تحریر: جاوید اختر بھارتی
اصلاح معاشرہ کے نام پر مسلسل پروگرام ہوتے رہتے ہیں ، اشتہار دیکھے جاتے ہیں، اخباروں میں خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں، ایک مقام پر اصلاح معاشرہ کے نام پر پروگرام ہوتاہے تو دوسرے مقام کا اعلان ہوتاہے کہ فلاں تاریخ کو فلاں جگہ عظیم الشان اجتماع کا انعقاد ہوگا، اصلاح معاشرہ کانفرنس کا انعقاد ہوگا ، جس میں ملک کے مشہور و معروف،مایہ ناز علمائے کرام،خطبا کی آمد ہوگی،ان گا نایاب خطاب ہوگا آپ تمامی حضرات وقت مقررہ پر امنڈتے ہوئے سیلاب کی طرح شریک ہوکر مواعظ حسنہ سے مستفیض ہوں، ثواب دارین سے مالامال ہوں-
اب پروگرام کی تیاریاں شروع ہو گئیں کیونکہ مقررہ تاریخ آگئی اب شامیانے لگائے جارہے ہیں، جھالر اور قمقمے بھی سجائے جارہے ہیں، اسٹیج بھی بنائے جارہے ہیں ساری تیاریوں میں لوگ اس قدر مصروف ہیں کہ صبح سے شام تک لگے ہوئے ہیں ظہر ،عصر،مغرب،عشا کی اذان ہوگئی لیکن کام نہیں رکتا ہے بڑی خوشی ہے اور سب کی زبان پر جلسے کا تذکرہ ہے،مقررین کا تذکرہ ہے،شعراء کرام کا تذکرہ ہے ، مہمانوں کی آمد ہے، چہار جانب بس مقررین کی تعریف شعراء کی تعریف لوگ نئے نئے کپڑے پہنے ہوئے ہیں مقررہ تاریخ کے ساتھ اب وقت مقررہ بھی آگیا تلاوت قرآن سے پروگرام کا آغاز ہو گیا ، شعراء نے اپنا کلام پیش کرنا شروع کردیا عوام نے داد و تحسین سے نواز نا شروع کردیا ، حوصلہ افزائی کرنا شروع کردیا اس کے بعد تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا ایک مقرر رونق افروز ہوئے اپنا خطاب شروع کردیا بڑے سنجیدہ قسم کے عالم بڑی نیک و بہت معتبر و مستند روایات کو بیان کیا لوگوں سے نماز کی ادائیگی و پابندی کرنے کی اپیل کی انبیاء کرام علیہم السلام، صحابہ کرام اور اولیائے کاملین و بزرگانِ دین کا بھی تذکرہ کیا لیکن چونکہ انداز بڑا سنجیدگی والا تھا اس لیے لوگ اکتا نے لگے خیر انہوں نے اپنا خطاب مکمل کیا اس کے بعد دوسرے مقرر کا نمبر آیا انہوں نے انتہائی ولولہ انگیز خطاب کیا کافی تڑک چھڑک کا مظاہرہ کیا لوگوں نے خوب پسند کیا پروگرام رات کے آخری حصے تک چلا نتیجہ یہ نکلا کہ روز کی بنسبت اس دن فجر کی نماز میں نمازیوں کی تعداد کم ہو گئی جب صبح کو دس بجے سوکر لوگ اٹھے تو چوراہوں اور شاہراہوں و ہوٹلوں میں بیٹھ کر علمائے کرام کو نمبر دینا شروع کردیا فلاں فلاں مولانا نے بہت بہترین تقریر کی پورا مجمع بالکل جما ہوا تھا کوئی ٹس سے مس نہیں ہورہا تھا ارے یار میں تو خود ہی ایکدم آخر تک تھا پروگرام ختم ہونے کے بعد جو سویا تو ایک بار بھی آنکھ نہیں کھلی دس بجے آنکھ کھلی تو نہا دھو کر اب باہر آیا ہوں ویسے پروگرام تو بہت ہی شاندار ہوا اور بہت کامیاب ہوا ،،کہنے والے کو بھی احساس نہیں ہوتا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور جس سے مخاطب ہے وہ بھی اسے نہ روک رہا ہے نہ ٹوک رہا ہے کیونکہ اس کا بھی حال وہی ہے ،، دونوں میں سے کسی ایک کو بھی یہ احساس نہیں ہے کہ ہم نے رات کے آخری حصے تک تقریریں سننے کے بعد بھی فجر کی نماز نہیں پڑھی تو پھر ہم کس بناء پر پروگرام کو کامیاب بتا رہے ہیں اور کس منہ سے ہم علمائے کرام کو نمبر دے رہے ہیں کہ فلاں بہت بہترین مقرر ہیں وہی سب سے اچھا بولے،، اور وہ تو،، ایک دم ڈھیل ڈھال تھے ان کو تو،، پھر دوبارہ بلا نے کے لایق نہیں ہے ،، اور ان کی تو بات ہی ایکدم الگ پروگرام کی جان تھے وہ،، یہ حال ہے آجکل کے مسلمانوں کا اسی وجہ سے اصلاح معاشرہ کانفرنس اور جلسہ بس ایک رسم بن کر رہ گیا اور اس کی وجہ ایک یہ بھی ہے کہ اب احساس نہیں رہا رات میں تقریریں ہوتی ہیں نبی پاک کی سیرت کو بیان کیا جاتا ہے، اصحاب گرام کے مقام کو بیان کیا جاتا ہے ، ان کے واقعات کو بیان کیا جاتا ہے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی اور جہیز کا تذکرہ کیا جاتا ہے اور صبح ہوتے ہی اس کے برعکس شادی کی تقریب کا انعقاد کیا جاتا ہے پٹاخے پھوڑے جاتے ہیں، مہنگے مہنگے شامیانے تانے جاتے ہیں اس میں کون کون سے لوگ شریک ہوں گے اس کی نشاندہی بھی کی جاتی ہے مہمانوں کے درمیان لکیریں کھینچنے کا تو عام رواج بنتا جا رہا ہے اور حد تو یہ ہے کہ ان سبھی تقاریب میں علماء کرام بھی اپ شریک ہونے لگے ایک بار بھی زبان نہیں کھلتی کہ آپ یہ غلط کررہے ہیں بلکہ مہنگی مہنگی شادیوں کے انتظامات جو فسق و فجور اور فضولیات پر مبنی ہوتے ہیں ایسی تقریبات کا انعقاد دینی مدارس کے صحن میں بھی دیکھا جا تا ہے ان مدارس کے اراکین،منتظمین، مدرسین ایک بار بھی اف تک نہیں کرتے بلکہ خوشی خوشی تقریبات کے انعقاد کی اجازت دیتے ہیں تاکہ ان سے چندہ بھی اچھا ملے گا جہاں قرآن اور حدیث کا درس دیا جائے وہیں پر نکاح، شادی بیاہ کو مشکل کیا جائے،غریبوں کا مذاق اڑایا جا ئے اور زنا کو آسان بنایا جائے تو پھر اصلاح معاشرہ کے نام پر جلسے اور کانفرنس کرنے سے کیا فائدہ ،، نیت صاف ہو،دل صاف ہو، عمل کا جذبہ ہو تو جمعہ کا خطبہ ہی کافی ہے اور نہیں تو پھر آج بھی دیکھا جاتا ہے کہ لوگ جمعہ میں بھی تقریریں سنتے ہیں پھر بھی دو رکعت فرض ادا کرکے بغیر سنت بڑھے ہی بڑی تعداد میں لوگ بھاگ کھڑے ہوتے ہیں جبکہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ خطبہء جمعہ مذہب اسلام کا ایک عظیم الشان ذرائع ابلاغ ہے لیکن جب عمل کا ہی جذبہ نہ ہو تو اس کی اہمیت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا اب تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ دیگر معاملات کی طرح اب جلسہ اور اصلاح معاشرہ کے نام سے منعقدہ پروگرام بھی اسٹیج،مخصوص میدان اور اشتہار و اخبار تک محدود ہو چکا ہے –
سماج میں جو دیکھتا ہوں وہ لکھنے کاعادی ہوں
ہاں ہاں ہاں میں ہی جاوید اختر بھارتی ہوں _
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں