مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اللّٰہ رب العزت نے بنی نوع انسان کے لئے دین اسلام کا انتخاب کیا اور اس کا آخری اور مکمل ایڈیشن آقا ومولافخر موجودات سرور کونین صلی اللّٰہ علیہ وسلم پرنازل کیا ، اور اعلان فرمادیا کہ محمد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی اور رسول ہیں، ان کے بعد نہ تو کوئی نبی آئے گا اور نہ کوئی رسول ،
زبان رسالت نے اعلان فرمایا’’ لانبی بعدی‘‘ اور اس بات کا بھی اعلان کروایا گیا کہ اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سارے جہاں کے لئے رسول بناکر بھیجے گئے، علاقوں، قبیلوں کی تفریق باقی نہیں رہی او ر ہر قبیلہ اور ہر علاقہ کے لوگ اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امت قرار پائے ۔
آپ صلی اللّٰہ سے قبل جتنے بھی انبیاء ورسل بھیجے گئے ، انہیں کسی خاص علاقہ اور خاص قوم کو راہ راست پر لانے کی ذمہ داری دی گئی اور انہیں محدود وقت کے لئے احکام دئے گئے اور یہ سارے احکام آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد منسوخ ہو گئے اب مدار نجات اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین ماننے ، قرآن کریم پر عمل کرنے اور رسول خاتم کے طریقوں کو اپنانے میں مضمر ہے ، بغیر اس کے نجات ممکن نہیں ۔
پھر چونکہ اس امت کو قیامت تک باقی رہنا ہے اور طاغوتی طاقتیں راہ راست سے انسانوں کو بھٹکانے میں ہمیشہ لگی رہتی ہیں، اورابتدائے آفرینش ہی سے ابلیسی حربے کا م کرتے رہے ہیں ، اسی لئے دعوت وتبلیغ اور امت کو قیامت تک صحیح رخ اور سمت پرقائم رکھنے کا نبوی کام علماء کے ذمہ کیا گیا اورزبان نبوت نے علماء کے بارے میں انبیاء کے وارث ہونے کا اعلان کیا اور علماء کو زمین کا چراغ کہا گیا ، ’’العلماء ورثۃ الانبیائ‘‘ اور’’ العلماء مصابیح الارض‘‘کہہ کر یہ اعلان کر دیا گیا کہ قیامت تک، علماء امت وہ کام کرتے رہیں گے جوماضی میں کار نبوت رہا ہے ۔
دور رسالت میں اور اس کے بعد جن لوگوں نے اسلام قبول کر لیا ، ان کی حیثیت امت اجابت یعنی اللّٰہ کی وحدانیت اور رسول کے رسالت کو قبول کرنے والے کی ہو گئی ، یہ سب مسلمان کہلائے ، قرآن پاک میں انہیں خیر امت اور وسط امت کا لقب دیاگیا، ایک گروہ جس نے اس پیغام کو قبول نہیں کیا ، ان کی حیثیت امت دعوت کی رہی، یعنی یہ وہ لوگ ہیں جن تک دعوت پہونچانے کا کام ہر دو ر میں داعیان امت کا رہا ہے اور علماء اور مصلحین ا س فریضے کی ادائیگی میں غیر معمولی تندہی کا ثبوت دیتے رہے ہیں۔
اس طرح دیکھیں تو تمام غیر مسلم خواہ وہ کسی مذہب کو مانتے ہوں ، ان کی حیثیت مدعو قوم کی ہے ، اور مسلمانوں سے ان کا رشتہ داعی اور مدعو کا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ا مت ہونے میں وہ بھی شریک ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ اللّٰہ کے آخری دین کی دعوت ہمیں ان تک پہونچانی ہے ۔
داعی اور مدعو کا یہ رشتہ بڑا نازک ہوتا ہے اس کی اسا س اور بنیاد اس محبت اور تڑپ پر ہوتی ہے کہ کسی طرح یہ لوگ دعوت دین قبول کر لیں ، یہ محبت ، یہ تڑپ اوریہ بے چینی کبھی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ لگتا ہے کہ آدمی اس فکر میں اپنے کو ہلاک کرڈالے گا۔
مسلمان اسی انداز کا تعلق غیر مسلموں سے رکھتا ہے ، اس کی ہدایت یابی کے لئے کڑھتا رہتا ہے ، وہ اپنے مدعو سے نفرت نہیں کر سکتا ، اس لئے کہ نفرت کی بنیاد پر دعوت کا کام نہیں کیا جا سکتا ۔اگر کوئی کسی غیر مسلم سے نفرت کرتا ہے تو وہ دعوت کے کام کو صحیح طور پر نہیں کر سکتا ، نفرت کی چیز کفر وشرک ہے ، کافر ومشرک نہیں، بالکل اسی طرح جس طرح مریض قابل نفرت نہیں ہوتا، مرض قابل نفرت چیز ہوا کرتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کے ساتھ غیر معمولی برتاؤ کیا ، اور انہیں مختلف موقعوں پر عزت واکرام سے نوازا ۔ یہاں پر ہمیں اس بڑھیا کو یاد کرنا چاہئے جو اللّٰہ کے رسول کے ڈر سے بھاگی جا رہی تھی ، اوراسے گٹھری ڈھونے کے لئے کسی مزدور کی تلاش تھی، اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بڑھیا کی گٹھری اٹھا کر منزل مقصود تک پہونچا دیا ، آپ کے اس حسن اخلاق نے بڑھیا کو اسلام سے قریب کر دیا اور وہ کلمۂ ’’لا الہ الااللہ‘‘ پڑھ کر مسلمان ہو گئی۔گو محدثین کے نزدیک اس کی سند مضبوط نہیں ہے ۔
یہ اور اس قسم کے بہت سارے واقعات یہ بتاتے ہیں کہ داعی کے حسن اخلاق نے دین کی دعوت کے کام کو لوگوں کے دلوں تک پہونچانے کا کام کیا ، یہ کام خوف وجبر سے نہ اس زمانے میں کیا جا سکتا تھا اور نہ آج یہ ممکن ہے، آخر قرآن کریم نے یوں ہی اعلان نہیں کر دیا کہ دین میں زبر دستی (کا فی نفسہ کوئی موقع )نہیں۔
اسلام نے داعی اور مدعو کے اس رشتے کی بنیاد کو پائیداری بخشی اور ان لوگوں کیلئے جو مسلمانوں کے درپئے آزار نہیں ہوئے اور مسلمانوں کیلئے مسائل نہیں کھرے کئے ان کے لئے واضح حکم دیا کہ :اللہ تم لوگوں کو ان لوگوں کے ساتھ احسان اور انصاف کا برتاؤ کرنے سے منع نہیں کر تا جو تم سے دین کے بارے میں نہیں لڑے اور تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ۔ اللّٰہ تعالیٰ انصاف کا برتاؤ کرنے والوں سے محبت رکھتے ہیں۔
اسلام کا یہ حکم رحمت ورافت اور حسن اخلاق کی تعلیم پر مبنی ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مشرکین اور مسلمانوں کے درمیان بر واحسان کا تعلق نہ صرف جائز بلکہ مستحسن ہے ، یہی وجہ ہے کہ حضرت اسماء بنت ابو بکر ؓ کی والدہ حالت شرک میں ان کے پاس پہونچیں ، انہوں نے اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا ماں کے ساتھ اس حالت میں وہ حسن سلوک کر سکتی ہیں، تو اللّٰہ کے رسول صلی ا للہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ہاں ! اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کرو ۔
خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حال یہ تھا کہ کفار ومشرکین مکہ کے ایذائیں پہونچانے اور دعوت دین کے کام میں غیر معمولی رکاوٹیں ڈالنے کے باوجود جب مکہ میں قحط پڑا اور لوگوں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تو آپؐ نے مکہ مال بھیجوایا تاکہ وہاں کے فقراء اور ضرورت مندوں میں اسے تقسیم کیا جائے ۔ اس معاملے میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کا معمول بھی اپنے مشرک پڑوسیوں سے حسن سلوک کا تھا، ملک شام کی طرف جاتے ہوئے حضرت عمر بن الخطابؓ کا بیت المال سے مجوسی کو ڑھیوں کی مدد کرنا ثابت ہے، اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے یہ حکم دے رکھا تھا کہ قربانی کے گوشت اپنے یہودی پڑوسیوں کوبھی دیا جائے، اس لئے کہ پڑوسیوں کا حق بہت ہے اور اس میں مسلم اور غیر مسلم کی تفریق نہیں کی گئی ہے ، اسی طرح اسلام نے یتامیٰ کی خبر گیری کے لئے مسلم اور غیر مسلم کی قید نہیں لگائی ، اس سے معلوم ہو تا ہے کہ غیر مسلموں کی مالی معاونت کی جاسکتی ہے ۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت بلا تخصیص مسکینوں ، یتیموں اور قیدیوں کو محض اللّٰہ کی رضا کے لئے کھانا کھلانے کو بہتر عمل اور اپنی رضا کا سبب بتا یا ہے ،جب کہ ایک دوسری جگہ یتیموں کی ناقدری اور مسکینوں کے معاملات سے صرف نظر کرنے کو اپنی ناراضگی کا سبب قراردیا ہے۔
حسن سلوک کا ہی ایک طریقہ مریضوں کی عیادت ہے ، اسلام میں مریضوں کی عیادت کا حکم مسلم اور غیر مسلم سب کے لئے ہے ، امام بخاری نے روایت نقل کی ہے کہ ایک یہودی غلام اللّٰہ کے رسول کے پاس خدمت میں رہتا تھا ،جب وہ بیمار ہوا تو آپ اس کے پاس تشریف لے گئے اور اس کی عیادت کی۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابو طالب کی عیادت کی اور ان پر اسلام پیش کیا، ابن حجرؒ نے ان روایتوں سے مشرکین کی عیادت کے جواز پر استدلال کیا ہے ، صاحبؒ بحر الرائق نے اسے بر واحسان کے ذیل میں رکھتے ہوئے جواز کے قول کو ترجیح دیا ہے ،امام احمد بن حنبلؒ کی بھی یہی رائے ہے۔
حسن سلوک کے ذیل میں ہی تعزیت کا معاملہ آتا ہے ، فقہاء نے اسے جائز قرار دیا ہے ، البتہ ایسے کلمات سے اجتناب کا حکم دیا ہے جس سے شرک کی عظمت کسی درجہ میں بھی سامنے آئے، بعض فقہاء نے اسے بعض شرطوں کے ساتھ مخصوص کیا ہے ، لیکن واقعہ یہ ہے کہ بر وتقویٰ کی عمومیت سے حکم عام ہی نکلتا ہے ۔
ہم ہندوستان میں رہتے ہیں اور بہت سارے ممالک وہ ہیں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ، ان حالات میں غیر مسلموں سے تجارتی لین دین ایک سماجی اور معاشی ضرورت ہے ، اس ضرورت کے تحت مشرکین وکفار کے ہر اس معاملات میں شرکت کی جا سکتی ہے ، جو حلال ہو اور سود نیز دوسرے ممنوعات سے پاک ہو ، روزمرہ کی خرید وفروخت ، اجارہ ، رہن اور اس قسم کے دوسرے امور مالیہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے غیر مسلموں سے کئے جاتے رہے ہیں اور آج بھی ان کی اجازت ہے ، البتہ سود ، دھوکا دہی، خمر وخنزیر کے معاملہ میں ان کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا اور ان معاملات میں شریک ہونا مسلمانوں کے لئے جائز نہیں ہو گا ، مسلمان غیر مسلموں سے عاریت کا معاملہ بھی کر سکتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر اس کے پاس امانتیں رکھی جا سکتی ہیں اور جان ومال کی سلامتی کا یقین ہو اور احوال اس کے متقاضی ہوں توبعض صورتوں میں ان سے پناہ بھی چاہی جا سکتی ہے ۔فقہاء نے غیر مسلم والدین کا نان ونفقہ بھی ضرورتاً دینے کو جائز کہا ہے ، بعضوں کا قول اس مسئلے میں وجوب کا بھی ہے۔
صفوان بن امیہ سے یوم حنین کے موقع پر بنی قینقاع کے یہود اور خزاعہ کے ایک فرد سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اعانت طلب کرنا، احادیث وسیر میں مذکور ہے، اسی بنیاد پر احناف اور شوافع کے یہاں اس کے جواز کا قول منقول ہے ، اور مالکیہ میں ابن عبد اللہ اور حنابلہ کی رائے اس کے مطابق ہے ۔ تاریخ کا یہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے کہ مدینہ ہجرت کے بعد آپ نے یہودیوں سے معاہدہ کیا اور نبوت سے قبل کی جانے والی حلف الفضول میں ا پنی شرکت پر نہ صرف اطمینان کا اظہار کیا بلکہ فرمایا کہ اگر آج بھی مجھے اس قسم کے معاہدہ کے لئے بلا یا جائے تو میں اس کے لئے راضی ہوں ، اس قسم کے واقعات ہمیں بتاتے ہیں کہ مصالح کے پیش نظر آج بھی اس قسم کے معاہدے کئے جا سکتے ہیں ۔
تعلقات کی استوای اور مدارات ومواسات میں ہدیہ کے لین دین کی بھی اپنی اہمیت ہے ، اس سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے ’’تھادووتحابو‘‘ کہا گیا ہے ، اس سلسلے میں اسلام میں اتنی وسعت ہے کہ ہدایے دئے بھی جا سکتے ہیں اور قبول بھی کئے جا سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملک ایلاء کا ہدیہ قبول کیا اور اس چادر کو زیب تن کیا ، اسی طرح دومۃ الجندل میں خیمہ کا ہدیہ قبول کیا اور اس نے باندی کا ہدیہ دیا تو اسے بھی قبول کر کے اس کی عزت افزائی کی، حسن سلوک ہی کے طور پر اسلام نے اس بات پر زور دیا کہ غیر مسلم مہمانوں کا اکرام بھی کیا جائے ،خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بارے میں عمل غیر معمولی تھا ،وہ واقعہ تو تاریخ کا سبھی کو یاد ہے کہ ایک غیر مسلم آپ کے یہاں مہمان ہوا ، آپ نے ضیافت کا غیر معمولی اہتمام فرمایا، کھانا بھی اس نے بھر پور کھایا اور بستر کو گندہ کر دیا ، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اسے دھویا ، اسی اثناء میں وہ اپنی بھولی ہوئی تلوار لینے آیا تو بھی آپ نے کچھ نہیں فرمایا اور اسے شرمندگی سے بچالیا ، اس واقعہ سے معلوم ہو تا ہے کہ آپ کو اکرام ضیوف کا کتنا خیال تھا ۔
غیر مسلموں کے ساتھ اس قسم کا سلوک انہیں مسلمانوں سے قریب کرے گا، انکی تالیف قلب ہوگی ، جس سے دفع ضرر بھی ہوگا ، اور دین کا قبول کرنابھی ان کے لئے آسان تر ہو جائے گا ، شریعت چاہتی ہے کہ ان مقاصد کے حصول کے لئے آپسی تعلقات کو بڑھا یا جائے اور دنیاوی مفاد اور مال ودولت کے حصول سے بے نیاز ہو کر محض دینی بنیاد وں پر اسے تقویت دی جائے ۔ فقہاء نے ان مقاصد کو شرط کے طور پر ذکر کیا ہے ، لیکن واقعہ یہ ہے کہ مداراۃ و مواساۃ کے قبیل کے ان کاموں کا لازمی نتیجہ وہی ہوگا ، جس کا ذکر اوپر کیا گیا ۔
ایک مسئلہ سیاسی شرکت کا بھی ہے ، حکومتیں اب جمہوری انداز میں تشکیل پا رہی ہیں، ان حکومتوں کا مزاج یقینا غیر اسلامی ہے ، چاہے ملوکیت ہو یا جمہوریت، دونوں حکومت الٰہیہ کی فکر اسلامی سے متصادم ہیں ، اور یقینی طور پر وہاں اللہ کی حاکمیت کا تصورہر سطح پر ناپید ہے ، ایسے میں کیا مسلمانوں کے لئے یہ جائز ہو گا کہ وہ اس طاغوتی نظام کے دست وبازوبنیں۔
اس سلسلے میں ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری نمائندگی جس قدر عوامی اداروں میں بڑھے گی ، امکانات اس بات کے قوی سے قوی تر ہوں گے کہ ہم حکومت میں اپنی باتیں منوا سکیں اور سارا کچھ تو نہیں بہت کچھ منظو رکر والیں ، ہندوستان میں مسلم پرسنل لا کی بقا کی ایک وجہ یہ بھی ہے، نفقہ مطلقہ کی دستوری لڑائی میں ہماری کامیابی کا راز بھی یہی ہے ،پارلیامنٹ میں ہمارے ایسے نمائندے موجود تھے ، جنہوں نے ہماری بھر پور وکالت کی اور باہر میں ہم نے عوامی دباؤ بنا یا اور حکومت کو اس کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔
پس اس معاملہ میں ہمیں قواعد فقہیہ’’ الضرر یزال ، الضرورات تبیح المحظورات ، المشقۃ تجلیب التیسیر‘‘ وغیرہ کو سامنے رکھنا چاہئے اور ہمارے نمائندوں کو استطاعت بھر پوری قوت کے ساتھ ایوان نمائندگا ن میں ان صالح قدروں کی ترویج وبقا کے لئے کوشش کرنی چاہئے جو اسلام کو مطلوب ہیں ، اس سلسلے میں اسلام نے جو یسر کا فلسفہ پیش کیا ہے اور تشدید وتغلیظ سے اجتناب کی تلقین کی ہے اس سے ہماری اس رائے کو تقویت ملتی ہے ۔ نصوص کی حد تک دیکھیں تو حضرت یوسف علیہ السلام کا وزیر خزانہ بننا بلکہ اس کا مطالبہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ غیر مسلم حکومت میں ضرورت کی وجہ سے عہدے بھی قبول کیے جاسکتے ہیں۔ فقہاء نے بعض حالات میں منصب قضا کے قبول کرنے کی بھی اجازت دی ہے تاکہ ظلم وشرک وعدوان سے عوام الناس کو بچایا جا سکے ۔ یہ در اصل اھون البلتین کو قبول کرنے کے مترادف ہے اور بڑے ضرر وشرکے مقابلے چھوٹے ضرر کو قبول کرنے کا فطری اور فقہی عمل ہے ۔
مسلمانوں کے اس قسم کے معاملات کی بنیاد نہ توتقیہ ہے اور نہ منافقت ، بلکہ یہ سب اسلام کی ان تعلیمات کا حصہ ہیں جو اکرام واحترام آدمیت کے ذیل میں آتے ہیں اور جن کے بغیر مذہب اور عمرانیت کی گاڑی آگے نہیں بڑھ سکتی۔لیکن ہماری اس تحریر کا مطلب قطعا یہ نہیں ہے کہ جو قومیں مسلمانوں سے متحارب ہیں اور جو لوگ اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہونچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دینا چاہتے ، ان کے ساتھ بھی یہی سب سلوک کیا جائے ، دنیا کی تاریخ میںہر دور اور ہر مذہب میں ایسے لوگوں کا معاملہ جدا رہا ہے ، جو متحارب رہے ہیں۔
ان آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلم سے تعلقات کی ایک خاص قسم جسے موالاۃ کہتے ہیں وہ جائز نہیںہے، موالاۃ کے مختلف معنی مفسرین نے لکھے ہیں، ان میں ایک معنی یہ بھی ہے مسلمان اپنے اس تعلق میں غیر مسلم کے کفر اور اعمال کفریہ سے راضی نہ ہو ، اس کی وجہ یہ ہے کہ کفر کی تصویب بھی کفر ہے اور کفر سے راضی رہنا بھی کفر کے مترادف ہے۔
ان ابحاث کا حاصل یہ ہے کہ غیر مسلموں کی مدد مسلمانوں کے مقابل کرنا اور ان سے ایسا تعلق قائم کرنا جس سے مسلمانوں کے ملی رازان تک پہونچ جائے اور ملی کاز کے لئے نقصان دہ ہو ، مطلقادرست نہیں ہے ۔
لیکن جو محارب نہیں ہیں، بچے بوڑھے اور عورتیں ان کو نقصان نہ پہونچایا جائے ۔ یہ انسانیت کے خلاف ہے کہ جو آپ سے نہیں لڑ رہا ہے اور خاموشی سے گوشہ نشیں ہے اس کو قتل کر دیا جائے ، کیونکہ انسان کا خون معصوم ہے اسے دفع ضرر اور رفع شر کے علاوہ نہیں بہایا جا سکتا
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں