کیا ان کے ذہنوں پر عالمی حالات کا اثر پڑ رہا ہے اور وہ جذبات کی رو میں بہہ رہے ہیں؟گزشتہ پندرہ، بیس برسوں میں ہندوستانی پولس ہزاروں مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کر کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال چکی اور ان میں سے بیشتر عدالت سے بری ہوکر واپس بھی آچکے ہیں ۔ ان ایام میں خوب دہشت گردی کا ڈھنڈورا پیٹا گیا اور یہ بتانے کی کوشش ہوئی کہ مسلمان ہونے کا مطلب ہی ہوتا ہے دہشت گرد ہونااور ہم مسلمان اس بات کی تردید کرتے رہے کہ مسلمان دہشت گردی کی طرف مائل ہورہے ہیں مگر اب تو جو مثالیں سامنے آرہی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس الزام میں کچھ نہ کچھ سچائی ضرور ہے۔ حالانکہ ہندوستانی حکومت، پولس اور خفیہ ایجنسیوں کی مسلمانوں پرگہری نظر ہے۔ وہ ایسے کسی بھی مسلمان کو بخشنے کو تیار نہیں جس پر ذرا سا بھی دہشت گردی کا شک ہوجائے۔
عراقی ’جہاد‘میں شرکت
ممبئی کے چار مسلم نوجوانوں کے عراق جانے اور آئی ایس آئی ایس میں شامل ہوکر لڑنے کی خبر نے پورے ہندوستان کو مبہوت کر کے رکھ دیا تھا۔ اگر یہ الزام پولس کی طرف سے لگایا جاتا تو لوگوں کو شک وشبہ ہوتا مگر ایسا نہیں تھا بلکہ خود ان نوجوانوں کے گھر والوں نے یہ اطلاع پولس کو دی تھی۔ پہلے ان کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی گئی تھی مگر جب ان میں سے ایک نوجوان نے عراق سے فون کر کے اپنے بارے میں بتایا تو سرپرستوں کی نیند اڑ گئی اور انھوں نے پولس و حکومت سے درخواست کی کہ ان کے بچوں کو کسی بھی طرح واپس لایا جائے۔ اریب، فہد، شہیم اور امان طالب علم تھے مگر نہ جانے ان کے ذہن میں کیا آیا کہ وہ عراق چل پڑے اور پولس و خفیہ ایجنسیوں کو بھی اس کی بھنک نہیں مل پائی۔ شاید وہ میڈیا کی ان خبروں سے متاثر ہوئے تھے جس کے مطابق عراق وشام میں امریکہ اور اس کے حواریوں کے ساتھ جنگ جاری ہے اور یہ کام القاعدہ کی ایک شاخ اسلامی اسٹیٹ اِان عراق و سیریا(آئی ایس آئی ایس) کر رہی ہے۔ اس نے امریکہ اور امریکہ نوازوں کے ہاتھ سے ایک بڑا علاقہ چھین کر یہاں اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کیا ہے اور اس کا خلیفہ ابوبکر البغدادی کوبنایا گیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس تنظیم کا مقصد عرب سے امریکہ اور اس کے پٹھووں کو ختم کرکے اسلامی حکومت و خلافت کا قیام مقصود ہے۔ اسلامی خلافت کے قیام کا تصور ہی اپنے آپ میں انتہائی دلکش ہے اور اسلام دشمن امریکہ کو دھول چٹاناہر مسلمان کا سپنا بن گیا ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں چلے جائیے مسلمانوں کی محفلوں میں امریکہ اور اس کی شیطانی سازشوں کا تذکرہ ضرور مل جائے گا۔ مسلمانوں کے اخبارات و رسائل ان باتوں سے بھرے ملیں گے اور اسلام کے خلاف جاری امریکی و صہیونی سازشوں سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا لگتا ہے کہ ممبئی کے جو چار مسلم نوجوان عراق کے محاذ جنگ پر لڑنے کے لئے گئے ہیں وہ بھی ایسی ہی تحریروں اور تقریروں سے متاثر ہوئے ہیں۔
دہشت گردی بمقابلہ دہشت گردی
بھارت کے مسلمان عام طور پر امن وامان سے جینے میں یقین رکھتے ہیں اور تشدد سے اجتناب کرتے ہیں مگرانسانی نفسیات یہ ہے کہ جب اس پر لگاتار ظلم ہوتا ہے اور اس کے حقوق غصب کئے جاتے ہیں تو ایک دن وہ اپنا سب کچھ داؤپر لگا کر اپنے وجود کی حفاظت میں لگ جاتا ہے۔ ہندوستان میں ۱۹۴۷ء کے بعد سے مسلم کش فسادات ہوتے رہے ہیں اورجب سے مندر۔مسجد کے نام پرسیاست نے زور پکڑا ہے تب سے ان فسادات میں تو اضافہ ہوا ہی ہے، مسلمانوں کے حقوق کا غصب بھی شروع ہوگیا ہے اور اس کا فطری طور پر مسلمانوں کے ذہنوں پر اثر پڑ رہا ہے۔ عالمی حالات بھی مسلمانوں کے حق میں نہیں ہیں او ر ۱۹۴۷ء سے قبل اگر مسلم دشمنی کا پرچم برطانیہ کے ہاتھ میں تھا تو اب امریکہ اسلام دشمن طاقتوں کا سرغنہ بنا ہوا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی ایسا مسلم ملک نہیں ہے جہاں امریکہ کی مداخلت نہ چلتی ہو۔عربوں کی سر زمین پر اسرائیل کا قیام اور پھر اس کی حفاظت کی ذمہ داری انھیں طاقتوں کے سبب ممکن ہوئی ہے۔ان حالات نے یقیناًحساس مسلمانوں کو متاثر کیا ہے اور انھیں لگتا ہے کہ اس ناانصافی کا خاتمہ ہونا چاہئے اور انھیں میں سے کچھ لوگوں نے ان غاصب اور اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف ہتھیار اٹھا لیا ہے۔ دنیا بھر میں سینکڑوں کی تعداد میں چھوٹی بڑی مسلم تنظیمیں ہیں جوان قوتوں کے خلاف جنگ کر رہی ہیں اور اسے انھوں نے ’جہاد‘ کا نام دے رکھا ہے۔ اب اگر ان قومی اور بین الاقوامی حالات کا اثر چندہندوستانی مسلم نوجوانوں کے سادہ ذہنوں پر بھی مرتب ہوا ہوتو اس میں حیرت کی بات نہیں ہے۔آخر وہ بھی انسان ہیں کوئی ’’پیالہ و ساغر‘‘ تو ہیں نہیں۔البتہ جس طرح سے اب تک حکومت اور میڈیاکی طرف سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش ہورہی تھی کہ گویا تمام مسلم نوجوان دہشت گردی کی جانب جارہے ہیں اور ان کا کام اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ جہاد کے نام پر چوراہوں،بازاروں، بس اسٹاپوں اور مصروف مقامات پر دھماکے کر کے ہندووں کا خون بہائیں، یہ تصور بھی سراسر غلط ہے۔ خود حکومت اور پولس نے اس کے خلاف لڑنے کا جو طریقہ اپنایا وہ بھی دہشت گردی کی ہی ایک شکل تھی کہ کسی بھی بے قصور مسلمان کو پکڑ کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیاجائے اور وہ دس ،پندرہ برس تک اپنے بے گناہی ثابت کرنے کے لئے قانونی جنگ لڑتا رہے۔غنیمت ہے کہ کانگریس کے دور اقتدار میں جس قدر مسلمانوں کو دہشت گردی سے جنگ کے نام پر دہشت زدہ کیا گیا، آج کل اس میں کمی آئی ہے۔
مسلم نوجوانوں پر خفیہ ایجنسیوں کی نظر
اس وقت ہندوستانی خفیہ ایجنسیاں عالمی حالات کے پیش نظر ایسے مسلمان نوجوانوں کی سخت نگرانی کر رہی ہیں جن کے کسی بھی قسم کی دہشت گردانہ کارروائی میں شامل ہونے کے امکانات ہیں۔حال ہی میں القاعدہ لیڈر ایمن الظواہری نے ایک ۵۵ منٹ کی ٹیپ جاری کرکے اعلان کیا ہے کہ وہ ہندوستان اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں جنگ چھیڑنے کی تیاری میں ہے۔ اس نے مسلمانوں سے اس میں شرکت کی اپیل بھی کی ہے۔ اس ٹیپ کے سامنے آنے کے بعد سے حکومت مزید متحرک ہوگئی ہے اور مسلم نوجوانوں کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھ رہی ہے۔ انٹرنیٹ اور سائبردنیا کو خاص طور پر کھنگالا جارہا ہے اور انھیں پھنسانے کے لئے یہاں بھی جال بچھایا گیا ہے۔ایسی کئی ویب سائٹس اور نیٹ ورکنگ سائٹس پر پیج بنائے گئے ہیں جن کا مقصد ایسے مسلم نوجوانوں کو بھانپنا ہے جو تشدد کی جانب میلان رکھتے ہیں۔ اگر کوئی مسلم نوجوان اس میں کچھ دلچسپی دکھاتا ہے تو پھر وہ پھنس سکتا ہے اور اس کی زندگی برباد ہوسکتی ہے۔ یونہی مسلم محلوں میں بھی خفیہ ایجنسیوں کے لوگ اور ان کے ایجنٹ گھومتے رہتے ہیں جن کا مقصد مسلمانوں کے ایک ایک معاملے کی خبر رکھنا ہے لہٰذا مسلمانوں کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے اور اپنے نوعمر بچوں کی نگرانی کی ضرورت ہے۔
اصل جہاد کا راستہ
’’جہاد‘‘خالص اسلامی لفظ ہے جس کا مطلب ہے انتہا درجے کی جدوجہد کرنا۔ جہاد کا مفہوم مفسرینِ قرآن نے ’قتال‘ یعنی جنگ لکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی فرد یا قوم پر جب اسلحے سے حملہ ہو تو وہ اس کا دفاع اسلحے سے ہی کرسکتی ہے اور جب علم وحکمت سے حملہ ہوگا تو اس کا جواب علم و حکمت سے ہی دیا جائے گا۔ سیرت نبوی میں جنگ وجدال کی مثالیں موجود ہیں مگر یہ جنگیں دفاعی نوعیت کی تھیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی کسی پر حملہ نہیں کیا اور نہ اس کی اجازت دی ،بلکہ جب کسی جانب سے حملہ ہوا تو اس سے بچاؤ کیا۔ جتنی بھی جنگیں آپ کو پیش آئیں وہ اسی نوعیت کی تھیں۔ آج دنیا بدل چکی ہے اوریہاں جنگ کا میدان و انداز بھی بدل چکا ہے۔ آج ہتھیاروں سے لڑائی کی نوبت کم آتی ہے اور علم وحکمت سے لڑائی کی ضرورت زیادہ ہے۔ اس وقت قومی اور بین الاقوامی سطح پر مسلمان اپنے جتنے بھی دشمنوں سے برسرِ پیکار ہیں وہ تمام ان پر علم و حکمت سے حملے کر رہے ہیں ،جن کا جواب کبھی بھی ہتھیار سے نہیں دیا جاسکتا بلکہ علم و دانش سے ہی دیا جاسکتا ہے۔ امریکہ اگر مسلم ملکوں میں مداخلت کرتا ہے تو اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ اس کے پاس علم ودانش ہے اور مسلم ممالک اگر اس کے شکار ہوتے ہیں تو اس لئے کہ وہ علم سے محروم ہیں۔ مسلم ملکوں میں شرح خواندگی عموماً ۵۰ سے ۶۰ فیصد کے درمیان ہے جبکہ امریکہ اور یوروپی ممالک میں یہ شرح ۱۰۰ فیصد ہے۔ یہی سبب ہے کہ پٹرول اور ڈیزل عرب میں نکلتا ہے اور اس پر کنٹرول امریکہ و یوروپ کرتے ہیں۔ یونہی ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل کا بنیادی سبب بھی علمی پسماندگی اور سیاسی حکمت عملی کی کمی ہے۔ اگر کوئی مسلمان دنیاوی علوم میں سبقت لے جاتا ہے اور اہم سرکاری عہدے پر فائز ہوجائے تو وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ مسلمان بھی ہے اور اپنی قوم کی بھلائی کے لئے کچھ کرنا اس کی ذمہ داری ہے، ایسے میں مسلمان دوسروں سے شکایت کریں اور حکومت کو تمام ناانصافیوں کے لئے موردِ الزام ٹھہرائیں تودرست کیسے کہا جائے؟ آج اگر کوئی مسلمان اپنے بچے کو اچھی تعلیم و تربیت سے آراستہ کرکے اعلیٰ عہدے پر فائز کردیتا ہے اور اس کے اندر مسلمان ہونے کا احساس پیدا کردیتا ہے تو اس سے بڑھ کر کوئی جہاد نہیں۔ مسلمان مادی ہتھیاروں سے آج کی دنیا کا مقابلہ نہیں کرسکتے کیونکہ ان کے مد مقابل کے پاس زیادہ دھار دار اسلحے ہیں، انھیں علم و دانش سے یہ کام کرنا ہوگا۔جوعرب اپنے ملک میں اسپتال نہیں کھول سکے، یونیورسیٹیاں قائم نہ کرسکے، سائنس اور تحقیق کے ادارے قائم نہ کرسکے اگر خدا نخواستہ ان کی کوشش کامیاب ہوگئی اور حکومت ان کے ہاتھ میں آگئی تووہ اسے ترقی دینگے یا عہدوسطیٰ میں لے جائینگے؟خلافت اسلامیہ کے قیام کی بات کرنے والے پہلے ایسے افراد پیدا کریں جو اسے چلا سکیں۔
جواب دیں