مشرق وسطیٰ کے حالات اور امریکہ

سعودی حکومت نے مصر میں مرسی حکومت کی بے دخلی میں اتنی عجلت اور دلچسپی کا مظاہرہ کیوں کیا ؟اس کا جواب یوں تو 2011 میں عرب انقلاب کے آغاز سے ہی حاصل ہو جاتا ہے مگر جو کلمہ خادم حرمین شریفین کی زبان سے ادا کرنا ادب کے خلاف تھا اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو اور شام کے ملعون صدر بشار الاسد نے یہ کہہ کر واضح کردیا کہ مشرق وسطیٰ میں عوام نے سیاسی اسلام کو پوری طرح رد کردیا ہے۔ 
بد قسمتی سے 2013 میں عرب اور اسرائیلی حکمرانوں کو اخوانی حکومت کی بے دخلی کے بعد جو وقتی راحت میسر آئی تھی ٹھیک ایک سال بعد مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال تاریخ کے اسی موڑ پر کھڑی ہے یعنی دولت اسلامیہ نے ایک قلیل وقفے میں عراق اور شام کے دو لاکھ پندرہ ہزار کلو میٹر کے علاقوں پر قبضہ کرکے اطراف کے دیگر عرب حکمرانوں کو بھی تشویش میں مبتلاء کردیا ہے۔مزے کی بات تو یہ ہے کہ پر امن اور غیر متشدد نظریات کی حامل اخوانی حکومت کو بے دخل کرکے عرب کے نوابوں نے اسرائیل کی سازش سے جو تیر مارا تھا اور امریکہ کو دھمکی دے رہے تھے کہ وہ مصر کا خسارہ تنہا پورا کرنے کے اہل ہیں اب یہی حکمراں اپنے طور پر ایک نوزائدہ تحریک دولت اسلامیہ کا مقابلہ کرنے سے قاسر ہیں اور اسی امریکہ سے اس طرح عاجزی کررہے ہیں جیسے کہ مشرکین مکہ کے وفد نے کبھی حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے دربار میں حاضر ہو کر اس کے ملک میں پناہ لیے ہوئے مسلمانوں کے خلاف بادشاہ نجاشی کو ورغلانے کی کوشش کی تھی ۔صورتحال یہ ہے کہ عرب کے یہ سلطان جو کبھی شیعہ سنی کے نام پر ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں تھے اب اس طرح متحد ہیں جیسے کہ کبھی مکہ کے تمام قبائلی جو ایک دوسرے کے جانی دشمن ہوا کرتے تھے ۔ نبویﷺ تحریک کے خلاف متحد ہو چکے تھے۔دولت اسلامیہ کے خلیفہ ابو بکر البغدادی کی یہ تحریک کتنی خطرناک اور خونخوار ہے اور انہوں نے کیسا فساد برپا کر رکھا ہے اس طرح کی گمراہ کن خبریں بھی ہمیں ایک بار پھر انہیں ذرائع سے موصول ہو رہی ہیں جس نے کبھی قافلہ حجازکے خلاف بادشاہ نجاشی کو گمراہ کیا تھا۔ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمیں آج بھی ظلم ،ناانصافی،تشدد اور قتل و غارت گری کا اصل مفہوم ان لوگوں سے سیکھنے کو مل رہا ہے جن کے ہاتھ ہزاروں لاکھوں معصوم انسانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں ۔غزہ میں قتل عام سے فارغ ہونے کے بعد اسرائیلی حکمراں نتن یاہو نے مغربی حکمرانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی صحافی اسٹیون(جو اصل میں اسرائیل کا باشندہ اور موساد کا ایجنٹ ہے)کا قتل اس لئے ہوا کیوں کہ اس کی شکل شباہت مغرب جیسی تھی ۔جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی انتہاپسند اصل میں مغربیت کا خاتمہ چاہتے ہیں اس لئے مغرب کو غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اسرائیل کے دشمن مغرب کے دشمن ہیں ۔
شام کا حکمراں پچھلے دوسالوں سے چیخ رہا ہے کہ امریکہ شام میں جن کی مدد کررہا ہے وہ دہشت گرد قاتل اور القاعدہ کے لوگ ہیں ۔اب دیکھئے سعودی حکمراں شاہ عبدللہ کیا فرماتے ہیں 29 ؍اگست کو انہوں نے جدہ میں بیرونی ممالک کے سفراء کو مخاطب ہو کر کہا کہ آپ ہمارا پیغام اپنے اپنے ملکوں کو پہنچادیجئے کہ دہشت گردی اس وقت شیطانی قوت بن چکی ہے اس میں کوتاہی برتی گئی اور جلد سے جلد کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا تو ایک ماہ کے بعد یہ خطرہ یوروپ تک پہنچ جائے گا اور دوسرے مہینے تک امریکہ بھی اس کی زد میں ہوگا۔ستمبر کے پہلے ہفتے میں ایران کے روحانی پیشوا خامنہ ای کا بیان آتا ہے کہ وہ عراق میں دولت اسلامیہ کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینے کیلئے تیار ہیں لیکن دوسرے دن امریکہ ایران کی مدد لینے سے انکار کردیتا ہے ۔8 ؍ستمبر کو ایران کے وزیر خارجہ کا پھر بیان آتا ہے کہ امریکہ دولت اسلامیہ کے خلاف سخت کارروائی کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے ۔سوال یہ ہے کہ آخر یہ کون لوگ ہیں جو اچانک ایران عرب اور اسرائیل کیلئے مشترکہ خطرہ بن چکے ہیں اور ان کی پوری فوجی اور عسکری قوت بے بس اور مجبور نظر آرہی ہے ۔کتنی عجیب بات ہے کہ 9/11 سے پہلے اور اس کے بعد امریکی خفیہ تنظیمیں عرب حکمرانوں کو آگاہ کررہی تھیں کہ وہ اپنے اپنے ملکوں میں دہشت گردوں پر قابو پائیں ۔آج وہی حکمراں عراق اور شام کے ایک وسیع علاقے پر قابض دہشت گردوں کے ملک کی نشان دہی کررہے ہیں اور امریکہ اندھا اور بہرہ بنا ہوا ہے ۔مگر جو کارروائی اس کی طرف سے کی جارہی ہے اس کی اس کارروائی سے مشرق وسطیٰ کے یہ حکمراں مطمئن نظر نہیں آرہے ہیں ۔امریکہ کے موجودہ صدر اوبامہ کی موجودہ حکمت عملی سے مطمئن نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے اور جس طرح سے انہوں نے عراق سے امریکی فوجوں کو واپس بلالیا اور 2014 میں افغانستان سے بھی امریکی فوجوں کی واپسی کا اعلان کردیا اعتدال پسند طالبانوں سے گفتگو کی پیشکش کی ،ایک ڈرامے کے ذریعے بن لادن کے چرچے کو ہمیشہ کیلئے بند کردیا ،مشرق وسطیٰ میں انقلابی کیفیت رونما ہوئی ،ایک ایک کرکے عرب حکمرانوں کا خاتمہ ہونا شروع ہو گیا ،اسرائیل کے دوست حسنی مبارک اور زین العابدین کو بچانے میں امریکہ نے اسرائیل کی کوئی مدد نہیں کی ،ان کا ہر فیصلہ اسلام پسندوں کو راحت پہنچانے کا سبب رہا ہے جبکہ اسرائیل کیلئے مشرق وسطیٰ عرب آمروں کی شکل میں جیسا بھی ہے ٹھیک ہے ۔اور اگر کہیں موجودہ اسلامی بیداری کے سبب یہ خطہ سلطنت عثمانیہ کے خطوط پر کسی ایک پرچم کے تحت متحد ہو گیا تو پھر اسرائیل کیلئے اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا ۔
دی گارجین لندن کے ایک کالم نگار میڈی ایشڈون نے اپنے تبصرے میں اسی خلش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’آپ یقین کریں یا نہ کریں ایک نو زائدہ تحریک جس نے کہ شام کی شورش سے اپنی جد وجہد کی شروعات کی تھی اب ان کے حوصلے اتنے بلند ہو چکے ہیں کہ یہ لوگ اپنی ریاست دولت اسلامیہ کو 1916 سے پہلے کی ریاست سلطنت عثمانیہ کے دور کی سرحدوں تک وسیع کردینا چاہتے ہیں ‘‘۔مضمون نگار نے دولت اسلامیہ کے اس بحران سے مقابلہ کا حل پیش کرتے ہوئے تین متبادل راستوں کا ذکر کیا ہے ۔’’پہلا راستہ تو یہ ہے کہ مغربی طاقتیں پوری طرح فوجی مداخلت کے ذریعے اس تحریک کا صفایا کریں مگر اس راستے سے امریکہ نے عراق اور افغانستان میں سبق حاصل کرلیا ہے اب وہ دوبارہ ایسی غلطی نہیں کرے گا۔دوسرا راستہ یہ ہے کہ عراقی فوجوں کی مدد کی جائے جو کہ ہو بھی رہا ہے مگر نااہل عراقی فوجوں نے اپنے تمام اسلحے اور ہتھیار دولت اسلامیہ کے حوالے کرکے معاملے کو اور بھی پیچیدہ بنادیا ہے ۔ایک حل یہ ہے کہ مغرب عراق میں ایران کی مدد کرے اس طرح ہم اس خطے میں شیعوں اور سنیوں کے تصادم سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو سب سے معقول حل ہے ۔تیسرا راستہ کرد فوجوں کی مدد کا بھی ہے جو امریکہ جزوی طور پر کررہا ہے ۔مگر ترکی کے مفاد کے مد نظر اس راستے پر بھی زیادہ دیر تک نہیں چلا جا سکتا۔شاید جو ہم سوچ رہے ہیں ایساکچھ بھی ممکن نہیں ہے اور ہم خود بھی اس خطے کو عظیم سلطنت میں تبدیل ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں ‘‘ ۔اسی بات کو آسٹریلیا سے شائع ہونے والے اخبار لیڈر نے یوں لکھا ہے کہ جب تک امریکہ عراق اورشام میں فیصلہ کن قدم نہیں اٹھاتا صرف راحت اور امداد فراہم کردینے یا اعتدال پسند طالبانوں سے اچھے تعلقات قائم کرکے عرب کے موجودہ بحران پر قابو نہیں پایا جاسکتا اور اس طرح سے مستقبل قریب میں جب کوئی مورخ موجودہ عراقی بحران پر تاریخ رقم کرے گا تو وہ اس نتیجے پر ضرور پہنچے گا کہ اوبامہ نے جس عراق سے اپنی فوجوں کو واپس بلا کر اس فیصلے کوفتح کی علامت قرار دیا تھا حقیقت میں یہ ان کی شکست تھی ۔اس لئے اوبامہ کو افغانستان میں اپنی غلطی دوہرانا نہیں چاہئے ۔یہ سچ بھی ہے کہ اوبامہ کی صدارت میں افغانستان سے لے کر پاکستان عراق اور مشرق وسطیٰ کے انقلاب میں امریکہ کی جو حکمت عملی رہی ہے اقتدار پسند عرب حکمراں اور صہیونی مقتدرہ ان کے اس فیصلے سے خوش نہیں رہے ہیں ۔اوبامہ امریکہ کے تیسرے صدر ہیں جنہیں اسرائیل میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔خود امریکہ میں ان کے بارے میں پروپگنڈہ کیا جاتا ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور اخوان سے خفیہ روابط رکھتے ہیں ۔اسی لئے 2011 میں جب اوبامہ نے اسرائیل دوست حکمراں زین العابدین اور حسنی مبارک کو بچانے میں اسرائیل کی مدد کرنے سے انکار کردیا تو اس کا شک یقین میں بدل گیا کہ اوبامہ خفیہ طریقے سے کوئی کھیل کھیل رہے ہیں ۔
صہیونی میڈیا اس کے زیر اثر مغربی تبصرہ نگاروں کی بے چینی کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اور یوروپ جن پر کہ اسرائیل کو تکیہ تھا ان کی خاموشی اور غیر جانبدارانہ حکمت عملی کی وجہ سے اسرائیل کے اطراف میں اسلام پسندتحریکوں کا گھیرا تنگ ہوتا جارہا ہے اور جس طرح دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں نے عراقی فوجوں کا ہتھیار چھین لیا اگر یہ سعودی عربیہ کی حکومت کو بے دخل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اس کے ہتھیار وں کے ذخیروں سے یہ اور بھی طاقتور ہو جائیں گے اور پھر انہیں ختم کرنا ناممکن ہو جائے گا اور اوبامہ نے سعودی عربیہ سے جو ایک سو بیس بلین ڈالر کا معاہدہ کیا ہے کہیں امریکہ کے یہ جدید ہتھیار بھی انہیں نہ حاصل ہو جائیں ۔یہ خیالات تو ایک مٖفروضے کی طرح ہیں مگر جس طرح سے مغربی عوام کی ذہنیت بدل رہی ہے اور وہ جدت پسند واقع ہوئے ہیں یہ ممکن بھی ہے کہ مغربی حکمراں بھی عوامی ذہنیت کے مد نظر اپنی ترجیحات اور وفاداری بدل دیں ۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ یوروپ میں اسرائیل اور یہودیوں کے خلاف نفرت کا ماحول تیزی سے بڑھ رہا ہے جیسا کہ جارج گیلوے برطانوی پارلیمنٹ کے تیسرے ایسے شخص ہیں جنہوں نے اسرائیل کے خلاف اپنا احتجاج درج کیا ہے اور ان پر حملہ بھی کیا گیا۔دوسری بات یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ انقلاب کے بعد یہودی سرمایہ داروں نے اپنے معاشی اور اقتصادی قوت سے مغرب کو جس نیو ورلڈ آرڈر اور جنت ارضی کا خواب دکھایا تھا 2008 کی معاشی بد حالی کے بعد مغربی عوام کے سر سے یہ نشہ بھی اتر چکا ہے ۔شاید اسی لئے مغرب کو بھی اب اسلام پسندوں کے خلاف جنگ کو طول دینے میں کوئی دلچسپی نہیں رہی اور وہ خود مشرق وسطیٰ کے معاملے میں وقت گذاری کررہے ہیں ۔تاکہ مستقبل میں مفاہمت کا کوئی معقول اور درمیانی راستہ نکل آئے اور وہ اس نئی تبدیلی سے فائدہ اٹھاسکیں ۔شاید اسی لئے امریکہ نے عرب کے موجودہ بحران کا مقابلہ کرنے کیلئے اسرائیل اور عرب ممالک کو تنہا چھوڑ دیا ہے اور ان کے ساتھ ہونے کا ڈرامہ بھی کررہا ہے تاکہ کوئی دوسری طاقت اس پورے خطے میں مداخلت نہ کر بیٹھے ۔غالب کے بقول یہ کہا جاسکتا ہے کہ 
؂ بناکر فقیروں کا ہم بھیس غالب 
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں

«
»

حج کے نام پر ایرانڈیا کو سبسڈی دینا بند کیا جائے

بیماری کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے