ذوالقرنین احمد
مسلمانوں بھارت میں اقلیت میں ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کو اپنے پرسنل لاء پر عمل کرنے سے جبراً روک دیا جائیں، اور دھیرے دھیرے ملک کی سرزمین کو ان پر تنگ کردیا جائے، جبکہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور سبھی کو اپنے مذہب کے مطابق عمل کرنے بولنے، لکھنے آزادانہ زندگی گزارنے کی آزادی ہیں لیکن اب یہ جمہوری ممالک لک دھیرے دھیرے ھندو راشٹر کی طرف بڑھ رہا ہے۔ دیگر افراد کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑھتا ہےسبھی سیکولرلبرل ہندوتوا کا ساتھ دے رہے ہیں۔ مسلمان ہی ہے جو جمہوریت کی پاسداری کر رہے ہیں ورنہ سنگھی فرقہ پرست عناصر کا اپنا ایجنڈا ہے برہمن ۱۵ فیصد کے قریب ہے اور مسلمانوں کو چھوڑ گر دیگر اقلیتی برادریوں کی یہ ذہنیت بنا دی ہے کہ وہ سبھی ہندوں ہے اور انہیں ہندؤں میں شمار کرکے اپنے آپ کو ملک میں اکثریت میں ثابت کرتے ہیں جبکہ ملک میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد بستے ہیں ۔ سنگھی فرقہ پرستوں کا یہ ایجنڈا ہے کہ کسی بھی طرح سے ہندو راشٹر کو نافذ کیا جائے اور اسی تیاری کیلئے کرونا وائرس جیسی وبا کا بھرپور استعمال کیا جارہاہے جس کے پس پردہ بہت کچھ ملک میں ہوچکا ہے اور مزید جمہوریت مخالف قانون سازی کی جارہے ہیں۔ مسلمانوں کو اب ہوش میں آنے کی ضرورت ہے ویسے بھی مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کی جاتے رہی ہے جو منظر عام پر نہیں آتی ہے لیکن جس کا ادراک مسلمانوں کو اب بی جے پی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد محسوس ہورہا ہے کہ کس طرح سے سیکولر پارٹیوں نے مسلمانوں کو ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا ہے اسی طرح آج بھی وہی ہورہا ہے مسلمانوں کے جزبات کا غلط استعمال کرتے ہوئے ملی سیاسی جماعتیں انہیں پھر سے بلی کا بکرہ بنانے جارہی ہے جس کا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے اور مسلمانوں کو مزید کئی دہائیوں تک غربت و افلاس، سیاسی بے وزنی، سرکاری اداروں اور مین اسٹریم سے دورکر کے دلدل میں پھنسے رہنا پڑ سکتا ہے۔
اس لیے دو ٹوک گفتگو ہونی چاہیے یہ وبا چاہے مہلک ہو یا نا ہو لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سارا بوجھ مسلمانوں پر ڈال دیا جائے مسلمانوں نے ملک کی حفاظت کیلئے ہر دور میں قربانی دی ہے اور آج بھی وہ ملک کو بچانے کیلئے پوری کوشش کر رہے ہیں۔ اس وبا کا استعمال بی جے پی اپنے مفاد کیلئے کر رہی ہے۔ کیونکہ فلحال ملک میں بی جے پی کے خلاف کوئی مضبوط اپوزیشن موجود نہیں ہے۔ اس لیے سنگھی فرقہ پرست اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سارا الزام مسلمانوں پر ڈالنا چاہتے ہیں اور مسلمانوں کو بدنام کرنا چاہتے ہیں۔ اگر مسلمانوں آج اس وبا کی پیچھے جاری سازشیوں کو نا سمجھے اور حکومت کے اشاروں پر مساجد کو بند کردیا تو مستقبل میں اس معاملے کا استعمال کیا جائے گا، کہ جس طرح مساجد کو وبا کے نام پر بند کیا گیا تھا آئیندہ اس کا بار بار غلط استعمال کیا جائے گا۔ اگرچہ وبا میں اموات کا فیصد بے حد کم ہے اور اس کے علاوہ بیماریوں سے ہزاروں لوگ مرجاتے ہیں جبکہ اس وبا سے بیحد کم لوگوں کی موت ہوتی ہے۔ اور ویکسین بھی ایک طرح کا بیزنس بن چکا ہے بلیک سے ویکسین بیچی جارہی ہے جس کا استعمال بھی عام بیماری نمونیا کیلئے ہورہا ہے اور دوسری ویکسین ہے وہ کرونا کیلئے فائدہ مند ثابت نہیں ہو پارہی ہے۔ بہت سے لوگ ویکسین کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ ساتھ ہی ہاسپٹل میڈیکل ڈاکٹرز سبھی نے لوٹ مچا رکھی ہے، سوچنے کی بات ہے جب پچھلا لاک ڈاؤن دھرے دھرے کھل رہا تھا تب ایک دم سے کرونا وائرس کا خوف لوگوں کے دلوں سے ختم ہوچکا تھا ساتھ ہی عوام کھل کر کھلی فضا میں سانس لے رہی تھی۔ کاروبار بھی پٹری پر آرہے تھے ۔ لیکن یہ کیا بات کہ میڈیا اور حکومت کے ذریعے پھر سے ذہن بنایا گیا اور پھر سے کرونا اور لاک ڈاؤن کو نافذ کرنے کی تیاری ہورہی ہے۔
یہ وبا مہلک ہے لیکن اتنی نہیں ہے کہ جتنے لوگ بھوک مفلسی سے مر جائے گے یا پھر ڈپریشن کا شکار ہوگے خودکشی کریں گے۔ انکی تعداد کرونا کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوگی۔ اگر حکومت پھر سے لاک ڈاؤن لگاتی ہیں اور ملک میں عوام کو محصور کرنے کی کوشش ہورہی ہیں تو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ملک ایمرجنسی کی صورتحال کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ لاک ڈاؤن ایمرجنسی ہی ہوگا اس کا بعد کا منظر نامہ بہت خطرناک ہوگا ۔ مسلمانوں کو کچھ سیکولر قائدین یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ حکومت کی نیت پر شک نہ کرتے ہوئے انکی باتوں کو پوری طرح سے فالو کریں۔ کچھ لوگ یہ کہے رہے ہیں کہ مسلمانوں کے دماغ ہر چیز میں سازشیں ڈھونڈنے میں لگ گئیں ہیں۔ اور خوف کے سائے میں جی رہے ہیں۔ سازش ڈھونڈنے اور حکومت پر یقین کر لینے میں فرق ہے حکومت کی گائڈ لائن پر ہر کوئی عمل کر رہا ہیں ایسا نہیں ہے کہ مسلمان خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ لیکن گزشتہ ستر سالوں کے ہندوستان پر نظر ثانی کی جائے تو مسلمانوں کے خلاف سازشیوں کے انبار نظر آئیں گے۔ اور اس کا پھل آج بھاجپا کاٹ رہی ہے ۔ جس کا بیچ بھی انہیں لوگوں نے سیکولر افراد کی شکل میں بویا تھا اور مسلمانوں نے اسکی پاسداری کی اور اسے تناور درخت بنایا لیکن انہیں یہ بات کا ادراک ابتک نہ ہوسکا تھا لیکن اب ہر کوئی یہ بات سمجھ رہا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف سازشیوں میں سیکولر پارٹیاں بھی شامل تھی اور اب کھل کر وہ چہریں سامنے آرہے ہیں۔
مسلمان آخر کب تک اس نام نہاد جمہوریت پر یقین کریں گا کیا مسلمان اس وقت ہوش میں آئیں گے جب انکی قبریں تیار ہوچکی ہوگی اور صرف فرقہ پرستوں کے ایک اشارے پر ان کا ایک بڑی تعداد میں قتل عام کیایا جائیں گا یا پھر ایک بڑی تعداد ارتداد کی زد میں آئیں گی۔ آج اگر ہر چیز میں مسلمانوں کو اپنے مذہبی شعائر پر عمل کرنے کیلئے حکومت سے اجازت لینی پڑھ رہی ہے، نبی کریم ﷺ کے شان میں گستاخی کرنے والوں کو گرفتار کرنے کیلئے شکایتوں کے انبار لگ جانے کے بعد بھی مجرم آزاد گھوم رہے ہیں ، مسلم پرسنل لاء بورڈ میں مداخلت کی جارہی ہے۔ مسلمانوں کی شہریت چھینے کی تیاری ہورہی ہے اور ہم حکومت سے خیر کی امید لگا کر رکھے یہ کونسی دانش مندی کی علامت ہیں۔
مسلمانوں میں موجود سیکولر اور لبرل افراد آج مشورے دے رہے ہیں کہ جیسے حکومت چاہتی ہے ہم اسکے ساتھ کھڑے ہیں یہ بات اپنی جگہ پر صحیح بھی ہے لیکن عقل سے پرے ہیں کہ جس جگہ سے تم کئی بار ڈسے جا چکے ہو وہاں سے انصاف کی امید کیسے کی جاسکتی ہے کیا بابری مسجد کے ساتھ انصاف ہوا، کیا کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ انصاف ہوا ، کیا گجرات میں قتل عام کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا، کیا مظفر نگر، دہلی میں مرنے والے مسلمانوں کو انصاف ملا، کیا عشرت جہاں کو انصاف ملا، کیا آصفہ کو انصاف ملا، کیا ماب لینچنگ میں مارے گئے درجنوں مسلمانوں کے اہل خانہ کو انصاف ملا، کیا مالیگاؤں کی سنگھی پرگیہ ٹھاکر کو سزا دی گئی، کیا ہاشم پورہ انکاونٹر میں مرنے والے نوجوانوں کو انصاف ملا، کیا پولس حراست میں مرنے والے مسلمانوں کو انصاف ملا، کیا نجیب کی ماں کو انصاف ملا، کیا اخلاق کو انصاف ملا، کیا جنید کو انصاف ملا، ایسے سیکڑوں حادثات ماضی میں مسلمانوں کے خون سے تاریخ میں تحریر ہوچکے ہیں۔ لیکن آج تک مجرم آزاد ہے۔ تو کیا مسلم قیادت چاہتی ہے کہ مسلمان اب ہندوستان کے سیکولرزم پر ایمان لے کر آجائیں۔ اگر آج ہر چیز میں مصلحت کے نام پر مذہبی شعائر پر لگ رہی پابندیوں پر خاموشی اختیار کرلی جائے تو کل کو مسلمانوں کا مستقبل تاریک ہوگا اور پھر ایک بار سقوط غرناطہ کی طرح حالات ہوگے۔ جبکہ نا ہمارے پاس کوئی ریاست بھی موجود نہیں ہے۔ ملک خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے مسلمانوں کو اپنے دفاع کیلئے مذہبی شعائر کے حفاظت کیلئے متحد ہوکر ملکی سطح پر لائحہ عمل تیار کرکے عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہیں۔ مسلمان ایک بل سے دوبارہ نہیں ڈسا جاسکتا ہے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں