ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
اترپردیش میں یوگی حکومت نے بین مذاہب شادیوں کے خلاف جو قانون منظور کیا ہے‘ اس کے اثرات کیا ہوسکتے ہیں‘ اس پر بحث جاری ہے۔ بین مذاہب شادی اگر لڑکی ہندو ہو اور لڑکا مسلمان اس پر اعتراض بھی ہے اور اسے قابل سزا جرم قرار دیا گیا ہے۔ فرقہ پرستوں نے اسے ”لوجہاد“ کی اصطلاح دی ہے اور ہندوستانی مسلمانوں کا یہ سب سے بڑا المیہ ہے کہ وہ ابھی تک ’جہاد‘ کا مفہوم اپنے برادران وطن کو سمجھانے میں ناجام رہے۔ حال ہی میں انڈین ایکسپریس میں گرومورتی نے ایک مضمون لکھا تھا جس میں اس نے جہاد کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اسلام کو پھیلانے کا ہر حربہ جہاد کہلاتا ہے۔ ہمارے دانشور‘ علماء اور اکابر انہیں یہ نہیں بتاتے کہ ہر برائی کو مٹانے کی جدوجہد کو جہاد کہا جاتا ہے۔ جہاں تک ”لوجہاد“ کا تعلق ہے یہ ایک مضحکہ خیز بچکانی ذہنی فتور کی دین ہے۔ جو واقعی مسلمان ہیں ان کے پاس نکاح سے پہلے کسی غیر سے محبت کا تصور بھی نہیں ہے بلکہ غیر محرم پر دوسری نظر بھی گناہ ہے۔ چونکہ بہت سارے معاملات میں ہم اپنے اصولوں کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور وہ مسلم حکمران‘ امراء و جاگیردار نسل در نسل مسلمان ضرور پیدا ہوئے مگر اسلام سے ان کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا‘ انہوں نے اپنی حکومتوں کی بقاء کے لئے دوسرے فرقوں میں شادیاں کیں بلکہ محکوم حکمرانوں نے اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لئے خود اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے رشتے مسلم حکمرانوں‘ امراء اور جاگیرداروں سے طئے کئے جس کا خمیازہ آج تک ہندوستانی مسلمان بھگت رہے ہیں۔ بعض تو ایسے فرضی تاریخی کردار ہیں جو محض افسانوی داستانوں سے زیادہ نہیں مگر انہیں اس طرح سے پیش کیا گیا کہ وہ تاریخی حقیقت بن گئے جیسے بھاگمتی اور قلی قطب شاہ کا رشتہ‘ بھاگمتی محض ایک افسانوی کردار ہے۔ برسوں سے اسی کے نام کا بہانہ لے کر حیدرآباد کا نام بھاگیہ نگر تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ جہاں تک اترپردیش کے قانون کا تعلق ہے 22 سالہ ہندو خاتون پنکی نے اپنی مرضی سے مرادآباد کے راشد نامی مسلم نوجوان سے شادی کی جسے گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ پنکی نے عدالت میں باقاعدہ یہ بیان دیا ہے کہ اس نے اپنی مرضی سے مسلم نوجوان سے شادی کی ہے‘ بلکہ اس نے فلمی انداز میں یہ ڈائیلاگ بھی کہا کہ ”جب پیار کرتے ہیں تو ذات برادری تو کوئی دیکھتا نہیں ہے اور پیار کرنا گناہ تھوڑی ہے“۔ یہ پنکی کے خیالات ہیں‘ ہوسکتا ہے ان خیالات کی پذیرائی بھی ہو۔ کیونکہ ہم مغل اعظم کے دور سے یہ کہتے آرہے ہیں ”پیار کیا کوئی چوری نہیں کی“۔ ”پردہ نہیں جب کوئی خدا سے‘ بندوں سے کوئی پردہ کیا…. پیار کیا تو ڈرنا کیا۔“ اگر انارکلی اور نالائق شہزادہ سلیم کی فرضی داستانِ محبت کی طرح حقیقت میں ہزاروں ایسی داستانیں دہرائی جاچکی ہیں۔ اگر چہ کہ ہر دور میں بین مذاہب شادیوں کے منفی نتائج نکلے ہیں تاہم سماج پر اس کا زیادہ اثر نہیں ہوتا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ بین مذاہب شادی کے نتیجے میں ہونے والی اولاد نفسیاتی طور پر منتشر خیالات کی حامل ہوتی ہے۔ باپ اپنے مذہب پر چلانا چاہتا ہے‘ ماں اپنے طریقہ سے پرورش کرنا چاہتی ہے۔ بہت کم ایسی لڑکیاں یا خواتین ہوں گی جنہوں نے کسی مسلم نوجوان سے شادی کرکے خود اپنے آپ کو مکمل طور پر اسلامی تعلیمات کا پابند بنا لیا ہو۔ جو خواتین یا لڑکیاں اسلامی تعلیمات کو سمجھ کر ان کا مطالعہ کرکے مشرف بہ اسلام ہوتی ہیں‘ وہ یقینی طور پر پیدائشی مسلمانوں سے زیادہ اسلامی شعائر کی پابند ہوتی ہیں مگر جو کسی مسلم نوجوان کے عشق میں مذہب تبدیل کرلیتی ہیں انہیں گھٹن محسوس ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال مشہور شاعرہ کملا داس ہے جنہوں نے صادق علی کے عشق میں مشرف بہ اسلام ہوکر اپنا نام کملا ثریا رکھ لیا تھا مگر کچھ دنوں بعد انہوں نے اسلامی تعلیمات‘ پردہ‘ وغیرہ کے خلاف اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اسی طرح اکثر یہ مشاہدہ میں آیا ہے کہ بین مذاہب شادیوں کے نیتجے میں جو اولاد ہوئی ان کے نام غیر اسلامی رکھے گئے چاہے وہ اکبر جرنلسٹ کی اولاد ہو یا کسی اور کی۔ اسی طرح بالی ووڈ سے تعلق رکھنے والوں کا تو شمار ہی کرنا حماقت ہے۔ شہرت‘ دولت کمانے اور اسے بچانے کے لئے یہ اپنے آپ کو تو بیچتے ہی ہیں‘ جس مذہب سے ان کا تعلق ہوتا ہے‘ اس کی بھی توہین کرتے ہیں۔ ویسے بھی غیر اسلامی رسومات ادا کرنے والوں کا اسلام سے کیا تعلق۔
ہندوجاگرن سمیتی نے حال ہی میں ایک پریس کانفرنس میں یہ اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے چھ مہینے میں 2100 مسلم لڑکیوں کو ہندو گھروں کی بہو بنائیں گے۔ یہ ان کا ٹارگیٹ ہے اوران کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے کیونکہ جس طرح ہم نے بہنوں‘ بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم‘ روشن خیالی‘ آزاد فکر کے نام پر بے لگام چھوڑ دیا ہے‘ اس کے بعد یہ توقع رکھنا کہ یہ ہمارے قابو میں رہیں گی‘ محض خوش فہمی ہے۔ مخلوط تعلیم کے مراکز‘ ملٹی نیشنل کمپنیوں کا جائزہ لیجئے۔ حجاب اور اسکارف کے ساتھ ہماری بچیاں کس کس کے ساتھ کتنی آزادی کے ساتھ گھوم پھر رہی ہیں۔ جن کے ساتھ وہ گھوم پھر رہی ہیں‘ ان کا انداز فاتحانہ ہے کیونکہ یہ ہمارے سروں کو جھکانے‘ ہمیں احساس شرمندگی سے دوچار کرنے کا سب سے آسان طریقہ ہے۔
یوگی حکومت نے جو قانون بنایا ہمارے گوشوں سے اس کی مخالفت کی جارہی ہے۔ کیوں؟ کیا ہم بین مذاہب شادیوں کے کلچر کو عام کرنا چاہتے ہیں؟ کیا ہماری قوم میں نوجوان نہیں ہیں جو ہماری بچیوں کا ہاتھ تھام سکیں؟ یقینا آپ کا جواب ہاں میں ہوگا۔ اگر ہمارے نوجوانوں میں ہمت ہوتی تو شاید ہمیں ذلیل کرنے کے لئے ایسے قوانین بنانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ ہمارے اکثر نوجوانوں میں کسی بھی لڑکی کو چھیڑنے‘ فقرے کسنے‘ بعض اوقات ان کے ساتھ وقت گزاری کی ہمت ہے مگر مستقل طور پر شرعی طریقہ سے ان لڑکیوں کا ہاتھ تھامنے کی اس لئے ہمت نہیں کہ وہ بھی لالچی‘ ان کے ماں باپ بھی لالچی۔ اور ایک لالچی قوم کو ان حالات سے بہر حال گزرنا ہی پڑتا ہے‘ جن حالات سے آج گزررہے ہیں۔ بجائے ان قوانین کی مخالفت کرنے کے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی اولاد کی اس انداز میں تربیت کریں‘ انہیں اچھے برے کی تمیز سکھائیں کہ وہ اس قسم کے قوانین کے شکنجے میں نہ آسکیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر دور میں منصوبہ بند طریقہ سے ہماری قوم کے ہونہار‘ قابل اور اثاثہ قسم کے نوجوانوں کو محبت کے جال میں پھانسہ جاتا ہے۔ ہمارے کئی کرکٹرس‘ اسپورٹس مین‘ سائنسداں‘ آئی اے ایس‘ آئی پی ایس آفیسرس کو کبھی کوئی ماڈل تو کبھی کوئی فلمی اداکارہ اپنی اداؤں سے رجھاکر اپنے جال میں اس طرح سے پھانس لیتی ہے کہ وہ کہیں کا نہیں رہتا۔ اس کا گھر خاندان کا شیرازہ بکھیر دیتا ہے‘ ذہنی انتشار کا شکار ہوکر جب وہ کہیں کا نہیں رہتا تو اس کا سب کچھ لوٹ کھسوٹ کر اسے مقام عبرت بناکر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ایسی کتنی مثالیں ہمارے درمیان اب بھی موجود ہیں۔ چونکہ قابل‘ ہونہار بچوں پر ان کے والدین کا کنٹرول باقی نہیں رہتا کیونکہ یہ کمائی پوت ہوتے ہیں۔ ایک ایسے مقام پر آجاتے ہیں جہاں اولاد سے ماں باپ اور ارکان خاندان کی پہچان ہونے لگتی ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ سمجھوتہ کرلیتے ہیں۔
ہندوستان میں بین مذاہب شادیاں سب سے زیادہ عیسائیوں میں ہوتی ہیں۔ دوسرے نمبر پر سکھ ہیں‘ ہندو تیسرے نمبر پر ہیں اور مسلمانوں کا تناسب صرف 0.6 فیصد ہے۔ اس میں بھی عمر کا بڑا عمل دخل ہے۔ 14سے 19 سال تک کے عمر کے نوجوانوں میں انٹرفیتھ شادیوں کا تناسب 2.8 فیصد ہے اور 25-29 سال کے افراد میں 1.9 فیصد۔ قابل‘ ہونہار اعلیٰ عہدوں پر فائز مسلم نوجوانوں کو منصوبہ بند طریقہ سے اپنے جال میں پھانسنے کی سازش یہ بھی ہے کہ وہ نوجوان اپنی قوم سے دور ہوجائے۔ اگر وہ دوسری کمیونٹی کو فائدہ نہ بھی پہنچائیں تو اپنی کمیونٹی کے لئے بھی بے فیض ہوکر رہ جائیں۔ ہمارے درمیان ایسے بے شمار مسلم عہدیدار موجود ہیں جو اپنی قوم کیلئے نہ لیپنے کے کام کے ہیں نہ تھوپنے کے۔
مدینہ ایجوکیشن سنٹر کے بانی جناب کے ایم عارف الدین صاحب کے انتقال کے بعد ان کے شاگردوں نے ان کے یادگار لکچرس کے علاوہ سیرت النبیؐ اور تاریخ اسلام پر انٹراسکول مقابلوں کا فیصلہ کیا ہے۔ اسکول کی سطح سے بچوں میں بین مذاہب شادیوں کے اپنی خاندان اور سماج پر منفی اثرات سے متعلق شعور بیدار کیا جائے تو مستقبل میں جب یہ نوجوان ہوجائیں گے تو وہ غلطی نہیں کریں گے جو…. ان کے پیشرو جوانوں نے کی تھی۔ لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم اور ان کی آزادی کے نام جس طرح ہم انہیں کھلی چھوٹ دے رہے ہیں اسکے اثرات کیا ہورہے ہیں‘ کتنے ماں باپ خون کے آنسو رورہے ہیں‘ یہ کسی سے چھپی ہوئی بات نہیں ہے۔
ہمارے خلاف چاہے کتنے بھی قوانین بنائے جائیں اگر ہم اپنی جگہ صحیح ہوں‘ مضبوط ہوں تو یہ قوانین بے ضرر ہوجائیں گے۔ بین مذاہب شادیوں کی حمایت اور بعض قوانین کی مخالفت کو ہمارا دانشور طبقہ سیکولرازم کے منافی قرار دے رہا ہے۔ سیکولرازم کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے مذہب سے دور ہوجائیں۔ ویسے بھی جس ملک میں ہم رہ رہے ہیں یہ ملک بڑی تیزی سے اپنے کردار کو بدل رہا ہے بلکہ مشہور انگریزی مصنف ونئے سیتاپتی کے الفاظ میں ”ہندوستان ہندو راشٹر بن چکا ہے“۔ ونئے سیتاپتی نے اپنی تازہ تصنیف ”جگل بندی… بی جے پی مودی سے پہلے“ میں دلائل کیساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اگر گاندھی جی کا قتل نہ ہوتا تو بہت پہلے ہندوستان ہندو راشٹر ہوجاتا۔ ہم حقائق سے چشم پوشی اختیار نہیں کرسکتے۔ ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں اس میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے بچوں کو تعلیم کے ساتھ تربیت دیں کہ محبت کے نام پر تباہی اور بربادی کے دلدل میں نہ دھنسیں۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں