ذوالقرنین احمد
مکرمی حضرات
ملک کے موجودہ حالات سے آپ واقف ہوگے کس طرح سے مودی حکومت نے دوسری مرتبہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد ملک کی ساخت کو کھوکھلا کرکے معیشت کو تباہ کرکے بے روزگاری کو بڑھاکر جرائم میں اضافہ کرکے ملک کو کمزور کردیا ہے۔ فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرکے اقلیتوں کے خلاف نفرت کی فضا پیدا کی ہے۔ اور ان تمام ناکامیوں کو چھپانے کیلے مختلف قسم کے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں۔ حکومت اب بھی اپنی غلطی کو درست کرنے کیلے تیار نہیں ہے۔ ملک کے سسٹم کو جمہوری انداز میں بھگوا رنگ میں رنگ کر غیر جمہوری نظام قائم کرنے کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ اپوزیشن کو ختم کرکے آئیندہ ۲۰۲۴ میں بلا مخالف انتخاب کے اقتدار پر قابض ہونا ہے۔ جس کی بہت ساری تیاری مکمل ہوچکی ہے۔ آج ملک میں ڈگری یافتہ نوجوان وزیر اعظم کے یوم پیدائش کو یوم بے روزگار کے طور پر منارہے ہیں۔ وزیر اعظم نے ۲ کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس کورونا وائرس، لاک ڈاؤن نے اور ملک کے مختلف اداروں کو پرائیویٹ کرنے کی وجہ سے کروڑوں افراد کی نوکریاں چھین لی گئی ہے۔ ان تمام غیر ذمہ درانہ فیصلوں کی وجہ سے یا پھر سوچی سمجھی سازش کے نتیجہ میں اب حکومت پر دباؤ بن رہا ہے۔ جس میں تمام اقلیتی برادری متحد ہوکر حکومت کے خلاف آواز اٹھا رہی ہے۔
کرونا وائرس کے نام خوف و دہشت کا ماحول پیدا کیا گیا جس کے نتیجہ میں حکومت نے کچھ بڑے فیصلہ لاک ڈاؤن کے دوران کیے جس میں بابری مسجد کے جگہ رام مندر کی بنیاد رکھنا ہے۔ اسی طرح ملک کی خستہ حالت کو چھپانے کیلے کورونا کا استعمال کیا گیا۔ کورونا کو عالمی وبا بتایا جاتا ہے۔ لیکن اسکے پیچھے اسرائیل امریکہ چین نے بھی اپنے بڑے بڑے کام نمٹا لیے ہے۔
اب آئیے اصل موضوع کی طرف میں جس بات کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ ملک کے مسلمانوں نے ہمیشہ ملک کی سلامتی کیلے اپنے جان مال کی قربانیاں دی ہے۔ اور آج بھی مسلمان ملک کی حفاظت کیلے قربانیا دے رہے ہیں۔ جب گزشتہ برس شہریت ترمیمی قانون پاس کیا گیا این آر سی پورے ملک میں کرانے کا فیصلہ مودی حکومت نے کیا اس وقت اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلے مسلمانوں نے آگے بڑھ کر حکومت کے ان غیر آئینی فیصلوں کی مخالفت کی ہے۔ ملک کے آئین اور جمہوریت کو بچانے کیلے برادران وطن کو ساتھ لے کر شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کی ہے۔ یہ بات یہاں سمجھنے کی ہے جب کبھی مسلمانوں پر حالات آتے ہیں تو یہ قوم ایسی جزباتی ہے جو فوراً مشتعل ہوجاتی ہے۔اور جلد بازی میں ایسے قدم اٹھاتی ہیں جس کا فائدہ حاصل نہیں ہوتا ہے لیکن اس کی وجہ سے پوری قوم کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں بھی مختلف مقامات پر مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس میں حکومت کے اہلکار بھی برابر کے شریک ہوتے ہیں اور یکطرفہ کارروائی کرتے ہیں یہ سلسلہ برسوں سے چلا آ رہا ہے۔ ملک کے مسلمانوں اور قائدین ، ملی تنظیموں اور تحریکوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ملک میں مسلمانوں کو اگر مضبوط مستحکم ہونا ہے اور دفاعی قوت پیدا کرنا ہے۔ تو اپنی جڑوں کو مضبوط کرنا ہوگا جب کوئی درخت اپنی جڑیں زمین میں پھیلاتا ہے تو وہ تیز آندھی طوفان ہواؤں میں اپنے وجود کو باقی رکھتا ہے۔ چاہے اوپر سے اسکی کچھ ٹہنیاں سر پھری ہواؤں سے ٹوٹ کیوں نہیں جاتی لیکن اسکا تنا اپنے جگا پر قائم ہوتا ہے اور وہ جڑوں کی بدولت ہوتا ہے جس میں نمی ہوتی ہے جسے بروقت پانی نمکیات ملتی رہتی ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کو ملک میں اپنی جڑوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ زمینی سطح پر کام کرنے کی بے حد ضرورت ہے۔ جب ہم ہر چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں اپنے قوم کی شمولیت کو ممکن بنانے میں کامیاب ہوجائے گے تب ملک میں ہمارے بغیر کچھ بھی نہیں ہوگا۔ پھر ہماری موجودگی کا احساس ان فرقہ پرستوں اور نا اہل حکمرانوں کو ہوگا کہ ملک میں مسلمانوں کے بغیر ہم ادھورے ہے۔
اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ملک کے مسلمان چاہے وہ کسی بھی جماعت، تنظیم، تحریک سے وابستہ ہو انہیں اب اپنی آنکھیں کھولنے ہوگی اب ہمیں جذبات میں آکر مشتعل ہوکر غیر منصوبہ بند فیصلہ کرکے اپنے آپ کو کمزور نہیں کرنا ہے ہمیں اب دشمن کی چالوں کو سمجھنا ہوگا۔ کہ ملک میں ہندو مسلمانوں میں فرقہ وارانہ فسادات کیوں کروائے جاتے۔ ہمیشہ مسجد ، اسلام ،مسلمان کو نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے۔ یہ سب ایک سازش کے تحت ہوتا ہے کہ آپ لوگ مشتعل ہوکر غلط قدم اٹھائیں اور اسکے نتیجے میں حکومت اور فرقہ پرست عناصر اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کر لے۔ سازش بھی مسلمانوں کے خلاف ہوتی ہے احتجاج کرنے پر مسلمانوں کو ہی ختم کیا جاتا ہے اور پھر ہمارے تعلیم یافتہ با شعور جو ملت کی رہبری رہنمائی قیادت کرنے کے لائق ہوتے ہیں انہیں جھوٹے الزامات میں گرفتار کرکے انکی جوانیوں کو ختم کردیا جاتا ہے جو قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اب مشتعل نہ ہوکر تعمیری سرگرمیوں میں مصروف ہوجائے قوم کو مضبوط کرنے دفاعی قوت پیدا کرنے تعلیمی معیار کو بلند کرنے ، معاشی طور پر قوم کو مستحکم کرنے میں اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرے۔
کیونکہ حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں آج اگر حالات کی نزاکت کا ادراک رکھتے ہوئے قوم کو مضبوط نہیں کیا گیا تو مستقبل میں آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریگی۔ استقامت اصل چیز ہے جو ہزار کرامات سے بہتر ہے۔ کسی بھی کام کو شروع کرنے کا ارادہ کرے تو اللہ پر توکل کرتے ہوئے شروع کرے اور اسکو پایۂ تکمیل تک پہنچانے تک خاموش نہ بیٹھے اور نہ ہمت ہارے۔ بلکہ پوری سنجیدگی اور جوانمردی حوصلے بلند ہمتی کے ساتھ مصروف رہے۔ اور کسی حد پر پہنچنے کے بعد تھک ہار کر نہ بیٹھ جائیے بلکہ اس میشن اور کام کو اپنی نسلوں میں منتقل کیجیے۔ اور ہر کام میں استقامت کے ساتھ جمے رہے۔ مسلم نوجوانوں میں اس چیز کی کمی ہے جس کا نتیجہ ہے کہ آج مسلمان ملک میں آزادی کے ستر سال بعد بھی اپنے قدم جمانے میں کامیاب نہیں ہوسکا جنہیں آج بھی دوسرے درجے کے شہری کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ ہم جذباتی قوم ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم جیسی ہوا چلے اس طرف کو ہوجائے۔ یہی بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے برسوں سے جو بھی فلاحی کام انجام دیے اسے صرف ایک مہم کی طرح انجام دیا ہے چند روز بعد اس مہم کو بھول جاتے ہیں یہاں تک کے مہم کا عنوان کیا تھا یہ بھی ہمیں یاد نہیں رہتا ہے۔ مہم ختم ہونے کے بعد پھر ہاتھ پر ہاتھ دھرے کسی انقلاب کے منتظر رہتے ہیں۔ انقلاب ایسے نہیں آتا ہے اسکے لیے مستقل محنت جد و جہد کی ضرورت ہوتی ایک میشن بنانا ہوتا ہے۔قوم کو مضبوط بنانے کیلے ہر شخص کو اپنی ذمہ داری کو محسوس کرنا ہوگا کہ ملی مفادات کیلے میں نے کیا قربانی دی ہے۔ ملک کے مسلمانوں کے حالات اور مستقبل کی تعمیر میں میرا کیا کردار ہو سکتا ہے۔ کیا میں نے اپنے حصے کی ذمہ داری کو ادا کیا ہے ۔ ضرورت ہے کہ ہر شخص اپنے آپ کا محاسبہ کرے اور آج ہی سے میں اپنی قوم کو مستحکم کرنے کیلے کیا کرسکتا ہوں اس ذمہ داری کے احساس کو سمجھتے ہوئے صرف انگلی کٹا کر شہیدوں کی فہرست میں داخل نہیں ہونا ہے بلکہ مستقل محنت کرنا ہے۔
مضمون نگار کی رائے سےادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں