بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت شہریت ترمیمی قانون (CAA) اور قومی آبادی رجسٹر (NPR) نافذ کرکے اپنے کچھ دیرینہ مقاصد پورا کرناچاہتی ہے، جس کے خلاف پورے ملک میں احتجاجات ہورہے ہیں، متعدد اسمبلیوں میں اس کے خلاف تجاویز بھی پاس ہوچکی ہیں، ماہرین قانون اس کو ہندوستان کے آئین کے خلاف مان رہے ہیں۔ فی الحال معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت آسام کے طرز پر پورے ملک میں بھی قومی شہری رجسٹر (NRC) نافذ کرنا چاہتی ہے جیسا کہ وزیر داخلہ امت شاہ متعدد مرتبہ اعلان کرچکے ہیں، لیکن ملک میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کے بعد مرکزی حکومت نے سیاسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ فی الحال NRC نافذ کرنے کاارادہ نہیں ہے۔مگر لوگ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اس سیاسی بیان سے مطمئن نہیں ہیں، اسی لئے جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی سے اٹھی اس تحریک کے ذریعہ شاہین باغ کے طرز پر سینکڑوں جگہوں پر احتجاجات برابر جاری ہیں۔ سنبھل، نخاسہ کے پکا باغ میں بھی ہزاروں خواتین پر امن طریقہ سے احتجاج کرکے حکومت سے ان قوانین کو واپس لینے کی مانگ کررہی ہیں، اگرچہ موجودہ حکومت ابھی تک اپنے فیصلے کو واپس لینے کے لئے بظاہر تیار نہیں ہے، لیکن یہ بات برحق ہے کہ ان مظاہروں کے بے شمار فوائد وثمرات سامنے آرہے ہیں۔ ۴۱۰۲ سے اقلیتوں خاص کر مسلمانوں میں جو خوف وہراس کا ماحول پیدا ہوگیا تھا، اب اقلیتیں اس کیفیت سے باہر آگئی ہیں۔ ان احتجاجوں کے ذریعہ عوام وخواص سب کو اپنے ملک کا آئین پڑھنے یا کم از کم ہندوستانی آئین میں جو ہمارے حقوق ہیں ان کو سمجھنے کا موقع ملا۔ ہماری قوم جو مختلف جماعتوں میں منقسم چلی آرہی ہے، ان احتجاجوں کے ذریعہ سب ایک پلیٹ فارم پر نظر آئے۔ اس تحریک کی وجہ سے نہ صرف مسلمانوں کے درمیان اتحاد واتفاق پیدا ہوا بلکہ سکھ، دلت اور دیگر پسماندہ طبقات کے لوگ بھی متحد ہوگئے، جس کا نتیجہ دہلی کے اسمبلی انتخابات میں بھی نظر آیا کہ نفرت اور ہندو ومسلم کے درمیان عداوت پیدا کرنے کی سیاست کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی کو دہلی والوں نے ایک بار پھر اقتدار سے دور رکھا۔ ۴۲ گھنٹے چلنے والے ان احتجاجوں سے خواتین اور بچیوں کی صلاحتیں بھی ابھر کر آئیں۔ آپس میں محبت اور ایثار وقربانی کا جزبہ بھی سامنے آیا۔ ملک کی آزادی کے لئے اکابرین کی خدمات کو سننے کا بھی موقع ملا۔ ان شاء اللہ لوگوں خاص کر خو اتین کی یہ محنتیں اور رات کی صعوبتیں برداشت کرنا رائگاں نہیں جائے گی بلکہ ایک دن ضرور کامیابی ملے گی۔ ایک اہم بات، جو اس مضمون کو لکھنے کا بنیادی مقصد بھی ہے، وہ یہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اکثریت کو اقلیتوں کا خوف دلاکر صرف اور صرف اکثریت کا ووٹ حاصل کرکے اپنے اقتدار کو باقی رکھنا چاہتی ہے۔ ان احتجاجوں میں تمام ہی مذاہب کے ماننے والے شریک ہورہے ہیں جس سے بھارتیہ جنتا پارٹی کا ایجنڈا ناکام ہوتا نظر آرہا ہے۔ اس موقع پر ہماری یہ بھی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے قول وعمل کے ذریعہ اسلام کے محاسن وخوبیوں کو بھی وقتا فوقتاً بیان کرتے رہیں تاکہ باطل طاقتوں نے مذہب اسلام کے متعلق جو غلط پروپیگنڈا پھیلا رکھا ہے اس کاسد باب ممکن ہوسکے۔ مذہب اسلام کے بے شمار محاسن اور خوبیاں ہیں، چند حسب ذیل ہیں۔
اسلام میں زندگی کے لیے ایک جامع نظام:دین اسلام کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اسلام نے ایمانیات عبادات، معاملات اور معاشرت غرضیکہ پوری زندگی کے لیے اس طرح رہنمائی کی ہے کہ ہر شخص چوبیس گھنٹے کی زندگی کا ایک ایک لمحہ خالق کائنات کی تعلیمات کے مطابق اپنے نبی اکرم ﷺکے طریقہ پر گزارسکے۔ اللہ تعالیٰ کا پیغام اور نبی اکرم ﷺ کا اسوہ انتہائی معتبر ذرائع سے آج تک محفوظ ہے اور ان شاء اللہ کل قیامت تک اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرمائے گا۔ دنیا کے کسی بھی مذہب کی کوئی بھی کتاب ایسے مستند ذرائع سے محفوظ نہیں ہے جو قرآن وحدیث کی حفاظت کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔ دین اسلام میں کھانے، پینے، سونے حتی کہ استنجاء کرنے کا طریقہ بھی بتلایا گیا ہے، راستہ چلنے کے آداب بھی بیان کئے گئے ہیں،حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی تفصیلات سے آگاہ کرکے ان کو ادا کرنے کی بار بار تاکید کی گئی ہے، تجارت اور معاشرت کے اصول وضوابط بیان کئے گئے ہیں، وقت کے صحیح استعمال کی بار بار تاکید کی گئی ہے کیونکہ یہ دنیاوی زندگی ایک بڑے امتحان کی تیاری کے لیے ہے اور اخروی زندگی میں کامیابی کا انحصار اسی فانی زندگی کے اعمال پر ہے۔
انسان کی قدر ومنزلت: انسانیت کے ناطے دین اسلام نے ہر شخص کو عزت سے نوازا ہے، مسلمانوں کی طرح غیر مسلموں کی بھی عزت اور ان کے ساز وسامان کی حفاظت ہر وقت مطلوب ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: حقیقت یہ ہے کہ ہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی ہے اور انہیں خشکی اور سمندر دونوں میں سواریاں مہیا کی ہیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا ہے اور ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت عطا کی ہے۔ (سورۃ بنی اسرائیل: ۰۷) دین اسلام نے اپنے متبعین کو اس امر کا پابند بنایا ہے کہ وہ ہر انسان کے احترام کے ساتھ ان کی عبادت گاہوں اور مذہبی شخصیات کا احترام کریں۔ حضور اکرمﷺ نے اپنے مواثیق، معاہدات اور فرامین کے ذریعہ اس تحفظ کو آئینی اور قانونی حیثیت عطا فرمادی تھی۔ دین اسلام میں کسی شخص کو گالی دینے یا اس پر ظلم کرنے یا اُس کا مال ناحق لینے یا اس کو ناحق قتل کرنے سے بہت سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے خواہ وہ شخص کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو۔
اسلام اور رواداری: رواداری کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی کہ شریعت اسلامیہ نے کسی بھی غیر مسلم کو مذہب اسلام قبول کرنے پر کوئی زبردستی نہیں کی، بلکہ صرف اور صرف ترغیب اور تعلیم پر انحصار کیا۔ فرمان الٰہی ہے: دین میں کسی پر جبر نہیں۔ (سورۃ البقرۃ: ۶۵۲) اسی طرح فرمان الٰہی ہے: آپ کہہ دیجیے کہ یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کردے۔ (سورۃ الکہف: ۹۲)
اسلام اور حقوق انسان: دین اسلام نے انسانوں کے حقوق کا جتنا خیال رکھا ہے اس کی کوئی نظیر کسی مذہب میں نہیں ملتی۔حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس کوئی پیسہ اور دنیا کا سامان نہ ہو۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت کا مفلس شخص وہ ہے جو قیامت کے دن بہت سی نماز، روزہ، زکوٰۃ (اور دوسری مقبول عبادتیں) لے کر آئے گا، مگر حال یہ ہوگا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا یا کسی کو مارا پیٹا ہوگا تو اس کی نیکیوں میں سے ایک حق والے کو (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی، ایسے ہی دوسرے حق والے کو اس کی نیکیوں میں سے (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی۔ پھر اگر دوسروں کے حقوق چکائے جانے سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو (ان حقوق کے بقدر) حق داروں اور مظلوموں کے گناہ (جو انہوں نے کئے ہوں گے) ان سے لے کر اس شخص پر ڈال دئے جائیں گے اور پھر اس شخص کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم)
اسلام امن وسلامتی کا مذہب ہے: اس دنیا پر ایک ہزار سال سے زیادہ مسلمانوں کی حکومت رہی ہے اور مشرق سے مغرب تک توحید کا جھنڈا لہراتا رہا ہے، لیکن اس دوران کوئی مذہبی انتہا پسندی پروان نہیں چڑھی،کسی دہشت گردی نے جنم نہیں لیا،بلکہ مسلمانوں کی طرح غیر مسلموں کی عزت اور ان کے سازوسامان کو مکمل حفاظت دی گئی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ایک شخص نے حیرہ کے ایک عیسائی کو قتل کردیا تھا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے حکم دیا کہ قصاص کے لیے قاتل کو مقتول کے ورثہ کے حوالہ کیا جائے۔ چنانچہ قاتل کو قتل کیا گیا۔ (الدرایہ فی تخریج احادیث الہدایہ)
اسلام اور مساوات:دین اسلام کا یہ پیغام ہے کہ تمام انسان برابر ہیں، خواہ ان کے درمیان دنیاوی اعتبار سے تفاوت ہی کیوں نہ نظر آئے۔ اصل برتری وفوقیت اللہ تعالیٰ کے خوف اور نیک عمل کی بنیاد پر ہے، جیساکہ فرمان الٰہی ہے کہ تم میں سے معزز آدمی وہ ہے جو سب سے زیادہ تقویٰ اختیار کرنے والا ہے۔ (سورۃالحجرات: ۳۱) حجۃ الوداع کے موقعہ پر حضوراکرم ﷺ کا آخری خطبہ مساوات کی واضح تعلیم دیتا ہے اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے تمہارا باپ ایک ہے، تم سب آدم کی اولاد ہو، اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں، تم میں سے اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سے زیاد متقی ہو یعنی اللہ سے ڈرنے والا ہو، کسی عربی کو عجمی پر یا سفید کو سرخ وسیاہ رنگت والے پر کوئی برتری حاصل نہیں ہے۔ (مسند احمد)
اسلام اور اخلاق: دین اسلام کی خوبیوں میں سے ایک اہم خوبی یہ بھی ہے کہ شریعت اسلامیہ نے اخلاق کو بہتر سے بہتر بنانے کی خصوصی تعلیمات دی ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کے متعلق فرماتا ہے: اور یقینا تم اخلاق کے اعلیٰ درجہ پر ہو۔ (سورۃ القلم: ۴) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب آپﷺ کے اخلاق کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: آپ ﷺ کا اخلاق قرآنی تعلیمات کے عین مطابق تھا۔ (بخاری ومسلم) اسی طرح حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مجھے بہترین اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا کیا گیا ہے۔ (مسند احمد)حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دس برس حضور اکرم ﷺ کی خدمت کی، مجھے کبھی کسی بات پر اف تک بھی نہیں فرمایا، نہ کسی کام کے کرنے پر یہ فرمایا کہ کیوں کیا؟ اور اسی طرح نہ کبھی کسی کام کے نہ کرنے پر یہ فرمایا کہ کیوں نہیں کیا؟ حضور اکرم ﷺ اخلاق میں تمام دنیا سے بہتر تھے۔ (ترمذی)
اسلام میں خواتین کا مقام: خواتین کو جو دین اسلام نے مقام عطا فرمایا ہے وہ ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ عورتیں فطرتاً کمزور ہوتی ہیں، آپ ﷺ نے باربار صحابہئ کرام کو تلقین فرمائی کہ وہ عورتوں کے ساتھ نرمی کا معاملہ کریں، ان کی دل جوئی کریں، ان کی طرف سے پیش آنے والی ناگوار باتوں پر صبروتحمل کا مظاہرہ کریں۔ ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: خبردار! عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرو، اس لیے کہ یہ عورتیں تمہاری نگرانی میں ہیں۔ایک مرتبہ لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کے سلسلہ میں حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے کسی لڑکی کی صحیح سرپرستی کی اور اس کی اچھی تربیت کی تو یہ لڑکی قیامت کے دن اس کے لیے دوزخ کی آگ سے رکاوٹ بن جائے گی۔ آپﷺ نے خود اپنے طرز عمل سے صحابہئ کرام کے سامنے خواتین کے ساتھ حسن سلوک کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔حضور اکرم ﷺ نے بیواؤں سے نکاح کرکے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ بیواؤں کو تنہا نہ چھوڑو بلکہ انہیں بھی اپنے معاشرہ میں عزت بخشو۔
اسلام‘ پاکیزہ معاشرہ کی تشکیل دینے والا مذہب:دین اسلام نے ناپ وتول میں کمی، سود، رشوت جوئے، شراب اور دوسری نشہ آور چیزوں کو حرام قرار دیا ہے تاکہ ان مہلک بیماریوں سے محفوظ رہ کر ایک اچھے اور پاکیزہ معاشرہ کی تشکیل دی جاسکے۔ جھوٹ، غیبت، فحش کلامی، کسی شخص کو گالی یا دھوکہ دینا، تکبر اور فضول خرچی جیسی عام برائیوں کو ختم کرنے کی خصوصی تعلیمات دی گئی ہیں معاشرہ کے ناسور یعنی جہیز کے لین دین کے بجائے سادگی کے ساتھ نکاح کرنے کی ترغیب دی ہے۔ اسلام نسب کی حفاظت کرنے والا مذہب ہے، چنانچہ زنا اور زنا کے تمام لوازمات مثلاً نامحرم مردو وعورت کے اختلاط کو حرام قرار دیا ہے۔ غیر محرم عورت پر غیر ارادی پہلی نگاہ تو معاف لیکن دوسری نگاہ نہ ڈالنے کی ہدایات جاری کیں۔ صنف نازک کی حفاظت کے لیے شوہر یا محرم کے بغیر خواتین کو سفر کرنے سے منع کیا۔ اسلام ہر شخص کے سامان کی حفاظت کرتا ہے،چنانچہ چوری، ڈکیتی یا کسی شخص کے مال کو ناحق لینے کو حرام قرار دیا ہے۔ اسلام غرباء ومساکین وضرورت مندوں کا مکمل خیال رکھتا ہے، چنانچہ مال داروں پر زکوٰۃ وصدقات کے وجوب کے ساتھ یتیم اور بیواؤں کی کفالت کرنے کی بار بار تعلیم دی گئی۔ اسلام نے زکوٰۃ کا ایسا نظام قائم کیا ہے کہ دولت چند گھروں میں سمٹ کر نہ رہ جائے۔ غریب لوگوں کے غم میں شریک ہونے کے لیے روزے فرض کیے گئے، تاکہ بھوک وپیاس کی شدت کا احساس ہو۔ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں مثلاً پانی، آگ اور ہواکی قدر کرنے کی تعلیم دی گئی۔
دین اسلام کے محاسن وخوبیوں کو بیان کرنے کے لیے کتابیں تحریر کی جانی چاہئیں، لیکن میں نے مختصر طور پر دین اسلام کے چند محاسن اور خوبیاں ذکر کرنے کی کوشش کی ہے، اللہ تعالیٰ اس خدمت کو قبول فرماکر دونوں جہاں میں اجر عظیم عطا فرمائے، آمین ثم آمین۔
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
22فروری2020
جواب دیں