تحریر :جاوید اختر بھارتی ہر انسان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی حیثیت کو پہچانے کب کہاں کس سے کس انداز سے ملنا ہے کیسے بات کرنا ہے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے اگر انسان کسی منصب پر فائز ہے تو اس پر منصب کے وقار کو گرنے سے بچانے کی بھی ذمہ […]
ہر انسان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی حیثیت کو پہچانے کب کہاں کس سے کس انداز سے ملنا ہے کیسے بات کرنا ہے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے اگر انسان کسی منصب پر فائز ہے تو اس پر منصب کے وقار کو گرنے سے بچانے کی بھی ذمہ داری ہے اور اپنے وقار کو بھی بچانے کی ذمہ داری ہے اس لیے کہ گفتگو سے صلاحیت کا بھی پتہ چلتا ہے، تہذیب و تمدن کا بھی پتہ چلتا ہے، ذہنیت، مزاج اور نظریات کابھی پتہ چلتا ہے موجودہ وقت میں پورا ملک سراپا احتجاج ہے شہریت تر میمی قانون کے خلاف چہار جانب صدائے احتجاج بلند ہے خود دارالحکومت دہلی کے علاقہ شاہین باغ میں تقریباً ڈیڑھ ماہ سے خواتین دھرنا دیرہی ہیں مظاہرہ کررہی ہیں جہاں پر بڑے بڑے دانشوروں کی بھی آمد ہوتی ہے اور انکی حمایت حاصل ہوتی ہے وہ خواتین کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے یہاں تک کہتے ہیں کہ ہندوستانی بیٹیوں بہنوں پر ہمیں فخر ہے ہم انکی ہمت و جرأت کو سلام کرتے ہیں کیونکہ وہ خواتین دستور ہند کو بچانے کیلئے سردیوں میں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو گود میں لیکر عزم مصمم کے ساتھ چٹان بنی ہوئی ہیں اور یہ پیغام دیر ہی ہیں کہ ہمارے اباؤ اجداد نے قربانیاں دیکر ملک کو انگریزوں کے چنگل سے آزاد کرایا اس کے بعد عظیم الشان آئین مرتب کیا اور اس آئین نے ہر ذات برادری کے ساتھ ساتھ سبھی مذاہب کا احترام کیا مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ کوئی بھید بھاؤ نہیں کیا اور یہی سیکولر ازم کہلاتا ہے اور اسی کو جمہوریت کہا جاتا ہے لیکن آج بی جے پی حکومت اس عظیم الشان و عالیشان دستور کی شبیہ کو بگاڑ رہی ہے مذہب کی بنیاد پر شہریت قانون بناکر جمہوریت کو دفنا رہی ہے اس لیے جمہوریت کو بچانا ضروری ہے ہمیں سردیوں کی پرواہ نہیں، ہمیں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کی تکلیفوں کی پرواہ نہیں ہمیں پرواہ وطن عزیز کی ہے ہمیں پرواہ گاندھی جی کے نظریات کی ہے ہمیں پرواہ ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی ہے ہمیں پرواہ قومی اتحاد کی ہے ہمیں پرواہ ملک کی سلامتی اور بھائی چارے کی ہے اور ملک کی اصل تصویر کو بچانے کیلئے ہمیں ہر تکلیف برداشت ہے یقیناً شاہین باغ کی خواتین کا جذبہ سچا ہے انکے ارادے اچھے ہیں اور اسی وجہ سے شہر شہر شاہین باغ بنتا جا رہا ہے شاہین باغ کی طرح پورے ملک سے آئین و جمہوریت بچانے کی آواز اٹھ رہی ہے ملک کے کسی بھی حصے میں کسی بھی علاقے میں شہریت تر میمی قانون کے خلاف جلسہ جلوس دھرنا مظاہرہ ہوتا ہے تو وہاں شاہین باغ کا تذکرہ ضرور ہوتا ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ کچھ لوگ بڑے بڑے عہدے پر فائز رہتے ہوئے بھی ایسی نازیبا باتیں کر رہے ہیں جس سے ان کا بھی وقار گرتا ہے اور انکے عہدے کا بھی وقار مجروح ہوتا ہے اور وہ ملک کے مختلف علاقوں میں جاکر مذکورہ قانون کے بارے میں سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ اس قانون سے کسی کو کسی طرح کا کوئی نقصان نہیں پہنچے گا لیکن ان کا دل اگر صاف ہے نیت درست ہے ملک کی عوام سے سچی ہمدردی ہے تو سب سے پہلے انہیں ان مقامات پر جانا چاہیے جہاں لوگ مظاہرہ کر رہے ہیں اور مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے اپنی بات کہنا چاہئے دہلی کے مختلف علاقوں میں جاکر شہریت تر میمی قانون کی حمایت میں ریلی نکالنے کے لئے زور دیا جاتا ہے اور اسی دہلی کے شاہین باغ میں مظاہرین سے نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے، لکھنئو میں آکر سی اے اے واپس نہ لینے کا مغرورانہ انداز میں اعلان کیا جاتا ہے اور لکھنئو کے ہی گھنٹہ گھر علاقے میں مظاہرین کے خلاف مقدمہ درج کرایا جاتا ہے جبکہ مظاہرین کے درمیان جانے کی ضرورت ہے لیکن مظاہرین کے درمیان نہ جاکر اقتدار کے نشے میں چور ہوکر مظاہرین پر الزامات لگانے سے بھی باز نہیں آتے غرور آج تک نہ کسی کا چلا ہے نہ چلے گا سوچنے کی بات ہے غور کرنے کی بات ہے کہ ہم بیرون ملک جاتے ہیں محنت مزدوری کرنے کے لیے تو ہمارا پاسپورٹ دیکھا جاتا ہے دنیا کے کسی بھی ملک میں جائیں تو پاسپورٹ دیکھتے ہی کہا جاتا ہے کہ تم ہندوستانی ہو اور ہمارے ملک میں اس پاسپورٹ کی بھی اس قانون کے اعتبار سے اہمیت نہیں رہی کہا جاتا ہے کہ تمہیں شہریت کا ثبوت دینا پڑے گا ہم سے ووٹ بھی مانگا جاتا ہے اور شہریت کا ثبوت بھی دینا پڑے گا ، ہر مہینے ہمارا فنگر بھی لیا جاتا ہے اور شہریت کا ثبوت بھی دینا پڑے گا، ہر مہینے سرکاری سستے غلے کی دکان سے راشن بھی دیا جاتا ہے پھر بھی شہریت کا ثبوت دینا پڑے گا، شناختی کارڈ ، آدھار کارڈ، پین کارڈ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی شہریت کا ثبوت دینا ہے جب ایسی بات ہے تو یہ سارے کارڈ کیوں بنائے گئے اس کا کیا مطلب یہ تو سارے کارڈ فضول ہو گئے بے مطلب ہوگئے جب اس طرح کے سوال کئے جاتے ہیں تو کوئی اطمینان بخش جواب نہیں دیا جاتا اور نہیں تو مظاہرے کو طاقت کے بل روکنے کی کوشش کی جاتی ہے آوازیں سننے کے بجائے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے اور طرح طرح کی دھمکیاں دی جاتی ہیں بالکل تاناشاہی والا انداز اختیار کیا جارہا ہے بدلہ لینے کی بات کہی جاتی ہے اور گھوم پھر کر مسلمانوں کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ارے نادان توآنکھیں کھول مغرور نہ ہوکر بول مسلمانوں کی حب الوطنی اور شہریت کی گواہی کا اعلان لال قلعہ پر لہرتا ہوا ترنگا پرچم بھی کررہا ہے، قطب مینار بھی مسلمانوں کی حب الوطنی اور شہریت کا ثبوت پیش کررہا ہے، جامع مسجد کی سیڑھیوں اور درو دیوار سے مسلمانوں کی حب الوطنی اور شہریت کا ثبوت مل رہا ہے، تاج محل کی رونق سے مسلمانوں کی حب الوطنی اور شہریت کا ثبوت مل رہا ہے یہ سب دیکھنے کے لیے آنکھوں سے تعصب کی عینک اتارنا ہوگا سیکولر ازم کی چادر اوڑھنا ہوگا دستور ہند پر یقین کرنا ہوگا تب تمہیں معلوم ہوگا کہ ہندوستان کی مٹی سے تیمم کیا ہے مسلمانوں نے، گنگا جمنا کے پانی سے وضو کیا ہے مسلمانوں نے یہیں تک محدود نہیں بلکہ مرنے کے بعد بھی غسل کرکے نئے کپڑے پہن کر مسلمان اسی ملک کی مٹی میں دفن ہوتا ہے –
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کامتفق ہونا ضروری نہیں۔ 28/ جنوری 2020
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں