مثبت طرز فکر تعمیر و ترقی کا غماز

۔اسی سال میں ہی میرا بیٹا اپنے میڈکل کے امتحان میں فیل ہوگیا، وجہ اس کی کار کا حادثہ تھا جس میں زخمی ہوکر اسے کئی ماہ تک پلستر کراکر گھر میں رہنا پڑا، کار کا تباہ ہوجانا علاحدہ سے نقصان تھا۔۔۔صفحے کے نیچے اس نے لکھا ۔۔۔آہ کیا ہی بُرا سال تھا یہ۔!!
مصنف کی بیوی کمرے میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ اس کا خاوند غمزدہ چہرے کے ساتھ خاموش بیٹھا خلاؤں کو گُھور رہا تھا،اس نے خاوند کی پشت کے پیچھے کھڑے کھڑے ہی کاغذ پر یہ سب کچھ لکھا دیکھ لیا، خاوند کو اس کے حال میں چھوڑ کر خاموشی سے باہر نکل گئی، کچھ دیر کے بعد واپس اسی کمرے میں لوٹی تو اس نے ایک کاغذ تھام رکھا تھا جسے لا کر اس نے اپنے خاوند کے لکھے کاغذ کے برابر میں رکھ دیا خاوند نے کاغذ کو دیکھا تو اس پر لکھا تھا: اس گذشتہ سال میں آخر کار مجھے اپنے پتّے کے درد سے نجات مل گئی جس سے میں سالوں کرب میں مبتلاء رہا تھا، میں اپنی پوری صحت مندی اور سلامتی کے ساتھ ساتھ ۶۰ سال کا ہوگیا، سالوں کی ریاضت کے بعد مجھے اپنی ملازمت سے ریٹائرمینٹ ملی ہے تو میں مکمل یکسوئی اور راحت کے ساتھ اپنے وقت کو کچھ بہتر لکھنے کے لئے استعمال کر سکوں گا، اسی سال میرے والد صاحب ۸۵ سال کی عمر میں بغیر کسی پر بوجھ بنے اور بغیر کسی بڑی تکلیف اور درد کے آرام کے ساتھ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اسی سال ہی اللہ تعالیٰ نے میرے بیٹے کو ایک نئی زندگی عطا فرما دی ایسے حادثے میں جس میں فولادی کار تباہ ہوگئی تھی مگر میرا بیٹا کسی معذوری سے بچ کر زندہ وسلامت رہا۔آخر میں مصنف کی بیو ی نے یہ فقرہ لکھ کر تحریر مکمل کی تھی کہ وہ ایسا سال جسے اللہ نے رحمت بنا کر بھیجا اور بخیر و خوبی گزرا۔۔۔ملا حظہ کیجئے بالکل وہی حوادث اور بالکل وہی احوال لیکن ایک مختلف نقطہ نظر سے۔۔۔بالکل اسی طرح اگر جو کچھ ہو گزرا ہے اسے اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے جو اس کے بر عکس ہوتا تو ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شاکر بن جائینگے ،اگر ہم بظاہر کچھ کھو بیٹھے اسے مثبت زاویے سے دیکھے تو ہمیں جو کچھ عطا ہوا وہ بہتر نظر آنا شروع ہوجائے گا۔اللہ تبارک تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے جس کا خلاصہ و مفہوم ہے کہ ’’اور بیشک تیرا رب تو لوگوں پر فضل کرتا ہے لیکن ان میں سے اکثر شکر نہیں کرتے ‘‘۔(سورہ نمل ۷)۔مثبت طرزِفکر کا امت کے وجود وبقا اور تعمیر وارتقا میں بنیادی کردار ہے‘مثبت طرزِ فکر امت کو موت کے کنویں سے نکال کر زندگی کی ثریا تک پہنچاتاہے‘ البتہ منفی اندازِ فکر نہ کسی قوم کی تعمیر کرتا ہے‘ نہ کسی تمدن کی بنیاد ڈالتاہے جیسے جب کوئی شخص وزنی بھاری بھر کم سامان کہیں لے جانا چاہتاہے تو مضبوط وتوانا مزدوروں کی خدمات حاصل کرتا ہے‘ کیوں کہ کمزور ولاغر مزدور کا خود چلنا پھر نا دشوار ہے ‘ وہ دوسروں کے بوجھ کیا اٹھائے گا۔اللہ عز وجل کی ذات قوی پر ایمان کامل کی بدولت مومن کے اندر زبردست قوتوں اور توانائیوں کے سوتے پھوٹتے ہیں‘ یہ حقیقت ہے کہ ایمان برحق توانائی کی لہر دوڑادیتاہے‘ ہمتوں کو مہمیز بخشتاہے اور مثبت طرزِ فکر کی روح پھونک دیتاہے۔ ایک سچے مسلمان کے لئے مثبت طرزِ فکر کا حامل ہونا ضروری اور لازماً ایمان ہے،جب صحابہ کرامؓ کی تربیت مثبت طرزِ فکر پر ہوئی تو انہوں نے تاریخ کو بدل ڈالا‘ انسانیت کے جنگل کو محبت والفت اور ایمان ویقین کا چمن بنادیا‘ یہی فکری پرواز انہیں نیک اعمال میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لئے پرِ پرواز عطا کرتی۔

«
»

خوف

افغان یوٹرن

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے