مسلم نوجوانوں کا انکاؤنٹر:ذمہ دار کون؟

مسلمان ان واقعات پر وقتی طور پر رنجیدہ ہوتے ہیں‘ حالات پر رونا روتے ہیں اور پھر اگلے واقعہ کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔ انہیں یہ واقعات اس لئے عجیب نہیں لگتے کہ ہندوستان کی بیشتر مقامات پر یہی کچھ کیا جارہا ہے۔ خالد مجاہد کی پولیس تحویل میں ہلاکت ابھی ذہنوں میں تازہ ہے۔ بٹلہ ہاؤز انکاؤنٹر نے تو پولیس کے چہرے کو پوری طرح سے مسخ کردیا تھا۔ ایسے اَن گنت واقعات ہیں جس میں مسلم نوجوانوں کے خون سے پولیس نے پیاس بجھائی۔ ابھی چند دن پہلے ہی کی تو بات ہے جب ہاشم پورہ قتل عام کے مقدمے کا فیصلہ سنایا گیا‘ یوں تو بات 28برس پرانی ہے مگر عدالتی فیصلے نے ان زخموں کو تازہ کردیا۔ اس ملک میں حکومت چاہے کسی کی بھی ہو‘ حکومت چلانے والوں کی ذہنیت تو ہمیشہ سے مسلم دشمن ہی رہی۔ ہندوستان کی تاریخ کے اوراق کا جائزہ لیا جائے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ آزاد ہندوستان کی تاریخ مسلمانوں نے اپنے خون سے لکھی اور آزادی کے بعد کی تاریخ کے بیشتر باب بھی مسلمانوں ہی کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ کبھی فوج کے ہاتھوں، کبھی سکیوریٹی فورس کے ہاتھوں، کبھی ریاستی پولیس کے ہاتھوں مسلمان ہلاک ہوتے رہے۔ کبھی دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر کبھی علیحدگی پسند کے صفائے کے بہانے، کبھی پڑوسی ملک کے آلہ کار ہونے کے الزام میں انہیں جیلوں میں سڑایا گیا تو کبھی تڑپا تڑپا کر مارا گیا اور جب قانون کے محافظین کو قانون کی گرفت میں آنے کا اندیشہ ہوا تو انہوں نے اپنے گناہوں اور مظالم کے ثبوت مٹانے کے لئے بے گناہوں، بے قصوروں کو صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ جب بھی کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے‘ الکٹرانک میڈیا کے لئے بریکنگ نیوز اور پرنٹ میڈیا کے لئے ایک سنسنی خیز خبر بن جاتا ہے۔ عام آدمی کے لئے یہ وقت گذاری کا مشغلہ بن جاتا ہے اور سیاست دانوں کے لئے اپنی سیاسی دوکانیں چمکانے کا ایک اور موقع ہاتھ آتا ہے۔ بے قصور مظلومین کی لاشوں کی ڈھیر پر سیاسی جماعتوں کے پرچم لہرائے جاتے ہیں۔ پھر ان لاشوں کی سوداگری بھی ہوتی ہے۔ خاموش رہنے کی ایک قیمت آواز کو کمزور کرلینے کی ایک اور قیمت۔
مسلم نوجوانوں کو مختلف بہانوں سے گرفتار کیا جاتا، ان کے خلاف ایسے الزامات عائد کئے جاتے ہیں کہ ایک طویل عرصہ تک انہیں ضمانت نہیں مل پاتی۔ ضمانت منظور ہوبھی جائے تب بھی رہائی ممکن نہیں ہوتی۔ اس طرح سے ان کے خلاف فرقہ پرست میڈیا پروپگنڈہ کرتا ہے کہ سایہ تک اس سے دور ہوجاتا ہے۔ برسوں بعد انہیں بَری کردیا جاتا ہے تب ان کے پاس کچھ بچا نہیں ہوتا۔ ایک تاریک مستقبل کے ساتھ وہ نئی زندگی کی شروعات کرنا چاہتا ہے مگر اس کے ماضی کے دامن پر لگائے ہوئے داغ قدم قدم پر اسے ستاتے رہتے ہیں۔مسلمان اس ملک کا اٹوٹ حصہ ہے۔ ان کے بغیر ہندوستان ادھورا ہے۔اس حقیقت سے مسلمانوں کے دشمن اچھی طرح واقف ہیں۔ اس کے باوجود وہ ہر شعبہ حیات میں مسلمانوں کو پسپا اور پست ہمت کرنے کے درپے رہتے ہیں اس کے لئے عدلیہ، انتظامیہ، پولیس اور میڈیا کا ایک طبقہ راہیں ہموار کرتے ہیں۔ اور یہ ایک عالمی سازش کا حصہ ہے۔ صرف ہندوستان میں مسلمانوں کی شبیہ کو مسخ کرکے پیش نہیں کیا جارہا ہے بلکہ عالمی سطح پر مسلمانوں کو دہشت گرد کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ جب کبھی دہشت گردی کی انٹرنیشنل میڈیا کوئی مثال پیش کرنا چاہتا ہے تو مسلم چہرے کو پیش کیا جاتا ہے۔ چونکہ ہندوستان میں بھی ابتداء ہی سے ایسی جماعتیں اور طاقتیں اقتدار پر رہیں جن کی مسلم دشمنی مسلمہ رہی ہے۔ اگرچہ کہ انہوں نے اپنے چہروں پر سیکولرزم کی نقاب ڈال رکھی ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں ایسی کوئی قومی جماعت کا اقتدار نہیں رہا جس کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہو کہ انہیں مسلمانوں سے واقعی ہمدردی رہی ہو۔ چنانچہ ہر دور میں مسلمانوں کی تباہی و بربادی کی جاتی رہی۔ ہر دور میں انکاؤنٹرس ہوئے۔ ہر دور میں بے قصور مسلمان جیلوں میں برسوں سڑائے گئے۔ بے قصور مسلم نوجوانوں کو مسلم سماج سے الگ تھلگ کردینے عوامی تائید سے محروم رکھنے کے لئے سب سے آسان حربہ یہی ہے کہ اسے پڑوسی ملک یا کسی دہشت گرد جماعت سے جوڑ دیا جائے۔ کبھی اس بات کی کوشش ہی نہیں کی گئی کہ مسلمانوں کے کرب کو سمجھا جاسکے۔ بابری مسجد کی شہادت ممبئی کے فسادات، گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام، مکہ مسجد دھماکہ ایسے واقعات ہیں جس نے مسلمانوں کی نئی نسل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ان میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا۔ انہوں نے اپنی روح کے زخمی ہونے پر آواز بلند کی تو اسے ملک سے غداری، دہشت گردی، علیحدگی پسندی کا نام دے دیا اور ان کے کیریر کو داغدار کرکے ان کے مستقبل کو تباہ کردیا۔ کسی نے مسلمانوں کے زخموں پر مرہم لگانے کی کوشش نہیں کی بلکہ انہوں نے مرہم کے بہانے نمک پاشی کی۔ ان کے زخموں کو کریدا اور مسلم نوجوانوں کی بلبلاہٹ کو دہشت ثابت کیا۔ اس کے برعکس دوسرے اقوام اپنے حقوق کے لئے ہتھیار اٹھاتے ہیں، تخریبی سرگرمیوں کو ہوا دیتے ہیں۔ ملک کی معیشت کو تباہ و تاراج کرتے ہیں اس کے باوجود انہیں کبھی قوم دشمن نہ سمجھا گیا نہ ویسا ان سے سلوک کیا گیا۔ یہ امتیاز صرف مسلمانوں سے برتا جارہا ہے۔ اس امتیازی سلوک سے پیش رو نسل عادی ہے، موجودہ نسل مایوس ہوچکی ہے اور نئی نسل بے چین ہے۔ اس بے چینی کا بعض مفاد پرست عناصر استحصال کرتے رہے ہیں۔ ایک طرح سے اپنے مفادات کی خاطر اچھے خاصے نوجوانوں کو یہ اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھاتے رہے ہیں اور یہ معصوم بھولے بھالے نوجوان جنہیں اگر استحصال کنندگان سے محفوظ ہوبھی جائیں تو خاکی وردی کے شر اور ظلم سے نہیں بچ پاتے۔ وقار اور اس کے ساتھیوں ہوں یا خالد مجاہد اور دہلی کے بٹلہ ہاؤز انکاؤنٹر کے شہید ساجد یہ بھی تو کسی کی اولاد ہیں۔ کون ماں باپ ہیں جو اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے جوان بچوں کی لاشیں دیکھناچاہتے ہیں۔ وہ تو بچے کی پیدائش کے ساتھ اس سے آرزوئیں اور تمنائیں وابستہ کرلیتے ہیں۔ انہیں تو یہ ہمت رہتی ہے کہ بچے جوان ہوجاتے ہیں تو ان کا آسرا اور سہارا بنیں گے۔ جس محنت سے انہوں نے ان بچوں کی پرورش کی اس کا قرض چکائیں گے۔ مگر جب یہ بچے جیلوں میں اذیتیں سہتے ہیں جب انکاؤنٹرس میں مارے جاتے ہیں تو ان کے دل پر کیا گزرتا ہوگا یہ صرف وہی جانتے ہیں۔
5؍اپریل کو سوریہ پیٹ میں پولیس انکاؤنٹر میں دو مسلم نوجوان اعجازالدین اور اسلم ہلاک ہوئے۔ اعجاز کے والد اعزازالدین نے انتہائی کرب کے ساتھ کہا کہ انہیں اپنے بیٹے کی موت پر کسی قسم کا رنج نہیں‘ وہ اپنے بیٹے کے اقدامات پر شرمندہ ہیں۔یہ الفاظ صرف ایک غمزدہ باپ کی زبان سے ہی نکل سکتے ہیں۔ کیوں کہ اپنی تمام ناراضگیوں کے باوجود اس باپ نے اپنے نافرمان بیٹے کے جسد خاکی کو حاصل کیا۔ ماؤں پر کیا گزرتی ہے‘ بہنوں ، بھائیوں، بیویوں اور اولاد پر اس کا کیا اثر ہوتا ہے اس پر کوئی غور نہیں کرتا۔ ایک طرف مسلم نوجوان قانون کے محافظین کے ہاتھوں ہلاک یا تباہ ہورہے ہیں‘ تو دوسری طرف ان کی تباہی کے ذمہ دار وہ عناصر بھی ہیں جوان کے ذہنوں کو متاثر کرتے ہیں۔ کچھ بچے اگر الگ راہوں پر نکل پڑتے ہیں تو اس کی ذمہ داری ان کے والدین پر بھی عائد ہوتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہر ماں باپ اپنے بچوں کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر جب کبھی ان کی تربیت اور نگہداشت میں ذرا سی بھی غفلت ہوجاتی ہے تو یہیں سے گمراہی کی پگڈنڈیوں پر وہ چل پڑتے ہیں۔ ماں باپ کو چاہئے کہ اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ کچھ بچے تو اپنے گمراہ ساتھیوں کی وجہ سے بھی بھٹک جاتے ہیں۔ اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ ان کے حلقہ احباب پر بھی نظر رکھیں۔ ان کے حرکات و سکنات کا غیر محسوس طریقہ سے جائزہ لیں۔ ان کے لائف اسٹائل میں کوئی فرق محسوس ہو تو اس کی اصلاح کی کوشش کریں۔ ہم اپنے بچوں پر پیسہ تو خرچ کرتے ہیں مگر ان کے لئے وقت نہیں دے پاتے جس کی سزا ہمیں یہی ملتی ہے کہ اکثر ہمیں بڑھاپے میں جواں بیٹوں کی تباہی یا کبھی کبھار ان کے لاشوں کو دیکھنا پڑتا ہے۔
مسلم قیادت کی ذمہ داری
7؍اپریل 2015ء کو ایک اور سیاہ باب کا پولیس نے آزاد اور جمہوریہ ہندوستان کی تاریخ میں اضافہ کیا۔ جب زیر دریافت 5مسلم نوجوانوں کا پولیس وہیکل ہی میں انکاؤنٹر کے نام قتل کردیا۔ ہر سیاسی جماعت‘ ہر باشعور شہری‘ مذہبی خطوط سے بالاتر ہوکر اس انکاؤنٹر کو فرضی اور انتقامی قرار دے چکا ہے۔ ان مہلوک مسلم نوجوانوں کے خلاف الزامات ثابت نہیں ہوئے تھے۔ اور ان کے باعزت بَری ہونے کا امکان تھا۔ تاہم قانون کے محافظین نے خود اپنے ہاتھ میں قانون لے کر سزا دے دی۔ پولیس گاڑی میں اپنی نشستوں پر زنجیروں سے بندھے ہوئے نوجوانوں پر پولیس سے ہتھیار چھیننے کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں گولی ماری۔ الزامات مضحکہ خیز ہیں اور اسے کوئی بھی قبول نہیں کرسکتا۔ اس مرحلہ پر مسلمانوں کی نگاہیں تلنگانہ کی مسلم قیادت پر مرکوز ہیں۔ اور ان سے یہ امید کی جارہی ہیکہ وہ اس مسئلہ پر اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ بھی کرے اور اسے منوابھی لے ۔ 8؍اپریل کو دارالسلام میں مسلم مذہبی قائدین نے ایک اجلاس میں شرکت کی اور اس کے بعد اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے یہ بتایا کہ مسلم متحدہ مجلس عمل کا ایک وفد ریاستی گورنر اور چیف منسٹر سے ملاقات کرکے ان سے اس مبینہ فرضی انکاؤنٹر کی سی بی آئی کے ذریعہ تحقیقات کا مطالبہ کرے گا۔ اس بات کا یقین ہے کہ حکومت جو مجلس اتحادالمسلمین کے لئے نرم گوشہ رکھتی ہے‘ اور اس کی قیادت سے اس کے تعلقات خوشگوار اور مستحکم ہیں۔ ان کے مطالبے کو قبول کرنے میں کسی قسم کا پس و پیش نہیں کرے گی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مرکزی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات میں کسی قسم کا جھول نہ ہو اور ایک مقررہ وقت میں اس کی رپورٹ منظر عام پر آجائے اور خاطیوں کو سزا دی جائے۔حالیہ عرصہ کے دوران عدلیہ کے بھی بعض فیصلوں سے ہندوستانی مسلمانوں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ ہاشم پورہ قتل عام کے ملزمین کی باعزت برأت نے عدلیہ پر ان کے یقین کو متزلزل کردیا ہے۔آزاد ہندوستانی تاریخ میں فرقہ پرست عناصر کے ہاتھوں مسلمانوں کو جانی و مالی نقصان ہوتا رہا اور قانون کے محافظین بھی ہمیشہ مسلم کش فسادات میں فرقہ پرستوں کا ساتھ دیتے رہے۔ مسلم قیادت چاہے اس کا تعلق کسی بھی ریاست سے کیوں نہ ہو‘ انہوں نے بعض موقعوں پر پوری جرأت مندی کے ساتھ آواز ضرور اٹھائی۔ مگر انہیں جو رول ادا کرنا تھااسے پوری ذمہ د اری سے ادا کرنے میں ناکام رہی۔ چاہے وہ ملیانہ کے فسادات اور قتل عام کا معاملہ ہو‘ ممبئی فسادات سے متعلق سری کرشنا کمیشن کی رپورٹ پر عمل آوری ہو‘یا مختلف مقامات پر مختلف بہانوں سے مسلم نوجوانوں کی گرفتاری، جیلوں میں اذیت رسانی اور بعض نوجوانوں کو انکاؤنٹرس میں ہلاک کرنے کے واقعات کی تحقیقات کے سلسلہ میں قومی اور مقامی مسلم قیادت مکمل طور سے کامیاب نہیں رہی۔ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے پانچ مسلم نوجوانوں پر اگرچہ کہ الزامات تو بہت سارے عائد کئے گئے تھے تاہم وہ ملزم تھے‘ اور جو بھی سزا انہیں دی جاسکتی تھی وہ مجرم ثابت ہونے پر عدالتی فیصلے کی بنیاد پر ہی دی جاسکتی تھی۔ افسوس کہ پولیس نے نے ہی عدالت کی ذمہ داری کو اپنے طور پر ادا کرنے کارواج شروع کردیا ہے۔ 7؍اپریل کے واقعہ پر مجلس اتحادالمسلمین سے متاثر کن مظاہرے کی امید کی جارہی ہے۔ مجلس نے پڑوسی ریاستوں کی سیاسی جماعتوں اورارباب اقتدار کے چین، سکون اور نیند کو چھین لیا ہے۔ ان کے لئے یہ ایک اُبھرتی ہوئی سیاسی طاقت ہے‘ تلنگانہ میں تو ان کی طاقت سے سبھی واقف ہیں۔ اپنی طاقت کے مظاہرے کا یہ ایک مناسب وقت ہے۔ ’’بند‘‘ وغیرہ سے مسئلہ حل ہونے کی بجائے اور الجھ جاتا ہے۔ عوامی مظاہروں سے وقتی طور پر اثر ہوتا ہے مگر ہمہ وقتی طور پر مسلمانوں ہی کا نقصان ہوتا ہے۔ مجلس اتحادالمسلمین اور دیگر مسلم سیاسی و مذہبی جماعتیں اپنی طاقت کے بل بوتے پر حکومت وقت سے بہت کچھ منواسکتی ہے۔ اگر اس موقع پر خاموشی اختیار کی گئی تو قیادت سے متعلق بہت سارے سوالات اٹھ سکتے ہیں۔ اس وقت مسلمانوں کی اکثریت مجلس اتحادالمسلمین کو اپنا ترجمان سمجھتی ہے۔ ایوان پارلیمان ہو یا ایوان اسمبلی مجلسی قائدین نے ہمیشہ آواز اٹھائی ہے۔ مسلم نوجوانوں کے قانون کے محافظین کے ہاتھوں قتل عام کے معاملہ پر ان کی اصل آزمائش ہوگی چونکہ مجلس مستقبل میں بہار اور اترپردیش، آسام اور بنگال میں بھی اپنے قدم جمارہی ہے۔ تلنگانہ کے معاملات میں ان کے رول کا اثر ہوگا اگر 7؍اپریل کے معاملہ میں وہ کامیاب رہے تو پورے ہندوستان کے مسلمانوں میں یہ امید اور آس پیدا ہوگی کہ کوئی تو جماعت ہے جو ان کے لئے آواز اٹھانے والی ہے۔کسی وجہ سے مجلس اس معاملہ میں موثر رول ادا کرنے میں ناکام رہے تو دوسری ریاستوں کی سیاسی جماعتیں ان سے سوال کرسکتی ہیں۔ تلنگانہ کی تشکیل کے بعد مجلس کی اہمیت میں جہاں اضافہ ہوا ہے وہیں‘ ایک حقیقت ہے کہ بی جے پی کی طاقت میں تیزی سے اضافہ ہوتاجارہاہے۔ ہندوتوا طاقتیں غیر محسوس طریقہ سے اپنے آپ کو مستحکم بنارہی ہیں۔پولیس‘ عدلیہ‘ نظم و نسق اور ہر شعبہ حیات کے ان کے اثرات و رسوخ ہیں۔ جس کا مظاہرہ علی الاعلان کیا جاتا ہے۔ان حالات سے نمٹنے کے لئے جہاں مسلمانوں کے اتحاد کی ضرورت ہے وہیں ان کے اعتماد کو بحال کرتے ہوئے ان کے حوصلوں کو بلند کرنے کے لئے اقدامات ناگزیر ہیں۔

«
»

سابق جج کاٹجو اور گائے؟

نائیجیریا کی انتخابی بہار

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے