از۔عبدالنور عبدالباری فکردے ندوی حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا :جب تم کسی مریض کے پاس جاؤ تو اس کی عمر کے بارے میں اس کے دل کو خوش کرو، اس لئے کہ اس طرح کی باتیں کسی طئے شدہ چیز کو روک نہ سکیں گی (جو ہونے […]
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا :جب تم کسی مریض کے پاس جاؤ تو اس کی عمر کے بارے میں اس کے دل کو خوش کرو، اس لئے کہ اس طرح کی باتیں کسی طئے شدہ چیز کو روک نہ سکیں گی (جو ہونے والاہے وہی ہوگا)لیکن اس سے اس کا دل خوش ہوگا۔(ترمذی: 2087) اس حدیث میں رحمت دوعالم ﷺ اپنی امت کو ایک اہم بات کی تعلیم دے رہے ہیں کہ مریض کے دل کو خوش کرنا بھی ایک عبادت اور ثواب کا کام ہے،اور ہمارے نبیﷺ سے بڑھ کر کون حکیم اور لوگوں کی نفسیات سے واقف پیدا ہوا ہے،بلاشبہ عیادت ایک عظیم ترین عبادت ہے جب اس کے آداب وسنن کا خیا ل رکھا جائے، جن میں ایک اہم چیز یہ ہے کہ مریض کے پاس جانے کے بعد اس کی پیشانی یا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اس کی صحت دریافت کریں اور پھر اس کی عمر اور زندگی کے بارے میں خوش کن اور اطمینان بخش باتیں بیان کرے مثلا یہ کہ تمہاری حالت بہتر معلوم ہورہی ہے،ان شاء اللہ تم جلد ہی صحت مند ہوجاؤ گے، خود آپﷺ کا دستور اور معمول بھی یہ تھا کہ جب آپ کسی کی عیادت کے لئے تشریف لے جاتے تو مریض سے ایسی باتیں کرتے جس سے اس کو تسلی اور اس کا آدھا غم دور ہوجائے، مزید آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ مریض کو اطمینان دلانے سے کوئی طے شدہ چیز نہ رکے گی،جو ہو ہونے والا ہے وہ ہوکر ہی رہے گا، موت اپنے وقت پر ہی آئے گی، نہ ایک لمحہ پہلے اور نہ ایک لمحہ بعد،لیکن جب مریض اپنے بارے میں اطمینان بخش باتیں سنے گا تو خود بخود اس کی آدھی بیماری ٹھیک ہوجائے گی، اور اگر بیماری میں کمی نہ بھی آئے تو وہ اطمینان وسکون کے ساتھ اپنی بقیہ زندگی گذارسکے گا،یہ ایک نفسیاتی چیز ہوتی ہے،جس کا عملی نمونہ اسلام کے سنہرے دور میں انسانیت نے دیکھا جب خلافت عباسیہ کے زمانے میں دوا خانوں میں چند ایسے لوگ مقرر ہوتے تھے جن کا کام ہی مریضون کو ہنسانا اور خوش کرنا ہوتا تھا،وہ دن بھر مختلف مریضوں سے دل لگی اور تفریح کی باتیں کرتے جس سے مریض اکتا ہٹ کا بھی شکار نہ ہوتا اور اس کے دل کو عجیب اطمینان وسکون محسوس ہوتا،لیکن افسوس ہمارے معاشرے میں بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو ان آداب وسنن سے ناواقف ہوتے ہیں، اس سلسلے میں ایک صاحب نے خود اپنا تجربہ بیان کیا کہ ان کا کوئی عزیز سخت جان لیوا مرض کا شکا رہوا، تو فورا ان ہی کے ایک قریبی رشتہ دار نے ان کو تفصیل سے اس بیماری کے بارے میں بتا تے ہوئے بیماری کے خوفناک انجام سے ڈرایا، جس کو سننے کے بعد ان صاحب کی طبیعت مسلسل گرنے لگی،بلکہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی اور موت تک اس گھبراہٹ اور خوف نے ان کا پیچھا نہیں چھڑایا،ایسے ہی موقع پر کسی کہنے والے نے کہا ہے کہ نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے،جب بیمار کو ڈرایا جائے گا وہ پھر تو وہ موت سے پہلے اپنی زندگی میں مرجائے گا اور گھٹ گھٹ کر اپنی زندگی کو اجیرن کردے گا، اس سلسلے میں ڈاکڑوں کو بھی اسوہ نبویﷺ کو سامنے رکھتے ہوئے انسانیت کی خدمت کے جذبہ کے ساتھ اپنا بہترین کردار ادا کرنا چاہیے۔ جس سے مریض کو ہسپتا لوں میں بھی اطمینان نصیب ہو اور ڈاکڑ حضرات عند اللہ اجر عظیم کے مستحق قرار پائیں۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں