نازش ہما قاسمی
ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کے کانوں میں یہ خبر روز پہنچتی ہے کہ فلاں مسلم لڑکی نے فلاں غیر مسلم لڑکے سے شادی کرلی۔ فلاں کالج میں پڑھنے والی لڑکی پیار میں اندھی ہوکر کورٹ میرج کرلی، فلاں بڑے باپ کی بیٹی نے عاشق کے ہمراہ گھر سے بھاگ کر شادی کرلی، فلاں مذہبی شخص کی لڑکی نے ایک بھنگی سے شادی کرلی۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ خبریں انتہائی دلدوز اور پریشان کرنے والی ہوتی ہیں، میں جب بھی یہ خبر سنتا ہوں دل کانپ جاتا ہے اور یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ آخر کس طرح ہماری بچیاں غیر مسلموں سے شادی کررہی ہیں، آخر انہیں اسلام میں کیا خرابی نظر آتی ہے کہ وہ مذہب اسلام ترک کرکے غیر مسلم بننے پر فخر کرتی ہیں، کیوں وہ ماں باپ سے بغاوت پر اتر آتی ہیں اور اسلام سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔
اسلام نے عورتوں کو دیگر مذاہب کے مقابلے سب سے بہترمقام دیا ہے پھر اس بہترین مقام سے وہ ذلت کی طرف کیوں جارہی ہیں؟ ملک کے ایک بڑے اخبار کی سروے رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں چالیس ہزار سے زائد مسلم لڑکیوں نے غیر مسلموں سیشادی کی ہیں۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ یہ وہ واقعات ہیں جو درج کیے گئے ہیں اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد ایسی ہوسکتی ہے جو درج نہیں ہوں گی۔ مسلمانان ہند کیلیے یہ المیہ ہے کہ ان کی لڑکیاں غیر مسلم بچے جنیں گی۔ آر ایس ایس کا خواب پورا ہوتا نظر آرہا ہے کہ 'ہم کثیر تعداد میں مسلم بیٹیوں کو بہوئیں بناکر لائیں گے'۔ آر ایس ایس سے وابستہ تنظیم نے ۲۰۱۷ میں صرف چھ ماہ کے اندر ۲۱۰۰ مسلم لڑکیوں کو ہندو گھرانے کی بہو بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن آج جب ہم تین سال بعد نظر دوڑاتے ہیں تو تقریباً چالیس ہزار سے زائد ہماری بچیاں غیر مسلموں کے گھروں میں نظر آتی ہیں۔ آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔ مسلم تنظمیں برائے نام اس معاملے میں کام کررہی ہیں، ان کا بچانے کا ہدف آر ایس ایس کے 'بہو بنانے' کے ہدف سے کمزور ہے۔ آر ایس ایس اپنے مشن میں کامیاب ہے جبکہ ہم اپنی بچیوں کو بچانے میں ناکام۔ لاک ڈاؤن کے زمانے میں طویل عرصہ تک گاؤں میں رہنے کا موقع ملا۔ بڑے قریب سے اپنے معاشرہ کو دیکھا جہاں پہلے لڑکیاں شرمیلی تھیں، گھروں کے کام کاج میں مگن رہتی تھیں، وہیں اب گاؤں دیہاتوں میں بھی آزاد خیالی آگئی ہے۔ بڑی تعداد میں لڑکیاں اسکول وکالج جاتی ہیں۔ چند ایک کو چھوڑ کر اکثر لڑکیوں کے لڑکوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں اس میں مسلم بھی ہیں غیر مسلم بھی۔ یہ افسوسناک مقام ہے کہ ہماری لڑکیاں جاتی تو پڑھائی کرنے لیکن پائی جاتی ہیں کہیں اور۔۔۔ یہ سب لڑکیاں اس قدر پیار میں اندھی ہوتی ہیں کہ انہیں کچھ نظر نہیں آتا، جب انہیں سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو چند ماہ کی دوستی پر اپنے ماں باپ، بھائی بہن وغیرہ سے بغاوت کربیٹھتی ہیں اور آشنا کے ساتھ گھر سے راہ فرار اختیار کرلیتی ہیں۔ اگر معاملہ مسلم ہوتا ہے تو کسی طرح سمجھا بجھا کر باہم نکاح کی کوشش کی جاتی ہے لیکن جب معاملہ ہندو کا ہوتا ہے تو فرقہ وارانہ رنگ لے لیتا ہے۔ ہندو تنظیمیں مسلم لڑکیوں کو اس طرح اپنے قابو میں کرتی ہیں کہ انہیں یقین ہوجاتا ہے کہ یہ ہمارے مسیحا ہیں۔ گاؤں میں اس بار ایک صاحب نے بتایاکہ کچھ ہندو نوجوان ہیں جن کے پاس گاؤں کی مسلم لڑکیوں کے نمبرات ہیں وہ ان نمبرات کے ذریعے انہیں پھانستے ہیں، پیار کا جھانسا دیتے ہیں، اور ان سے ان کا دین، ان کی عزت، ان کی آبرو چھین لینے کے بعد انہیں کہیں کا نہیں چھوڑتے۔ ایسی حالت میں ماں باپ بھی سماج کے ڈر سے اپنی ستائی ہوئی بچی کو اپنانے سے کتراتے ہیں، اور پھر وہ لڑکی کہیں کی نہیں رہتی، یا تو خودکشی کرلیتی ہیں، یا پھر غلط راہ پر چلی جاتی ہیں۔ یہ صرف ایک گاوٓں کا واقعہ نہیں ہے، ہر گاوٓں میں ہر شہر میں یہ واقعات روز افزوں تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ ان سب کا ذمہ دار آخر ہے کون؟ ہم کہیں گے ماں باپ۔۔۔جی پہلی ذمہ داری تو ماں باپ کی ہی ہے۔ کیونکہ تربیت ایک ایسا زیور اور ایسا آلہ ہے جس کی موجودگی اور تکمیل کی صورت میں تیز و تند طوفان بھی قدم میں لڑکھڑاہٹ پیدا کرنے سے عاجز و قاصر ہوتے ہیں۔ تربیت کا تصور بنیادی دینی تعلیم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ جب تک بنیادی تعلیمات جو مذہب اسلام اور اسلام کی حقانیت کو ان کی روح میں جاگزیں نہ کردے کامیاب نہیں کہی جاسکتی ہے۔ اگر بنظر غائر اپنے ماحول کا جائزہ لیا جائے تو یہ عیاں ہوجاتا ہے کہ جو دھن اور لگن ماں باپ اور سرپرست حضرات کو عصری علوم کی ہوتی ہے وہ دینی علوم کی نہیں ہوتی ہے۔ ایسی تعلیم جو بچیوں کے لئے بے راہ روی، بے حیائی اور بد اطواری کا سبب بنے اس سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ وہ جاہل اور ان نام نہاد علوم سے ناآشنا رہے۔
تربیت اور والدین کے معاملہ میں ایک مزید اضافہ ہوتا ہے، اور وہ ہے دور حاضر میں موبائل کی رسم۔ جب موبائل کا تعلق بچوں اور بچیوں سے ہو تو اسے رسم ہی کہا جائے گا، کیونکہ یہ ضرورت کے زمرے میں داخل نہیں ہے۔ اس موبائل نے گھر کی بہوئیں بیٹیاں کیا، ماوٓں کے سر کھول دیئے ہیں۔ بچیوں کی چھوٹی موٹی ضد پورا کرنے اور انہیں اپنے خاندان میں بلا وجہ قابل ظاہر کرنے کے شوق میں بعض ماں باپ ان کے ہاتھ میں موبائل تھمادیتے ہیں۔ موبائل ایسا زہر ہے جو صرف انسان ہی نہیں بلکہ انسانیت کے لئے بھی سم قاتل ثابت ہوجاتا ہے۔ انٹرنیٹ کی لامحدود دنیا انہیں باپردہ اور محفوظ گھرانے میں بھی بے حیائی اور بدقماشی کی اس تعلیم سے آشنائی فراہم کر دیتا ہے جو بد سے بد تر معاشرہ بھی سکھانے اور پڑھانے سے عاجز و قاصر ہوتا ہے۔بلی کو دودھ کی حفاظت پر معمور کرنا اس قدر ذہنی دیوالیہ پن کی علامت نہیں ہے جتنا اپنے بچے اور بچیوں کو موبائل دے کر ان سے اچھائی کی توقع کرنا ہے۔ ہماری وہ تنظیمیں بھی قابل مواخذہ ہیں جو مسلمانوں کے تعاون سے چل رہی ہیں۔ مخیر مسلمان ان کا تعاون اس لئے کرتے ہیں کہ وہ لوگ مسلمانوں میں پھیلی بے راہ روی، ان کے مسائل، وغیرہ کو حل کرے۔ ہماری تنظیمیں کرتی ہیں، لیکن طریقہ کار وہ نہیں ہوتا، جو ہونا چاہئے۔ ہماری ایک بڑی خامی اور خرابی یہ ہے کہ ہم کام کم کرتے ہیں اور اخبار بازی اور نمائش کا ڈھنڈھورا زیادہ پیٹتے ہیں۔ جس کام کو زمینی سطح پر انجام دینا ہے، ہم اسے اخبارات کی سرخیوں میں بیان کرکے گوشہ عافیت کو سدھار جاتے ہیں۔ ہمارے پاس اس برائی کے روک تھام کے لئے نہ تو کوئی مستقل لائحہ عمل ہے اور نہ کوئی منصوبہ بندی ہے، پھر کیونکر ہم اپنا دفاع کرسکتے ہیں۔ اس سمت میں ملک کی تمام مسلم تنظیموں کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر کس طرح ہم اپنی بچیوں کو کفر سے بچائیں۔ کیونکہ لگی ہے آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں۔۔۔۔خدا را! اس سمت قدم اٹھائیں اور اس بگڑتے ماحول کو اپنے مطابق سازگار بنائیں۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو!(یو این این)
جواب دیں