نعت کہنے کو خون جگر چاہیے

(مولانا سمعان صاحب کی کہی ہوئی نعت سے متاثر ہوکر)

     عبداللہ غازی ندوی
  (مدیر ماہ نامہ ”پھول“ بھٹکل)

عشق و محبت کے جذبات میں ڈوبی، محبوب دوعالم  کی لخت جگر اور فخربنات طاہرات سیدہ فاطمة الزہراء کی شان  میں سیدی مولانا سمعان خلیفہ ندوی کے قلم گوہر رقم سے نکلی منقبت سے محظوظ ہوہی رہے تھے اور ہمدم شیر خدا اور نان جویں پر زندگی بسر کرنے والی خدیجة الکبری کی نور نظر کی حیات تابندہ  کے کئی قابل رشک پہلو منقبت میں پڑھ ہی رہے تھے کہ مولانا محترم کے اشہب قلم نے پھر جولانی دکھائی۔آج مولانا کے گہر بار قلم سے نکلی ایک نئی تخلیق (نعت پاکؐ)نظر نواز ہوئی۔خوب سے خوب تر کلام اور ایک ایک شعر بلکہ ایک ایک مصرعہ جذبۂ عشق و محبت کا شعلۂ جوالہ ۔
بار بار اس نعت کو پڑھ رہا ہوں اور ہر بار ایک نیا لطف محسوس کررہا ہوں۔کلام میں فصاحت و بلاغت کی جوئے رواں۔لیکن اس سے کہیں بڑھ کر محبت بھرے جذبات اور دل سے نکلے احساسات اہمیت رکھتے ہیں۔
کس کس شعر پر داد دیجیے!
نہ زبان کو سخن کا یارا نہ قلم کو جنبش کی تاب۔ گویا اس نعت کے ہر ہر شعر اور ہر ہر مصرعے کو لعل و گہر سے جوڑا گیا ہے اور باغِ بہشت کے پھولوں سے سنوارا گیا ہے۔
مطلع ہی دیکھیے کس شان کا ہے:

اے شمع ہدی روح چمن جانِ دوعالم
کرتا ہے ثنا خود تری سلطانِ دوعالم
اسی لیے تو
مہکا ہے ترےفیض سے دامانِ دوعالم

اور پھر 

تو باعث تزئینِ گلستان دوعالم

نعت گوئی ہر ایک کے بس کا روگ نہیں ہے،فطرت مرحوم کی زبانی یہ پُل صراط کا سفر ہے۔
نعت گوئی کے ساتھ ساتھ نعت فہمی بھی بڑی ذمہ داری کا کام ہے۔ خصوصا استعارات کو سمجھنا اور ظاہری الفاظ کو نگاہِ بصیرت سے دیکھنا نعت فہمی میں حددرجہ ضروری ہے۔
اقبال عظیم کی زبانی:
آنکھ کافی نہیں چشم تر چاہیے
اور یہ کہ:
شرط یہ ہے کہ ظرفِ نظر چاہیے،دیکھنے کو کوئی دیدہ ور چاہیے

 اور ان ہی استعارات میں شعری ذوق کی تسکین کا سامان ہوتا ہے۔

ملاحظہ فرمائیں!
کیوں دور ہے امت تری منزل کے نشاں سے
کچھ تو ہی بتا خاصۂ خاصانِ دوعالم
اس شعر پر عجیب کیفیت بنی، بے ساختہ حالی مرحوم یاد آگئے اور وہ طویل نظم زبان پر جاری ہوئی جو حالی مرحوم نے ملت کے حالات و واقعات کے تناظر میں سرور کونین کی بارگاہ اقدس میں پیش کی تھی۔

دربار میں سمعانؔ بھی پائے جو رسائی
قسمت سے بنے کیوں نہ وہ حسانِؔ دو عالم
اس شعر پر مظفر وارثی کی کہی ہوئی نعت کا مقطع یاد آیا جس میں انھوں نے گزشتہ صدی میں حضرت حسان بن ثابتؓ کی طرح نعت گوئی کی تمنا کی تھی۔
مظفر وارثی نے کہا تھا کہ

آج کا حسان بن ثابت مظفر وارثی
ملکِ حمد و نعت میں بے تاج سلطانی کرے

آج اسی کی ترجمانی مولاناسمعان صاحب نے اپنے مقطع میں کی اور آنے والے دور کی ایک دھندلی سی تصویر دکھائی کہ ان شاءاللہ وہ بھی حضرت حسان بن ثابتؓ کی اس وراثت کے صحیح حامل بن کر نعت نبیؐ کا علم بلند کریں گے بلکہ شرک اور غلو سے پاک نعتوں سے سیرت نبوی اور تعلیمات نبوی کا پرچار کریں گے۔

لاک ڈاٶن میں نعتوں کا تسلسل اور نعت نبیؐ کے نہ رکنے والے سلسلے پھر مولانا کی نگرانی میں درود پاک کے نذرانوں سے امید ہے کہ دربارسیدکونینؐ میں حاضری اور بار بار حاضری کی توفیق بہت جلد ہوگی اور یہ بھی امید کرتے ہیں کہ ان کی برکتوں سے ہم خاک نشینوں کی بھی قسمت کھل جائے گی اور درِمصطفیؐ پر باریابی کے مواقع ہزار بارملتےرہیں گے۔
اللہ وہ دن جلد لائے۔آمین!

 

 

نعت ملاحظہ فرمائیں 

 

 

اے شمعِ ہدیٰ
نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم
بقلم: محمد سمعان خلیفہ ندوی۔ بھٹکل انڈیا

اے شمعِ ہدیٰ روحِ چمن جانِ دو عالم
کرتا ہے ثنا خود تری سلطانِ دو عالم

آمد ہے تری ابرِ کرم بادِ بَہارِی
مہکا ہے ترے فیض سے دامانِ دو عالم

واللیل کی زلفوں سے ہیں رحمت کی گھٹائیں
والنجم سے تنویرِ شَبِستانِ دو عالم

مدّثر وطٰہٰ سے تری شان ہے ظاہر
تُو باعثِ تزیینِ گلستانِ دو عالم

تیری ہی عطا ہے ہمیں تہذیب کی سوغات
 تاریک ہیں بِن تیرے دبستانِ دو عالم

کیوں دور ہے امت تری منزل کے نشاں سے
 کچھ تو ہی بتا خاصۂ خاصانِ دو عالم!

اے ساقیِ کوثر ترے قدموں پہ تصدق
یہ ساغر و خُم یہ سَر و سامانِ دو عالم

ہم کو جو ملا اُن کی غلامی کی بدولت
پاتے ہیں کہاں اس کو اسیرانِ دو عالم

دربار میں سمعانؔ بھی پائے جو رسائی
قسمت سے بنے کیوں نہ وہ حسّانِ دو عالم

«
»

عید کے دن نماز جمعہ کا حکم احادیث کی روشنی میں

اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے