مسلم اقلیت کے لئے سیرت رسول کا پیغام

  مفتی فیاض احمد محمود برمارے حسینی 

اسلام عالمی اورابدی مذہب ہے۔ اسلام کی تعلیمات اور اس کاپیغام دنیا کے ہر گوشے میں بسے ہوئے انسانی افراد اور معاشرے کے لئے یکساں طور پر قابل عمل ہے۔ اس عالمی اور آفاقی مذہب کے پیغمبر آخر الزماں سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کا ہر مرحلہ اور ہر پہلو پوری امت مسلمہ کیلئے ایک کامل اسوہ اور مکمل نمونہ ہے۔
 گھریلو زندگی ہویا سماجی زندگی، مکی زندگی ہو یا مدنی زندگی، عبادات ہوں یامعاملات، سیاسیات ہوں یا اخلاقیات و مذہبیات، آپؐ کی حیات  مبارکہ کا عملی نمونہ ہر شعبۂ زندگی میں تمام انسانوں کے لئے قابلِ تقلید ہے۔آپ صلی اللہ نے مکۃ المکرمہ جب دیں حق کی صدالگائی تو اہل مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا،آپ اور آپ پر ایمان لانے چند صحابہ کو جن مشقتوں۔ اور اذیتوں سے گذارا ان کو برادشت کرنے کا تصور بھی کسی اذیت سے کم نہیں،مکی دور کے اس پورے عرصہ میں مسلمانوں کی یہ مختصر جماعت عزیمت واستقلال کی پہاڑ ثابت ہوئی، مسلمان اس وقت اقلیت میں تھے،مغلوب تھے،ایسے سنگین حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو رول ادا کیا اوراپنی امت کے لئے جو ماڈل پیش کیا وہ سیرت رسول کا ایک درخشاں پہلو ہے اور قیامت تک اس دنیا میں جب بھی مسلمان اقلیت میں ہوں گے اور سنگین حالات سے دوچار ہوں گے سیرت کا یہ پہلو ان کے لئے مشعل راہ ثابت ہوگا۔ان کے لئے مہمیز کا کام دے گا۔ان کا حوصلہ بڑھائے گا۔ان کے بزدل چہروں پر چمک دمک لائے گا۔ان کے خوف زدہ میں ہمت و جرات کو بھردے گا ان کے پست حوصلوں کو بلند کرے گا۔اگر مکی دور کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے عرصہ میں  ٹکراؤ سے دوری اختیار کی  اور دعوت و تبلیغ کا تسلسل رکھا۔نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صبر آزما اور مخالف ماحول میں اہلِ مکہ کے سامنے اعلیٰ اخلاقی نمونہ پیش کیا ۔گالیوں کا جواب دعائوں سے، پتھر کا جواب نرم کلامی سے اور دلآزاری کا جواب ہمدردی و غم گساری سے دیا۔ آپؐ نے اس ماحول میں تصادم سے گریز کیا اور حکمت و بصیرت کے ساتھ مصروفِ عمل رہے۔ جو فرضِ منصبی آپؐ نے اٹھایا تھا، اس پر پوری دلجمعی، استقامت اور سختی سے قائم رہے۔ یہی وجہ تھی کہ آپؐ کی دعوت دلوں کے قلعوں کو تسخیر کرتی چلی گئی اور مکہ کی ایک بڑی تعداد نے مخالف ماحول میں بھی اسلام میں کشش محسوس کی۔اوراسلام کی دولت سے سرفرازہوگئے۔اس وقت اس ملک میں ہماری حیثیت اقلیت کی ہے۔ہم مغلوب ہیں۔مظلوم ہیں۔فرقہ پرست طاقتیں اکثریت میں بھی ہیں اور طاقتور بھی.اپنی طاقت کے استعمال سے مسلمانوں کو ہرقسم کی اذیت اور تکلیف پہنچانے کی ہرممکن کوشش کررہا ہے۔ان حالات میں ہمیں سیرت رسول کے مکی ماڈل کواپنا ضروری ہے۔کہ تصادم کے بجائے حق و صداقت کے موقف پر پورے یقین و اعتماد کے ساتھ جمے رہتے ہوئے برادران وطن کے دلوں کو فتح کرنے اور ان کے دلوں میں جگہ بنانے کی ضرورت ہے  اہل وطن سے خواہ وہ کسی بھی فکر و خیال اور مذہب کے ماننے والے ہوں ، اخلاق و محبت، خیر خواہی و ہمدردی اور بہتری و بھلائی کا برتائو کرنا چاہئے نیزان  کے سامنے ہمیشہ اپنے اعلیٰ کردار و عمل، تقویٰ و طہارت، امانت و دیانت اور اخلاص و خیر خواہی کے ذریعہ بلند پایہ اخلاقی اقدار و آداب کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔اس لئے کہ یہ بھی اتباع رسول میں داخل ہے۔اور  دین اسلام کے فروغ کے لئے مؤثر ذریعہ بھی ہے۔

«
»

ہندوتوا‘کی سیاست کا سماجی مساوات کے نعرے کے ذریعہ مقابلہ

جب گلستاں کو خوں کی ضرورت پڑی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے