نہ ہو کوئی بیٹا تو زندگی میں اندھیرا ہے!!

 

                (فسانہء غم )

 

   تحریر: جاوید اختر بھارتی

 

یوں تو انسانوں کے بڑے ارمان ہوتے ہیں اور جس شعبے میں قدم رکھتا ہے تو اس کی آخری منزل پر پہنچنے کی کوشش بھی کرتاہے اور آخری منزل تک پہنچنے کی خواہش بھی رکھتا ہے اور بڑی بڑی امیدیں رکھتا ہے کیونکہ امید پر ہی دنیا قائم ہے کوئی بھی شخص جب ایک درخت لگاتا ہے تو اسے امید بھی رہتی ہے اور اس کی خواہش بھی ہوتی ہے کہ یہ پھلے پھولے اور پروان چڑھے، اس میں سے مزید شاخیں نکلیں اس میں پھول کھلے پھر پھل لگے ایک کسان بھی اپنے کھیتوں میں جتائی، کڑائی، روپائی، بوائی اور سینچائی کرتا ہے تو اس کے بہت سارے ارمان ہوتے ہیں ساری محنت کے بعد بھی جب فصل تیار نہیں ہوتی ہے تو اسے بہت دکھ پہنچتا ہے اور وہ افسوس میں ڈوب کر ہاتھ مل کر رہ جاتا ہے یاکہ فصل تیار ہونے کے بعد جب وہ فصل کاٹ تا ہے اور سارا بوجھ ایک جگہ جمع کر دیتا ہے یعنی اکٹھا کردیتاہے اور صبح سے شام تک سب کچھ کرنے کے بعد یہ سوچ کر گھر آتا ہے کہ کل صبح سویرے آگے کا کام کریں گے دانہ الگ کریں گے اور پوال الگ کریں گے تھکا ماندا رات میں بستر پر لیٹ گیا جیسے ہی لیٹا آنکھوں میں نیند آگئی اور گہری نیند سو گیا صبح آنکھ کھلی تو کھیتوں میں جانے کا ابھی پروگرام بنا ہی رہا تھا کہ ایک شخص آکر خبر دیتا ہے کہ رات میں تیز آندھی آئی اور موسلا دھار بارش ہوئی اور آپ کی ساری فصل پہلے ہواؤں میں اڑی پھر موسلا دھار بارش میں بہہ گئ اب کیا تھا کسان کی آنکھوں میں آنسو آگئے، سارے ارمان آنسوؤں میں بہہ گئے اس کی زندگی میں اندھیرا چھا گیا کیونکہ اسی فصل سے اس کی زندگی کا گذر بسر ہونے والا تھا، اسی فصل کی آمدنی سے اس کے خوابوں اور ارادوں کی تکمیل ہونے والی تھی اب تو سارے راستے بند ہو گئے عین موقع پر تو بہت سے لوگ آئے تسلی بخش کلمات کہے امداد و تعاؤن کا اسے بھروسہ دلایا لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو آیا وہ مڑکر گیا تو دوبارہ نہ ملاقات کا روادار ہوا نہ کبھی بات چیت کی،، بالآخر اس پریشان حال کسان کو اس بات کا احساس ہوگیا کہ زندگی کی راہوں میں رنج و غم کے میلے ہیں،، قدم قدم پر بھیڑ ہے پھر بھی ہم اکیلے ہیں،، اس کی زندگی میں ترقی کی رفتار میں بریک لگ گیا اور آگے کا مرحلہ طے کرنا انتہائی دشوار ہوگیا اب جب بھی راتوں کو بستر پر جاتاہے تو اسے دوسروں کے کھیت نظر آتے ہیں اور لہلہاتی ہوئی فصلیں نظر آتی ہیں پھر اپنے آپ پر نگاہ ڈال تا ہے تو خون کے آنسو روتا ہے نیندیں اڑجاتی ہیں بستر سے اٹھ جاتاہے اور بدحواسی کے عالم میں کہتا ہے کہ کاش میری فصل سے مجھے بھی نفع حاصل ہوا ہوتا تو میری زندگی کے حالات بھی خوشگوار ہوتے مگر ہائے رے قسمت سارے خواب چکناچور ہو گئے ، میری زندگی کے پھول کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئے اور سارے ارمان خس وخاشاک کا شکار ہو گئے کہاں سے میری فصل باد و باراں کی چپیٹ میں آئی کہ زندگی میں اندھیرا ہی اندھیرا چھا گیا،، زید! کے بھی بڑے ارمان تھے جب ہوش سنبھالا تو والدین کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھا، کچھ اور دن گذرے تو مدارس میں اساتذہ کرام سے تعلیم حاصل کیا پھر کچھ اور دن گذرا تو رشتہ ازدواج سے منسلک ہوا اب یہی خواب تھا اور خواہش تھی کہ گلشن میں بہار آئے اللہ کریم اولاد عطا فرمائے بیٹا اور بیٹی دونوں سے گلشن آباد رہے کوئی بیٹا عالم دین بنے گا تو کوئی فوجی بنے گا، کوئی سیاستداں بنے گا تو کوئی تاجر بنے گا مگر شاید قدرت کو یہ منظور نہیں تھا زید تو بچپن سے ہی مشکلات کا سامنا کرتا آرہا تھا لیکن جب عمر چالیس سال سے زیادہ ہوئی تو اب پیشانی پر ایسی لکیریں ابھریں کہ جو مٹنے کا نام نہیں لیتیں اور مٹیں کیسے یعنی زید کے ہاتھوں میں لاٹھی تھمانے والا کوئی نہیں، زید کی آنکھوں سے آنسو بہے تو پوچھنے والا کوئی نہیں، زید آہیں بھرے اور سسکیاں لے تو ڈھارس بندھانے والا کوئی نہیں، چاہے کیسا بھی وقت ہو زید کو بیٹے کی شکل میں مشورہ دینے والا اور سہارا دینے والا کوئی نہیں ،، ایک وہ بھی وقت تھا جب زید کے دوست ساتھ میں بازار اور دیگر مقامات پر جایا کرتے تھے زید کے وہ دوست بڑے امیر ہوگئے مالدار ہو گئے اللہ انہیں اور دولت سے مالا مال کرے ، ان کے مزاج بھی تبدیل ہو گئے ، ان کی سوسائٹی الگ ہو گئی، ان کی محفل اور مجارٹی الگ ہو گئی لیکن زید بچپن سے لے کر آج تک غریب کا غریب ہی رہ گیا ایک تو زمین کی تنگی اور پھر بیٹے کے نہ ہونے کی وجہ سے گھر کا خرچ چلانے کے لئے زید قرض لے کر بیرون ملک کا سفر کیا ساڑھے پانچ سال تک وہاں خون پسینہ بہاتا رہا وہاں بھی قسمت نے ساتھ نہیں دیا اور کمپنی بند ہونے لگی اور نتیجہ یہ ہوا کہ کمپنی نے سارے ورکروں اور مزدوروں کو وطن واپس بھیج دیا کچھ روشن مستقبل کی امیدیں جگی تھیں کہ پھر اندھیرا چھاگیا،، زید اب گھر پر رہ کر گھریلو کاموں میں ہاتھ بنٹاتا ہے اور زندگی کا گذر بسر کرتا ہے اور یہ بات برابر کہتا ہے کہ زمین کی تنگی اور بیٹے سے محرومی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ ہے راتوں کو جب بستر پر جاتاہے تو دوسرے لوگوں کا خیال آتا ہے، ان کے طور طریقوں کا خیال آتا ہے اور اپنی خالی جھولی نظر آتی ہے تو آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں اسی حالت میں نیند لگ جاتی ہے اور جب آنکھ کھلتی ہے تو بے ساختہ زبان سے یہی جملہ نکلتا ہے کہ اپنی زندگی ایسی ہے کہ ہائے رے قسمت رات میں بھی اندھیرا اور دن میں بھی اندھیرا یعنی ایک بھی بیٹا نہ ہو تو زندگی میں اندھیرا ہی اندھیرا ہے،، اور بیٹا بھی نہ ہو ساتھ ہی ساتھ زمین کی تنگی بھی ہو تب تو تنگ دستی سے نکلنے کا راستہ ہموار ہی نہیں ہونے والا،،  اس دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ جن کے پاس دولت بھی ہے، حسن بھی ہے، ہنر بھی ہے، بھرا کنبہ بھی ہے اور ایسے لوگ بھی ہیں کہ جن کے گھروں میں امیری کا شجر لگتاہے اور اسی وجہ سے ان کا ہر عیب زمانے کو ہنر لگتا ہے ان کی زبان سے نکلنے والی باتیں بڑی ٹھوس مانی جاتی ہیں اور زید لاکھ سماجی تحریکوں میں سرگرم عمل رہے ، بھاگ دوڑ کرے تو حوصلہ افزائی کا تو سوال ہی نہیں بلکہ ایسے جملے سے نوازا جاتاہے کہ دل پر ٹھیس پہنچتی ہے ،، اکثر و بیشتر زید اپنے آپ کو غم جہاں سے نڈھال کہتا ہے، سراپا درد و ملال کہتا ہے،، لوگ گذر جاتے ہیں نگاہ کرم بچائے ہوئے اور زید! پہچاننے کا انتظار ہی کرتا رہ جاتاہے،، کاش زید کی زندگی بھی ہری بھری ہو تی ،، زید کے بعد بھی کوئی چراغ جلانے والا ہوتا، جب تھک جاتا تو کوئی کاندھا اور بازوؤں کو پکڑ کر تھامنے والا ہوتا، ہاتھوں میں لاٹھی تھما نے والا ہوتاجسے ٹیک کر وہ اپنے غریب خانے کی دہلیز تک پہونچ جاتا ،، مجھے معلوم ہے کہ یہ تحریر کچھ لوگوں کے لئے گراں گذرے گی لیکن جو سچائی ہے وہی میں نے تحریر کیا ہے واٹس ایپ اور فیس بک سمیت دیگر سوشل میڈیا پر تو بڑی مہربانی، ہمدردی، تسلی، بھائی چارگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے لیکن ہر مہینے اس چیز اور اس بات کا بھی مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ سرکاری سستے غلے کی دکان سے لوگ اشیاء خوردونوش لےکر اپنے گھر کو جاتے ہیں ان میں سے بہت سے لوگ ضعیف اور کمزور ہوتے ہیں لیکن راستے میں کوئی ان کی گٹھری کو ان کے کاندھے سے اتار کر اور اپنے کاندھے پر رکھ کر اس ضعیف کے گھر تک نہیں پہنچاتا،، زید کی ایک دن دو ایسے لوگوں سے ملاقات ہوئی کہ جنہیں اللہ نے دولت سے نوازا ہے عالیشان مکان ہے، کپڑے کی تیاری اور خرید وفروخت کا کاروبار ہے، ملک کے مختلف صوبوں میں آنا جانا ہے، گھر پر بھی تاجروں کا آنا جانا ہوتا ہے مختصر سی ملاقات میں وہ غموں کا اظہار کر بیٹھے اور زید سے بھی پوچھ بیٹھے کہ آپ کے پاس کتنے بیٹے بیٹیاں ہیں تو زید نے کہا کہ صرف دو بیٹیاں ہیں ایک کی شادی ہوچکی ہے دونوں لوگوں نے زید سے پوچھا کہ کیا آپ کا کوئی بیٹا نہیں ہے تو زید کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبانے لگے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ نہیں تو وہ دونوں لوگ بھی روپڑے اور کہنے لگے کہ ہمارے پاس تو پیسوں کی فراوانی ہے ، کاروبار بھی ہے لیکن ایک بھی بیٹا نہیں ہے اس لئے سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ بھی نہیں ہے،، ہمارا نام آگے بڑھانے والا کوئی نہیں، ہمارے مرنے کے بعد ہمارے گھروں میں چراغ جلانے والا کوئی نہیں ہماری زندگی میں اندھیرا ہی اندھیرا ہے اور اے زید آپ کی زندگی میں بھی اندھیرا ہے،، زید نے کہا کہ ہاں تشویش کی چادر جسم سے لپٹی ہوئی ہے، پیشانی پر فکر و غم کی لکیریں ابھری رہتی ہیں، غموں کو لاکھ بھلانے کی کوشش کے باوجود بھی یہ غم بھلایا نہیں جاتا شادیوں میں اور دیگر تقریبات میں بھی کچھ لوگوں کی جانب سے ایسا رویہ اختیار کیا جاتاہے اور دبی آواز میں ہی سہی لیکن کچھ ایسی باتیں کہی جاتی ہیں کہ جس سے دلوں پر ٹھیس لگتی ہے کل کا خلاصہ یہی نکلتاہے ہے کہ میرے پاس سے گذر کر میرا حال تک نہ پوچھا،، میں یہ کیسے مان جاؤں کہ وہ دور جاکے روئے،، بیٹی اللہ کی رحمت ہوتی ہے اور بیٹا اللہ کی نعمت ہوتاہے،، بیٹی ماں کے گلے کا ہار ہوتی ہے اور بیٹا باپ کے ہاتھوں کی لاٹھی ہوتاہے آخر میں یہی دعا ہے کہ اولاد والوں پھولو پھلو،، اللہ سب کو شاد رکھے اللہ سب کو آباد رکھے-

 اور دوسری بات یہ ہے کہ اس مضمون کو ترتیب دینے میں زید نام دیا گیا ہے اصل بات کہنے کے لئے اب کسی کا نام زید ہو تو وہ ہرگز ایسا نہ سوچے کہ میرے بارے میں کہا گیا ہے نہیں بالکل نہیں،، بس مضمون میں اصل حالات کا نقشہ کھینچ نے کے لئے یہ نام دیا گیا ہے- 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

مائیک سے اذان پر پابندی : مذہبی رواداری کے خلاف

کون کہتا ہے کہ احساس ہمارا جاگ اٹھا……. تلخ بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سچائی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے