جناب محمد مظفر کولاصاحب۔۔۔ ہمت وحوصلہ کا ایک نادر نمونہ۔۔۔۔

تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

ایسا لگتا ہے کہ ذات باری تعالی اس وقت  جلال میں ہے، کیا عزیز؟کیا قریب؟ کیا عالم کیا عامی؟ سفر آخرت پر روانہ ہونے والوں کی ایک قطار لگی ہوئی ہے۔ جاننے والے، محبت رکھنے والے اس دنیا سے اٹھ رہے کہ ابھی ایک کا کفن میلا نہیں ہوپاتا کہ دوسرے کی اس جہان فانی سے گزرنے کی خبر آجاتی ہے، اور جنازے ایسے اٹھ رہے ہیں جن پر گور غریباں کا گمان ہوتا ہے۔
ابھی مولانا اقبال ملا صاحب کے غم سے نکل نہیں پائے تھے، کہ جناب محمد مظفر کولا صاحب کے اس دنیا سے دائمی سفر پرروانگی کی خبر نے دل ودماغ پر غم کی چادر چڑھا دی۔ آپ کی رحلت کے ساتھ  خیر کا ایک سنہرا باب بند ہوگیا۔ ان کی زندگی مدتوں روشنی کا مینار بن کر نئی نسل کو حوصلہ اور ہمت کا درس دیتی رہے گی۔
مظفر صاحب نے کوئی ۶۸ سال اس دنیا کے روز شب دیکھے،ابتدائی دنوں میں زندگی کے صحراء کی تپتی ریت پران کے پیر بھی جھلسے۔ اور انہوں نے یہاں کی بہاریں بھی دیکھیں، انہوں نے زندگی کے روشن وتاریک تمام پہلؤوں کو برتا۔
ان کے والد کولا ابوبکر صاحب ایک خوشحال خاندان میں پیدا ہوئے تھے، تجارت باپ دادا سے چلی آرہی تھی، بائیکلہ میں ان کے دو بڑے شو روم تھے۔ جہاں وہ اپنے اہل وعیال کے ساتھ خوش وخرم زندگی گزاررہے تھے، لیکن ۱۹۵۸ء میں حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ زمین پر آگئے، کاروبار تباہ ہوگیا، اور دانے دانے کے لالے پڑ گئے، مظفر صاحب کی والدہ اپنے چھوٹے چھوٹے نونہالوں کو لے کر بھٹکل آگئیں، جہاں اس خاندان کی ترش وسخت زندگی کا آغاز ہوا، چند ایک کو چھوڑ کر دور خوشحالی کے زیادہ تر ہمجولیوں نے ساتھ چھوڑ دیا۔ اور والد نے غم غلط کرنے کے لئے مزاحیہ شاعری میں پناہ لی، اور احقر بھٹکلی کے تخلص سے شاعری شروع کردی، نائطی زبان میں خاندانوں کے نام اور القاب پر آپ کا ایک قصیدہ آپ کی پہچان بن گیا۔
بڑے بیٹے محمد الیاس نے کالیکٹ میں کپڑے کی ایک دکان پر نوکری شروع کی، اس طرح باعزت زندگی گزارنے کے لئے ایک سہارا مل گیا۔
مظفر صاحب کو ابتدائی زندگی ہی میں کمانے کا شوق دامنگیر ہوگیا، اسکول میں جب پڑھ رہے تھے، تو اپنے گھر کی دیوڑھی پر پپرمنٹ، ٹوفی اور ہلکے پھلکے کھانے بیچنے لگے، کبھی گنا، آنے پونے کی خربوز اور تربوز کی پھانکیں کاٹ کر بیچتے، اس طرح قسم قسم کی چیزیں بیچنی شروع کردیں، انکے بنائے ہوئے بھٹکلی ذوق کی بھجیا جسے مقامی زبان میں ((بھجے)) کہا جاتا ہے اسے بڑی مقبولیت ملی، پھر قدیم بس اسٹانڈ کے پاس انہوں نے ایک چھوٹی سی دکان میں اس کا کاروبار شروع کیا، عید الفطر اور عید الاضحی کے دنوں میں وہ اپنے گھر کے پچھواڑے میدان میں ہوٹل کھولتے، یہاں دوچار روز  چنا  چاٹ وغیرہ کے لئے بڑی چہل پہل ہوتی۔
۱۹۷۴ء میں آپ نے دبی کا سفر کیا، جہاں قسمت نے ساتھ دیا، پہلے کمیشن پر کاروبار شروع کیا، آپ کی لین دین میں امانت داری کو دیکھتے ہوئے،ان کا مقامی تاجروں نے ساتھ دیا، اور اس طرح وہ کاروبار میں آگے بڑھتے گئے، اور اپنے بھائیوں کی رفاقت میں آپ کا کاروبار کویت، قطر، بحرین، عمان، سعودیہ وغیرہ تک پھیل گیا۔ آپ کے کاروبار کو منگلور، بنگلور اور بمبئی تک بھی وسعت ملی۔
مظفر صاحب نے اپنی کاروباری زندگی میں صرف خود کھانے کمانے پر توجہ نہیں دی، بلکہ انہیں قوم کے افراد کو بھی تجارت میں لگانے کی فکر دامنگیر رہی،  ان کی رفاقت میں بہت سے گھرانوں میں خوشحالی داخل ہوئی۔ جب ہماری نسل نے بھٹکل میں آنکھیں کھولی تھیں اس وقت یہاں پر قوم کے افراد کا کاروبار اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر تھا، لیکن جہاں خلیجی ممالک میں مقیم  قوم نے تاجر بنگلور اور دوسرے شہروں میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیتے تھے،وہیں آپ نے بھٹکل میں سرمایہ کاری کی راہ دکھائی، اور عائشہ پلازا تعمیر کرکے اپنے قصبے کو ایک تجارتی مرکز بنانے کے راہ کھول دی۔
آپ نے یہاں پر علاج ومعالجہ کی ضرورتوں کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے کولاکو کی شکل میں ایک شاندار اسپتال دیا،جو اپنے وقت میں علاقے کا  کافی ترقی یافتہ اسپتال سمجھا جاتا تھا۔
آپ نے قوم میں اسلامی نہج پر تعلیم وتربیت کے فروغ پر بھی توجہ دی، جس کے نتیجے میں قوم کے ایک ماہر تعلیم صدیق محمد جعفری مرحوم کی رفاقت میں نونہال اسکول قائم کیا، جس سے قوم کی ایک نسل نے استفادہ کیا۔
مولانا محمد ایوب ندوی صاحب کے زیر انتظام جمعیۃ احیاء السنہ اور احیاء المدارس نے جو مساجد اور مدارس کا جال بچھایا اس کی پشت پر آپ ابتدا سے رہے۔ مرکزی خلیفہ جماعت المسلمین بھٹکل کے ماتحت محکمہ شرعیہ کی عمارت آپ کی یادگار ہے۔
بھٹکل کے مقامی اداروں جامعہ اسلامیہ بھٹکل وغیرہ کی ترقی اور اس کی مادی ضرورتوں کی تکمیل کی انہیں ہمیشہ فکر دامنگیر رہی۔
بھٹکل کے بزرگان میں الحاج محی الدین منیری مرحوم۔ ڈاکٹر علی ملپا، وغیرہ سے انہیں بڑا لگاؤ تھا، جامعۃ اور جامعۃ الصالحات کے مفاد میں منیری صاحب کو اہل خیر سے ملوانے کی فکر کرتے اس ناچیز نے بارہا دیکھا ہے۔
قوم کی کاروباری شخصیات میں بلاتفریق اکابر سے محبت اور حفظ مراتب کا خیال رکھنے میں آپ کی مثال شاذ ونادر نظر آتی ہے۔ وہ جب تک صحت مند رہے اور بولنے سے معذور نہیں ہوئے، ان کا معمول تھا کہ نماز فجر کے بعد اپنی والدہ اورحضرت مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ سے فون پر دعا کئی درخواست کرتے۔ حضرت مولانا بھی جب دبی آتے تو ان کے یہاں ضرور قیام کرتے، آپ ہی کے مکان پر ایک مبارک صبح کو تہجد کے وقت حضرت مولانا نے اس حقیر کو بلا کر اپنے حدیث شریف کے جملہ سلسلوں میں سند اجازت سے خصوصیت سے نوازا تھا۔
دبی میں مظفر صاحب کے یہاں بڑی بڑی محترم شخصیات ٹہرتی تھیں، ان کے مدت قیام میں شب روز رفاقت کا موقعہ اس حقیر کو نصیب ہوتا تھا، حضرت مولانا ابرار الحق حقی رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ حضرت حکیم الامت، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد سلیم اللہ خان رحمۃ اللہ علیہ۔ حضرت مولانا محمد سالم قاسمی رحمۃ اللہ علیہ،  حضرت مولانا محمد حفیظ مکی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا مفتی عبد اللہ مغیثی دامت برکاتھم وغیرہ لاتعداد اکابر نے آپ کومیزبانی کے شرف سے نوازا۔ بھٹکل میں بھی ان کا یہی معمول رہا، مولانا قمرالزماں الہ آبادی رحمۃ اللہ وغیرہ کئی ایک اکابر ان کی دعوت پر آتے رہے۔ اور دعاؤں سے نوازتے رہے۔
ان کا دسترخوان بہت وسیع تھا، دبی میں عیدگاہ کے پاس جب ان کا مکان تھا، تو نماز عید کے بعد سب کی عید انہی کے ویلا کے وسیع لان میں ہوتی تھی، جس میں انواع واقسام کے ناشتوں اور کھانوں سے تواضع کی جاتی تھی، اور قوم کا ہر شخص ان کے یہاں جانے میں خوشی محسوس کرتا تھا، کیونکہ وہ ایک کشادہ دل انسان تھے۔
ایسی خوبیوں کی مالک شخصیات شاذ ونادر ہوا کرتی ہیں، اوروہ جب اس دنیا سے اٹھ جاتی ہیں تو بڑاخلا چھوڑ جاتی ہیں۔ مظفر صاحب کی یاد کبھی بھلائے نہیں بھولے گی، ان کے نقوش ایک عظیم انسان کی یاد دلاتے رہیں گے، اور ہم جیسے کمزور دل انسانوں کو ہمت دلاتے رہیں گے۔ اللہ کی ذات سے امید ہے کہ انہوں نے اتنے اچھے کام کئے، زندگی کے ابتدائی اور آخری ایام میں مختلف امتحانوں سے گذرے، وہ ان بھٹیوں کی آگ سے گزر کر کندن بن گئے ہونگے، بالکل خالص، جن حالات سے وہ گزرے اللہ نے انہیں شاید زندگی کے آلائشوں اور لغزشوں سے پاک کرنے کے لئے گذارا ہوگا، اور اس پاک ذات سے امید ہے کہ اعلی علیین میں انہیں جگہ مل رہی ہوگی۔ اللہ مغفرت کرے۔ آمین۔

23 جولائی 2020

«
»

عید کے دن نماز جمعہ کا حکم احادیث کی روشنی میں

اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے