مسلم پرسنل لا کی اہمیت وافادیت اور موجودہ دورمیں اس کی ضرورت

از: ڈاکٹر مفتی محمد عرفان عالم قاسمی

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ملک و ملت کی رہنمائی کے سلسلے میں اہم اقدامات کیے ہیں اور کرتا چلا آرہا ہے۔ بقول حضرت مولانا محمد ولی رحمانی رحمتہ اللہ علیہ:
’’مسلم پرسنل لا بورڈکی تاریخ ایمان و یقین کے متوالوں کی تاریخ ہے بصارت و بصیرت جرأت وعزیمت کی تاریخ ہے۔صبر و برداشت احتیاط وہ پرہیز کے ساتھ سوزو دروں اور جذب و جنوں کی تاریخ ہے۔ وہ احتیاط جو بزدلی کا تحفہ دے وہ پرہیز جو حالات سے گریز سکھائیں وہ صبر جو ظلم مسلسل کی تعبیر تلاش کرے اور وہ برداشت جو بے عملی تک پہنچا دے زندہ افراد اور زندہ اداروں کے لیے ناقابل قبول ہے اور نہ گوارہ!
مسلم پرسنل لا بورڈ کا مقصد:
مسلم پرسنل لا بورڈ کا مقصد جہاں بھارت میں مسلم عائلی قوانین کے تحفظ اور شریعت ایکٹ کے نفاذ کو قائم اور باقی رکھنے کے لیے مؤثر تدابیر اختیار کرنا ہے وہیں مسلمانوں کے تمام فقہی مسلکوں اور فرقوں کے مابین خیرسگالی اخوت اور باہمی اشتراک اتحاد اور تعاون کے جذبات کی نشونما کرنااور مسلم عائلی قوانین کی بقاء و تحفظ کے مشترکہ مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے ان کے درمیان رابطے اور اتحاد و اتفاق کو پروان چڑھانا ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اپنے قیام کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایاہے کہ مسلمان اپنے مختلف فیہ مسائل سے اوپر اٹھ کر اتحاد قائم کرے اور اس اتحاد کی بنیاد قرآن اور سنت کے وہ احکام ہیں جن میں کوئی اختلاف نہیں۔
اللہ کے فضل سے پہلے دن سے لے کر آج تک بورڈ میں شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی، حنفی شافعی، مقلد غیر مقلد اور بوہرے سب شامل ہیں۔
لیکن یاد رکھیں کہ اتحادِ امت کا مطلب تمام مذاہب و مسالک کا ادغام یا تمام مذاہب ومسالک سے مشترکہ چیزوں کو لے کر نیا مذہب بنانا نہیں ہے، بلکہ اتحادِ امت کا مطلب اپنے مسلک و مذہب پر عمل پیرا ہوتے ہوئے دوسرے مسلک و مذہب والوں کا احترام اورفروعی مسائل کو نزاعی بنانے سے اجتناب ہے۔
مسلم پرسنل لا بورڈ وقفے وقفے سے اپنا اجلاس ملک کے مختلف حصوں میں منعقد کرتا ہے اس دفعہ مسلم پرسنل لا بورڈ کا انتیسواں اجلاس عام 23/24 نومبر کو ریاست کرناٹک کی راجدھانی بنگلور میں منعقد ہو رہا ہے اس اجلاس میں ملک کے مختلف حصوں سے اکابرین علمائکرام اور دانشوران قوم وملت شریک ہوں گے۔ اور الگ الگ مسلک وملت کے مشترکہ مسائل پر تبادلہ خیال فرمائیں گے۔ اس اجلاس میں وقف امینڈمنٹ بل 2024 کے بارے میں تفصیلی گفتگو ہوگی اور آگے کی حکمت عملی طے ہوگی۔
وقف امینڈمنٹ بل گورنمنٹ کا نیا ایجنڈا ہے اس کے مطابق وہ آگے بڑھ رہی ہے۔حالاں کہ جب وقف ترمیمی بل2024 کے سلسلہ میں لوک سبھا کے رکن اور مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین جگدمبیکا پال نے اس سلسلے میں عوام اور این جی اوز/ماہرین/اسٹیک ہولڈرز اور اداروں سے رائے طلب کی تھی تو صرف مسلم پرسنل لا بورڈ کی ایک آواز پروقف ترمیمی بل کے خلاف ملک کے طول و عرض میں لاکھوں نوجوانوں نے مساجد کے ائمہ،علماء اور مقامی و مرکزی تنظیموں و جماعتوں نے لبیک کہتے ہوئے اپنی جیب خاص سے خرچ کرتے ہوئے قریہ در قریہ،شہر در شہر،دکان در دکان،مکان در مکان اور مسجد در مسجد گھوم گھوم کر صرف دنوں میں اس بل کی مخالفت میں تقریباً پونے چار کروڑ ای میل بھیجے ہیں۔اس کے علاوہ دوسرے ذرائع سے بھی تقریباً ڈھائی کروڑ مسلمانوں نے اس بل کے خلاف جے پی سی کو رائے بھیجی ہے اور گورنمنٹ سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ اس بل کو واپس لیا جائے اور اپنی رائے مضبوطی سے پہنچائی ہے اور گورنمنٹ سے مطالبہ کیا کہ اس بل کو کلعدم کیا جائے مگر افسوس اس بات پر ہے کہ ابھی تک اس پر اصرار کیا جا رہا ہے اور یہ تکلیف دہ بات ہے کہ جوائن پارلیمانی کمیٹی کے پاس یہ معاملہ بھیجا گیا اور پارلیامینٹ کی جانب سے بھیجا گیا ہے لیکن اس کے باوجود وزیر داخلہ نے یہ بیان دیا کہ ہم اس کو ضرور نافذ کریں گے یہ غیر قانونی غیر آئینی غیر معقول بات ہے۔
ہمارا ملک ایک دستوری ملک ہے اور دستور آئین کے تحت اسے چلانا چاہیے اسی میں ملک بھی کی سلامتی ہے اور یہاں بسنے والوں کے لیے بھی سلامتی ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ حکومت پر بھی ملک ملت کے سامنے بھی اپنا موقف واضح کر چکا ہے کہ اس وقت وہ امینڈمنٹ بل کو کلی طور پر ریجیکٹ کرتے ہیں وہ کسی ترمیم کی بات اور کسی شق کو ہٹانے اور بڑھانے کی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ سرے سے ہی اس بل کو مسترد کرتے ہیں۔ اس بل کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس کے آنے کے بعد سخت نقصانات ہوں گے۔ عجیب بات ہے کہ وقف املاک ہیں مسلمانوں کی اور اس میں تصرف کا اختیار ہے کلکٹر کو اور صورتحال یہ ہے کہ وقف کی اکثر جائیدادیں جن پر ناجائز قبضہ ہے وہ حکومت یا حکومت کے کسی ادارے کے زیر استعمال ہیں کلکٹر صاحب حکومت کے تنخواہ دار ملازم ہیں کیا ان سے امید کی جا سکتی ہے کہ جو مقدمات حکومت اور وہ کورٹ کے درمیان ہوں گے وہ ان میں انصاف کر سکیں گے؟
اسی کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی واضح رہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اپنی اس اہم اجلاس میں یہ حکمت عملی طے کرے گا کہ اگر گورنمنٹ اس پر اصرار کرتی ہے اور جبری طریقے پر اس بل کو ہم پر مسلط کیے جانے کا فیصلہ کرتی ہے تو پھر مسلمان کیا راستہ اپنائیں گے آئندہ وہ کس طرح عوامی تحریک چلائیں گے یا اپنا احتجاج درج کرائیں گے۔ یہ تمام امور اس اجلاس میں طے ہوں گے۔ان شائاللہ اس لحاظ سے اس اجلاس کی اپنی ایک اہمیت ہے اور کئی برسوں کے بعد مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے اجلاس عام کے موقع پر ایک عظیم الشان جلسہ منغقد ہونے جارہا ہے۔ امید ہے کہ کرناٹک کے غیور مسلمان اور ریاست کے الگ الگ حصوں سے غیرت ایمانی کے ساتھ اخوت دینی کے ساتھ اور ملک کی موجودہ حالات کے پیش نظر بڑی تعداد میں لوگ آئیں گے اور اس جذبے کے ساتھ آئیں گے کہ ہمیں شریعت کو بھی بچانا ہے اور ہمیں ملک کو بھی بچانا ہے اور ہمیں وقف جائیدادوں کو بھی بچانا ہے۔
اللہ نے چاہا تو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے منعقد کیا جانے والا یہ اجلاس نہ صرف تاریخی ہوگا بلکہ تاریخ ساز ہوگا اور اس کی گونج صرف اس ریاست ہی میں نہیں بلکہ پورے ملک میں محسوس کی جائے گی اور حکومت بھی اس بات کو محسوس کرے گی کہ مسلمان اپنے حق کے لیے بیدار ہے تیار ہے ہوشیار ہے اسے کسی بھی قیمت پر بیوقوف نہیں بنایا جا سکتاہے اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے شریعت کی تحفظ کے لیے مسلم پرسنل لا بورڈ کی آواز میں آواز ملانے کے لیے اور ایک باعزت زندگی اس ملک میں بسر کرنے کے لیے بڑی تعداد میں لوگوں کو شریک ہونا چاہیے۔ کیوں کہ جمہوری ملک میں اٹھے ہاتھوں کی قیمت ہے گرے ہاتھوں کی کوئی قیمت نہیں۔
یہ پرآشوب دور مسلمانوں کی آپسی چپقلش اور الزام تراشی کا نہیں ہے بلکہ یہ نازک وقت اپنے اپنے حصے کا کام کرنے کا ہے ساتھ ہی بطور مسلم اس ملک میں اپنے وجود، تشخص، اسلامی شعار اوراپنے بچوں کے ایمان کو کیسے محفوظ کیا جائے اس بارے میں سوچنے کا ہے۔
ہندوستانی مسلمانوں کو اپنے مذہبی تشخص اور تہذیبی انفرادیت سے محروم کرنے اور انہیں برہمنی تہذیب میں ضم کرنے کی کوشش جو پہلے کچھ احتیاط اور ہچکچاہٹ کے ساتھ کی جاتی تھیں وہ اب کھلم کھلا اور ڈنکے کی چوٹ پر ہورہی ہیں، اس چیلنج کے مقابلے کے لیے بلا شبہ ایک مضبوط اور حکیمانہ مؤقف اور طریق کار کی ضرورت ہے۔
یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ آج ہمارا ملک انتہائی سنگین حالات سے گزر رہا ہے اس وقت مرکزی قیادت کی باگ ڈور ایک ایسی پارٹی کے ہاتھوں میں ہے، جس کی رگوں میں آر، ایس، ایس، جیسی فسطائی ٹیررسٹ پارٹی کا زہریلا خون دوڑ رہا ہے۔ جو ملک کی اقلیتی اکائیوں کو اپنے اندر جذب و ضم کرنے یا سرزمین ہند سے ان کے نام و نشان مٹا دینے کے لیے نت نئے حربے استعمال کر رہی ہے، منصوبہ کے مطابق ملک کے جمہوری و سیکولر ڈھانچے کو تبدیل کر دینے کی تیاریاں سرکاری پیمانے پر جاری ہیں۔
اس سرکار کے زیر سایہ آر،ایس ایس، بجرنگ دل، اور ہندو جاگرن منچ کے رضاکار ڈھٹائی کے ساتھ تمام ہندوستانیوں کے مفادات کے بجائے صرف ایک مخصوص طبقے کے مفاد اور بالاتری کے فروغ و قیام کی مہم زور و شور سے چلائی جا رہی ہے?۔ پوری اقلیتی عبادت گاہوں اور ان کی مقدس مذہبی شخصیات اور ان کی مقدس مذہبی کتابوں کی بے حرمتی کرنے اور انہیں تباہ و برباد کرنے میں لگے ہوئے ہیں، اقلتیوں کی عبادت گاہوں اور تعلیم تعلیمی اداروں کے کردار کو محدود کو مسلوب کرنے کی مہم زوروں پر ہے، آئین ہند کو تبدیل کرنے کی سنگین عمل جاری ہے۔ مسلم پرسنل لا کو ختم کرکے یکساں سول کوڈکو نافذ کرنے کی مکمل تیاری ہوچکی ہے۔
مسلم سماج کے کچھ نام نہاد منافق حضرات جن کی مسلم سماج میں کوئی حیثیت و اہمیت نہیں ہے نہ انہیں شریعت اسلامی کا کوئی پاس و لحاظ ہے ہندوستانی شہری خصوصاً اقلیتوں کے حقوق و اختیارات کو غصب اور سلب کرنے کی ناپاک کوششیں کی جا رہی ہیں جو آئین کی رو سے
ناقابل ترمیم و تنسیخ ہیں۔
یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا ہی نہیں بلکہ ملک کے نظام اور ڈھانچے کا بھی ہے۔واقعات بتا رہے ہیں کہ ملک اس وقت ایک دوراہے پر کھڑا ہے جس کے ایک طرف جمہوریت اور سیکولرزم ہے اور دوسری جانب آر،ایس، ایس کی آمریت و فسطائیت ہے۔اب اس کا فیصلہ ہونا ہے کہ ملک گاندھی جی کے راستے پر چلے گا، یا ناتھورام گوڈ سے کی ڈگر پر۔
ہمارا ملک کسی ایک جماعت یا فرقہ کا نہیں ہے بلکہ سارے ہندوستانیوں کا ہے، یہاں کے ہر باشندہ کو بغیر کسی فرق و امتیاز کے مساوی حقوق حاصل ہیں۔
ہندوستان میں مختلف مذہب تہذیب اور زبان کے لوگ رہتے ہیں، یہی تنوع اور رنگا رنگی، ہندوستانی روایت و تہذیب کی خصوصیت سمجھی جاتی ہے، جسے ہر دور میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ اس رنگا رنگی کے باوجود تمام ہندوستانی شہری، دستوری حقوق و اختیارات کی سطح پر برابر ہیں۔ مذہب و فرقہ کی بنیاد پر ملک میں رہنے والے کسی فرقے کے ساتھ امتیاز یا اس کے کسی بنیادی حق میں کمی یا ختم کرنے کی کوشش کو غیر دستوری عمل مانا گیا ہے، تمام شہریوں کے بنیادی دستوری حقوق کو جس میں جامعیت اور خوبصورتی کے ساتھ، آئین ہند میں سمویا گیا ہے، اس حوالے سے اس کی دنیا کے دستوروں میں ایک ممتاز حیثیت ہے، حتیٰ کہ ملک کی تمام اقلیتی اکائیوں کے ایسے تمام حقوق و اختیارات کے تحفظ کا دستور ہند نیانتظام کیا ہے، جو ان کی مذہبی، تعلیمی شناخت کی بقاء کی ضامن و محافظ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ہمارا آئین ہند پورے غور و فکر کے بعد تیار کیا گیا ہے ملک کے مخلص پیش رو، رہنماؤں نے ملک کے وسیع تر مفادات کے تحت اس بات کا خاص خیال و لحاظ رکھا ہے کہ ملک کے کسی طبقے یا گروہ کے بنیادی حق ختم یا کم کرنے کا کسی دوسرے برسر اقتدار یا طاقتور طبقہ کو موقع نہ ملے، کیونکہ اگر ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے بنیادی حق کو متأثر کرنے کا اصولی وآئینی اختیار مل گیا، تو باہمی تصادم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا، کیوں کہ حق رائے دہی کے دور میں یہ کوئی ناممکن امر نہیں ہے کہ دوسرا گروہ بھی اقتدار میں آجائے۔ پھر اپنے مخالف فکر و خیال کے گروہ فرقے کے بنیادی حقوق کو ختم کر کے ان کے آئینی وجود کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا، ایسی صورت میں ملک کا امن و امان، جو کسی بھی ملک کی ترقی و استحکام کے لیے ضروری ہے، باقی نہیں رہے گا، نتیجے میں ملک و قوم انتشار و انارکی کی لپیٹ میں آجائیں گے، اس جنگل راج کے ماحول میں عدل و انصاف، اور سچائی و ایمانداری کی اہمیت نہیں ہوگی، بلکہ جس کی لاٹھی، اس کی بھینس کا نظام قائم ہو جائے گا، یہ کس قدر تکلیف دہ اور افسوسناک صورت حال ہے کہ ملک کی کچھ فرقہ پرست طاقتیں اپنے ہم خیال مخصوص طبقے کی مدد سے آئین و قانون کی حکومت کے بجائے ایک مخصوص گروہ کے آمرانہ نظام اور کلچر کو قائم و فروغ دینا چاہتی ہیں اور آئین ہند نے ملک کے تمام مذہبی و لسانی گروہوں کو اپنے اپنے مذہب و عقیدہ اور طرز زندگی اپنانے اور ان پر چلنے کی جو آزادی دی ہے اس کو ختم کر کے ان سب پر فاشست ذہنیت رکھنے والے ایک مخصوص طبقے کے مخصوص نظام و تہذیب کو مسلط کر دینے پر تلے ہوئے ہیں۔
ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہییکہ ہم ایک جمہوری ملک کے باشندے ہیں، جہاں قوانین پارلیمنٹ اور اکثریت کی بنا پر بنتے ہیں جبکہ ہم اقلیت کی حیثیت رکھتے ہیں،ساتھ ہی اسلام ہی ہمارے لیے سب کچھ اور اسی کا ضابطہ سرمایہ حیات ہے، ایسے میں ملکی سطح پر کم از کم اسلام کے عائلی
قوانین کی حفاظت اور اسلامی شعائر کی پاسداری قابل غور امراور سنگین معاملہ ہے، جس کا حل مسلم پرسنل لا کے پلیٹ فارم سے تلاش کیا جاسکتا ہے، اور ماضی کی طرح دلجمعی، صبر و استقامت اور ہنر مندی کے ساتھ اعتماد بحال رکھنے کی اشد ضرورت ہے، اور کسی وقت بھی مطمئن ہو کر بیٹھنے اور حالات و حقائق سے آنکھیں بند کرلینے کی گنجائش نہیں، اس کے متعلق فاتح مصر حضرت عمرو بن العاص کی وہ آگاہی اور انتباہ بالکل حسب حال ہے، جو انہوں نے مصر کے فاتح و حاکم بننے کے بعد عرب مسلمانوں کو دیا تھا ’’انتم فی رباط دا?م‘‘ (تم مستقل محاذ جنگ پر ہو) تمہیں ہر وقت چوکنا اور خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ (کاروان زندگی)

«
»

خانقاہ رحمانی ان خانقاہوں میں سے ہے جہاں ذکر و عمل ساتھ ساتھ چلتے ہیں : امیر شریعت

شکریہ اس سفر میں ساتھ دینے والے تمام احباب کا