مسلم علماء و قائدین کی ذمہ داری

 

(تحریر: مولانا سید محمد واضح رشيد حسنی ندوی رحمہ اللہ ،مجلہ الرائد ، ربیع الآخر ۱٤٣٧ ع)
(ترتیب و ترجمانی: محمد ثالث اکرمی )

     مذہب اسلام کی وہ خصوصیت ۔ جو اس کو دوسرے مذاہب سے ممتاز و فائق کرتی ہے ۔ وہ اتحاد و یگانگت ہے جس کے نمونے اور جلوے شعبہء عقیدہ سے لے کر شعبہء عبادات و اخلاقیات اور زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی آشکارا ہوتے ہیں،  اور جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ اتحاد و اتفاق ۔ کشادہ ظرفی ، وسعت قلبی اور صبر و تحمل کے بغیر ۔  باقی نہیں رہ سکتا ، جیسا کہ اللہ کے نیک اور محسن بندوں کی صفت کے بارے میں قرآن کہتا ہے : وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا ( رحمٰن کے (سچے) بندے وه ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں تو وه کہہ دیتے ہیں  سلام ۔) اسی طرح اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے : وسَارِعُوْۤا  اِلٰى  مَغْفِرَةٍ  مِّنْ  رَّبِّكُمْ  وَ  جَنَّةٍ  عَرْضُهَا  السَّمٰوٰتُ  وَ  الْاَرْضُۙ- اُعِدَّتْ  لِلْمُتَّقِیْنَۙ (۱۳۳) الذين ينفِقُونَ في السَّرَّاء والضَّرَّاء والكاظمين الغيظ والعافين عن النَّاس واللّه يُحبُّ المحسنين (اور اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ وہ ان پرہیزگاروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔ جو آسودگی اور تنگی میں (اپنا مال خدا کی راہ میں) خرچ کرتےہیں اور غصے کو روکتے اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہیں اور خدا نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے).
     قرآن مجید نے ظلم و زیادتی سے  بلکہ ظلم کا جواب دینے سے بھی روکا ہے ، ہاں جب ظلم کا جواب دینے کی اجازت دی تو گناہ کے بقدر سزا اور رد عمل کی اجازت دی لیکن اس صورت میں بھی معافی و درگزر کو أفضل قرار دیا،  چنانچہ قرآن کہتا ہے : يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَيِّبَاتِ مَآ اَحَلَّ اللّـٰهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا ۚ اِنَّ اللّـٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ (87) ( اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ کرو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں اور حد سے نہ بڑھو ، بے شک اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا) ۔ دوسری جگہ ارشاد ہے : وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ ﴿۱۲۶﴾  وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللَّهِ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ ﴿۱۲۷﴾  إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ ﴿۱۲۸﴾  ( اور اگر بدلہ لو تو اتنا بدلہ لو جتنی تمہیں تکلیف پہنچائی گئی ہے، اور اگر صبر کرو تو یہ صبر کرنے والوں کے لیے بہتر ہے۔اور صبر کر اور تیرا صبر کرنا اللہ ہی کی توفیق سے ہے، اور ان پر غم نہ کھا اور ان کے مکروں سے تنگ دل نہ ہو، بے شک اللہ ان کے ساتھ ہے جو پرہیزگار ہیں اور جو نیکی کرتے ہیں۔۔ ) تیسری جگہ ارشاد ہے : وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَـاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا ۘ وَتَعَاوَنُـوْا عَلَى الْبِـرِّ وَالتَّقْوٰى ۖ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْـمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ ۖ اِنَّ اللّـٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ (المائدہ 2)   تمہیں اس قوم کی دشمنی جو کہ تمہیں حرمت والی مسجد سے روکتی تھی اس بات کا باعث نہ بنے کہ زیادتی کرنے لگو، اور آپس میں نیک کام اور پرہیزگاری پر مدد کرو، اور گناہ اور ظلم پر مدد نہ کرو، اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔ چوتھی جگہ ارشاد ہے : وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَـاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓى اَلَّا تَعْدِلُوْا ۚ اِعْدِلُوْا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى ۖ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ خَبِيْـرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (8)   (  اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہ چھوڑو، انصاف کرو کہ یہی بات تقویٰ کے زیادہ نزدیک ہے ، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ اس سے خبردار ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔
      معافی و درگزر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے نمایاں اخلاق واوصاف میں سے ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین بناکر بھیجے گئے چنانچہ قرآن کہتا ہے : *وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(الانبیاء ۱۰۷) اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ، حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمنوں خصوصا منافقین کے ساتھ یہی برتاؤ رہا اور رئیس المنافقين عبد اللہ بن ابی بن سلول کے ساتھ ہوا آپ کا قصہ بہت مشہور ہے ،جیساکہ قرآن میں بھی آیا ہے ۔ : *يَقُولُونَ لَئِن رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ ۚ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ (8)   (یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم اب لوٹ کر مدینہ جائیں گے تو عزت واﻻ وہاں سے ذلت والے کو نکال دے گا ۔ سنو! عزت تو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے اور اس کے رسول کے لیے اور ایمان داروں کے لیے ہے لیکن یہ منافق جانتے نہیں. )    ان باتوں کا کہنے والا رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی تھا، عزت والے سے اس کی مراد تھی، وہ خود اور اس کے رفقاء اور ذلت والے سے (نعوذباللہ) رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) اور مسلمان۔
   اسی صبر و تحمل،  کشادہ دلی ، معافی اور سیر چشمی کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے دشمن آپ کے دوست بن گئے بلکہ ان میں تو کئی ایک نے تو آپ کو مار ڈالنے کا بھی ارادہ کرلیا تھا لیکن جب انہوں نے اپنے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئے گئے اچھے برتاؤ کا مشاہدہ و معائنہ کیا تو حلقہ بگوش اسلام ہوگئے ۔  اسی تصور کی بنیاد پر جنگ میں بھی اسلام کی طرف سے  حدود و قیود طئے کئے گئے تھے ،  اور خود مسلمانوں نے عملا جنگ کرنے والوں اور جنگ نہ کرنے والے دشمنوں کے مابین فرق کرکے دکھایا ہے ، البتہ مسلمانوں کو قتل کرنا ہر صورت میں حرام ہے جائز نہیں ہے ، جیسا کہ قرآن مجید کا ارشاد ہے: *﴿ وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا﴾*[ النساء: 93]
       افسوس کی بات ہے اسلامی تحریکوں نے خصوصا ان تحریکوں نے (جن کی قیادت و سرکردگی ایسے قائدین کررہے ہیں جو موجودہ مغربی فکر اور مغربی تحریکوں سے متاثر ماحول میں پروان چڑھے ہیں) اسلامی کاز کے لئے ان موجودہ مغربی تحریکوں (مثلا مغرب کے کیمونسٹوں) سے اخذ کردہ وسائل اختیار کر رکھے ہیں جو اپنے مقاصد کی تکمیل کی خاطر ہر وسیلے کے لئے وجہ جواز پیدا کرسکتی ہیں ۔

     جیسا کہ واضح رہے کہ اسلام نے  مقاصد اور وسائل کی بیک وقت تحصیل و تکمیل کے لئے کچھ شرطیں متعین کی ہیں اور یہی وہ سبب ہے جس کی بناپر متعدد اسلامی تحریکیں اپنے اغراض ومقاصد کی تکمیل میں نا کامیاب ہیں،  أولا تو مقصد کے انتخاب میں ان کی گئی غلطی اور ثانیا وسائل کے انتخاب میں ان کی غلطی ، بلکہ اسی لغزش اور فروگذاشت کے نتیجے میں ساری محنتیں بے کار و بے سود جارہی ہیں بلکہ یہ محنتیں اسلامی کاز کے لئے اُس سامراج کے دور سے ناكاميوں ، رکاوٹوں اور غلط نتیجوں کا سبب بن رہی ہیں جس نے اپنی تعلیم و تربیت کے جال سے دانشور و تعلیم یافتہ طبقے کا ذہن ہی بدل دیا ہے۔
    یہیں سے سمجھ میں آرہا ہے کہ اسلامی کاز کا طرز و انداز ایک نئی فکر اور سوچ کا متقاضی ہے اور  ۔  امت کی شکست و ناکامی کے أسباب کا مطالعہ کئے بغیر اس کو عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکتا بلکہ  اسلام کے ترجمان مفکرین کو ضرورت ہے اس بات کی کہ وہ اکٹھے ہوکر اس عالم انسانیت کی درگت کا بغور تجزیہ و تحقیق کریں جہاں خود مسلمانوں کے ہاتھوں انسانوں کا قتل پیہم جاری ہے،  اسی وجہ سے تو پوری دنیا میں مسلمان دہشت گرد قرار دئے جاتے ہیں اور ان کی عبادت اور تعلیم کے مراکز پر پابندیاں لاگو کی جاتی ہیں،  اور ہر جگہ اسلامی تحریکوں اور سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے ۔
      ان ناکامیوں کے أسباب میں ایک سبب یہی وہ موجودہ مغربی تحریکات ہیں جن کے سائے تلے عالمِ اسلام سامراج اور کمیونزم کے دور میں کئی عرصے تک زندگی بسر کرتا رہا ۔ دوسری طرف دشمنان اسلام اس کوشش میں ہیں کہ اسلامي کام کرنے والوں کو اسلام کے صاف شفاف پاکیزہ طریقے سے نکال کر انہیں مغرب کا دلال اور ایجنٹ بنایا جائے ، اسی لئے تو اسلامی کاز والے حضرات کی صفوں میں وہ گھس بھی چکے ہیں تاکہ اپنی آزادانہ ہلچل اور خود مختارانہ مہم کے مقصد کے پیش نظر  اسلامی کاز پر وار کرسکیں ،  اسلام کی راہوں کو بند کرسکیں اور وہاں ہونے والے انتشار کو روک سکیں ۔ 

      لہذا آج کا فوری کام یہ ہے کہ ہر شہر میں بسنے والے مسلمانوں کی صفوں کے مابین پائی جانی والی خلیج اور دوری کو پاٹ دیا جائے ، أن کی لڑائیوں اور محاذ آرائیوں کو ختم کیا جائے ،  ان کو مسائل کے تحقیقی حل کے لیے ایک ٹیبل پر جمع کیا جائے اور ان کے مابین جنگ بندی اور مصالحت کے طریقوں کو تلاش کیا جائے۔

«
»

مدارس اسلامیہ……غورو فکر کے چند گوشے

آہ!ملت نے ایک عظیم "رہبر”” کھودیا”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے