مسلم نوجوان اپنے جذبات کے ساتھ عقل کا استعمال بھی کرے

 

 

  ذوالقرنین احمد ( فری لانس جرنلسٹ) 

محترم حضرات کسی بھی قوم کا اصل سرمایہ اس قوم کے نوجوان ہوتے ہیں دنیا میں بڑے کارنامے انجام دینے اور ترقی کی منازل طے کرنے میں بھی نوجوان بیک بون کا کام کرتے ہیں، ہماری تاریخ رہی ہے کہ جب بھی مسلمانوں کے خلاف کفار، مشرکین، نے محاذ آرائی کی انکے خلاف آہنی دیوار بن کر مقابلہ کرنے والے نوجوان تھے صرف نوجوان ہی نہیں بلکہ ہمارے بچے بزرگ خواتین میں بھی شہادت کا جذبہ عام ہے۔ ملک کی آزادی کے بعد سے ہم دیکھتے آرہے ہیں کہ مسلم قیادت اور تنظیموں نے مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے اور سیکولرازم کے نام پر بزدلی کا مظاہرہ کیا اور آج ملت کو ایک ایسے موڑ پر لاکر کھڑا کردیا ہے جہاں احتیاط کو بزدلی کا نام دیا جاتا ہے۔ہم ملک میں ایک ایسے دور سے گزر ہیں جہاں پر مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی سازشیں رچی جارہی ہے۔ مسلمانوں کے مذہبی مقامات پر جمہوری انداز میں غاصبانہ قبضہ کیا جارہا ہے۔ انکے حقوق کو غصب کیا جارہاہے۔ مذہبی تشخص پر حملے کیے جارہے ہیں۔

 

گزشتہ کچھ سالوں سے مسلسل حکومت اور اسکے حوارین فرقہ پرست عناصر اسلام، مسلمانوں کے پیغمبر اولیاء کرام کی شان میں گستاخیاں کر رہے ہیں کبھی اخبار والے کبھی نیوز اینکر، کبھی کوئی فرقہ پرست پارٹی کے سیاسی لیڈران، مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو مسلسل احساس کمتری کا شکار کیا جارہا ہے۔ ہمارے نوجوانوں کے اندر کچھ کرنے کا جذبہ ضرور ہے قوم کے اندر قابلیت رکھنے والے افراد بھی موجود ہے لیکن انھیں پلیٹ فارم نہیں مل پارہا ہے۔ اور لولی لنگڑی، بزدل نام نہاد ملی سیاسی قیادت ان کے اندر ڈر و خوف کا ماحول پیدا کر رہی ہے تاکہ یہ قوم کا سودا کرکے حکومت کی غلامی میں رہے کر اپنے ذاتی مفادات اور عہدے کرسی کی حوس پوری کرسکے۔ جنہیں قوم و ملت سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ملک کے حالات اب مسلمانوں کیلئے سازگار نہیں ہے۔ اب ہوش میں آنے کی ضرورت ہے خواب خرگوش سے بیدار ہوجائیے کوئی باہر سے آکر آپ کو جگانے والا نہیں ہے۔ اب آپ اپنے حقوق کی لڑائی خود لڑنے کیلے تیار ہوجائیے ظالموں کو ظلم سے روکنے کیلے اپنی اور اپنے قوم کے دفاع کرنے کیلے خود کو مستحکم کیجیے ہر محاذ پر مضبوط گرفت بنائیے ۔ جن قائدین پر آج تک مسلمانوں نے بھروسہ کیا انہوں نے قوم کو صرف بزدلانہ مشورہ اور کھوکھلے نعرے دیے سیکولرازم پر اندھے اعتقاد نے مسلمانوں کو بے عمل اور بے فکر کردیا ہے۔ جو بصیرت کی نگاہوں سے محروم ہے وہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔

گزشتہ روز نیوز ۱۸ کے اینکر امیش دیوگن نے حضرت معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے انہیں لٹیرا کہا ہے۔ یہ بات قابل مذمت ہے آج پورے ملک میں امیش اور نیوز ۱۸ کے خلاف سخت احتجاج کیا جارہا ہے۔ مسلم نوجوان اپنے جذبات عقیدت کے مظاہرہ کر رہے ہیں۔ لیکن یہ جذبات کا اختتام کچھ دن بعد ٹھنڈا پڑ جاتا ہے چند ایف آئی آر ہوتی ہے احتجاج ہوتے ہیں نفرت کا زہر گھولنے والا معافی مانگ کر خود کو محفوظ کر لیتے ہیں۔ اور پھر مسلمان خاموش اپنی زندگی میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ کوئی مضبوط دفاعی نظام کے بارے میں نہیں سوچتے ہیں کہ ہم فرقہ پرستوں کو انھیں کی زبان میں جواب دے سکے۔ اس لیے خصوصاً نوجوانوں قوم کے باشعور ہمدرد افراد سے گزارش ہے کہ وہ اپنے جذبات کا صحیح استعمال کریں۔ جہاں پر ہم کمزور پڑ رہے ہیں یا ہم اس محاذ پر اپنا کوئی پلیٹ فارم نہیں رکھتے ہیں تو ایسے اداروں کو قائم کریں ، مثبت پہل کرنا شروع کرے چاہے چھوٹا سا قدم کیوں نہ ہو ء ہم پہلے معاشی طور پر مستحکم ہونے پر غور کریں چھوٹے موٹے خود کے کاروبار ،چھوٹی موٹی کمپنیاں شروع کریں، مینوفیکچرنگ کا کاروبار کریں۔ جب تک معاشی طور پر اقتصادی طور پر مضبوط نہیں ہوتے ہیں احساس کمتری کا نشانہ بنتے رہے گے۔ کچھ کرنے کیلے پاور چاہیے اور آج پیسہ ہونا بہت ضروری ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں نیوز ۱۸ کا ریلینس، جیو، سے اشتراک ہے امبانی اس نیوز چینل کا مالک ہے۔ اس لیے اگر ہمیں نیوز چینل کی بنیاد رکھنی ہے تو معاشی طور پر مستحکم ہونا ضروری ہے۔ 

نوجوانوں کو اپنے جذبات کو قابو رکھتے ہوئے ایسے اقدامات کرنے چاہیے جس طرح باطل طاقتیں جس پلیٹ فارم سے للکار رہے ہیں جس قوت کے ساتھ مسلمانوں پر حملے کر رہے ہیں ہم انکے شانہ بہ شانہ نہیں بلکہ انکے مقابلے میں آئے وہ جس جگہ سے حملے کر رہے ہم بھی اس جگہ پہنچ کر دفاع اور اقدامات کرے۔ اسکے لیے ضروری ہے کہ معاشی طور پر قوم کو طاقت ور بنائیں۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ ، قوت فکر و عمل پہلے فنا ہوتی ہے پھر کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے۔ ہم جذبات میں آکر غلط قدم اٹھاتے ہیں اور ظالموں کے بچھائے گئے جال میں جاکر پھس جاتے ہیں جس سے ہمیں حق تو نہیں ملتا ہے لیکن ہم اپنا ہی نقصان کر بیٹھتے ہیں۔ اس لیے ہمیشہ عقل و ہوش میں قدم اٹھائے حقوق و انصاف کو حاصل کرنے کی جد وجہد ایسی موثر ہونی چاہیے جس سے حق و انصاف بھی حاصل ہوجائے اور ہمارا نقصان بھی نہ ہو ہم ظالم فرقہ پرست طاقتوں کو کمزور کرنے کیلے ایسے اداروں اور کمپنیوں پروڈکٹس، سرویزس ، موبائل فون، سیم کارڈ، کھانے پینے کی اشیاء، کاسمیٹک، کپڑے وغیرہ ،جو بھی چیزیں فرقہ پرست عناصر کے ذریعے مارکیٹ میں ہے اس کا بائیکاٹ کریں اور بائیکاٹ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ صرف سوشل میڈیا پر دو چار درجن گروپوں پر بائیکاٹ کا مسیج فوٹو فارورڈ کردے اور اپنی ذمہ داری سے فارغ ہوجائیں نہیں ہرگز نہیں بلکہ خود ان تمام چیزوں کا شخصی اور گھر والوں خاندان والوں کی طرف سے خریدنے استعمال کرنے پر پابندی لگائے، جہاں تک ہوسکے معاشی طور پر ظالموں کو زیر کریں اور اپنے کاروبار کو آگے بڑھائے مسلمانوں کے دست و بازو بنے انکی ہر مشکل حالات میں مدد کریں۔ یہی تمہارے غصہ اصل حاصل ہے ورنہ غصہ کا غلط استعمال تمہاری عقل و ہوش کو ماؤف کردے گا۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

20جون2020(ادارہ فکروخبر)

«
»

پہلے گستاخی، پھر معافی، یہ رسمِ مکاری ہے!!!

اتنا ہی یہ ابھریگا جتنا کہ دباؤگے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے