اُترپردیش میں اس وقت ایک لاکھ سے زیادہ اوقاف ہیں۔ بڑے دُکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان کا ایک بہت بڑا حصہ حکومت کے قبضہ میں ہے ایک بڑا حصہ اُن بے ایمان متولیوں کے قبضہ میں ہے جو اُسے اپنے باپ دادا کی جائیداد سمجھتے ہیں ایک حصہ غیرمسلموں کے قبضہ میں ہے اور بہت تھوڑے اوقاف ہیں جو پوری دیانتداری سے اس کا حساب رکھتے ہیں اور انہیں منشائے واقف کے مطابق چلا رہے ہیں۔ ہمارے آدھے اوقاف بھی اگر ایمانداری سے چلائے جائیں تو ہمارے وقف بورڈ کو حکومت سے ایک روپئے کی مدد کی ضرورت بھی نہ ہو بلکہ ہمارا وقف بورڈ ضرورت پڑنے پر حکومت کو قرض روپئے دے دے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو متولی وقف کی روح کو نہیں جانتے وہ بے ایمانی کریں تو ان سے کچھ کہا بھی جائے لیکن جو متولی مولوی کہے جاتے ہیں اور جنہیں معلوم ہے کہ حضور اکرمؐ نے اپنا سب کچھ خود بھی وقف کردیا اور اپنے صحابہؓ کو بھی وقف کی اہمیت بتائی جس کی بناء پر کسی نے اپنے انتہائی قیمتی باغوں کے سارے پھل وقف کردیئے کسی نے مدینہ منورہ میں میٹھے پانی کا کنواں خریدکر وقف کردیا کسی نے اپنا سب کچھ وقف کردیا وہ متولی بھی جب بے ایمان ہوجائیں اور اسے اپنی روزی روٹی کا ذریعہ بنائیں تو کیسے مسلمانوں کا بھلا ہوسکتا ہے؟
اللہ کریم کا احسان ہے کہ نہ ہم کسی متولی کے بیٹے ہیں نہ خود متولی ہیں اور نہ ہمارا کوئی بیٹا متولی ہے لیکن اہل تعلق اور بعض قریبی رشتہ داروں کی کسی ضرورت سے وقف بورڈ جانا پڑا تو دیکھا کہ نورانی چہرہ گھنی اور لمبی داڑھی سفید کرُتا اور رنگین لنگی پہنے سر پر عربی رومال یا ٹوپی اوڑھے ہاتھ میں پاپ کے پنّوں سے بھرا تھیلا لئے بھوکے پیاسے گھاس پر پڑے یا بیٹھے ہیں تو بے ساختہ گناہگار کے منھ سے نکلا کہ خدا اُنہیں غارت کرے یہ مدرسوں، مسجدوں اور یتیم خانوں کے لئے کئے گئے اوقاف کی آمدنی پر کتوں کی طرح لڑتے مرتے اپنے شہر یا قصبہ سے لکھنؤ تک آگئے ہیں اور بے ایمان مقدمہ بازوں کی طرح چپراسی کی طرف اُمید بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کب وہ پکارے اور کب وہ جھوٹا حلفیہ بیان لے کر چیئرمین صاحب کے دربار میں حاضر ہوں؟
ہمارے غریب خانہ سے سو قدم کے فاصلے پر جو مسجد ہے جس میں گھر کے بڑے چھوٹے نماز کے لئے جاتے ہیں اس کی نہ کوئی دُکان ہے نہ اس کی آمدنی کے لئے کوئی مکان وقف ہے۔ اس کے متولی جو صاحب تھے انہوں نے بہت خدمت کی خدا اُنہیں اس کا اجر دے گا۔ انہوں نے جب ہم لوگوں کی دلچسپی دیکھی تو انتہائی محبت سے فرمایا کہ میری دُکان کافی فاصلے پر ہے بمشکل کسی ایک وقت کی نماز میں شریک ہوپاتا ہوں۔ آپ پڑوس میں ہیں میں چاہتا ہوں کہ اس کی ذمہ داری آپ کے کسی بیٹے کے سپرد کردوں۔ انتہائی سکون سے یہ تبدیلی ہوگئی اور اب اس مسجد میں انورٹر بھی ہے اور دو اے سی بھی لگوادیئے گئے ہیں اس حال میں کہ ایک روپئے کی بھی آمدنی نہیں ہے۔ میری اہلیہ مرحومہ کی ایک زمین پر میرے بیٹوں نے مسجد بنانے کی اپنی ماں سے اجازت لی انہوں نے مسرت کا اظہار کیا اور اجازت دے دی کچھ کام ان کی زندگی میں ہوگیا اس کی تکمیل اب ہوئی ہے میں نے اپنے بچوں سے کہا تھا کہ جگہ خالی رہے تو خالی چھوڑ دینا کوئی دُکان یا کوئی گمٹی نہ رکھنا اس کی آمدنی ہوئی تو فتنہ کھڑا ہوجائے گا۔
سارا مسئلہ ان مسجدوں اور عیدگاہوں اور مدرسوں کا ہے جن کی ملکیت کئی کئی دکانیں اور مکان ہیں اور متولی صاحبان کی سب سے بڑی اور خفیہ آمدنی وہ ہے جو رسید بدلوانے کے نام پر بے نام رشوت لی جاتی ہے اور جو کئی کئی لاکھ ہوتی ہے میرے نواسے نے ایک مسجد کی دکان ایک پرانے کرایہ دار کو چار لاکھ روپئے دے کر لی اور رسید بدلوانے کے نام پر ایک لاکھ روپیہ مسجد کی کمیٹی کو دیا۔ ایک یتیم خانہ کی ایک دکان کے متعلق معلوم ہوا تھا کہ اس کا کرایہ ایک کروڑ روپئے ماہوار تھا دوسرے نے وہ دکان لی تو کرایہ ایک کروڑ 25 لاکھ کردیا یہ معقول بات تھی لیکن 20 لاکھ روپئے رسید بدلوانے کے لئے اس کا کہیں اندراج نہیں ہے وہ ان کے پیٹ میں گئے۔
’’اوقاف اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان سے جو کانفرنس ہوگئی ہے اس کا بہت ہی حسین مجلہ ہمارے ہاتھ میں ہے اس میں اوقاف سے متعلق کلام پاک کی آیات بھی ہیں حضور اکرمؐ کی احادیث بھی ہیں اور ان آیات و احادیث کو سن کر اور پڑھ کر اپنا سب کچھ اللہ کے لئے وقف کردینے کی روایات بھی ہیں لیکن کیا اُمید کریں کہ کوئی ایک بھی بے ایمان متولی قسم کھاکر اُٹھے گا کہ وہ اب ایمانداری کے ساتھ ایک ایک پیسہ کا حساب دے گا؟ تعارفی مجلہ میں ایسے کسی عالم کا مضمون نہیں ہے جو اوقاف کے مسائل پر سند ہو دارالعلوم دیوبند کے صدر مفتی یا ندوہ کے مولانا عتیق بستوی سے معلوم نہیں کیوں رابطہ قائم نہیں کیا گیا؟ اور ایسے امام کو چھاپا گیا جو عیدگاہ کے گھاس کے ایک ایک تنکے کو چاندی کے تار کے مول بیچ رہا ہے اور پورا وقف بورڈ جانتا ہے لیکن کسی کا قلم چلتا ہے نہ زبان۔
ہماری دعا ہے کہ جس مقصد کے لئے کانفرنس بلائی ہے اس میں کامیابی ملے اور ایک لاکھ میں ایک ہزار بھی قسم کھاکر اُٹھیں کہ اب بے ایمانی نہیں کریں گے تو اس کا اجر محمد اعظم خاں صاحب کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور یہ بھی صدقہ جاریہ ہوگا لیکن اگر وہی ہوتا رہا جو ہورہا ہے تو ڈر ہے کہ گناہِ جاریہ گلے نہ پڑجائے۔
جواب دیں