مسلم لڑکیوں کو ہندو بنانے کی مہم زوروں پر،

اس محاذ یا اس مہم کا نام ’’بہو لاؤ بیٹی بچاؤ‘‘ ہے اور اس کے تحت مغربی بنگال میں اب تک تقریباً پانچ سو مسلم اور عیسائی لڑکیوں کو ہندو بنایا جا چکا ہے۔ اب لو جہاد کی مانند ہندو مسلم جوڑے کو نشانہ نہیں بنایا جاتا بلکہ اس کی حوصلہ افزائی اور عزت افزائی کی جاتی ہے بشرطیکہ لڑکی مسلمان ہو اور وہ ہندو ہو جائے۔
اس بارے میں ایک تفصیلی اور تحقیقی رپورٹ دہلی سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس میں شائع ہوئی ہے۔ اس میں تصویروں کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ کس طرح ہندو لڑکے مسلم لڑکیوں کو اپنے پیار کے جال میں پھانستے ہیں او رپھر ان لڑکیوں کا شدھی کرن کیا جاتا ہے، ان کو ہندو بنایا جاتا ہے، ہندو نام رکھے جاتے ہیں او رپھر ہندو مذہب کے مطابق ان کی شادی کی جاتی ہے۔ تقریباً ایک سال سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ جو مسلم لڑکیاں ہندو ہو جاتی ہیں ان کے والدین سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے تحفظ کے لیے بی جے پی میں شامل ہو جائیں۔ لڑکوں کے والدین کو بھی اسی بہانے سے بی جے پی میں شامل کیا جاتا ہے۔ یہ مہم دو دھاری تلوار کی مانند ہے۔ اس کے دو مقاصد ہیں۔ پہلا مسلم اور عیسائی لڑکیوں کو ہندو بنانا اور دوسرے بی جے پی کی طاقت میں اضافہ کرنا۔ مغربی بنگال کے ان اضلاع میں جہاں ترنمول، کانگریس اور بائیں بازو کی پارٹیاں کمزور ہیں او رجہاں بی جے پی اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے انہی اضلاع میں یہ سلسلہ تیزی سے چلایا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس مہم میں وشو ہندو پریشد، ہندو سمہتی، ہندو جاگرن منچ اور بھارت سیوا آشرم سنگھ شامل ہیں۔ انڈین ایکسپریس کے نمائندو ں نے گزشتہ دو ماہ میں ساوتھ 24پرگنہ، نارتھ 24پرگنہ، مرشد آباد، ہاوڑہ اور بیر بھومی کے دورے کیے ہیں اور اس سلسلے میں تفصیلات یکجا کی ہیں۔ وشو ہندو پریشد کے لیڈر بادل داس جو کہ پریشد میں اس مہم کے انچارج ہیں بتاتے ہیں کہ گزشتہ ایک سال میں کم از کم پانچ سو مسلم اور عیسائی لڑکیاں ہندو لڑکوں سے شادی کرکے ہندو بن گئی ہیں۔ ان تمام خواتین نے اپنے ہندو نام رکھ لیے ہیں اور ان کے گھر والوں کو بی جے پی میں شامل کیا جا رہا ہے۔ ہندو سمہتی کے سربراہ تپن گھوش کے مطابق لو جہا دکے تحت مسلم لڑکے ہندو لڑکیوں کو اپنے پیا رکے جال میں پھانستے تھے او ران سے شادی کر لیتے تھے۔ مگر اب ہماری کوشش متاثرین کو بچانا اور مسلم لڑکیوں کو ہندو بنانا ہے۔ جادو پور یونیورسٹی میں پروفیسر اچنتیا وشواس نے جو کہ وشو ہندو پریشد کی گولڈن جوبلی تقریبات میں مہمان خصوصی تھے، کہتے ہیں کہ اگر کوئی ہندو لڑکا کسی مسلم لڑکی کو ہندو بناتا ہے تو یہ بہت اچھی اور اہم بات ہے۔ ہم ہندو لڑکیوں کے مسلم لڑکوں سے شادی کے رجحان کو توڑنا اور مسلم لڑکیوں کے ہندو لڑکوں سے شادی کے رجحان کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ 
21سالہ مسلم لڑکی ریبیکہ خاتون اب میناکشی ہو گئی ہے اور ساوتھ 24پرگنہ میں رہتی ہے۔ بقول اس کے ہندو بن کر او رہندو لڑکے کے ساتھ اس کے گھر میں رہ کر وہ بہت خوش ہے۔ شروع میں وہ کچھ بتانے سے انکار کرتی ہے لیکن بعد میں اپنی شدھی کرن کی کہانی بتاتی ہے۔ اس کے سسرال والوں نے اس کا نام میناکشی رکھا ہے۔ ہندو سمہتی نے اس کی شادی کا انتظام کیا۔ انھوں نے ایک سال قبل کورٹ میں شادی کر لی تھی۔ اس کے شوہر کا نام مدھو منگل نسکر ہے۔ اس کے باپ ہردھن چندر نسکر نے اس شادی کی مخالفت نہیں کی۔ اب یہ پورا خاندان بی جے پی میں شامل ہو گیا ہے۔ لڑکی کے باپ مشرف شیخ سے بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر وہ اپنا تحفظ چاہتے ہیں تو وہ بھی بی جے پی میں شامل ہو جائیں۔ ریبیکہ عرف میناکشی کا کہنا ہے کہ ہندو سمہتی نے ہمیں کولکاتہ میں ایک شیلٹر میں رکھا تھا۔ چند ماہ کے بعد یہاں ان کے گھر آگئی۔ میں نے خود کو ایک ہندو ہونے کا اعلان کیا اور اس بارے میں ایک حلف نامہ عدالت میں داخل کیا۔ لڑکے کے والدین نے میرے شدھی کرن کے لیے ایک ہون کا انتظام کیا۔ اس کے بعد میں نے ہندو مذہب کے مطابق ان سے شادی کر لی۔ اس کے سسر کا کہنا ہے کہ میں نے لڑکی کے باپ سے کہا ہے کہ وہ بھی بی جے پی سے اچھے تعلقات رکھے۔ میں بھی اب بی جے پی ہی میں ہوں پہلے نہیں تھا۔ پہلے میں SUCI کا رکن تھا۔ لڑکی کے والد مسرت شیخ کے مطابق شروع میں ہم نے اس شادی پر مزاحمت کی لیکن جب میری لڑکی لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی اور اس سے شادی کر لی تو میں کیا کر سکتا تھا۔ لڑکی خوش ہے۔
اخبار نے اس ابتدائی رپورٹ کے علاوہ ایک مکمل صفحہ پر بھی ایک اسٹوری شائع کی ہے جس میں ان لڑکیوں اور لڑکوں میں سے بعض کی تصاویر ہیں جنھوں نے اس مہم کے تحت شادی کی ہے۔ ایک لڑکی کو گھر میں بنے مندر میں پوجا کرتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے۔ 22سالہ ام کلثوم خاتون اب انترا بچار ہو گئی ہے۔ اس نے راج شیکھر بچار سے شادی کی ہے۔ راج شیکھر کا کہنا ہے کہ میں نیم پیٹھ رام کرنا آشرم میں ایک اسٹوڈنٹ ہوں۔ میری ایک بہن نے ایک مسلم نوجوان سے شادی کی ہے۔ لیکن جب وہ مسلمان ہو گئی تو اسے گھر تک محدود کر دیا گیا۔ اسے گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں۔ اب میں نے ا س کے شوہر کی رشتے کی بہن سے شادی کر لی۔ حساب برابر ہو گیا۔ 27سالہ شبینہ یاسمین اب نندنی مکہل ہو گئی۔ اس نے تلسیر ہاٹ کے ببلو مکہل سے شادی کر لی۔ مکہل ایم اے کا اسٹوڈنٹ ہے۔ اس نے بتایا کہ شبینہ نے عدالت میں حلف نامہ داخل کر کے خو دکو ہندو اعلان کیا۔ اس کے بعد ہم نے ہندو مذہب کے مطابق شادی کی۔ 23سالہ نروپا سلطانہ اب روپا کونرا ہو گئی ہے۔ اس نے سکنڈ ائیر کے اسٹوڈنٹ گوپال کونرا سے شادی کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مجھے گوپال کونرا سے پیا رہو گیا تھا۔ مگر میں اپنا مذہب بدلنے کی ہمت نہیں کر پا رہی تھی۔ مجھے تپن گھوش کے پا س لے جایا گیا۔ انھوں نے کہا میرا اصل مذہب ہندوازم ہی ہے۔ اور مجھے اس مذہب میں واپس آجانا چاہیے۔ میں اپنے گھر سے بھاگ گئی اور میں نے ایک شیلٹر میں پناہ لی۔ اب میں نے ان سے شادی کر لی ہے۔ میں خوش ہوں۔ میں روزانہ کالج جاتی ہوں۔ میرے گھر والوں نے مجھ سے رشتہ توڑ لیا ہے۔ میں نے بھی ان سے رشتہ توڑ لیا۔
20سالہ رقیہ خاتون اب رومپا چٹرجی ہو گئی۔ اس نے ایک ہندو پنڈت ہری داس چٹرجی کے بیٹے کارتک چٹرجی سے شادی کر لی۔ اس نے بتایا کہ ہندو سمہتی نے اسے شیلٹر میں لے جا کر رکھا۔ جہاں مزید تین جوڑے پہلے سے تھے۔ وہاں ہم تقریباً چھ ماہ رہے۔ تپن گھوش نے مجھ سے کہا کہ اب اسے اس معاملے کو سلجھا لینا چاہیے۔ اس کے بعد سے میں ان کو بابا پکارنے لگی۔ ستمبر میں ہم نے شادی کر لی۔ شادی کے بعد اس کے سسر نے بی جے پی جوائن کر لی۔ اس کے سسر کے مطابق وہ پہلے SUCI میں تھے۔ اس نے بتایا کہ میں نے ایک یگیہ کا اہتمام کیا۔ میں نے اپنی بہو سے کہا کہ وہ اب اپنے گھر والوں سے تعلق توڑ لے۔ 20سالہ روشنا اب جیوتی ہو گئی ہے۔ اس نے تیس سالہ بسوجیت سرکار سے شادی کی ہے۔ اس کا بھی شدھی کرن کیا گیا۔ بسوجیت پہلے ترنمول کانگریس میں تھا مگر اب وہ بی جے پی میں شامل ہو گیا ہے۔ روشنا نے بھی شیلٹر میں رکھے جانے کی کہانی بتائی۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کا نام اب بدل گیا ہے۔ لوگوں کے مطابق روشنا اور جیوتسنا کا ایک ہی مطلب ہے۔ 19سالہ کشمیرا اب کویتا منڈل ہو گئی ہے۔ اس نے پریودوت منڈل سے شادی کی ہے۔ اس کا بھی معاملہ سابقہ لڑکیوں کی مانند ہے۔ یعنی شیلٹر میں رکھنا اور پھر حلف نامہ داخل کر کے شدھی کرن کروانا، مذہب بدلنا اور ہندو مذہب کے مطابق ہندو لڑکے سے شادی کرنا۔ 
اس اسٹوری میں بعض عیسائی لڑکیوں کی کہانی بھی درج ہے لیکن بیشتر مسلم لڑکیوں کے واقعات ہیں۔ یہ سلسلہ ابھی مغربی بنگال کے بعض ان اضلاع میں چل رہا ہے جہاں ترنمول کانگریس، سی پی ایم، سی پی آئی او رکانگریس کی جڑیں کمزور ہیں۔ وہاں اس مہم کے تحت بی جے پی کی جڑیں بھی مضبوط کی جا رہی ہیں۔ مسلم اور عیسائی لڑکیوں کی ہندو لڑکوں سے شادی کے بعد ان خاندانوں کو بی جے پی میں شامل کیا جا رہا ہے۔ ابھی اس پر کوئی ہنگامہ نہیں ہوا ہے۔ در اصل اس مہم سے پورا ملک ابھی بے خبر ہے۔ لیکن اب جبکہ ایک قومی اخبار میں اس کی خبریں شائع ہو ئی ہیں تو امکان اس بات کا ہے کہ اس پر ہنگامہ ہوگا او رہونا بھی چاہیے۔ کیونکہ لو جہاد ایک فرضی معاملہ تھا جو کہ خو دبی جے پی، وشو ہندو پریشد اور آر ایس ایس کی ذہنی اختراع تھی۔ اس فرضی معاملے کی آڑ میں حقیقتاً مسلم لڑکیوں کو ہندو بنایا جا رہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ یہ ایک بارود کا ڈھیر ہے جو رفتہ رفتہ سلگ رہا ہے۔ اگر یہ پھٹ گیا تو اس کے انتہائی سنگین اور خطرناک نتائج برأمد ہوں گے۔ اس سلسلے کو کسی نہ کسی طرح بہر حال روکنا ہوگا۔

«
»

آج کی دنیا کے قارون

آر ایس ایس اور عیسائی دنیا آمنے سامنے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے