مشترکہ نوبیل ایوارڈکا پیغام

کہ دونوں کو زمین کے ٹکروں سے زیادہ غربت ، بے روزگاری اور ان جیسے دیگر انسانی مسائل کے حل کے لئے مشترکہ جدوجہد کرنی چاہئے اور اپنے وسائل اور توانائی اپنے اپنے عوام کا معیار زندگی بدلنے کے لئے کرنا چاہئے۔ کیلاش ستیارتھی اور ملامہ یوسف زئی میں قدر مشترک بچوں کے حقوق کے لئے جنگ کرنا ہے یہ بات دیگر ہے کہ دونوں کی عمر میں فرق باپ بیٹی جیسا ہے لیکن دونوں کا مشن ایک ہے۔ 
پاکستان کی ملالہ یوسف زئی کے ساتھ اس سال کا امن نوبل انعام حاصل کرنے والے ہندوستان کے کیلاش ستیارتھی بچہ مزدوری کے خلاف اور بچوں کی فلاح و بہبود کے لئے سرگرم تنظیم بچپن بچاو آندولن‘ کے روح رواں ہیں جس نے اب تک80 ہزار بچوں کی زندگی کو نئی روشنی دینے میں اہم رول ادا کیا ہے۔نوبیل امن انعام کے لئے منتخب ہونے کے بعد نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کیلاش ستیارتھی نے کہا کہ یہ اعزاز نہ صرف ہندوستان کے سواسو کروڑ شہریوں کے لئے ہے بلکہ یہ دنیا بھر کے ان تمام بچوں کی بھی جیت ہے جو اپنی زندگی بدلنے کے لئے سخت جدوجہد کررہے ہیں۔‘‘ انہوِں نے کہا کہ یہ ان تمام بچوں کے لئے وقار کی بات ہے جو ٹکنالوجی اور معیشت کی اتنی ترقی کے باوجود غلامی کی زندگی گذارنے کے لئے مجبور ہیں۔ میں اس جدید دور میں اذیت سے گذرنے والے لاکھوں بچوں کی بدحالی کو دور کرنے کے کام کو تسلیم کرنے کے لئے نوبیل کمیٹی کا مشکور ہوں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ وہ ملالہ کے ساتھ مل کر بچہ مزدوری سے لڑنا چاہتے ہیں۔پیشے سے الیکٹرک انجینئر کیلاش ستیارتھی 11جنوری 1954 کو مدھیہ پردیش میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 26 برس کی عمر میں ہی کیرئر چھوڑ کر بچوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنا شروع کردیا۔ انہیں بچہ مزدوری کے خلاف مہم چلا کر ہزاروں بچوں کی زندگیاں بچانے کا سہرا جاتا ہے۔ وہ اس وقت گلوبل مارچ اگینسٹ چائلڈ لیبر کے صدر بھی ہیں۔بچوں کو بچانے کے دوران ان پر کئی جان لیوا حملے بھی ہوئے ہیں۔17مارچ2011 کو دہلی کی ایک گارمینٹ فیکٹری پر چھاپے کے دوران ان پر حملہ کیا گیا۔ اس سے قبل 2004 میں گریٹ رومن سرکس کے بچہ فن کاروں کو آزاد کرانے کے دوران بھی ان پر حملہ ہوا تھا۔کیلاش ستیارتھی کو ان کی خدمات کے لئے اب تک متعدد قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے نوازا جاچکا ہے۔ ان میں 1994 میں جرمنی کا دی ایکینئر انٹرنیشنل پیس ایوارڈ اور 1999میں جرمنی کا ہی فریڈرک ایبرٹ اسٹفٹنگ ایوارڈ شامل ہیں۔ نوبیل کمیٹی کے مطابق کیلاش ستیارتھی کو یہ ایوارڈ تمام بچوں کے لئے تعلیم اور بچوں اور نوجوانوں کے استحصال کے خلاف ان کی جدوجہد کے لئے دیا جارہا ہے۔
نوبیل پرائز کی ویب سائٹ کے مطابق ملالہ اور کیلاش ستیارتھی کو یہ ایوارڈ ان دونوں کو ان کوششوں کے صلے میں دیا گیا ہے جو انھوں نے ’بچوں اور نوجوانوں کے استحصال کے خلاف جدوجہد اور تمام بچوں کے لیے تعلیم کے حق‘ کے لیے کیں۔اس برس نوبیل امن انعام کی دوڑ میں ریکارڈ تعداد میں 278 امیدوار حصہ لے رہے تھے جن میں اطلاعات کے مطابق پوپ فرانسس بھی شامل تھے۔ڈاکٹر عبدالسلام کے بعد ملالہ دوسری پاکستانی شہری ہیں جنھیں نوبیل انعام سے نوازا گیا ہے۔بی بی سی اردو سروس کے لیے گل مکئی کے نام سے سوات سے ڈائریاں لکھ کر عالمی شہرت حاصل کرنے والی ملالہ یوسفزئی کو اکتوبر سنہ 2012 میں طالبان نے حملے کا نشانہ بنایا تھا۔ کیونکہ وہ ان کی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتی ہوئی نہ صرف خود اسکول جاتی تھی بلکہ اپنی سہیلیوں کو بھی اسکول جانے کے لئے راغب کیا تھا۔حملے کے وقت وہ مینگورہ میں ایک سکول وین سے گھر جا رہی تھیں۔ اس حملے میں ملالہ سمیت دو اور طالبات بھی زخمی ہوئی تھیں۔ ابتدائی علاج کے بعد ملالہ کو انگلینڈ منتقل کر دیا گیا جہاں وہ صحت یاب ہونے کے بعد زیرِ تعلیم ہیں۔
ملالہ یوسف زئی کا تعلق سوات کے صدر مقام مینگورہ سے ہے۔ سوات میں 2009 میں فوجی کارروائی سے پہلے حالات انتہائی کشیدہ تھے اور مذہبی رہنما مولانا فضل اللہ کے حامی جنگجو وادی کے بیشتر علاقوں پر قابض تھے جبکہ لڑکیوں کی تعلیم پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی۔اس زمانے میں طالبان کے خوف سے اس صورتِ حال پر میڈیا میں بھی کوئی بات نہیں کر سکتا تھا۔ ان حالات میں ملالہ یوسف زئی نے کمسن ہوتے ہوئے بھی انتہائی جرات کا مظاہرہ کیا اور مینگورہ سے ’گل مکئی‘ کے فرضی نام سے بی بی سی اردو سروس کیلیے باقاعدگی سے ڈائری لکھنا شروع کی۔اس ڈائری میں وہ سوات میں پیش آنے والے واقعات بیان کیا کرتی تھیں۔اس ڈائری کو اتنی شہرت حاصل ہوئی کہ ان کی تحریریں مقامی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں بھی باقاعدگی سے شائع ہونے لگیں۔ملالہ پر میڈیا کے دو بین الاقوامی اداروں نے دستاویزی فلمیں بھی بنائیں جن میں انھوں نے کھل کر تعلیم پر عائد کردہ پابندیوں کی بھرپور مخالفت کی تھی۔
امید ہے کہ دونوں ملکوں کے ارباب حل وعقد احساس کریں گے کہ کشیدگی اور منافرت ان کے اصل مسائل کا حل نہیں ہے کیونکہ دہشت گردی اور کشمیر سے بھی بڑا مسئلہ عوام کو بنیادی ضروریات فراہم کرنے کا اور ان کا معیار زندگی بلند کرنے کا ہے۔ نوبیل انعام کمیٹی کے پیغام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ 

«
»

اب کیا کہا جائے گا داعش کے بارے میں؟

تھکن دور کرنے والی غذائیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے