مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اس وقت پورے ہندوستان میں مختلف تنظیموں کے ذریعہ مسلم لڑکیوں کو مختلف ہتھکنڈے استعمال کرکے غیر مسلم لڑکوں سے شادی کرنے پر اکسایا جاتا ہے، اس مہم میں کامیاب لڑکوں کو خطیر رقم دی جاتی ہے؛ تاکہ وہ انہیں لبھانے ، محبت کے جال میں پھنسانے اور اپنے بستر تک لے جانے میں کامیاب ہوجائیں، ملک کے مختلف حصوں اور بہار کے بہت سارے اضلاع سے اس قسم کی تشویشناک ، المناک اور پریشان کن خبر ہر دن موصول ہو رہی ہے ، اس طرح ان لڑکیوں کو دین وایمان سے بے زار کرکے ہندو مذہب میں داخل کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔
ہماری لڑکیاں ان کے جال میں جن وجوہات سے پھنستی ہیں، ان میں ایک بڑا سبب اختلاط مرد وزن ہے ، یہ اختلاط تعلیمی سطح پر بھی ہے اور ملازمت کی سطح پر بھی ، کوچنگ کلاسز میں بھی پایا جاتا ہے اور ہوسٹلز میں بھی ، موبائل انٹرنیٹ ، سوشل میڈیا کے ذریعہ یہ اختلاط زمان ومکان کے حدود وقیود سے بھی آزاد ہو گیا ہے ، پیغام بھیجنے اور موصول کرنے کی مفت سہولت نے اسے اس قدر بڑھا وا دے دیا ہے کہ لڑکے لڑکیوں کی خلوت گاہیں ہی نہیں جلوت بھی بے حیائی ، عریانیت کا آئینہ خانہ بن گئی ہیں، یہ اختلاط اور ارتباط آگے بڑھتا ہے تو ہوسناکی تک نوبت پہونچتی ہے ، جسے محبت کے حسین خول میں رکھ کر پیش کیا جاتا ہے ، والدین اور گارجین یا تو اتنے سیدھے ہیں کہ انہیں لڑکے لڑکیوں کے بے راہ روی کا ادراک ہی نہیں، یا اتنے بزدل ہیں کہ وہ لڑکے لڑکیوں کی بے راہ روی پر اپنی زبانیں بند رکھنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں ، یا تلک جہیز کی بڑھتی ہوئی لعنت ، شادی کے کثیر اخراجات کے خوف سے ان کی اپنی خواہش بھی یہی ہوتی ہے کہ لڑکیاں اپنا شوہر خود تلاش لیں ، کورٹ میریج کرلیں؛ تاکہ یہ درد سر ان سے دور ہوجائے، ان خیالات کے پیچھے ان کی غربت اور دینی تعلیم وتربیت سے دوری کا بڑا دخل ہوتا ہے ، اگر بنیادی دینی تعلیم وتربیت والدین اور لڑکے لڑکیوں کے پاس بھی ہو تو انہیں اس کا ہرپل احساس ہوگا کہ غربت اور شادی کے حوالے سے پریشانیاں وقتی ہیں اور ایمان چلے جانے کی صورت میں آخرت کا عذاب حتمی اور لازمی ہے تو شاید ان کے لیے ان وقتی پریشانیوں کو جھیل جانا آسان ہوجائے ۔
اس بُرائی سے گذرنے والی لڑکیوں کے اندر ایک طرف تو خوف خدا نہیں ہوتا دوسری طرف عدالت کے مختلف فیصلے جس میں عورتوں کی آزادی کے نام پربے لگام جنسی تعلقات کو جائز قرار دیا گیا اور طوائفوں کی طرح ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کو قانونی حیثیت حاصل ہو گئی، اب وہ ایک مرد کی بیوی رہتے ہوئے دوسرے کے بستر گرم کرنے کے لیے آزاد ہیں، شوہر اس بے راہ روی پر طلاق کی عرضی عدالت میں دے سکتا ہے، لیکن اس پر کوئی دارو گیر نہیں کر سکتا، جری بنا دیا ہے، اس قسم کے فیصلے نے ان کے دل سے سماجی خوف کو نکال دیا ہے اور وہ اپنی من مانی پر اتر آئی ہیں، انہیں نہ اللہ رسول کا خوف ہے اور نہ سماج کا، رہ گیا قانون تو وہ ان کی پیٹھ پر ہاتھ رکھے ہوئے کھڑا ہوا ہے، ایسے میں بے راہ روی عام ہوتی جا رہی ہے ۔
یہ بے راہ روی کنواری لڑکیوں میں تاخیر سے شادی کی وجہ سے بھی آتی ہے اور عورتوں میں شوہر کے بسلسلۂ ملازمت ان سے دور رہنے کی وجہ سے بھی، یہ دوری ملکی ملازمت میں بھی ہوتی ہے لیکن غیر ملکی ملازمت کے حدود وقیود کی وجہ سے دوسرے ملکوں میں کام کرنے والے شوہروں کے یہاں کچھ زیادہ ہی ہوجاتی ہے ۔ مجبوریاں اپنی جگہ ؛ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس دوری کی وجہ سے بڑے مفاسد پیدا ہوئے ہیں۔
ارتداد کی اس نئی لہر سے ہر ایمان والے کا بے کل اور بے چین ہونا فطری ہے ، ضرورت ہے کہ ان اسباب کو دور کیا جائے، جس کی وجہ سے ہماری لڑکیاں مرتد ہو رہی ہیں اور غیر مسلم لڑکوں سے شادی کرکے اپنی عاقبت خراب کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔
ظاہر ہے اس فتنہ کا تدارک کسی ایک شخص اور تنظیم کے بس میں نہیں ہے ، اس کے لیے ضروری ہے کہ گاؤں اور محلہ کے مسلم اور غیر مسلم دانشورسر جوڑ کر بیٹھیں، اس لیے کہ اس مسئلہ سے سماج میں تناؤ پیدا ہوتا ہے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہونچتا ہے ، اس کے علاوہ وقفے وقفے سے خواتین کے اجتماعات رکھے جائیں، جوان لڑکیوں کو خصوصیت سے انہیں اس راہ پر بڑھنے کے دنیوی اور اخروی نقصانات سے آگاہ کی جائے، اس کام کے لیے تمام ملی تحریکیں اور تنظیمیں آگے آئیں اور اپنے اپنے حلقہ اثر میں اس فتنہ کے تدارک کی کوشش ترجیحی بنیادوں پر کریں، مسلم گھرانوں کے اندرونی حالات پر بھی نگاہ رکھی جائے اور مقامی سطح سے اصلاح کا کام شروع کیا جائے ، غیر مسلم لڑکوں کے مسلم محلہ میں ٹیوشن پڑھانے اور دوسرے مقاصد سے آنے پر بھی نگاہ رکھی جائے، مرد وزن کے اختلاط سے بچا جائے ، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوںمیں لڑکے لڑکیوں کے سکشن الگ الگ کرنے کے لیے اداروں کے ذمہ داروں سے باتیں کی جائیں ، مدارس والے بھی لڑکیوں کے لیے الگ تعلیم کا نظم کریں، تلک وجہیز کی لعنت کو ختم کیا جائے ، انڈررائڈ موبائل سے لڑکیوں کو بچایا جائے اور ان کی حرکات وسکنات پر خصوصی توجہ دی جائے، تاکہ پہلے مرحلہ میںہی اس کے سد باب کی کوشش کی جاسکے ، لڑکیوں کو وراثت میں حصہ دینے کی مہم چلائی جائے اور مورث کو ان کی حق تلفی سے روکا جائے ۔
جن علاقوں میں ارتداد کی یہ نئی قسم سامنے آئی ہو، اس کا مقامی سطح پر سروے کرایا جائے ، گارجین کی جانب سے گم شدگی کا اف آئی آر درج کرایا جائے ، وکلاء سے قانونی مدد لی جائے ، تاکہ ایسی لڑکیوں کی گھر واپسی کا کام آسان ہوجائے
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں