معتبرصحافی عارف عزیز سے ’’اُردوہلچل ‘‘ کے لئے جاوید یزدانی کی بات چیت

خاکہ نگار اور تنقید نگار کی حیثیت سے بھی اُن کی شناخت مسلّم ہے، اُنھوں نے سفرنامے بھی لکھے ہیں اس انٹرویو کے ذریعہ ماہنامہ ’’اُردو ہلچل‘‘ کے قارئین عارف عزیز کی شخصیت اور کاموں کے نئے پہلوؤں سے متعارف ہونگے۔) (جاویدیزدانی)
س: آپ کی تعلیم اور پیدائش کے بارے میں بتائیں؟
ج: میر ی پیدائش ۵ مئی ۱۹۴۲ء ؁ ہے میں بھوپال میں پیدا ہوا۔ بی۔اے میں نے حمیدیہ کالج سے پاس کیا ،تاج المساجد سے عربی کی تعلیم حاصل کی ،قرآن حفظ کیا ، ادیب ماہر ،کامل کے امتحانات دیئے۔
س: آپ کی تربیت میں سب سے بڑا کس کا ہاتھ ہے؟
ج: میری تربیت میں مختلف لوگوں کاہاتھ ہے۔ میری والدہ میرے والد ،اساتذہ اور کسی حدتک دوستوں کا بھی میری تربیت میں حصّہ رہا ہے۔ مثلاً اشفاق مشہدی ندوی اور مولوی محمدرضوان خان ندوی مرحوم اور میرے دوست و عزیز حافظ زاہد فاروقی کامیری تربیت میں ہاتھ رہاہے ۔ میرے اساتذہ علامہ قاضی وجدی الحسینی و مولانا ریاست علی صاحب ،پروفیسرابومحمدسحرصاحب، پروفیسر آفاق احمد،محمدادریس مونس صاحب، پروفیسر عارفہ سیمیں صاحبہ جیسی شخصیات نے میرے کیریر کوسنوارنے میں مدد کی ۔
س: آپ نے کہاں کہاں ملازمت کی ؟اورآپ نے صحافت میں کسے اپنااستاد مانا؟
ج: میں نے زندگی کاایک حصہ تجارت میں گذارا ، میرے والد تاجرتھے اور میں نے اُن کی تجارت ۷۰ء تک کی لیکن مجھے لکھنے اور پڑھنے کا بچپن سے شوق تھا، جس کی وجہ سے صحافت کواپنایامیرے لکھنے، پڑھنے کے شوق کو جِلابخشنے والے میرے والدین تھے ۔ وہ اس طرح کہ میرے والد نے بہت کم عمری میں بچوں کے رسالے جاری کروادیئے، مجھے اُنھیں پڑھنے میں دقت پیش آتی تومیرے شوق کو دیکھتے ہوئے میری والدہ اِن رسالوں کو پڑھ کر سناتی تھیں۔ اُس زمانے میں عورتوں کی تعلیم کارواج نہیں تھا لیکن میری والدہ بہت اچھی اردو پڑھی لکھی خاتون تھیں وہ صاحبِ دیوان شاعرعبدالاحدبسملؔ کی بیٹی تھیں،ہمارے ددھیال میں سب سے پڑھی لکھی خاتون مانی جاتی تھیں میرے والداگرچہ تاجرتھے لیکن انہیں مطالعے کابڑا شوق تھا اور ایک اچھے کتب خانے کے مالک تھے اکثررسائل اورکتب پران کے نوٹس پڑھنے کوملتے ہیں۔ ملازمت میں نے صحافت میں داخل ہوکر پہلے ’’ایاز‘‘ میں پھربھاسکر گروپ کے’’ آفتاب جدید‘‘ میں اور ۲۷سال سے روزنامہ’’ ندیم‘‘ میں کام کررہا ہوں۔ درمیان میں روزنامہ ’’افکار‘‘اور ’’بھوپال ٹائمز‘‘ بھی نکالا۔
س: آپ نے صحافت کی باریکیاں کہاں سے سیکھیں ؟
ج: صحافت کی باریکیاں تودرجہ بدرجہ سیکھنے کو ملیں اس میں میرے دوست صحافی اشفاق مشہدی جو مجھ سے پہلے صحافت میں داخل ہوچکے تھے اُن کے تجربہ سے میں نے استفادہ کیااور اشتیاق عارف صاحب کی ماتحتی میں ’’آفتاب جدید‘‘ میں ایک ماہ کام کیا اُن کے علاوہ مقصود اصغرصاحب کے ساتھ میں نے کئی اخباروں میں کام کیااُن سے بھی مجھے بہت سیکھنے کوملا۔
پچھلے ۲۵۔۲۶ سال سے میں’’ ندیم‘‘ کے ایڈیٹر قمراشفاق صاحب کے ساتھ کام کررہاہوں اُن کے تجربہ سے بھی مجھے سیکھنے کاموقع ملاہے۔
س: آپ نے صحافت کاپیشہ ہی کیوں اپنایا؟
ج: یہ آپ کا بڑا دلچسپ سوال ہے جیسا کہ میں نے پچھلے سوال کے جواب میں آپ کو بتایا کہ پڑھنے اور لکھنے کا مجھے جنون کی حدتک شوق تھا زمانۂ تعلیم میں مختلف امتحانات کے لئے نوٹس میں خود تیارکرلیاکرتاتھا جس سے میرے ساتھی بھی استفادہ کرتے تھے۔ آبائی کاروبار میرے مزاج سے میل نہیں کھاتاتھا، اس لئے مجھے پہلے ہفتہ روزہ’’ ایاز‘‘ میں کام کرنے کا موقع ملا تو میں نے اُس کوسنجیدگی سے لیا اوراشفاق مشہدی صاحب کے ساتھ کام کرنے لگا اسی زمانے میں’’ آفتاب جدید‘‘ نکلا تواس میں بھی مجھے کام کرنے کا موقع ملااورمیں اخبارکے بند ہونے تک کام کرتارہا ۔ اُس کے بعد روزنامہ’’ افکار‘‘بھی ہم لوگوں نے نکالا تو اُس کے ذمہ دارکی حیثیت سے الطاف صدیقی صاحب کے اصرار پر ایڈیٹرشپ کا قرعہ فال میرے نام نکلا ،بعد میں روزنامہ ’’بھوپال ٹائمز‘‘ نکالا اوراُس کے بعد میں نے’’ ندیم‘‘ جوائن کیا اس طرح ۴۰سال صحافت ہی میرا اوڑھنا بچھونا بن گئی۔
س: اگر آ پ صحافی نہ ہوتے تو کیا ہوتے؟
ج: اگرمیں صحافت میں داخل نہ ہوتا تو بھی لکھناپڑھنا تو میرے پیشے میں ضرورداخل ہوتا مگراس کی نوعیت کیاہوتی اس کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہاجاسکتا۔
س: آپ کے پسندیدہ لکھنے والوں کے نام بتائیں؟
ج: میرے سب سے پسندیدہ لکھنے والے برصغیر کے نامور جاسوسی ناول نگار ابن صفی ہیں جن کی ناولیں پڑھ کر میں نے بہت کچھ سیکھا ، اُن کے علاوہ روزنامہ ’’الجمعیۃ‘‘ دہلی کے ایڈیٹر مولانا عثمان فارقلیط،’’ قومی آواز‘‘ کے ایڈیٹر حیات اللہ انصاری، ’’عزائم‘‘ لکھنوکے ایڈیٹر جمیل مہدی کی تحریروں سے بھی استفادہ کیا۔
س: پھر آپ نے دوسری اصناف میں طبع آزمائی کیوں نہیں کی؟ مثلاً افسانہ، ناول، شاعری وغیرہ۔
ج: جی ہاں مذکورہ تینوں اصناف سے مجھے صرف پڑھنے کی حد تک رغبت رہی جہاں تک شاعری کاسوال ہے تو میں نے شعوری طورپر شعر کہنے سے پرہیز کیا کیونکہ میں نثر پراپنی توجہ مرکوز رکھنا چاہتاتھا۔ تاہم میں نے تنقید، تحقیق ، خاکہ نگاری میں طبع آزمائی کی ہے جس کاثبوت میرے مضامین اور کتابیں ہیں جو انہیں موضوعات پرمشتمل ہیں اِن کے علاوہ میں نے سفرنامے بھی لکھے ہیں۔
