ڈاکٹرمحمد رضی الاسلام ندوی ہندوستان میں اور خاص طور پر شمالی ہندوستان میں دینی مدارس کی ایک زریں تاریخ ہے۔ ان مدارس نے جہاں ایک طرف مسلم عوام اور ان کی نئی نسل کے دین و ایمان کی حفاظت کی اہم خدمات انجام دی ہے، وہیں ملک سے جہالت و ناخواندگی کا خاتمہ کرنے اور […]
مسلم بچوں کی تعلیم اور کیریر سازی میں مدارس کا کردار
ڈاکٹرمحمد رضی الاسلام ندوی
ہندوستان میں اور خاص طور پر شمالی ہندوستان میں دینی مدارس کی ایک زریں تاریخ ہے۔ ان مدارس نے جہاں ایک طرف مسلم عوام اور ان کی نئی نسل کے دین و ایمان کی حفاظت کی اہم خدمات انجام دی ہے، وہیں ملک سے جہالت و ناخواندگی کا خاتمہ کرنے اور تعلیم و تربیت کو عام کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان مدارس کی یہ خدمت بھی جدید ہندوستان کی تاریخ کے صفحات پر ثبت ہے کہ ان کے فضلاء اور فارغین نے ملک کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانے اور اسے خود مختاری فراہم کرنے کے لیے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اس کے سپوتوں نے ملک کو ترقی کی منزلوں تک پہنچانے، فرقہ وار میل جول کو فروغ دینے اور برادران وطن کے ساتھ یک جہتی، رواداری، صلح و آشتی اور پر امن بقائے باہم کو رواج دینے میں اپنا غیر معمولی کردار نبھایا ہے۔ لیکن افسوس کہ ادھر کچھ عرصے سے مدارس کے اس کردار کی نہ صرف یہ کہ ان دیکھی کی جارہی ہے اور اس سے تجاہل برتا جا رہا ہے، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر فروغ تعلیم کے میدان میں ان کی خدمات کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے، ان پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں اور ان سے ملک سے وفاداری کے ثبوت مانگے جا رہے ہیں۔
مکاتب کا سروے
کچھ عرصے قبل ملک کے شمالی سرحدی علاقوں میں قائم مکاتب و مدارس کا سروے کرایا گیا تھا _ اس کے پیچھے بھی یہی محرک کار فرما تھا کہ کہیں ناپسندیدہ اور باغی عناصر ان مدارس کو اپنی پناہ گاہ کے طور پر تو نہیں استعمال کر رہے ہیں۔ پندرہ اگست کے موقع پر حکومت اتر پردیش کی طرف سے ایک سرکلر جاری کیا گیا تھا کہ ہر مدرسے میں یوم آزادی کی تقریبات منعقد کی جائیں اور ان کی ویڈیو گرافی کرواکے اسے حکومت کو فراہم کیا جائے۔ اگرچہ اس سرکلر کا اطلاق صرف حکومت سے امداد یافتہ مدارس پر ہی ہوتا تھا، لیکن اس کی دہشت سے دیگر مدارس کے ذمہ داران بھی خود کو محفوظ نہ رکھ سکے۔ چنانچہ دینی مدارس میں بڑے پیمانے پر تقریبات آزادی منعقد کی گئیں اور سوشل میڈیا پر ان کی خوب تشہیر بھی کی گئی۔
بر صغیر ہند میں مدارس کا قیام آٹھویں صدی عیسوی / دوسری صدی ہجری ہی سے ہونے لگا تھا۔ خاص طور سے شمالی ہند میں مدارس کی تاسیس ترکوں کی فتوحات ہی سے ہونے لگی تھی۔ پھر عہد سلطنت میں بڑی تعداد میں مکاتب و مدارس قائم ہوئے، جس کا سلسلہ مغل دور حکومت تک جاری رہا۔ لیکن جب ملک میں انگریزوں کا اقتدار قائم ہوا تو حکومتی سرپرستی سے محروم ہوجانے کی وجہ سے یہ تمام مدارس بند ہو گئے۔ انگریزوں نے اپنا نیا تعلیمی نظام قائم کیا، جس کا مقصد حکومتی مشنریوں کے لیے کَل پرزے فراہم کرنا تھا۔ انگریزوں کی سرپرستی میں عیسائی مشنریاں یہاں زورو شور سے کام کرنے لگیں۔ ان کا اصل مقصد عیسائیت کی تبلیغ کرنا تھا، لیکن انھوں نے ساتھ ہی اسلامی عقائد و ایمانیات، عبادات اور تہذیب و معاشرت پر بھی حملہ کرنے شروع کر دیے۔ اس وجہ سے اندیشہ پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں مسلمانوں اور خاص طور پر ان کی نئی نسل کا ان کے دین پر ایمان و یقین متزلزل نہ ہوجائے اور وہ صرف نام کے مسلمان نہ رہ جائیں، ان کی زندگیوں میں اسلام کی کوئی رمق باقی نہ ہو۔
تاریخی پس منظر
امت کے بہی خواہوں نے اس نازک صورت حال کا مقابلہ کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ چنانچہ انھوں نے دینی مدارس کے قیام کا فیصلہ کیا۔ دارا لعلوم دیوبند کی تاسیس 1866 میں ہوئی۔ 1898 میں دارالعلوم ندوۃ العلماء قائم ہوا۔ پھر بیسویں صدی عیسوی میں شمالی ہندوستان میں اور بھی مدارس قائم ہوئے۔ وہ اگرچہ مسلمانوں میں رائج مختلف مسالک سے تعلق رکھتے تھے، لیکن سب کا مقصد مسلمانوں کی نئی نسل کو بنیادی دینی علوم سے روشناس کرانا، اپنے دین پر ان کا ایمان مضبوط کرنا، ان کے اخلاق و کردار کو سنوارنا اور ان کو اچھا شہری بنانا تھا۔ ان مدارس نے اسلا م کی حفاظت اور علوم اسلامی کی اشاعت کا غیرمعمولی کام انجام دیا۔ آج ہندوستان کی مسلم امت میں دین سے جس حد تک وابستگی پائی جاتی ہے اور اس کے اندر جو کچھ ملی شعور پایا جاتا ہے وہ ان مدارس دینیہ ہی کا فیض ہے۔
مدارس کی خدمات مدارس کی خدمات کے اور بھی بہت سے پہلو ہیں، جن کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔ مثال کے طور پر مدارس نے ملک کی شرح خواندگی کو بڑھانے میں حکومتوں کا بھرپور تعاون کیا ہے۔ اگر مدارس کا سرگرم تعاون نہ ہوتا تو ' تعلیم سب کے لیے' کا نعرہ محض نعرہ ہی رہ جاتا۔ مدارس نے بنیادی تعلیم کو غربت کے مارے ان طبقات کے لیے سہل الحصول بنایا ہے، جن تک پہنچنے میں حکومتی مشنریاں ناکام رہتی ہیں۔ دیہی علاقوں میں بنیادی تعلیم کا جتنا نظم مدارس و مکاتب کے ذریعے ہوا ہے، اتنا دیگر سرکاری یا غیر سرکاری اداروں کے ذریعے نہیں ہو سکا ہے۔ مدارس کے فارغین نے مسلمانوں کی نئی نسل سے ناخواندگی کو دور کرنے اور اسلامی تعلیم عام کرنے کے لیے قصبوں اور دیہاتوں پر بھی توجہ دی ہے، تاکہ کوئی بھی مسلم گھرانہ علم دین کی روشنی سے محروم نہ رہ جائے۔ موجودہ دور میں تعلیم کے مصارف بہت گراں بار ہوگئے ہیں۔ ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے عصری ادارے ہوں یا اعلیٰ تعلیم اور بالخصوص پیشہ ورانہ اور تکنیکی تعلیم فراہم کرنے والے ادارے، وہ پرائیویٹ طور پر چل رہے ہوں یا حکومت کی سرپرستی میں، ان تعلیم گاہوں کی بھاری فیس ادا کرنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ دینی مدارس ایسے غریب افراد کے لیے سہارا بنتے ہیں۔ وہ بہت کم خرچ پر یا بالکل مفت ان کے بچوں کے لیے تعلیم کا انتظام کرتے ہیں۔ مفت تعلیم کے بغیر ایک فلاحی ریاست کا تصور ادھورا ہے۔ دینی مدارس اس تصور کو روبہ عمل لانے کا اہم ذریعہ ہیں۔ تعلیم کو سماج کے ہر طبقے تک یکساں پہنچانے میں حکومت کی اسکیمیں عموماً ناکام رہتی ہیں، لیکن مدارس کام یابی کے ساتھ یہ خدمت انجام دیتے ہیں اور تمام طبقات یکساں طور پر ان سے فیض اٹھا تے ہیں۔
بہتر کار کردگی کی جانب مدارس کی خدمات کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ملک میں اردو زبان مدارس ہی کے دم سے زندہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو زبان پر کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کی اجارہ داری نہیں ہے۔ اس کے فروغ میں مختلف مذاہب کے پیروکاروں نے حصہ لیا ہے۔ لیکن افسوس کہ ایک طرف وہ آہستہ آہستہ حکومتی سرپرستی سے محروم ہوتی گئی، دوسری جانب ہندی زبان کو خوب بڑھاوا دیا گیا، اس کے نتیجہ میں اردو زبان کا دائرہ سکڑتا اور سمٹتا چلا گیا۔ اس صورت حال میں دینی مدارس نے اردو زبان کی ترویج و اشاعت میں بہت اہم کردار سر انجام دیا ہے۔ ملک میں مکاتب و مدارس کی تعداد لاکھوں میں ہے اور ان کا ذریعہ تعلیم اردو ہے۔ اس طرح یہ مدارس خاموش طریقے سے اردو زبان کی ترویج اور فروغ کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ ادھر کچھ عرصے سے دینی مدارس نے مسلم بچوں کی کیریر سازی پر توجہ دی ہے۔ خود بعض مدارس کے کیمپس میں ایسے کورسز چلائے جا رہے ہیں جن سے فائدہ اٹھا کر وہاں کے فارغین روزگار سے جڑیں۔ اس کے علاوہ مدارس کے نصاب میں بعض ایسے مضامین شامل کیے جا رہے ہیں جن کی بدولت وہاں کے فارغین بعد میں عصری جامعات میں داخلہ لے سکیں اور وہاں کی ڈگریاں حاصل کر کے مین اسٹریم میں شامل ہو سکیں۔ اگرچہ اس سلسلے میں ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
مدارس کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے چند مشورے
تعلیم کے فروغ میں مدارس کی خدمات کا انکار ممکن نہیں ہے اور ان سے ملک کو جو فیض پہنچ رہا ہے اس سے اغماض نہیں برتا جا سکتا، لیکن ان کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے اگر کچھ تدابیر اختیار کی جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ ملک کے موجودہ حالات میں اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اس تعلق سے چند باتیں عرض کرنے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں:
۵۔ مدارس کا وفاق وقت کی ضرورت
دینی مدارس کے خلاف ادھر کچھ عرصے سے جو مہم چلائی جا رہی ہے اور ان کے وجود پر خطرات کے جو بادل منڈلا رہے ہیں ان کا مقابلہ کرنے کی اس کے علاوہ اور کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ ملک گیر سطح پر ان کا وفاق وجود میں لایا جائے۔ اس وقت مختلف مسالک اور جماعتوں سے تعلق رکھنے والے مدارس کے درمیان کوئی تال میل نہیں ہے۔ ضرورت ہے کہ مدارس کے مسائل پر اجتماعی غور و خوض کا آغاز کیا جائے، اس کے لیے خاص طور پر بڑے مدارس کے ذمہ داروں کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور کوئی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں