از: انعام الحق ملپا ندوی اے اشک نہ کر ظلم ذرا دیر ٹھہر جا اک شخص ابھی میری نگاہوں میں بسا ہے آج صبح جب لیٹا ہی تھا تو بچپن کی یادوں نے آگھیرا اور کروٹیں لینے پر مجبور کردیا، میری عمر یوں ہی کچھ 12 برس کی رہی ہوگی، جو عمر کھیل کود میں صرف […]
اے اشک نہ کر ظلم ذرا دیر ٹھہر جا اک شخص ابھی میری نگاہوں میں بسا ہے
آج صبح جب لیٹا ہی تھا تو بچپن کی یادوں نے آگھیرا اور کروٹیں لینے پر مجبور کردیا، میری عمر یوں ہی کچھ 12 برس کی رہی ہوگی، جو عمر کھیل کود میں صرف ہوجاتی ہے، جس عمر میں بچے کی نگاہیں کھیل اور تفریح میں ہی مگن رہتی ہیں، اسی عمر کا واقعہ ہے کہ ہمارے گھر کے قریب واقع جناب کولا مظفر صاحب مرحوم کا "رحمت کدہ" تھا، جس رحمت کدہ کا تعلق ہمارے بچپن سے ہے، جس عمر میں کوئی جمعرات کی رات اس طرح گزرتی نہیں تھی کہ جناب مظفر صاحب کے باغ میں ہم نے اچھل کود نہ کی ہو، جہاں آنکھ مچولی، کبڈی وغیرہ مختلف کھیل کھیلے جاتے، جہاں کے درو دیوار اس عمر کے معصوموں کو خوب یاد کرتے ہوں گے، جب جناب مظفر صاحب کھیلنے کی اجازت دے دیتے تو اس وقت ان کے یہاں ایک خادم "احمد" نامی شخص تھا، جو ان کے جانے کے بعد ہمیں بھگانے کی کوشش کرتا، بچے ہی تو تھے جو ایک طرف بھگاتے تو دوسری طرف سے اندر دوڑ آتے، وہ بیچارہ تھک ہار کر خاموش بیٹھ جاتا، مرحوم ہم بچوں کو بلاتے اور کہتے کہ کھیلو، تمھیں اجازت ہے، شاید کبھی کبھار بچوں کے بے تکے پن نے باغیچہ کی روش کو توڑ دیا ہو، یا ترتیب کو بگاڑ دیا ہو، وہ بچپن ہی تھا جو ہمارے کھیل کا مرکز جناب مظفر صاحب کے مکان کے آس پاس ہی گزرتا تھا، بچپنا گزرتا گیا، نوجوانی کی دہلیز پر پہنچے تو بھی ان کی وہی شفقت برقرار رہی، مرحوم ہمیشہ مسکراتے ہوئے ملتے، ان کے فرزند اصغر مولوی عبداللہ کولا ندوی سے دیرینہ شناسائی رہنے سے کئی موقعوں پر آنا جانا لگا رہا، جب کبھی مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلماء مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی کی آمد ہوتی یا پھر کبھی برادرم عبداللہ مجھے اور کسی ساتھی کو آنے کی دعوت دیتے، اس کے علاوہ کئی ایسے مواقع نصیب ہوئے جب مظفر صاحب کی موجودگی میں ان کے یہاں جانے اور ان کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا، ایک دفعہ مولانا عمار صاحب الہ آبادی جب گھر ہمارے گھر پر تشریف لائے تھے اس وقت مرحوم کا بھی گھر پر آنا ہوا تھا۔ مرحوم کی یادیں ہر عید الفطر کے دن بھی تازہ رہیں گی، جب بھی عید کا دن آتا تو موصوف نماز ظہر کے بعد یا اس سے پہلے ہم بچوں کو عیدی بھی دیا کرتے تھے، جس سے بچے خوش ہوتے تھے، موصوف کے حلق میں کچھ بیماری ہوئی اور آواز بند ہوگئی تو ایک مرتبہ کسی موقع پر جانا ہوا تو ہم سے بات کرنا چاہ رہے تھے، ہم نے بھی اشارے سے بات کرنے کا انداز اختیار کیا تو مجھے اشارہ کیا کہ تم بولو میں سن لیتا ہوں، صرف بات نہیں کرسکتا، ایک مرتبہ ہم اور کئی ساتھی اتر پردیش کے کسی علاقہ کے سفر پر تھے، کئی جگہوں پر بھٹکل کا نام آتے ہی لوگ یہی کہتے تھے کہ جناب مظفر کولا صاحب بھٹکل کے ہیں ہم انہیں جانتے ہیں، یہاں مدرسہ اور مسجد انہوں نے تعمیر کی ہے، موصوف کے یہاں رمضان کے چندہ کیلئے ایک بھیڑ رہتی تھی، جن کے مدرسہ کے لیے ایک خاص رقم طے رہتی، اس کے علاوہ ہر خیر کے کام میں آگے ہی رہتے، موصوف کے یہاں اکثر اکابر علماء کی آمد ہوتی یا کئی اکابر تو اپنے قیام کے لیے ان کا رحمت کدہ ہی منتخب کرتے، وہ رحمت کدہ مہمانوں اور مسکینوں کے لیے رحمت ہی تھا، وہ رحمت ہی بنے رہے، موصوف کہنے کو تو اپنے عزیز و اقارب کو الوداع کہا، مگر موصوف کے متعلق 'اذکروا محسن موتاکم' کے تحت خیر کا تذکرہ رہے گا، موصوف علم دوست تھے، علماء نواز تھے، صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔
بہت دکھ اور افسوس اس بات کا ہے حالات کی ناسازگاری کی وجہ سے نہ آخری دیدار نصیب ہوا نہ نماز جنازہ اور تدفین میں شرکت ہوسکی۔ اللہ موصوف کی مغفرت فرمائے اور متعلقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے اور اپنی رحمت کا خاص حصہ ان پر نازل فرمائے۔ آمین
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں