اس مظاہرے سے ایک جذباتی اور حقیقی چہرہ بھی اجاگر ہوا ہے اور وہ ہے اساتذہ سے طلبہ کے لگاؤ کا ۔کسی دور میں کہا جاتا تھا کہ استاد بھی باپ کی ہی طرح ہوتے ہیں لیکن مغرب کی اندھی تقلید نے اس رشتہ کو بھی دھندلا دیا تھا جسے مسلم یونیورسٹی کی بالغ نظر طالبات نے پھر روشن کردیا ۔میں نے یونیورسٹی کے ایک پروفیسرسے گفتگو کی تو ان کی رائے تھی کہ ’’اس طرح کی میڈیا کو شرانگیزی کا موقع فراہم کرنا اس گروہ کا کام ہے جو اپنے آپ کو ترقی پسند کہلاتاہے‘‘ اسے لڑکیوں یا خواتین کے تحفظ کے بجائے ان کی بے لگام آزادی چاہئے جبکہ یہاں آزادی سے زیادہ ان کے عزت و وقار کا تحفظ عزیز ہے ۔اسی کے تحت وائس چانسلر کا یہ مشورہ تھا جس پر میڈیا نے ترقی پسندوں کی شہہ پر یونیورسٹی کے خلاف طوفان بد تمیزی کھڑا کیا ۔لیکن باشعور طالبات نے ترقی پسندوں اور میڈیا کی شر انگیزی کو پانی کے بلبلے کی طرح ختم کردیا ۔میں نئے علی گڑھ میں اپنے ایک دوست سے گفتگو کی انہوں نے بھی طلبہ کی طرف سے اس شاندار احتجاج پر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ بہت ضروری تھا ۔ورنہ یہ لوگ شرانگیزی کرتے ہی چلے جاتے ۔لیکن میرا خیال ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ ریشہ دوانی میں مصروف رہیں گے ۔پھر کوئی نیا مسئلہ کھڑا کریں گے اور تل کا تاڑ بنانے کی کوشش کریں گے ۔اس لئے یونیورسٹی انتظامیہ اور طلبہ کے ساتھ ملت کو بھی بیدار رہنا ہوگا ۔ویسے ایک اور دوست جو وہیں یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں نے کہا کہ یونیورسٹی پر جب بھی کوئی برا وقت آتا ہے تو طلبہ اسی طرح اپنی بیداری کا ثبوت دیتے ہیں ۔اللہ کرے یہ بیداری اسی طرح قائم رہے۔
اس سارے چیپٹر میں مودی کابینہ کی وزیر سمرتی ایرانی کا کردار مشکوک ہے کہ انہوں نے بجائے یہ کہ صورت حال کو سمجھتیں انہوں نے یونیورسٹی انتظامیہ سے رپورٹ طلب کی ۔لیکن اب طالبات کے احتجاج کے بعد ان کا کیا رویہ ہو گا ۔کوئی کچھ بھی کہے لیکن ملک عزیز میں ایک بات تو طے شدہ ہے کہ یہاں مسلمانوں کو ان کے اداروں کو سبق سکھانے یا انہیں ذلیل کرنے اور آگے کچھ کرسکے تو بند کروانے کا بہانہ چاہئے ۔مسلم یونیورسٹی کے خلاف بھی یہی سب کچھ چل رہا ہے ۔آخر اسی ملک میں ہزاروں ایسے ادارے ہیں جو صرف لڑکیوں کے لئے ہیں ۔موجودہ فروغ انسانی وسائل کی وزیر خود ایک خاتون ہیں اور اپنے لباس اور بول چال سے وہ ایک مشرقی خاتون ہی دکھتی ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ انہیں بھی وائس چانسلر کے فیصلوں پر اعتراض ہے؟ کہیں اس میں بھی تو مسلم دشمنی کی خلش نہیں؟ایک سوال اور کیا جاسکتا ہے کہ خواتین کے خلاف بڑھتے تشدد ،تعلیمی اداروں سے جنسی دست درازی کی خبریں جس قدر تسلسل سے آرہی ہیں اس کی وجہ کیا ہے اور اس پر قابو پانے کی صورت کیا ہے؟میرا یقین ہے کہ سمرتی ایرانی اور وہ ترقی پسند جنہوں نے یہ پرپگنڈہ کرکے یونیورسٹی کے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی انہیں لڑکیوں کی عظمت ،وقار اور حفاظت ناموس سے کوئی مطلب نہیں ۔لیکن مسلمانوں کو بہر حال تعلیمی ریس میں اندھی دوڑ نہیں لگانی ہے انہیں تعلیم کے ساتھ ساتھ ناموس زن بھی عزیز ہے ۔جس سے مسلمان کبھی سمجھوتہ نہیں کرسکتے ۔اس سلسلے میں یونیورسٹی کی طالبات نے آزادی نسواں کے نام پر شور وغوغا کے غبارے کی وائس چانسلر ضمیرالدین شاہ کی حمایت اور میڈیا کے متعصبانہ پروپگنڈہ کے خلاف احتجاج کر کے ہوا نکال دی ہے ۔ ہمیں اپنی بیٹیوں سے یہی امیدیں ہیں کہ وہ تعلیم تو حاصل کریں گی دنیا کی ترقی میں اپنا تعاون بھی پیش کریں گی لیکن وہ نام نہاد ترقی پسندوں کی شرط پر نہیں بلکہ اپنی شرائط پر اور وہ ہیں حفاظت نسوانیت وقار اور ناموس ۔ہمیں مسلم یونیورسٹی کی طالبات کواس احتجاج کے لئے مبارک باد دینی چاہئے اور مستقبل کے لئے ان کی صحیح رہنمائی کرنی چاہئے۔
جواب دیں