س: آپ نے کبھی افسانہ لکھا ہے؟
ج: نہیں میں نے کبھی کوئی افسانہ نہیں لکھا انشائیے البتہ لکھے ہیں۔
س: آ پ کی کل کتنی کتابیں آئیں؟اُن کاموضوع کیا تھا ناقدوں نے انہیں کس طرح سراہا۔
ج: میری کل ۹ کتابیں ہیں جن میں سے د’’و نبضِ دوراں ‘‘ اور’’ حدِّ نگاہ‘‘ اخبارات میں شائع میرے یومیہ کالم کامجموعہ ہیں۔’’ ذکرِجمیل ‘‘ اور ’’سورج چاندستارے‘‘ مختلف شخصیات پرمیری تحریری خاکوں پرمشتمل ہیں ۔ ’’قدروقیمت ‘‘بھوپال کے ۳۸؍شعراپرتنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے ۔’’ تلاش وتاثر‘‘ میں ۱۹؍تحقیقی وتنقیدی مضامین جمع ہیں ۔’’ مساجد بھوپال‘‘ میں بھوپال کی ۴۰۰مساجدپر تحقیقی کام ہے ۔’’مسافرِ حرم‘‘ حج کا سفرنامہ ہے۔ ’’آزاد ہند میں اردوصحافت کے ساٹھ سال‘‘ ۵۲۲ صفحات پر اردوصحافت کی تاریخ اور خاص طورپرصحافت کے مختلف شعبوں اورعلاقائی صحافت کاجائزہ ہے۔ ناقدوں کی آراء کے لئے آپ ’’عارف عزیزایک تجزیہ‘‘ کے عنوان سے حال میں شائع کتاب ملاحظہ فرمائیں جس میں عصرِحاضر کے ناقد، ادیب اوردانشوروں کی آراء شامل ہیں۔
س: صحافت میں آنے کے بعد کوئی غیرمعمولی واقعہ ….؟
ج: صحافت میں آنے کے بعد توکوئی غیرمعمولی واقعہ نہیں ہوا۔ صحافت میں میراداخلہ ضرور غیرمعمولی ہے خاص طورپراِس لئے بھی کہ میں نے ’’ایاز‘‘اور ’’آفتاب جدید‘‘ میں داخل ہوتے ہی مضامین لکھنا شروع کردئے تھے۔میرے قریبی ساتھیوں کوبھی یہ یقین کرنے میں دشواری ہوتی تھی کہ یہ میرے مضامین ہیں یا کسی سے لکھوالئے ہیں یہاں تک کہ میرے سینئرساتھی خاص طورپر’’ آفتاب جدید ‘‘میں میر ے ساتھی معاصرانہ چشمک کے شکار ہوگئے تھے، میرے چہرہ بشرہ یامیری شبیہہ بھی صحافیوں سے زیادہ کسی مدرسے کے طالب علم واستاد کی نظرآتی تھی۔ لیکن وقت کے ساتھ یہ تمام مفروضات باطل ثابت ہوئے ہیں۔
س: کبھی آپ نے سوچا کہ آپ ماشاء اللہ اسقدر لکھتے ہیں سماج پراور سرکار پراِس کاکیااثر ہوتا ہے؟
ج: سماج پر اثرات کااندازہ تو لوگوں کے ردِّعمل سے ہوجاتا ہے۔ میراکالم جب دوسرے اخبارات میں نقل ہوتا ہے تو اکثروبیشتر بلکہ یومیہ کہوں توغلط نہ ہوگا، مجھے فون کے ذریعہ قارئین کی رائے مل جاتی ہے، لوگ سراہتے بھی ہیں تنقید بھی کرتے ہیں اور مجھ سے بعض موضوعات پروضاحت بھی طلب کرتے ہیں ، بھوپال کی حدتک میرے چاہنے والے اور مجھ سے ناراض لوگوں کی خاصی تعداد ہے مسلم پرسنل لاکی حمایت میں لکھنے پر ترقی پسند حلقوں نے مجھے نشانہ بھی بنایا ہے۔ آج انٹرنیٹ کازمانہ ہے، کچھ نیوز ایجنسیاں میرے مضامین کو اپنی ویب سائٹ پر ڈال دیتی ہیں جنہیں امریکہ، یوروپ اور مشرقِ وسطیٰ کے اُردوداں پڑھتے اور اُن پر اپنی رائے وتبصرے سے نوازتے ہیں اِ س سے سماج پراثرات کااندازہ تو ہوتا ہے لیکن افسوس کہ حکومتیں جس زبان پر کان دھرتی ہیں، وہ ہماری دسترس سے باہرہے۔پھر بھی میں ذاتی طورپر واقف ہوں کہ اُردو اخبارات میں اُٹھائے گئے مسائل کوحکمرانوں نے سمجھااور اُن پر توجہ دی ہے، یہاں مثالیں پیش کرنے کا موقع نہیں ہے۔
س: آپ کو قومی سطح کا کوئی ایوارڈ ملا؟
ج: قومی سطح کا ’’حکیم قمرالحسن کل ہندصحافتی ایوارڈ اُردواکادمی مدھیہ پردیش نے اور نیشنل ایوارڈ‘‘ فار ایکسی لینس اردو جرنلزم‘‘ پریس کونسل آف انڈیا نے دیا جو سرکاری ادارہ ہے۔
س: آپ نے صحافی کی حیثیت سے کتنے ملکوں کاسفرکیا؟
ج: ریاستی دورے کئے ہیں ، پنجاب ، آسام ، میزورم کے صحافتی دورے کرچکا ہوں۔
س: آپ کی بہترین تخلیق جس پر آپ کو ناز ہو ؟
ج: ابھی تک توایسی کوئی تخلیق مجھے نظر نہیں آئی۔
س: اردو کے مستقبل کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ کیا یہ سرکاری مدد کے بغیر ترقی نہیں کرسکتی یااِسے خود اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہیئے؟
ج: اردوزبان اردو بولنے والوں کی مادری زبان ہے جس کی حیثیت ماں کی طرح ہے اور ماں کو نفع ونقصان کی ترازومیں کبھی تولانہیں جاتا، اِسی لئے محبانِ اردو کو اپنی زبان کے فروغ اوراشاعت میں بے لوث ہوکر حصہ لینا چاہیئے تاکہ اُن کی اوران کے پُرکھوں کی وراثت نئی نسل میں منتقل ہو یہ کام ہم اردو والے خود کرسکتے ہیں اور حکومت کا تعاون ملے نہ ملے تو بھی ہمیں کرنا چاہیے میرے گھر میں میرے سب بچوں نے اُردو میڈیم کے سلیمانیہ اسکول میں اردو کی تعلیم حاصل کی ہے ۔بچیوں نے طیبہ بی صاحبہ کے اسکول ’’حیاتِ نسواں‘‘ میں تعلیم حاصل کی ہے میں نے اپنے گھر پر اردو میں نیم پلیٹ لگوائی ۔ اِس عمل سے مجھے کسی نے نہیں روکا ۔
س: آپ نے صحافت میں اتنی عزت اورنام کمایا ؟کبھی آپ نے سوچا کہ آپ کے بعد کون ؟
ج: وقت کے ساتھ ایسی کوئی شخصیت آئے گی جو آنے والے خلا کوپُرکرے گی ۔آج اردو کے شعبۂ صحافت میں جولوگ کام کررہے ہیں ہم اُن سے بھی توقعات قائم کرسکتے ہیں۔
س: آپ ’’ندیم ‘‘میں بہت سالوں سے جُڑے ہیں آپ نے کبھی محسوس کیا کہ ’’ندیم ‘‘کی ترقی کی رفتار سُست کیوں ہے۔ سارے وسائل ہونے کے باوجود ندیم کسی ہندی یاانگریزی اخبار کے مقابل کہیں کھڑا نظرنہیں آتا کیا اردو والے اِس کے ذمہ دارہیں یاندیم کے مالکان اُس کے فروغ واشاعت میں دلچسپی نہیں لیتے؟
ج: ’’ندیم‘‘ کے مالکان تو اپنے وسائل کا اخبار کی اشاعت میں ۶۵ برس سے استعمال کررہے ہیں،اُردو حلقوں کوبھی اپنی ذمہ داری نبھاناچاہیئے۔
س: آپ کی زندگی کاکوئی ایسا واقعہ جس نے آپ کو بہت زیادہ متاثر کیا ؟
ج: میں اپنے بچپن کے ایک واقعہ سے بہت متاثرہُوا ہوں۔ دورانِ تعلیم میں ندوۃ العلماء لکھنؤ گیا وہاں سے کانپور جانا ہوا،حلیم کالج کی مسجد نئی نئی تعمیر ہوئی تھی اوراُس میں بجلی کاانتظام نہیں تھا یوپی کی شدید گرمی غالباً مئی کاموسم تھا ۔ میں نے دیکھا کہ ظہ کی نماز کی سُنتیں حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی ادا کررہے ہیں اور اُن کو پسینہ میں شرابور دیکھ کرایک صاحب عام حیثیت کے اُن پر ہاتھ سے پنکھا جھلنے لگے ۔سنتیں ختم ہوئیں تو حضرت والا نے اُن سے پنکھا چھین لیا اور فرمایا کہ آپ سنتیں پڑھیں اور جیسے ہی اُن صاحب نے نیت باندھی حضرت اُن پر پنکھا جھلنے لگے موجود کئی لوگوں نے پنکھااُن کے ہاتھ سے لینے کی کوشش کی لیکن حضرت نے اِسے کسی کو نہیں دیا وہ صاحب سنتیں پڑھتے رہے اور حضرت اُن پرپنکھاجھلتے رہے اِس واقعہ نے مجھے اِتنا متاثر کیا کہ یہ آج بھی میرے ذہن میں تازہ ہے اور میں اُسے اکثر وبیشتر نقل کرتا ہوں۔
س: مدھیہ پردیش میں اردورسائل واخبارات کی ریڈر شپ کے بارے میں آپ کاکیاخیال ہے اُسے بڑھانے کے لئے کیاطریقے ہوسکتے ہیں؟
ج: نئی نسل میں اردو پڑھنے والے بڑھیں گے تو ظاہر ہے کہ اردو کی ریڈرشپ بھی بڑھے گی اِسی لئے بنیادی کام اردوکی تعلیم ہے جس پر توجہ دینی چاہیے۔
س: اردو مادری زبان والے اردو کے حال ومستقبل دونوں سے غافل ہیں انھیں کیسے بیدار کیا جاسکتا ہے ؟
ج: اردو کے نام پرجوتنظیمیں موجود ہیں انھیں اس بارے میں فکرمندہونا چاہیے آج سے پندرہ بیس سال پہلے تک جب نیاتعلیمی سیشن شروع ہوتاتھا تواردوکی تنظیمیں اسکولوں میں اردو کی تعلیم کے لئے کام کرتی تھیں، طلبا کے داخلہ فارم جمع کراتے وقت مادری زبان اردو لکھوائی جاتی تھی ۔اساتذہ کے تقرر کے لئے دوڑ دھوپ ہوتی تھی لیکن آج ہرسوخاموشی نظرآتی ہے۔ ذمہ داروں کو ہی فکر نہیں۔
س: اردو کے حال اورمستقبل سے آپ کیامطمئن ہیں؟
ج: اردوکے حال اور مستقبل سے بعض وہ حضرات مطمئن ہیں جن کی روزی روٹی کاتعلق اِس سے وابستہ ہے مجھ جیسے شخص کے لئے تو بڑی فکرمندی کامرحلہ ہے کہ تِل تِل ہماری زبان مٹ رہی ہے۔آج صورتِ حال یہ ہے کہ شادی کے کارڈ، مساجد میں اعلانات ، دعائیں،قبرستان میں کتبات سب ہندی میں لکھے جارہے ہیں ۔شاہراہوں پرلگنے والے بینروں اور پوسٹروں میں بھی اردو کی نمائندگی نہیں ہے۔ آج ہم فکرمند نہیں ہونگے تو اِس کاوقت کب آئے گا؟
س: اردو اکادمی کی کارکردگی وکلچرڈپارٹمنٹ میں اُس کے ضم ہوجانے سے اردو اوراکادمی کاکچھ بھلاہوگا ؟
ج: اگرعلامہ اقبال ادبی مرکز جیسا اُردو اکادمی کا حشر نہ ہوا تو، حال کے سدھرنے کی امید کی جاسکتی ہے۔
س: آپ’’ اردو ہلچل‘‘ اور’’کاروانِ ادب ‘‘دونوں پڑھتے ہیں اُنھیں اوربہتربنانے کے لئے کوئی مشورہ ؟
ج: دونوں میں نئی نسل کی نمائندگی بڑھائیں تو اُس کے مثبت اثرات مرتب ہونگے آپ کے وقیع جرائد کانئی نسل سے ربط ضبط بڑھے گا تو اُس میں اردو زبان کے تئیں شوق اور جذبہ پیدا ہوگا ،نئے لکھنے والوں کی تخلیقات کے لئے ایک دوصفحے مخصوص کریں۔
س: بھوپال جو گہوارۂ ادب کہلاتا ہے یہاں سے دواردو کے اخبار نکلتے ہیں اُن کے بھی پڑھنے والے انگلیوں پرگنے جاسکتے ہیں؟ اگراُن دونوں اخباروں کو سرکاری مدد نہ ملے تو یہ ایک قدم بھی چل نہیں پائیں کیایہ ممکن نہیں کہ یہ اخباربغیر کسی اشتہاری مدد کے اردوکے مسائل اورمسلم مسائل بے خوف ہوکر پیش کریں تاکہ مسلمانوں کوایسا لگے کہ اُن کے پیچھے کوئی طاقت ہے جواُن کی رہنمائی کرسکتی ہے؟
ج: اگراخبارکے پڑھنے والوں کی تعداد زیادہ ہو اور اس کا سرکیولیشن غیرمعمولی ہوجائے تو ایسے اخبارکو نظرانداز کرنا حکومت کے لئے ناممکن ہوگا ہندوستان کی دوسری زبانوں کے اخبارات بھی اپنے سرکیولیشن کی بنیاد پرچلتے ہیں مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ کسی نے اُڑیسہ کے ایک ٹھیلہ لگانے والے کودیکھا کہ اُس نے اُڑیازبان کا اخبار خریدا اور اپنے ٹاٹ کے نیچے چھپاکر رکھ دیا جس پر وہ بیٹھا ہوا تھا دیکھنے والے نے سوال کیا کہ کیا تم اخبار پڑھتے ہو یا اُڑزبان جانتے ہو، اُس نے انکار میں جواب دیا تو دیکھنے والے نے سوال کیا کہ پھر اخبارکیوں خریدا ؟جواب میں وہ بولا اُڑیامیری مادری زبان ہے میں اِس کے لئے اتنا تو کر سکتا ہوں کہ ایک اخبار خرید لوں، یہ جذبہ اہلِ اردو میں پیدا ہوجائے تو آج صورتِ حال تبدیل ہوسکتی ہے۔ہمارا حال تو یہ ہے کہ اُردو ٹیچر اور پروفیسر بھی اُردو کااخبارخرید کر پڑھنا نہیں چاہتے یہ سب کا حال نہیں، کچھ اچھی مثالیں بھی ہیں، میں اُردو کے ایک پروفیسر کوجانتاہوں، جواپنے وطن میں اُردو کااخبار لوگ پڑھیں اِس کے لئے مقامی ایجنٹ کی خاموشی کے ساتھ مالی مدد کرتے ہیں ،اُن کانام پروفیسر خالدمحمود ہے اوروطن سرونج ہے، جہاں ’’ندیم ‘‘پڑھنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔
**

«
»

ہائے اللہ ! یہ میں کیا دیکھ رہی ہوں ؟؟

شب قدر ۔ایک رات جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے