نبی رحمت کی ازدواجی زندگی پرخطر معاشرہ میں امید کی کرن

از قلم:مفتی احمد عبید اللہ یاسر قاسمی

سیرت طیبہ تمام شعبہائے زندگی کے لیے مشعلِ راہ

خالق کائنات نے بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے آپ علیہ السلام کو نبوت سے سرفراز فرماکر مبعوث فرمایا، آپ کی سیرت طیبہ تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کے لیے مشعل راہ ہے اور آپ کی مثالیت زندگی کے تمام شعبوں میں ہے، آپ ﷺ دنیا کے کامل ترین انسان،اعلیٰ حکمران، بہترین سپہ سالار، قاضی، تاجر، اور ساتھ ہی ساتھ کامل شوہر بھی تھے، بحیثیت شوہر آپﷺ کی زندگی پہ نظر دوڑائیں تو عمدہ آبگینوں سے مزین ہے جو کہ موجودہ زمانے میں تمام خاوندوں اور شوہروں کے لیے قابلِ نمونہ اور لاثانی طرزِ عمل ہے
حیات انسانی کا خاصہ
انسانی فطرت کا خاصہ ہے کہ وہ ایسے ہم مزاج اور ہم مذاق کی جستجو کرتی ہے، جو ایک طرف اس کی زندگی کی محفل کو سنوارے تو وہیں خوشی کی بزم اور مزاج و مذاق کی انجمن کو آراستہ کرے، بلکہ زندگی کی اس جنگ میں مصائب کی شدت اور تکالیف کی سختی کو برداشت کرنے میں ساتھ دے ، روٹھی ہوئی مسکراہٹ کو بحال اور رنج کے اشکوں کو مٹائے، جو اس کے درد کا درماں اور اس کے دکھ کا مداوا بننے کی صلاحیت رکھے تو اسکے لئے خلاق عالم نے مرد کی زندگی میں عورت کو باعثِ تسکین اور لائقِ قرار بنایا تو وہیں شریک حیات کو کیف و سرور اور راحت و شادمانی کا ذریعہ بھی بنایا قرآن مجید نے اپنی بلیغ پیرائے میں اس کو اس طرح بیان کیا ہے: ھُنَّ لِبَاسٌ لَکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَہُنّّْ(البقرۃ: ۱۸۷ ) ’’وہ تمہارے لئے لباس اور تم ان کے لئے لباس ہو‘‘

نبی رحمت کی گھریلو زندگی کی ایک جھلک
سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کی خارجی زندگی جس طرح شاندار ہے اِس سے کہیں زیادہ آپ کی گھریلو اور معاشرتی زندگی انتہائی پاکیزہ اور قابلِ تقلید ہے موجودہ دور میں دیکھا گیا ہے لوگ گھر کے باہر بڑی عزت کے حامل ہوتے ہیں جبکہ اپنے اہل خانہ سے رابطہ درست نہیں ہوتا، ترشی،سخت مزاجی سے اہلِ خانہ پریشان رہتے ہیں اور ایسے افراد سے گھریلو ماحول تباہ و برباد ہوجاتا ہے لیکن تاجدارِ انبیاء علیہ السلام کی گھریلو زندگی ایسی پاکیزہ کہ دعویٰ نبوت کے بعد سب سے پہلے تصدیق کرنے والی شخصیت اگر کوئی تھی تو وہ آپ کی رفیقہ حیات حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا تھی، یہ دیکھ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ازدواجی زندگی میں آپ علیہ السلام کا کردار نہایت پاکیزہ اور عمدہ تھا خود پیغمبر علیہ السلام کا ارشاد عالی ہے:''تم میں سب سے اچھا شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کی نظر میں اچھا ہو اور میں اپنے گھر والوں کی نظر میں سب سے اچھا ہوں ''۔ (مجمع الزوائد ٤/٣٠٣)

نبی رحمت کی ازواج مطہرات کے ساتھ خاطر داری

دوسرے خاندان، دوسرے محلہ اور دوسرے افراد کی تربیت میں پلی بڑھی ایک عورت نکاح کے ایک ایسےاجنبی ماحول میں آجاتی ہے، جہاں ہر چیز نامانوس اور ہر چہرہ نیا ہوتا ہے ، از سر نو زندگی کا آغاز ہوتا ہے، ساتھ ہی ساتھ  اعزاء و اقرباء کی یاد بھی تروتازہ رہتی ہے، ایسے وقت میں دلداری اور خاطر داری کی سخت ضرورت ہوتی ہے، چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے  شادی کے بعد اپنے گھر کے ماحول سے مانوس کرنے کے لئے ان کی دل جوئی کے ساتھ انکی خاطر داری و محبت کی مثال قائم کرکے پوری انسانیت کو ایک بہترین اسوہ عطا کیا چنانچہ حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہاخود فرماتی ہیں:کنت العب بالبنات عندالنبی، وکان لی صواحب یلعبن معی، فکان رسول اللّٰہِ اذا دخل یتقمّعن منہ، فیسرّبھن الیّ، فیلعبن معی’’میں آپ اکے یہاں گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی اور میرے ساتھ میری سہیلیاں بھی ہوتی تھیں، جب رسول اللہ گھر میں داخل ہوتے، تو وہ شرماتیں اور پردہ میں داخل ہوجاتیں، آپ انہیں میرے پاس بھیج دیتے تو وہ میرے ساتھ کھیلتیں‘‘(بخاری، باب الانبساط الی الناس، حدیث نمبر:۶۱۳۰، مسند احمد، حدیث نمبر: ۲۵۹۶۸، صحیح ابن حبان، باب اللعب واللھو، حدیث نمبر:۵۸۶۳)اور ایک جگہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:کہ رسول اللہ میرے دروازے پر کھڑے تھے اور حبشہ کے لوگ نیزہ بازی کررہے تھے، آپ انے اپنی چادر میں مجھے چھپالیا؛تا کہ میں آپ کے کانوں اور گردن کے درمیان سے ان کا کھیل دیکھ سکوں، آپ امیری وجہ سے کھڑے رہے ؛یہاں تک کہ میں خود لوٹ آئی۔(مسند احمد،حدیث نمبر:۲۵۳۳۳، مصنف ابن عبدالرزاق، باب اللعب، حدیث نمبر:۱۹۷۲۱) لیکن جب ہم اپنے ماحول پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو دلجوئی اور خاطرداری تو کجا؟ سسرال میں ماحول سے مناسبت کا لحاظ کئے بغیر طعنے کسے جاتے ہیں،غربت و مفلسی، اور والدین کو برا بھلا کہا جاتا ہے، اس سلسلے میں ہمارا معاشرہ اسلامی تعلیمات سے یکسر مختلف ہوچکا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ زوجین تعلیمات نبوی کے دائرے میں زندگی گزارنے کی کوشش کریں جس سے معاملات کافی بہتر ہوسکتے ہیں

نان و نفقہ کی ادائیگی میں نبی رحمت کا طرزِ عمل

ازدواجی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد اپنی شریک حیات کا نان و نفقہ مرد پر شریعت نے لازم کیا ہے،لیکن جب ہم اپنا جائزہ لیتے ہیں توبہت سارے افرادایسے نظر آئیں گے،جن کی شریک حیات میکہ سے خرچ منگا کر گذارا کرتی ہیں،افسوس دیکھنے میں یہ بھی آیا کہ گھر کا خرچہ بلکہ مرد کا ذاتی خرچہ بھی میکہ سے لیا جاتا ہے، منع کرنے کی صورت میں طلاق کی دھمکی دی جاتی ہے،جس کے نتیجے میں ایسی مظلوم عورتیں ذہنی دباؤ کی الجھن میں شکار ہوکر خودکشی اور غلط کاری جیسے جرائم پر مجبور ہوجاتی ہیں، جبکہ نبی کریم علیہ السلام سے ثابت ہے کہ اپنی ازواج مطہرات کا نفقہ قبل ازوقت دے دیا کرتے تھے، ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :کہ بنونضیرسے جومالِ غنیمت آتا، وہ آپ کے لئے خاص تھااورآپ اس مال سے اپنی ازواج پر مکمل سال خرچ کیا کرتے تھے۔(مسلم، باب حکم الفیٔ، حدیث نمبر:۱۷۵۷) کاش!! ایسے افراد ذرا تعلیمات نبوی پر غور کرتے، کاش اسوہ حسنہ سے آراستہ ہوتے، کاش اسلام کی پاکیزہ تعلیمات سے بہرہ ور ہوتے

نبی رحمت کا ازواج مطہرات کے مابین عدل

مسلم معاشرہ کا اگر جائزہ لیا جائے تو روز افزوں انحطاط کا شکار ہے جس میں بہت سے ایسے افراد ہیں، جو حق زوجیت میں ناکام اور عدل و انصاف کے معیار سے کوسوں دور ہیں، معاشرہ ماں باپ اور بیوی کے درمیان عدل کا فقدان بہت تیزی سے بڑھتا جارہا ہے، ایک طرف اولاد والدین کو وہ رتبہ عطا کرتی ہے کہ بیوی اور شریک حیات کی حیثیت ایک لونڈی سے زیادہ نہیں سمجھتے،تو وہیں دوسری طرف اولاد ہی زن مریدی کی ایک ایسی مثال بھی قائم کرتی ہے کہ بیوی کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے اور صداقت کا سارا معیار بیوی کو سونپ کر والدین کو مجرم بنایا جاتا ہے،بے حرمتی کے ساتھ گھر سے بے گھر کیاجاتا ہے، دونوں جانب غلطی ہوتی ہے اور جو مرد ایک سے زائد بیویاں رکھتے ہیں تو وہ بھی ان کے درمیان عدل کا معاملہ نہیں کرتے، رہائش آور آسائش میں، کپڑے اور کھانے میں، باری اور حقوق کی ادائیگی میں عدم توازن اور عدل کی کمی موجودہ زمانے کا خطرناک المیہ بن چکا ہے جو مغربی تہذیب سے مرعوبیت اور محبت کا ایک بڑا خمیازہ ہے، کاش!! ایسے لوگ آپ کے عمل سے سبق لیتے اور آپ اکے اس فرامین پر توجہ دیتے، عدل کے معیار کو قائم کرتے، خود آپ علیہ السلام کی نو بیویاں تھیں؛ لیکن کسی کو یہ شکایت کبھی نہیں ہوئی کہ آپ ہمارے درمیان عدل نہیں کرتے،ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: کان رسول اللّٰہ لا یفضل بعضنا علی بعض فی القسم من مکثہ عندنا۔’رسو ل اللہ ہمارے پاس ٹھہرنے کی تقسیم میں کسی کو کسی پر ترجیح نہیں دیتے تھے‘‘(ابوداؤد، باب فی القسم بین النساء،حدیث نمبر:۲۱۳۷)
حتی کہ ایک بیوی کی باری میں دوسری بیوی سے مس تک گوارا نہیں فرماتے، آپ کا یہ عدل ان چیزوں(باری، کھانا، کپڑا، رہائش، حقوق کی ادائیگی وغیرہ)میں تھا جسکی آپ قدرت رکھتے تھے، غیر مقدور چیزوں کے سلسلہ میں آپ خود دعاء فرماتے تھے:اللّٰھم ھذا قسمی فیما املک، فلا تلمنی فیما تملک ولا املک۔’’اے اللہ اس چیز میں یہ میری تقسیم ہے، جس پر میں قدرت رکھتا ہوں ، آپ اس چیز پر میری ملامت نہ کیجئے، جس پر آپ قدرت رکھتے ہیں ، میں نہیں ‘‘۔
(السنن الکبری للبیھقی، باب ماجاء فی قول اللہ عزوجل :ولن تستطیعواأن تعدلو ابین النساء …، حدیث نمبر:۱۵۱۴۲)
بیویوں کے درمیان عدل نہ کرنے کی صورت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سخت وعید و تہدید وارد ہوئی ہے آپ کا فرمان عالی ہے: من کانت لہ امرأتان،فمال الی أحدھما، جاء یوم القیامۃ، وشقہ مائل
’’جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے ایک کی طرف جھک جائے تو وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کا ایک پہلوگرا ہوا ہوگا‘‘۔
۔(سنن الدارمی، باب فی العدل بین النساء، حدیث نمبر:۲۲۰۶)

 

نبی رحمت اور عورت کی رائے کا احترام
نبی کریم علیہ السلام نے عورت کی رائے کو بہت اہمیت دی ہے اور وقتا فوقتاً موقع کی نزاکت سے عورت کی رائے کا احترام نبی کریم علیہ السلام سے ثابت ہے اور اہم امور پر اپنی ازواج مطہرات سے تبادلہ خیال اور مشورہ کا ذکر احادیث مبارکہ میں پایا جاتا ہے، صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ علیہ السلام کے ارشاد کے باوجود بھی صحابہ رضی اللہ عنہم نےحلق نہیں کرایا تو حضرت امِ سلمہ رضی اللہ عنہانے آپ علیہ السلام سے ارشاد فرمایا کہ آپ خود حلق فرمالیں اور ہدی کے جانور بھی اللہ کی راہ میں قربان کردیں، تاجدارِ مدینہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ام سلمہ کی رائے کو اہمیت دی اس پر عمل کیا، جب صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم آپ کو حلق کراتے ہوئے اور ہدی کے جانور اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہوئے دیکھا تو صحابہ نے بھی بلا چوں و چراں حلق کرالیا اور اپنے ہدی کے جانور ذبح کئے(بخاری، باب الشروط فی الجھاد، حدیث نمبر:۲۷۳۲)
ہمیں اپنا گریبان جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ کیا ہم اپنی اہلیہ اور زوجہ کی کسی بات کو اہم سمجھتے ہیں؟ کیا ان کی رائے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں؟ اگر غور کیا جائے تو ہماری روش طرزِ نبوت سے مختلف اور ہمارے افعال نبی علیہ السلام کے افعال سے جدا گانہ ہیں، آپ علیہ السلام کا طرزِ عمل ہمیں دعوت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اسلامی عدل و انصاف کو ملحوظ رکھ کر ہمیں فیصلہ کرنا چاہیے،عورت کی بات کو ماننے میں عار محسوس نہیں کرنا چاہیے یہی نبی رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کا طرزِ عمل رہا ہے اور اسی میں ہی دنیا و آخرت کی فوز و فلاح ممکن ہے

جاری – – – – – – – – – 

«
»

کورونا وائرس،لاک ڈاؤن حکومت اور غریب عوام

ہندو اقوام پر مسلمانوں کے احسانات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے