والدین کی محبت وشفقت حدسے زیادہ بھی بچوں کو خود سر بنا دیتی ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس میں دو کردار ہیں،ایک باپ دوسرا کردار ماں کا ہے،باپ دنیا کے تھپیڑوں سے گزر کر اپنے بڑھاپے میں اپنے بچوں کو اُونچ ،نیچ سمجھا تاہے یہ اس کی قدرتی ذمہ داری،قدرتی محبت کا نتیجہ ہوتی ہے،جسے آج کی اولاد بہت بُرا مانتی ہے اور اپنی آزادی میں خلل سمجھتی ہے،دوسرا کردار بہت اہم ہے ماں سے زیادہ اولاد کو ،کوئی نہیں چاہتا لیکن یہ محبت کبھی زیادہ دکھا کر جتا کر ماں بچے کو خراب کردیتی ہے،باپ کی ڈانٹ پر بچے کا سپورٹ،باپ کو ہی غلطی پر بتانا وغیرہ وغیرہ یہ بچے کے لیے زہر ہوتا ہے،وہ اس سپورٹ کو پاکر جری اور نا فر مان ہو جاتا ہے اور بالآخیر وہ باپ اور ماں کا بھی نافرمان ہوجاتا ہے، ماں باپ کے ساتھ معاشرے کے لیے ناسور بن جاتا ہے اورخدا کی بارگاہ کا بھی نافرمان ومجرم ہوجاتا ہے اورساتھ ساتھ عذابِ الٰہی کا بھی مستحق بن جاتا ہے،استغفر اللہ استغفرا للہ۔

اولاد اللہ کی نعمت بھی اورآزمائش بھی: 

      اولاد اللہ کا بہت بڑا انعام ہے جس کے لیے انبیاے کرام نے بھی دعائیں مانگی،اولاد ماں باپ کی آنکھوں کا نور اور دل کاسُرور ہوتی ہے،اولاد نیک ہو تو آنکھوں کی ٹھنڈک کا سبب بنتی ہے،اُنکی نیکیوں کا صلہ والدین کو دنیا میں نیک نامی اور مرنے کے بعد صد قہ جاریہ کی شکل میں ملتا رہتا ہے۔ نافرمان اولاد دنیا میں بدنامی،باعثِ شرم ندامت وآخرت میں بھی عذاب کا باعث بنتی ہے۔ "حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دوعالم ﷺ نے ارشاد فر مایا: جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کے ثواب کا سلسلہ منقطع ہو جاتاہے مگر تین چیزوں کا ثواب کا سلسلہ باقی رہتاہے۔(1) صدقہ جاریہ(2) علم جس سے نفع حاصل کیا جائے(3) صالح اولاد جو مرنے کے بعد اس کے لیے دعا کرے۔”(مشکوٰۃ شریف۔ جلد اول۔علم کا بیان:حدیث: (197 – 199)

نیک اولاد کی دُعا انبیا ئے کرام نے مانگی: 

        ہمارے جد امجد حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے نیک اولاد کی دعامانگی، تر جمہ: اے میرے رب! مجھے نیک اولاد عطا فرما۔(القرآن،سورہ الصّٰفّٰت:37 آیت100 ) رب تبارک و تعالیٰ نے فر مایا: تو ہم نے اسے ایک بربار لڑکے کی خوشخبری سنائی۔( سورہ الصّٰفّٰت:آیت101 ) اس آیت کریمہ اور دوسری آیات کریمہ سے یہ معلوم ہوا کہ نیک اولاد اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، اس لیے علما فر ماتے ہیں جب اولاد کی دعا ما نگی جائے تو نیک اولاد کی دعا مانگنی چاہئے،اللہ تعالیٰ نے کامل ایمان والوں کا ایک وصف یہ بھی بیان فر مایا ہے کہ وہ نیک،صالح اور متقی بیویوں اور اولاد کی دعا مانگتے ہیں تاکہ اُن کے اچھے عمل دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی اور دل خوش ہو۔ حضرت زکریا علیہ السلام نے اولاد کی دعا مانگی، حضرت زکریا علیہ السلام کی بیوی بانجھ تھیں اور وہ خود بھی بڑھاپے کو پہنچ چکے تھے،اولاد نہیں تھی۔حضرت مریم علیہا السلام کی کفالت کرتے تھے۔ان سے ملنے گئے تو دیکھا کہ انکے پاس بے موسم پھل پڑا ہے،پوچھا:’’(مریم!) یہ کہاں سے آیا ہے؟۔‘‘ انھوں نے عرض کیا: اللہ کی طرف سے۔سوچا کہ مریم! کو اللہ نے بے موسم کا پھل بھیجا ہے تو اُس قادر مطلق کے لیے کیا ناممکن ہے؟ حضرت مریم! کے پاس بے موسم پھل آیا کرتے تھے، حضرت زکریا علیہ السلام نے دیکھاتو آپ نے سوچا کہ اس صالحہ لڑکی کو جب اللہ تعالیٰ بے موسم پھل دیتا ہے، تو آپ کے دل میں تمنا پیداہوئی کہ کاش! اللہ تعالیٰ انہیں بھی ایسی ہی نیک اولاد عطا کرے ۔ تر جمہ: فوراً اِسی جگہ زکریا علیہ السلام نے اپنے رب سے دُعا کی، عرض کیا: (ترجمہ)میرے مولا! مجھے اپنی جانب سے پاکیزہ اولاد عطا فر ما، بیشک تو ہی دعا کا سننے والا ہے۔(القرآن،سورہ آل عمران،3: آیت38) 

رحمتِ الٰہی جوش میں آئی، زکریا علیہ السلام ابھی وہیں کھڑے تھے کہ اللہ تبار ک و تعا لیٰ نے فرشتہ بھیج کر انہیں بیٹے کی بشارت دے دی فرشتے نے آکر پیغام دیا: ’’ اللہ تمھیں یحییٰ! نام کے بیٹے کی بشارت دیتا ہے‘‘ یہ بشارت سن کر عرض کیا:’’مالک! میرا لڑکا کہاں سے ہو گا، بڑھاپے نے تو مجھ کو لے ڈالا اور میری عورت بانجھ ہے۔‘‘ فر مایا اللہ تعالیٰ اسی طرح جو چاہے سو کرتا ہے۔(القرآن سورہ آل عمران3: آیت40)۔سورہ انبیا،سورہ الفرقان، سورہ ابراہیم وغیرہ میں اور صراحت کے ساتھ اولاد کی نعمت کا ذکر موجود ہے۔انبیا علیہ السلام کی دعائوں اور رب کی عطائوں سے ایمان تازہ کریں رب تعالیٰ کسی کو خالی دامن نہیں لوٹاتا۔ لال با با، کالے بابا، ہرے بابا کے چکر سے بچیں۔

ماں باپ پر بھی اولاد کے حقوق ہیں: 

     جس طرح والدین کے حقوق ،عزت اور احترام قر آن و حدیث میں وارد ہیں،اسی طرح اولاد کے حقوق بھی بہت ہیں،

ماں باپ صرف اپنے حقوق جانتے ہیں،اولاد کے حقوق بھی جاننا چاہیے؟۔ مذہب اسلام میں عبادت کے ساتھ ساتھ تر بیت اولاد بھی لازمی فریضہ ہے،جس کے جوابدہ والدین قرار دیئے گئے ہیں ،یومِ قیامت اولاد کے بارے میں ماں باپ سے پوچھا جائے گا۔ (1)بچہ پیدا ہونے کے بعد کان میںاذان دی جائے (2)بچہ بولنے لگے تو اللہ بولنا سکھایا جائے(3 )اللہ و رسول کی محبت دل میں ڈالو(4) اُن کو ادب سکھاؤ (5)حدیث پاک میں ہے ماں باپ پر اولاد کے تین حقوق ہیں(1) پیدائش کے بعد عمدہ نام رکھیں(2) جب سمجھ آجائے تو قر آن پڑھائیں(3) بالغ ہو جائے تو شادی کر دیں،وغیرہ وغیرہ۔اولاد کے حقوق پر اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان نے جو کتاب لکھی ہے80 حقوق لڑکوں کے اور لڑکیوں کے66 حقوق لکھے ہیں اور قر آن و احادیث سے بہت سی باتیں لکھیں ہیں کتاب کا مطالعہ ضرور فر مائیں۔( والدین پر اولاد کے حقوق از امام احمد رضا خان، کشف القلوب ج2:ص394

«
»

ویلما روڈولف: ایک معذور لڑکی جس نے تاریخ رقم کی!

2020: پوچھ اپنی تیغ ابرو سے ہماری سرگزشت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے