آج کاانسان دولت اوراقتدارکے لیے اپنے ضمیرکے ساتھ ساتھ اپنی قوم کوبھی غیروں کے ہاتھوں گروی رکھ چکاہے۔فیس بک پر شئیر کیا گیا یہ کمینٹ گرچہ کچھ لوگوں کے لیے مزاح کاسامان بناہو،لیکن اہل عقل وخرداورارباب حل وعقدکے ضمیرکوجھنجھوڑکررکھ دیااوروہ سوچنے پرمجبورہوگئے کہ اللہ نے جس انسان کو اشرف المخلوقات کادرجہ دیااوران ہی میں سے جن کواللہ نے ان کی قیادت کی ذمہ داری سونپی وہ اپنے چندذاتی اوروقتی مفادات کے لیے اپنے ضمیرکے ساتھ ساتھ اپنی قوم کوبھی غیروں کے ہاتھوں بیچ دیاواقعتاانسان کے گرنے کی اس سے زیادہ اورکیاحدہوسکتی ہے۔روپیہ کی گراوٹ والے واقعہ کوذہن میں رکھیں اورحالیہ دنوں مظفرنگرمیں رونماہونے والے بھیانک فسادات کوسامنے رکھیں اوراس کے بعداس فسادات پربجائے اس کے کہ فسادزدگان کی بازآبادکاری اوران کی راحت کاخیال رکھاجاتاجس طرح اس فسادکے واقعہ پر سیاسی پارٹیاں گھٹیا اورمفادپرستی کی سیاست کررہی ہے اورہمارے قائدین جن پرفسادزدگان کے ساتھ ساتھ پوری مسلم قوم آس لگائے بیٹھی ہے ان کی بے حسی اورضمیرفروشی پر غورکریں تو بات صاف اورواضح طورپرسمجھ میںآجائے گی کہ واقعتاابھی بھی روپیہ اتنانہیں گراہے جتناکہ روپیہ کے لیے انسان گرچکاہے اورجب انسانوں میں قائدین شامل ہوجائیں تو پھر تو اس کی گراوٹ اورپستی کامعیارکہیں اورزیادہ بلندہوجاتاہے۔
مظفرنگرمیں چارمہینہ قبل ہولناک فسادات ہوئے جس میں صرف مسلمانوں کاہی جانی ومالی نقصان ہوا،فسادات کے بعدفسادزدگان اوربے بس ومجبورمسلمان اپنی بچی کھچی جان کو لے کرکیمپوں میں پناہ گزیں ہوگئے،حکومت یہ دعوے کرتی رہی کہ پناہ گزینوں کوحکومت کی جانب سے تمام سہولتیں مہیاکرائی جارہی ہیں،حکومت کے ساتھ ان کے حاشیہ بردارمسلم وزیراورمسلم قائدین بھی حکومت کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے،لیکن آہستہ آہستہ حکومت کے دعوؤں کی پول کھلتی چلی گئی جب سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی اموات میں اضافہ ہونے لگااوراس طرح ایک سرکاری اعدادوشمارکے مطابق اب تک ۳۴؍بچوں کی موت ہوچکی ہے جس کی وجہ یہی بتائی گئی کہ کیمپوں میں طبی ودیگرانسانی سہولیات کی کمی کی بنیاد پر ان بچوں کی موت ہوئی ہے۔اسی طرح اب بھی ان کیمپوں میں پناہ گزینوں کی تعدادتقریبا۵۰؍ہزارکے قریب بتائی جارہی ہے،جوسہولیات کی کمی کے باعث بہت ساری پریشانیوں میں مبتلاہیں،راشن کے نام پراتنادیاجاتاہے کہ بہ مشکل ہی اس سے پیٹ بھراجاسکے،سردی کاموسم ہے،ان علاقوں میں سردی بھی اپنے شباب پرہے،ایسے میں خیموں میں ایک کمبل میں کس طرح گذاراہوسکتاہے یہ سوچ کرہی کلیجہ منہ کوآتاہے۔اورستم بالائے ستم یہ کہ ان سب کے باوجوداب مسلمانوں کے دم پرحکومت میںآنے والے ملائم سنگھ نے کیمپوں پربلڈوزرچلانے کاحکم دے کرظلم کی انتہاہی کردی ہے،لیکن ان سب کے باوجودہمارے قائدین کی زبان خاموش ہے۔حکومت اورحکومت کے جومسلم وزیرہیں ان سے ہم کیاگلہ کرسکتے ہیں یہ توساراظلم ان کے اشارے پرہی ہورہاہے اورانہوں نے اپنے عمل سے یہ بتلادیاکہ وہ صرف زبان سے مسلمانوں کے ہمدردہیں عملی طورپروہ دشمنوں سے بھی بدترہیں۔
خیر!گلہ ہمیں حکومت سے نہیں ہے،کیوں کہ گذشتہ ۶۷؍سالوں سے ہمارے ساتھ ایساہی ہورہاہے اورہم ہیں کہ صرف گلے شکوے اوروعدوں پرہی جئے جارہے ہیں۔ تو ادھرادھرکی نہ بات کرتویہ بتاکہ قافلہ کہاں لٹا۔مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کاسوال ہے۔ظاہرسی بات ہے کہ جوفسادات ہی مسلمانوں کی ہمدردکہلانے والی سیاسی جماعت کی حکومت کے پولس کارندوں کے سامنے ہوئے ،جن میں ارکان اسمبلی اورپولس کے اعلیٰ افسران بھی شریک تھے توپھرہماراان سے گلہ کرناہی فضول ہے۔فسادات کوچارمہینے گذر گئے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج تک فسادات کے ملزمین کے خلاف کسی طرح کی کارروائی کی گئی ہے اورنہ ہی فسادزدگان کی بازآبادکاری اوران کی حفاظت کاکوئی معقول انتظام کیاگیاہے،لیکن اس سے زیادہ حیرت وافسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے وہ مسلم قائدین جن کی طرف مسلم قوم آس لگائے بیٹھی ہے انہوں نے اپنے ضمیرکے ساتھ اپنی قوم کا بھی سوداکرلیااورخودعیش کی زندگی بسرکررہے ہیں جس کی وجہ سے حکومت آزادہے اوروہ اپنی من مانی کرنے میں مصروف ہے۔مظفرنگرفسادات کے بعدفسادات کی تحقیقات کے لیے خصوصی ٹیم (ایس آئی سی)تشکیل دی گئی تھی لیکن جب حکومت ہی ایماندارنہ ہوتوکسی طرح کی تحقیقاتی ٹیم کیاکرسکتی ہے اوراس خصوصی ٹیم نے بھی اپنی ناقص اورسست کارکردگی سے یہ ثابت کردیاکہ ہمیشہ کی طرح اس باربھی اس تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کامقصدمسلمانوں کی منہ بھرائی تھی اورمسلمانوں کے غصہ کوٹھنڈاکرنے کی ایک گھناؤنی سازش تھی۔تحقیقاتی ٹیم کی اب تک کی رپورٹ کے مطابق کل ۵۷۱؍مقدمات کی تفتیش کی گئی جس میں۶۳۸۶؍لوگوں کوملزم بنایاگیا،ان مقدمات میں۵۳۸؍کاتعلق مظفرنگرسے،۲۷؍کاتعلق شاملی سے، ۲؍کاتعلق باغپت سے اور۱۔۱ مقدمہ کاتعلق میرٹھ اورسہارنپورسے ہے۔لیکن ۴؍ماہ گذرجانے کے بعدبھی اب تک صرف ۲۳۰؍ملزمین کے خلاف چارج شیٹ داخل کی گئی ہے۔ اسی طرح اس ٹیم کی ناقص کارکردگی کاہی جیتاجاگتاثبوت ہے کہ ۲۸؍شکایت کنندگان کااب تک پولس پتہ بھی نہیں لگاسکی اورشواہدنہ ہونے کی وجہ سے ۹؍مقدمات میں فائنل رپورٹ بھی پیش کردی گئی۔اسی طرح آبروریزی کے ۲۷؍ملزمین کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوسکی ہے۔۵۲۲؍ملزمین کے خلاف گرفتاری وارنٹ ہونے کے باوجودبھی ابھی تک ان کی گرفتاری عمل میں نہیںآئی ہے۔قتل کے ۴۸؍مقدمات میں بھی ۸۹؍ملزمین کے خلاف گرفتاری وارنٹ جاری ہونے کے بعداب تک ان کی گرفتاری بھی نہیں ہوسکی ہے۔ذراان اعدادوشمارکوپڑھیں اورغورکریں کہ آخرکیوں؟یہ سب صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی کیوں ہورہاہے؟کیاقصورہے مسلمانوں کا؟کیاصرف مسلم ہوناہی ان کے لیے مصیبت کاسبب ہے؟یاان کاآزادی کے بعدپاکستان پراپنے ملک ہندوستان میں ہی رہنے کوترجیح دیناان کاسب سے بڑاگناہ ہے؟آخرکیاوجہ ہے کہ آزادی کے بعدسے اب تک سنکڑوں فسادات ہوئے جن میں صرف اورصرف یکطرفہ طورپرمسلمانوں کاہی نقصان ہوا،اس کے باوجودبھی آج مسلمان قومی دھارے میں جڑے رہنے کی خواہش میں ان ہی سیاسی جماعتوں سے اپنی وفاداری وابستہ کئے ہوئے ہیں جوانہیں وقفہ وقفہ سے فسادات کی آگ میں جھونکتی رہتی ہیں،کیامسلمان اب بھی نہیں جاگیں گے؟کیااب بھی وقت نہیں آیا ہے کہ مسلمان اپنی طاقت کومنوائے اوران جماعتوں کوواضح طورپرپیغام دے کہ ہم اب جاگ چکے ہیں،اورہم متحدہوچکے ہیں اب ہماری وفاداری ان ہی جماعتوں کے ساتھ ہوگی جوہمارے جان ومال عزت وآبروکی حفاظت کی ضامن ہوگی۔جاگناہوگا،مسلمانوں میں سے ہی کسی کوپرانی روایت اوربھیڑچال کی روش کوختم کرتے ہوئے اناہزارے اور کیجریوال بنناہوگاورنہ پھرہمیشہ کی طرح آئندہ بھی کٹنے اورمرنے کے لیے تیاررہیں۔
مظفرنگرفسادات نے مسلمانوں کوآنکھیں کھول کراوردیکھ کرچلنے کاموقع فراہم کیاہے۔مسلمانوں کودیکھناہوگاکہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ مسلم قائدین میں سے کس نے مسلمانوں کے زخموں پرمرہم رکھاہے اورکس نے مسلمانوں کے زخموں کوکریدکراس پرنمک پاشی کی ہے۔اورپھراسی کے تناظرمیں مسلمانوں کواپنے مستقبل کالائحۂ عمل تیار کرنا ہوگا اوریہ صرف مظفرنگریایوپی کے مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے سنبھلنے کاموقع ہے۔ذرایادکریں! جب راہل گاندھی مظفرنگرپہونچتے ہیں تووہ کس طرح مسلم نوجوانوں کے آئی ایس آئی سے جڑے ہونے کی بات کہتے ہیں،اوراس طرح مظلوم اورستم رسیدہ مسلمانوں پرمزیدظلم وستم ڈھانے کاراستہ کھولتے ہیں، تو وہیں دوسری طرف راہل گاندھی کے اس دورہ نے ملائم کواتناآگ بگولہ کردیاکہ اس نے کیمپوں میں مقیم مظلوم اوربے بس فسادزدگان کوکانگریس اوربی جے پی کاکارکن کہہ کرکیمپوں کوختم کرنے کاہٹلری فرمان جاری کردیا،اس معاملہ میں ملائم مودی سے دس قدم آگے بڑھ گئے کہ مودی نے بھی گجرات کے کیمپوں میں مقیم افرادکونشانہ بنایاتھالیکن اس نے کیمپ پر بلڈوزرچلانے کی ہمت نہیں کی تھی، لیکن ملائم نے کیمپوں پربلڈوزرچلانے کاحکم جاری کردیاجس سے مسلمانوں کے تئیں ان کی سوچ ظاہرہوتی ہے۔اسی طرح اس موقع پر مسلمانوں کواپنے قائدین کوبھی پہچانناہوگاکہ کون سچااورہمدردقائدہے جس نے اس مصیبت کی گھڑی میں ان کاساتھ دیااورکون ہے جس نے صرف اپنابینراورنام ونمودکے لیے کبھی مکانات کی تعمیرکااعلان کرکے توکبھی کمبل کی تقسیم کااعلان کرکے صرف انہیں بہلانے کی کوشش کی ہے۔بہت ہی معتبرذرائع سے مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ کچھ اللہ کے نیک بندے ایسے ہیں جوخاموشی سے فسادزدگان کی راحت رسانی کاکام کررہے ہیں نہ تووہ کوئی بینراستعمال کررہے ہیں اورنہ ہی اخباروں کی شہ سرخیوں میں جگہ پانے کی کوشش کرتے ہیں بس اللہ کے لیے اپناکام کیے جارہے ہیں،لیکن ایسے لوگوں کی تعدادزیادہ ہے جوکام کم کرتے ہیں بینرکااستعمال زیادہ کرتے ہیں اوراخبارکی شہ سرخیوں میں اس طرح چھاجاتے ہیں کہ گویاسارے جہاں کادردان ہی کے جگرمیں ہے۔اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت پردباؤبنایاجائے کہ حکومت فسادزگان کی بازآبادکاری سے پہلے ان کے جان ومال اورعزت وآبروکی حفاظت کویقینی بنائے،اوراس کے لیے ضروری اقدامات کرے تاکہ فسادزدگان اپنے گھروں کوواپس لوٹ سکیں اور انہیں وہاں کسی قسم کاخطرہ نہ ہو،اگرجان ومال اورعزت وآبرومحفوظ رہے گی تورزق کامالک تواللہ ہے محنت مزدوری کرکے اپناآشیانہ پھرسے بسالیں گے اورکاروبارزندگی پھرسے پٹری پر لوٹ آئے گی۔اس وقت میری ان تمام قائدین سے جوفسادزدگان کی راحت رسانی میں مصروف ہیںیہ درخواست ہے کہ وہ راحت رسانی کے کام کے ساتھ ساتھ حکومت پراجتماعی طورپردباؤبنائیں کہ پہلے حکومت ان کے جان ومال اورعزت وآبروکی حفاظت کی ضمانت دے اس کے بعدہی کیمپ خالی کرنے کاحکم نامہ جاری کرے،اگرحکومت اس ضمانت دینے میں پیچھے ہٹے توپھریک جٹ ہوکرمسلمانوں کوتحریک چلانی ہوگی اوراس وقت تک یہ تحریک جاری رہے گی جب تک حکومت مسلمانوں کی حفاظت کی ضمانت نہ دیدے اوراسے عملی طورپرکرکے بھی دیکھائے۔جن قائدین نے اپنے ضمیرکاسوداکرلیاہے ان کاانتظارکرنے کے بجائے نئے چہروں کوسامنے آناہوگااوروہی مثال پیش کرنی ہوگی جوکہ موجودہ دورمیں دہلی میں کیجریوال نے پیش کی ہے تبھی کامیابی ہماراقدم چومے گی ورنہ۔۔
جواب دیں