ان میں پہلا نام بہوجن سماج پارٹی کے سینئر رہنما ایم پی ڈاکٹر شفیق الرحمن برقؔ کا ہے۔ وہ ہمارے ہم وطن ہی نہیں ہم محلہ بھی ہیں اور واقفیت بھی ایسی ہے جس کی حدیں دوستی سے مل جانی چاہئیں۔ڈاکٹر شفیق لوک سبھا کے اُن مسلم ممبروں میں سے ہیں جن کے برابر شاید ہی کوئی اور ممبر اتنی بار ایم ایل اے اور ایم پی بنا ہو۔ لیکن اتنے سینئر ہونے کے باوجود وہ کبھی مسلمانوں کے کام کے نہیں رہے۔ فیصل صاحب نے انہیں بہوجن پارٹی کا سینئر لکھا ہے جبکہ بہوجن سماج پارٹی میں انہیں صرف 5سال ہوئے ہیں۔ وہ بھی صرف اس لیے کہ ملائم سنگھ نے جب ان کا ٹکٹ کاٹ دیا تو مس مایا وتی نے انہیں جیتنے والا گھوڑا سمجھ کر سنبھل سے اپنا ٹکٹ دے دیا اور وہ جیت کر بہوجن سماج پارٹی کے لیڈر ہوگئے۔
ڈاکٹر صاحب اس وقت سے ڈاکٹر ہیں جب ان کا ایک ایک بال کالاتھا اور اس کے باوجود ڈاکٹر ہیں کہ انہوں نے نہ ایم بی بی ایس کیا ہے نہ پی ایچ ڈی، نہ بی یوایم ایس مگر ڈاکٹر ہیں۔ وہ ابتدا ہی سے سیاست کے شوقین ہیں اور انہوں نے شاید ہی کوئی الکشن کسی پارٹی سے دوبار لڑا ہو۔ وہ ہر مرتبہ نئی پارٹی سے لڑتے ہیں اور خد اکاکرم اُن پر ایسا ہے کہ وہ زیادہ ترکامیاب ہی ہوئے ہیں۔ شاید ہی ایک یادوبار ہارے ہوں گے۔ ڈاکٹر وہ ہر اس پارٹی میں رہے جس نے انہیں ٹکٹ دیا۔ جہاں تک یادآتا ہے بی جے پی اور کمیونسٹ پارٹی کو چھوڑ کر وہ شاید ہر پارٹی کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ وہ صرف اس پارٹی کے آدمی ہیں جو انہیں ٹکٹ دے دے۔ ۔ ان کی سب سے بڑی طاقت ان کے ویسے ہی ووٹ ہیں جیسے مس مایاوتی کے ہیں اور وہ پکے بریلوی عقیدے والے ہیں اور یہی اُن کی طاقت ہے۔ اس وقت ایم پی ہیں لیکن مایاوتی نے انہیں ٹکٹ دینے سے انکارکردیا ہے۔ لیکن انہیں غم نہیں ہوگا اس لیے کہ جسے ایک ممبر کی ضرورت ہووہ انہیں ٹکٹ دے دے گا اور اگر کسی نے نہیں دیا تو عام آدمی پارٹی ہی یہ خدمت کر سکتی ہے۔
دوسرا نام سابق رکن راجیہ سبھا معروف صحافی اور نئی دنیا کے ایڈیٹر مسٹر شاہد صدیقی کا ہے۔ شاہد صاحب کو ملائم سنگھ نے دوبار راجیہ سبھا کا ممبر بناکر بھیجا۔ پھر ملائم سنگھ ہارگئے اور 2007میں مس مایاوتی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئیں تو شاہد صاحب کو اندازہ ہوگیا کہ ملائم تو اب خود ہی ضرورت مند ہیں اس لیے وہ یہ کہہ کر بی ایس پی میں چلے آئے کہ سماج وادی پارٹی میں ان کا دم گھٹ رہا تھا۔مس مایاوتی بہت دوراندیش ہیں انہوں نے راجیہ سبھا کا ممبر بنانے کے بجائے ایک پرچہ پکڑا دیا کہ جائیے بجنور سے الکشن لڑکر لوک سبھا میں آئیے۔یہ کام شاہد صاحب نے کبھی کیا نہیں تھا۔ بہر حال وہ الکشن لڑے اور حسب توقع ہارگئے۔پھر انہوں نے پارٹی چھوڑ کر اجیت سنگھ کی پارٹی اپنالی۔ قسمت سے گزشتہ الکشن میں ملائم سنگھ پہلے سے کہیں زیادہ طاقت وربن کر ابھرے تو شاہد صاحب نے پھر اُن کے اوپر ڈورے ڈالے اور خود ہی ان کی طرف سے ٹی وی چینل پران کی وکالت شروع کردی۔ بعد میں نہ جانے انہیں کس نے مشورہ دیا کہ وہ نریندر مودی سے انٹرویولینے پہنچ گئے اور انٹرویو کی پہلی قسط ہی چھپی تھی کہ بھونچال آگیا۔ سب نے سماجوادی پارٹی کاترجمان کہا تو رام گوپال یادو نے کہا کہ شاہد صدیقی یانئی دنیا سے ہم سے کیا تعلق ؟ نہ وہ ہمارے ترجمان ہیں نہ پارٹی کے ممبر۔ وہ کہا کرتے ہیں تو کہا کریں۔
شاہد صدیقی صاحب سماج وادی پارٹی کی طرف سے راجیہ سبھا کے ممبر تھے اس وقت ملائم سنگھ ان کو اتنا مانتے تھے کہ جب یوپی اردو اکادمی نے اردو صحافت ایوارڈ دینے کی تجویز منظور کی تو شاہد صدیقی نے کہا کہ اسے میرے والد کے نام پر عبد الوحید صدیقی صحافت ایوارڈ کردیا جائے۔ شری ملائم سنگھ کیا جانیں کہ اردو کا کون صحافی ایسا ہے جس کے نام سے ایوارڈ ہونا چاہیے؟ انہوں نے کردیا۔ اگر ملائم سنگھ کسی دانشور صحافی سے مشورہ کرتے تو وہ بتاتا کہ مولانا آزاد ،مولانا محمد علی جوہر، ظفر علی خان، مولانا حسرت موہانی، مولانا ابو الاعلیٰ مودودی، مولانا محمد عثمان فارقلیط وغیرہ وغیرہ۔اُن کے والد صاحب کا نام تو کہیں پچاس ساٹھ ناموں کے بعد آتا ہے۔ لیکن ملائم سنگھ کے اتنے اعتماد کے بعد بھی صرف راجیہ سبھا کی رکنیت کی خاطر وہ مایاوتی کے دربار میں چلے گئے اور وہ بھی یہ کہہ کر کہ’ وہاں میرا دم گھٹ رہا تھا۔‘‘
ان دو لیڈوں کے پس منظر کو دیکھنے اور ان سے واقف ہونے کے بعد کیا فیصل صاحب پھر بھی یہ امید کریں گے کہ ان سے معلوم کیا جائے کہ مسلمانوں کے لیے آج کے دور میں مسلم سیاسی جماعت بہترین ہے یا مسلم قیادت۔ جبکہ دونوں کا تقریباً ایک جیسا ریکارڈ ہے۔ نہ کوئی پارٹی ان کے پیش نظر ہے نہ مسلمان امت۔ بلکہ صرف اپنی ذات ان کے پیش نظر ہے اور اپنی ذات کے فائدے کے لیے انہیں اگر روز پارٹی بدلنا پڑے تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
رہی بات کیرالا میں مسلم لیگ اور حیدر آباد میں مجلس اتحاد المسلمین کی تو دونوں اس لیے کامیاب ہیں کہ یہ جنوب میں ہیں اور سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ جنوب نے پاکستان نہیں بنایا تھا۔ یہ خود کشی شمال نے کی تھی۔ اس لیے جو لاکھوں مسلمان مارے کاٹے گئے ہیں وہ سب شمال کے تھے جنوب کے نہیں۔ اس لیے شمال کے ہندو کے دل میں مسلمان سے نفرت ہے اور یہ نفرت اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک ہندستان اور پاکستان کے تعلقات اتنے اچھے نہیں ہوں گے کہ دونوں ملکوں میں آنا جانا ایسا ہی ہوجائے جیسے نیپال سے ہے کہ نہ پاسپورٹ نہ وزیزا نہ پرمٹ نہ کوئی پابندی۔جہاں تک سیاسی جماعت کا تعلق ہے تو تقسیم کے بعد نہ جانے کتنی بار اپنی الگ پارٹی بنانے کا تجربہ کیا جاچکا ہے۔ مسلم مجلس نے یہی کیا تھا۔.
جواب دیں