نور اللہ جاوید، کولکاتا اپوزیشن جماعتوں کو خوف، جارحیت اور تشدد کا متحدہ طور پر مقابلہ کرنے کی ضرورتاقلیتوں پر مظالم کے خلاف لب کشائی کے بغیر نفرت کی سیاست کا مقابلہ ممکن نہیں اب تک بی جے پی اور سنگھ پریوار مخالفین کے ہندوازم اور قوم پرستی پر سوال اٹھاتے تھے لیکن لوک سبھا […]
اپوزیشن جماعتوں کو خوف، جارحیت اور تشدد کا متحدہ طور پر مقابلہ کرنے کی ضرورت اقلیتوں پر مظالم کے خلاف لب کشائی کے بغیر نفرت کی سیاست کا مقابلہ ممکن نہیں
اب تک بی جے پی اور سنگھ پریوار مخالفین کے ہندوازم اور قوم پرستی پر سوال اٹھاتے تھے لیکن لوک سبھا میں راہل گاندھی کی تقریر کے بعد بی جے پی کی مذہب پرستی اور قوم پرستی سوالوں کی زد میں ہے۔ لوک سبھا انتخابات 2024 کے نتائج کو ایک ماہ مکمل ہوگیا ہے۔ سیاسی مطلع صاف ہوچکا اور سیاسی جماعتوں کی مصروفیات معمول پر لوٹ آئی ہیں۔ لیکن ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ سیاسی جماعتیں بالخصوص حکم راں طبقہ نوشتہ دیوار کو پڑھنے میں ناکام ثابت ہو رہا ہے۔18ویں لوک سبھا کے پہلے ہنگامہ خیز سیشن کی تقاریر اور حکم راں جماعت کے رد عمل نے مایوسی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ افہام و تفہیم، گفت و شنید، حکم راں جماعت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان توازن ختم ہو چکا ہے۔ ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ بھارت کی جمہوریت ایک بند گلی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر اس مایوسی کی وجہ کیا ہے؟ انتخابات کے نتائج آنے کے بعد یہ امید کی جا رہی تھی کہ خوف، مذہبی جارحیت اور نفرت کی سیاست کے سایے چھٹ جائیں گے مگر ایک مہینے کے بعد صورت حال یہ ہے کہ یہ سایے چھٹنے کے بجائے مزید گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ سیاسی طور پر مضبوط اور اقتدار پر گرفت رکھنے کا تاثر دینے کے لیے بی جے پی نے ایک بار پھر خوف کی سیاست کی راہ اختیار کرلی ہے۔ چناں چہ گزشتہ ایک مہینے میں ملک کے مختلف علاقوں سے تشدد کے واقعات کی خبریں تسلسل کے ساتھ آ رہی ہیں۔ مسلمانوں اور عیسائیوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ اتر پردیش، جھارکھنڈ، بہار،بنگال، اڈیشہ اور دیگر علاقوں میں تشدد کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر خوف کی سیاست میں شدت لانے کے پیچھے سنگھ پریوار اور بی جے پی کی حکمت عملی کیا ہے اور کیا مسلمان اور دوسری اقلیتیں نفرت کے سامنے خود سپردگی اختیار کرلیں گی؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ مسلمانوں اور اقلیتوں پر جاری تشدد کے خلاف اپوزیشن لیڈروں نے اس طاقت سے آواز بلند نہیں کی ہے جس کی ان سے امید تھی۔ اپوزیشن جماعتوں کو اس پر غور کرنا ہوگا۔ 4 جون کا پیغام تھا کہ اکثریت کی سیاست کا آئینی اقدار کے تناظر میں تجزیہ کیا جائے۔ کیوں کہ مودی جو چار سو پار کا خواب دیکھ رہے تھے وہ اپنے طور پر اکثریت بھی حاصل نہیں کر سکے۔ ہندتو کی پالیسی کے سہارے انتخاب جیتنے کی کوشش کی گئی تھی مگر ہندتو کا ایجنڈا انہیں بڑی کامیابی دلانے میں ناکام رہا۔دس برسوں تک ملک کی قیادت سنبھالنے کے باوجود اگر ملک کے سربراہ کے پاس اپنی کامیابیوں کی فہرست عوام کے سامنے پیش کرنے کے لیے نہ ہو اور وہ نفرت کی سیاست کے ذریعہ انتخاب جیتنے کی کوشش کرے تو اس سے بڑی ناکامی اور کچھ نہیں ہو سکتی ہے۔ ملک کے عوام کو توقع تھی کہ مودی دس برسوں تک اقتدار کا لطف لے چکے ہیں اس لیے وہ اب اپنی شبیہ ایک نئی سطح تک پہنچانے کی کوشش کریں گے اور وہ محبت، اخوت، مساوات اور رواداری کا پیغام دیں گے۔ انہوں نے دو مہینے پر مشتمل انتخابی مہم کے دوران سو سے زائد تقریریں کیں مگر ان کی تقریروں سے ویژن اور دوربینی غائب رہی اور دراندازی، مسلمان، مٹن، مچھلی، منگل سوتر، نہرو، جناح کے ارد گرد گھومتی رہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے کرکٹ جیسے کھیل کو بھی قوم پرستی کے سوال سے جوڑ دیا اور بھارت کی فتح پر جشن نہ منانے کو جرم قرار دیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ گجرات جو مودی کی آبائی ریاست ہے وہاں مقامی کرکٹ دیکھنے والے ایک مسلم نوجوان کی اس لیے لنچنگ کر دی گئی کہ وہ مسلمان تھا۔ٹیم انڈیا کے نوجوان کھلاڑی محمد سراج کی اس لیے ٹرولنگ کی گئی کہ اس نے ٹیم انڈیا کی کامیابی پر اسلامی انداز میں شکریہ ادا کیا تھا۔ مدھیہ پردیش میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے کہا تھا کہ کانگریس کرکٹ کا بھی مسلمانائزیشن کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ مذہب کی بنیاد پر کھلاڑیوں کا انتخاب کرتی ہے مگر عوام نے مودی کی اس نفرت انگیز مہم کو ناکام کر دیا۔ مودی جو اکیلے سب پر بھاری تھے انہیں اپنے ہی انتخابی حلقہ بنارس میں فتح کے لیے کئی راونڈ تک انتظار کرنا پڑا۔ جب کہ ان کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے گجرات کی پوری ٹیم بنارس کی گلیوں کی خاک چھان رہی تھی۔ انتخابی ضابطہ اخلاق و ضوابط کی دھجیاں اڑائی جارہی تھیں۔ بنارس کے صحافی بتاتے ہیں کہ اگر اپوزیشن کے امیدوار کو یکساں مواقع ملتے اور وہ کامیابی کے عزم کے ساتھ میدان میں اترتا تو نتیجہ مختلف ہو سکتا تھا۔ لوک سبھا انتخابات کے نتائج میں بی جے پی کو محض 40 سیٹوں کا ہی نقصان نہیں ہوا، ایک طرح سے دیکھا جائے تو یہ معمولی نقصان ہے کیوں کہ دس برسوں تک اقتدار میں رہنے کے بعد بھی محض 40 سیٹوں کا نقصان کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے اس کے باوجود اگر آج اپوزیشن جماعتوں کے حوصلے بلند ہیں تو اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی کو وہاں شکست ہوئی ہے جہاں مذہب کی سیاست کی بنیاد کھڑی کی گئی تھی جس کے سہارے چار سو سیٹیں جیتنے کا عزم دہرایا گیا تھا۔ لیکن وہیں کے ووٹروں نے اسے مسترد کر دیا۔ اس لیے بی جے پی کے اقتدار تک پہنچنے کے باوجود اس کے خیمے میں وہ جوش و خروش نہیں ہے جو ماضی میں نظر آتا تھا۔ ایک مہینہ گزر چکا ہے مگر ملک کی ترقی کا روڈمیپ پیش نہیں کیا جا سکا ہے جس سے متعلق وہ بہت ہی زور شور سے دعوے کرتے تھے کہ تیسری مرتبہ اقتدار کے لیے پہلے سو دنوں کا روڈ میپ تیار ہے مگر آج اس کی بات ہی نہیں ہو رہی ہے۔ انتخابی جھٹکے اور حلیف جماعتوں پر انحصار کی وجہ سے امید کی جارہی تھی کہ مودی حکومت میں اور خود اپنے رویے میں کئی تبدیلیاں لائیں گے اور ملک سے اکثریتی پسندی کی سیاست کا خاتمہ ہوجائے گا اور سیاست میں آئین کی اہمیت بڑھ جائے گی۔ مگر اب جو اشارے مل رہے ہیں اس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ اکثریت پسندی اور جارحانہ ہندتو کی پالیسی کو ترک نہیں کیا جائے گا۔ چناں چہ وزارت میں بڑی تبدیلی کے بجائے پرانے چہروں کو باقی رکھ کر یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے ہیں اور وہ وہی پرانی طاقت اور سوچ کے ساتھ اپنے اقتدار کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ آخرکار ملک کے عوام نے اپنی مرضی ظاہر کر دی کہ نفرت کی سیاست ملازمتوں، سستی خوراک، ایندھن اور صحت کی دیکھ بھال، اسکولوں اور منصفانہ امتحانات کے ساتھ محنت کش لوگوں کی روزمرہ کی زندگی کو بہتر بنانے میں کوئی صحیح رول ادا نہیں کرسکتی اس کے علاوہ مودی اکیلے حکومت نہیں بنا سکتے۔ انہوں نے ان جماعتوں کو ووٹ دیا جو ہندوستان کے مسلمانوں کو مساوی شہریت سے انکار کے سنگھی نظریے کی مخالفت کرتی تھیں۔ پارلیمنٹ کے پہلے سیشن میں صدر جمہوریہ کے خطاب پر تحریک شکریہ پر اپوزیشن جماعتوں نے جس اتحاد اور قوت کا مظاہرہ کیا وہ ایک دہائی بعد جمہوریت کے تحفظ و بقا کے لیے باد نسیم کے جھونکے سے کم نہیں تھا۔ مگر سوال صرف اپوزیشن کے جارحانہ رویے کا نہیں بلکہ خلاف معمول دونوں ایوانوں میں راہل گاندھی، ملکارجن کھرگے اور دیگر لیڈروں نے مذہب کے نام پر جارحیت، نفرت اور مسلمانوں و اقلیتوں پر حملوں کے حوالے سے جس طرح حکومت کو گھیرنے کی کوشش کی اس نے بی جے پی کو مکمل طور پر حواس باختہ کر دیا ہے۔ آج ایک ہفتہ گزر جانے کے باوجود راہل گاندھی کی تقریر موضوع بحث ہے۔ اگرچہ وزیر اعظم مودی نے ’’بیوقوف بچہ‘‘ کا قصہ سنا کر راہل گاندھی کی تقریر کا اثر زائل کرنے کی کوشش کی مگر حقیقت یہ ہے کہ ہندتو اور ہندوازم کے درمیان راہل گاندھی اور ملک ارجن گھرکے نے جو واضح لکیر کھینچی ہے، اس کے نشانات کو مٹانا بی جے پی کے لیے کوئی آسان کام نہیں ہے ۔یہ دیکھنا کافی دلچسپ ہوگا کہ اس لکیر کو مٹانے کے لیے کون سے حربے آزمائے جاتے ہیں۔ اب تک بی جے پی اور سنگھ پریوار، اپنے مخالفین کے ہندوازم اور قوم پرستی پر سوال اٹھاتے تھے لیکن آج خود وہ مذہب پرستی اور قوم پرستی سوالوں کی زد میں ہیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اس ملک میں مذہب کے نام پر سیاست کی روایت کوئی نئی نہیں ہے، تحریک آزادی کے ساتھ ہی ہندو قوم پرستی کی شروعات ہوگئی تھی مگر حالیہ دنوں میں مذہب کی سیاست کا جو مکروہ چہرہ سامنے آیا ہے اس نے ’’آئیڈیا آف انڈیا‘‘ کو ہی ختم کردیا ہے جس کی پہچان رواداری، عدم تشدد، برداشت، تنوع میں اتحاد اور مذہبی آہنگی کی تھی۔ان دس سالوں میں بھارت شناختی بحران سے دوچار ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔اس کے لیے جہاں حکم راں جماعت سب سے زیادہ قصور وار ہے وہیں اپوزیشن جماعتیں بھی کم قصور وار نہیں ہیں۔ انہوں نے جارحیت کا مقابلہ کرنے کے بجائے نام نہاد ہندتو کے سامنے گھٹنے ٹیگ دیے۔ اب صورت حال تبدیل ہوگئی ہے۔ کل تک یہ کہا جاتا تھا کہ مذہب پر بولنا کانگریس کے لیے خودکشی سے کم نہیں ہے، مذہب کی سیاست کرنے کا ملکہ صرف بی جے پی کو حاصل ہے، مگر آج راہل گاندھی کھل کر ہندوازم اور ہندتو کے درمیان خط فاصل کھینچ رہے ہیں۔دراصل گزشتہ دس سالوں میں ہندوازم اور اس کے ماننے والے شناخت کے بحران سے دوچار تھے۔ ایک طرف یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ ہندو مذہب عدم تشدد، قبولیت اور شمولیت کے عقیدے کا نام ہے جبکہ دوسری طرف مذہب کے نام پر بے گناہوں کی لنچنگ، عبادت گاہوں پر حملے، نفرت انگیز تقاریر کی بھرمار، مسلمانوں و اقلیتوں کو مارنے کے واقعات نے خود عام تعلیم یافتہ ہندوؤں کے سامنے سنگین سوالات کھڑے کر دیے تھے۔ چناں چہ راہل گاندھی نے اپوزیشن لیڈر کے طور پر اپنی پہلی تقریر میں مذہب کی اسی سمجھ کو آگے بڑھایا اور بتایا کہ مذہب کے نام پر نفرت اور تشدد کرنے والے ہندو نہیں ہو سکتے۔ راہل گاندھی نے گاندھی کے اہنسا اور ستیہ گرہ کے نظریہ کے حوالے سے ہندو اقدار کو پیش کیا، انہوں نے دنیا کے تمام مذاہب کے بنیادی اقدار کا بھی حوالہ دیا کہ دنیا کے کسی بھی مذہب میں نفرت اور تشدد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ملکارجن گھرکے اور راہل گاندھی نے ہندوازم کے جس چہرے کو پیش کیا وہ کئی سالوں سے کہیں چھپا ہوا تھا۔ صرف راہل گاندھی اور گھرکے ہی نہیں بلکہ پہلی مرتبہ منتخب ہونے والے چندر شیکھر آزاد، ترنمول کانگریس کی مہوا موئترا اور راجیہ سبھا میں راشٹریہ جنتا دل کے منوج سنہا نے ہندتو کے نام پر نفرت کی سیاست پر کرارا حملہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہندتو کے علم برداروں میں گھبراہٹ اور بے چینی صاف دکھائی دی۔ راہل گاندھی اور ملکارجن گھرکے کی تقاریر کے بعد میڈیا اور اکیڈمک سطح پر ہندوازم اور ہندتو کو لے کر اس وقت ملک میں جو بحث و مباحثے شروع ہوئے ہیں اس سے کئی پہلوؤں کے کھلنے کی امید ہے کیوں کہ عام طور پر ہندوازم کے نظریات و فکر پر گفتگو نہیں ہوتی تھی۔ بی جے پی نے خود کو ہندوازم پر ہر قسم کی گفتگو کے لیے اتھارٹی بنالیا تھا۔مگر اپوزیشن لیڈروں کی تقاریر کے بعد ہندوازم اور ہندتو کے سوال پر دائیں بازو کے نظریات کے حاملین کو ملک کے قومی اخبارات میں وضاحتیں پیش کرنی پڑ رہی ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ راہل گاندھی اور کانگریس کے لیڈروں کے ذریعہ ہندتو کی تنقید کا رخ کانگریس کی سوچ و فکر سے جوڑ کر ختم کر دیا جائے۔ لیکن کانگریس کے سینئر لیڈر ششی تھرور نے انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس میں ہندوازم کے سوال کو ملک کے آئین اور آئیڈیا آف انڈیا سے جوڑ کر ہندتو کے سیاسی نظریہ کے حاملین کے سامنے بنیادی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ وہ مودی اور آر ایس ایس کے ذریعہ بار بار سوامی ویویکانند کی شگاگو کی تقریر کا حوالہ دیے جانے پر سوال کرتے ہیں کہ ’’آر ایس ایس نے آئین میں درج بھارت کے نظریہ کو مستقل طور پر مسترد کیا ہے، اس نے منوسمرتی جیسی قدیم بھارت کی سوچ کو نافذ کرنے کی وکالت کی ہے۔جب راہل گاندھی آر ایس ایس کا مقابلہ کرتے ہیں تو وہ آئین کے پلیٹ فارم سے کرتے ہیں اور ایک ہندو کے طور پر عدم تشدد، قبولیت اور شمولیت کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت کی وکالت کی ہے اور ان کے خلاف تشدد کی حمایت کی ہے وہ ہندو ازم اور آئین دونوں سے غداری کرتے ہیں۔ انڈیا ہیٹ لیب (IHL) نے جو واشنگٹن میں قائم ایک تحقیقی گروپ ہے، 2023 میں نفرت انگیز تقاریر کے تقریباً 668 واقعات کو دستاویز کرتے ہوئے بتایا کہ اس میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔اور ان میں سے تقریباً 75 فیصد واقعات بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستوں میں ہوئے ہیں، جن میں مہاراشٹر اور اتر پردیش سرفہرست ہیں۔ نیشنل کرائمز ریکارڈ بیورو کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق اتر پردیش میں دلتوں کے خلاف سب سے زیادہ مظالم ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کی 2019 کی رپورٹ کے مطابق 2015 سے 2018 کے درمیان 36 مسلمانوں سمیت تقریباً 44 افراد کا گائے کے تحفظ کے نام پر قتل کر دیا گیا۔ آئی ایچ ایل کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ اسرائیل پر حماس کے حملے کو ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف خوف اور دشمنی کو ہوا دینے کے بہانے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اکتوبر اور دسمبر 2023 کے درمیان مسلمانوں کو نشانہ بنانے اور پروجیکٹ کرنے کے لیے 41 نفرت انگیز تقاریر (32 بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستوں میں) کی گئیں۔ گزشتہ دس سالوں میں مودی حکومت نے بہت ہی ڈھٹائی کے ساتھ ہندوازم کو ریاستی مذہب کے طور پر پیش کرنے کی کوشش۔ اگرچہ سیکولرازم حکومت اور اس کے سربراہوں کو مذہبی تقریبات میں شرکت کرنے سے واضح طور پر نہیں روکتا لیکن آئینی اقدار کا نظام تمام مذاہب کے ساتھ بلا تفریق یکساں سلوک کا تقاضا کرتا ہے۔ کسی خاص مذہبی تقریب میں وزیر اعظم کی شرکت اور انتخابی مہم کے دوران اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے ساتھ ہندو مذہب کی مدح سرائی اور اس کے تحفظ کی باتیں کرنا آئینی ڈھانچے کے سیکولر اقدار کے منافی ہے۔ اس ثقافتی قوم پرست سیاست کے ذریعہ معاشی تفاوت، بے روزگاری، غربت اور مہنگائی جیسے بنیادی سوالات کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ حکومت کے ذریعہ مسلسل آئینی اقدار کی پامالی اور آئین کو تبدیل کرنے کی سلگتی خواہشوں کا، جس کا بی جے پی لیڈر اظہار کرتے رہے ہیں، اپوزیشن جماعتوں کے لیے آئین کے تحفظ کی جدوجہد اور اس کو سیاسی نعرے کے طور پر پیش کرنے کے امکانات کو کھول دیا ہے۔ کانگریس نے آئین کے گرد بحث کو ماہرین تعلیم اور اشرافیہ کی کانفرنسوں سے لے کر سڑکوں اور ریلیوں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مسلمان، اقلیتیں، دلتو، قبائلی اور دیگر پسماندہ طبقات نے جو آج بھی اپنی روزی روٹی، امن و سلامتی اور ترقی کے لیے آئین پر انحصار کرتے ہیں، ان کو متحرک کرنے کامیاب ہوگئے۔ گزشتہ لگاتار انتخابات میں ایس سی اور ایس ٹی کے لیے ریزرو کل 86 سیٹوں میں سے اکثریت پر بی جے پی کامیاب ہوتی رہی ہے مگر اس مرتبہ محض 33 سیٹوں پر ہی سمٹ کر رہ گئی ہے جبکہ کانگریس نے 17 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ فسطائی طاقتیں اتنی آسانی سے شکست تسلیم نہیں کرتیں، چنانچہ جو دعوے کیے جارہے تھے کہ ملک سے خوف کی سیاست کا خاتمہ ہو جائے گا مگر گزشتہ ایک مہینے میں تسلسل کے ساتھ تشدد اور بلڈوزر کی جس طرح واپسی ہوئی ہے اس سے یہ واضح پیغام ملتا ہے کہ ہندتو اپنی ثقافتی بالادستی کی جدو جہد سے اتنی آسانی دست بردار نہیں ہوسکتی ہے۔انتخابات کے نتائج کے اعلان کے بعد ایک ماہ بھی نہیں گزرے ہیں کہ ملک میں وحشیانہ نفرت انگیز حملوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا ہے، جن میں خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہ، اور بعض جگہوں پر عیسائیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ بلڈوزر بھی غیر قانونی طور پر مسلمانوں کی املاک کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ چھتیس گڑھ میں موب لنچنگ کے واقعات، اتر پردیش میں ایک عالم دین کا قتل اور جھارکھنڈ میں ایک مسجد کے امام کے بہیمانہ انداز میں قتل جیسے واقعات کے ساتھ مدھیہ پردیش میں بلڈوزر کی کارروائی کے ذریعہ یہ کھلا پیغام دیا گیا کہ ریاست لاقانونیت کی ڈگر پر چل رہی ہے۔ ملک کے ایک بڑے حصے کو مذہبی شناخت کی بنیاد پر نشانہ بنانے کی پالیسی مودی حکومت کے تیسرے دور میں بھی جاری رہے گی۔مدھیہ پردیش کے بعد 25 جون کو میونسپل کارپوریشن اور پولیس دونوں، اہلکاروں کے ساتھ دہلی کے منگول پوری میں واقع ایک مسجد پر بلڈوزر اکٹھے ہوئے اور مسجد کی دیوار کو منہدم کر دیا۔ بلڈوزر کی مزید پیش قدمی کو روکنے کے لیے مظاہرین نے انسانی زنجیر بنائی۔ دہلی میونسپل کارپوریشن پر عام آدمی پارٹی کی حکم رانی ہے جبکہ دلی پولیس بی جے پی کی زیر قیادت مرکزی حکومت کے زیر کنٹرول ہے۔ نئی حکومت کی طرف سے عوام کو یہ پیغام ہے کہ کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔ مسلمانوں کو نفرت انگیز تشدد کا نشانہ بنانے کا ان کا نظریاتی منصوبہ بدستور جاری رہے گا۔انتخابی نتائج نے امید پیدا کی تھی کہ بلند حوصلے کی حامل اپوزیشن جماعتیں مسلمانوں کے مضبوط دفاع میں اس وقت کھڑی ہوں گی جب انہیں نفرت انگیز تشدد اور ریاستی امتیاز کا سامنا کرنا پڑے گا مگر چار دنوں تک جاری رہنے والے پارلیمانی اجلاس سے اس ضمن میں کوئی امید افزا اشارے نہیں ملے ہیں۔ راہل گاندھی ہو یا پھر اکھلیش یادو یا ترنمول کانگریس کے ممبرز، انہوں نے ہندتو کی سیاست پر تو تنقید کی مگر مسلمانوں کے خلاف جاری حملوں پر کھلے عام بولنے سے گریز کیا۔ اگر راہل گاندھی یا پھر اپوزیشن جماعتیں ہندتو کے سیاسی نظریہ اور ثقافتی بالادستی کی سوچ کا انکاونٹر کرنا چاہتے ہیں تو انہیں پوری وضاحت کے ساتھ نفرت کی سیاست کے خلاف ہر محاذ پر کھل کر بولنا ہوگا۔صرف بیان بازی سے کام نہیں چلے گا۔ لوک سبھا اپوزیشن کے لیڈر اگر حقیقت میں ملک سے فرقہ واریت کا خاتمہ چاہتے ہیں تو انہیں گاندھی جی کی طرح اقلیتوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔ تقسیم کے بعد جس طرح سے ملک بھر میں مسلمانوں کو نشانہ بنائے جانے کے خلاف انہوں نے اپنی ہی حکومت کے خلاف تحریک شروع کی تھی اسی طرح راہل گاندھی کو بھی وہی طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ تلنگانہ اور جھارکھنڈ جیسی ریاستیں جہاں کانگریس اور ان کے حلیف جماعتیں برسر اقتدار ہیں، وہاں بھی مسلمانوں پر حملے ہو رہے ہیں۔انہیں اپنی ہی حکومتوں کے خلاف مورچہ سنبھالنا ہوگا۔ اگر کانگریس اور اپوزیشن جماعتیں فرقہ پرستی کے خلاف متحد ہو کر آواز بلند نہیں کریں گی تو خطرہ ہے کہ ایک بار پھر خوف و نفرت کی سیاست حاوی ہو جائے۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں