اللہ نے انہیں ’اُمت وَسَطْ‘کے منصب پر فائز کیا ہے
عبدالعزیز
”اور اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک ”اُمت وَسَطْ“ (بیچ کی امت) بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ ہو“ (سورہ بقرہ آیت 143)
مسلمانوں کو تعلیم دی گئی ہے کہ ہر کام انجام دیتے وقت اللہ اور رسول ﷺ سے رہنمائی حاصل کریں غیروں کے راستہ کو کسی حال میں نہ اپنائیں۔ غیروں کا راستہ افراط و تفر یط سے کا راستہ ہے اگر اس راستہ پر چلے تو شاہراہ مستقیم بہت دور ہو جائے گی خواہ اپنی نمازوں میں جس قدر دعا کرتے رہیں کہ اللہ انہیں سیدھی راہ پر چلا۔اللہ سیدھی راہ پر اسے ہی چلاتا ہے جو چلنے کے طلبگار ہوتے ہیں۔
صاحب تفہیم القرآن ”امت وسط“ کی اصطلاح کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”امت وسط کا لفظ اسقدر وسیع معنویت اپنے اندررکھتا ہے کہ کسی دوسرے لفظ سے اسکے ترجمے کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا۔اس سے مراد ایک ایسا اعلیٰ اور اشرف گروہ ہے،جو عدل و انصاف اور توسط کی روش پر قائم ہو، جو دنیا کی قوموں کے درمیان صدر کی حیثیت رکھتا ہو،جس کا تعلق سب کے ساتھ یکساں حق اورراستی کاتعلق ہو اور نا حق، ناروا تعلق کسی سے نہ ہو۔
پھر یہ جو فرمایا کہ تمہیں ”اُمت وَسَطْ“ اس لئے بنایا گیا ہے کہ”تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسو لﷺ تم پر گواہ ہو“، تو اس سے مراد یہ ہے کہ آخرت میں جب پوری نوع انسانی کا اکٹھا حساب لیا جائے گا اسوقت رسول ﷺہمارے ذمہ دار نمائندے کی حیثیت سے تم پر گواہی دے گا کہ فکرِ صحیح اور عمل صالح اور نظامِ عدل کی جو تعلیم ہم نے ا سے دی تھی،وہ اس نے تم کو بے کم و کاست پوری کی پوری پہنچادی اور عملاََ اس کے مطابق کام کرکے دکھادیا۔اس کے بعد رسول کے قائم مقام ہونے کی حیثیت سے تم کو عام انسانوں پر گواہ کی حیثیت سے اُٹھنا ہو گا اور یہ شہادت دینی ہوگی کہ رسول نے جو کچھ تمہیں پہنچایا تھا، وہ تم نے انہیں پہنچانے میں، اور جو کچھ رسول نے تمہیں دکھایا تھا وہ تم نے انہیں دکھانے میں اپنی حد تک کوئی کوتاہی نہیں کی۔
تم کہاں مر گئے تھے؟
اس طرح کسی شخص یا گروہ کا اس دنیا میں خدا کی طرف سے گواہی کے منصب پر مامور ہونا ہی در حقیقت اس کا امامت اور پیشوائی کے مقام پر سرفراز کیا جانا ہے۔ اس میں جہاں فضیلت اور سرفرازی ہے وہیں ذمّہ داری کا بہت بڑا بار بھی ہے۔اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس اُمت کیلئے خدا ترسی، راست روی،عدالت اور حق پرستی کی زندہ شہادت بنے، اس طرح اس اُمت کو بھی تمام دنیا کیلئے زندہ شہادت بننا چاہئے حتیٰ کہ اس کے قول عمل اور برتاؤ ہر چیز کو دیکھ کر دنیا کو معلوم ہو کہ خداترسی اس کا نام ہے،راست روی یہ ہے،عدالت اسکو کہتے ہیں اور حق پرستی ایسی ہوتی ہے۔پھر اسکے معنی یہ بھی ہیں کہ جس طرح خدا کی ہدایت ہم تک پہنچانے کیلئے رسولاللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری بڑی سخت تھی، حتیٰ کہ اگر وہ اس میں ذرا سی کوتاہی بھی کرتے تو خدا کے ہاں ماخوذ ہوتے، اُسی طرح دنیا کے عام انسانوں تک اس ہدایت کو پہنچانے کی نہایت سخت ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے۔اگر ہم خدا کی عدالت میں واقعی اس بات کی شہادت نہ دے سکے کہ ہم نے تیری ہدایت،جو رسول کے ذریعہ سے ہمیں پہنچی تھی تیرے بندوں تک پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے، تو ہم بہت بری طرح پکڑے جائیں گے اور یہی امامت کا فخر ہمیں وہاں لے ڈوبے گا۔ہماری امامت کے دور میں ہماری واقعی کوتاہیوں کے سبب سے خیال اور عمل کی جتنی گمراہیاں دُنیا میں پھیلی ہیں اور جتنے فساد اور جتنے فتنے خدا کی زمین میں برپا ہوئے ہیں،ان سب کیلئے ائمہئ شر اور شیاطین ِ انس وجِن کے ساتھ ساتھ ہم بھی ماخوذ ہو ں گے۔ ہم سے پوچھا جائے گا کہ جب دنیا میں معصیت،ظلم اور گمراہی کا یہ طوفان برپا تھا،تو تم کہاں مر گئے تھے؟‘
مولانا امین احسن اصلاحی ؒ ”امت وسط“ کے بارے میں رقمطراز ہیں:
”دین کے معاملہ میں امت مسلمہ کی یہی خصوصیت ہے جس کی وجہ سے قرآن میں دوسری جگہ اس امت کو خیر امت (بہترین امت) کہا گیا ہے۔ اوپر گذر چکا ہے کہ جو چیز ٹھیک نقطۂ اعتدال و توسط پر ہوگی وہ لازماََ بہترین بھی ہوگی۔یہ امت چونکہ امت وسط ہے اس وجہ سے یہ خیر امت بھی ہے۔(تدبر قرآن جلد اول)
نیک ترین امت:
مولانا ابو الکلام آزاد نے مذکورہ آیت کی روشنی میں جو تشریحی نوٹ لکھا ہے وہ توجہ طلب ہے۔ ”دعوت ابراہیمی سے وحدت دین کے استشہاد کا بیان ختم ہو گیا۔ اب یہاں سے اسکا دوسرا حصہ شروع ہوتا ہے۔جو پچھلے بیان کا قدرتی نتیجہ ہے۔حضرت ابراہیم کو اقوام عالم کی امامت ملی تھی۔ انہوں نے مکہ میں عبادت گاہ ِ کعبہ تعمیرکی،اور امت مسلمہ کے ظہور کی الہامی دعا مانگی۔مشیت الٰہی میں اس ظہور کیلئے ایک خاص وقت مقرر تھا۔جب وہ وقت آگیا تو پیغمبر اسلام کا ظہور ہوا اور ان کی تعلیم و تزکیہ سے موعودہ امت پیدا ہو گئی۔ اس امت کو ”نیک ترین امت“ہو نے کا نصب العین عطا کیا گیا اور اقوام عالم کی تعلیم اس کے سپرد کی گئی، ضروری تھا کی اس کی روحانی ہدایت کا ایک مرکز بھی ہوتا یہ مرکز قدرتی طور پر عبادت گاہِ کعبہ ہی ہو سکتا تھا۔ چناچہ تحویل قبلہ نے اسکی مر کز یت کا اعلان کر دیا۔ یہی حقیقت”قبلہ“کے تقرر میں پوشیدہ تھی۔چناچہ ”سیقول السفہاء“ سے یہی بیان شروع ہوتا ہے۔پیروان دعوت قرآنی مخاطب ہیں اور انہیں بتلایا جا رہا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑکے عمل حق نے جو بیج بویا تھا وہ بار آور ہو گیا ہے اور ”نیک ترین امت“ تم ہو۔یو این این(ترجمان القرآن صفحہ 257-258)
جواب دیں