مسلسل بمباری کا چوتھا مہینہ
غزہ میں تعینات اسرائیلی فوجیوں میں موذی مرض لشمانیہ طفیلیہ تیزی سے پھیل رہاہے۔ علاج کے لیے تل ابیب کے دواخانوں میں جگہ کم پڑگئی
مسعود ابدالی
غزہ پر مسلط وحشت کے 100 دن مکمل ہونے کو ہیں۔ انسانی تاریخ میں اس قدر طویل دورانیے کی بمباری کی کوئی اور مثال موجود نہیں۔ مہذب دنیا میں جنگ کے بھی کچھ اصول ہیں لیکن غزہ حملہ دراصل بے گناہ انسانوں کا قتل عام اور معصوم بچوں کا ذبیحہ ہے۔
دوہفتہ قبل اسرائیلی وزیر اعظم نے بے گناہ شہریوں اور بچوں کے قتل عام کو انتہائی ڈھٹائی سے ناگزیر یا Collateral نقصان قرار دیا اور دوسری جنگ عظیم کے ایک وحشیانہ واقعہ کو بطور مثال پیش کیا تھا اور اب شبِ عید میلادِ مسیحؑ (Christmas Eve)کو غزہ کے مغزی پناہ گزین کیمپ پر وحشیانہ حملے کامزید بے رحمانہ جواز تراشا گیا۔ 24 دسمبر کی شب یہاں مسیحی خواتین عبادت میں مصروف تھیں کہ اسرائیلی طیارے سے برسنے والے فاسفورس بم نے خیمے کو آگ کے گولے میں تبدیل کردیا۔ سفید فاسفورس اور فضامیں موجود آکسیجن کے ملاپ سے بھڑکنے والے شعلے کی حدت 1500 ڈگری فارن ہائیٹ تک پہنچ جاتی ہے۔ نتیجے کے طور تمام عبادت گزار پلک جھپکتے کوئلہ بن گئیں۔ جب مسیحی مذہبی تنظیموں نے احتجاج کیا تو ’تحقیقات‘ کے بعد اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا ’’غلطی سے زیادہ طاقتور بم پھینک دیے گئے اور فاسفورس بھڑک اٹھنے سے کھچا کھچ بھرا خیمہ راکھ بن گیا‘‘۔
مساجد، گرجاگھروں، اسکولوں اور مفاد عامہ کی عمارتوں کے ساتھ صحافی غزہ میں اسرائیلی فوج کا خصوصی ہدف ہیں۔ اسرائیل اور امریکہ، الجزیرہ کو حد سے گزرا ’دریدہ دہن‘ سمجھتے ہیں۔ چنانچہ حملے کے آغاز پرہی امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نےقطری وزیر اعظم کو حکم دیا کہ الجزیرہ کے بیانات کو دھیما(tone down) کیا جائے۔ دھمکی کارگر نہ ہونے کی بناپر اسرائیل نے ’دریدہ دہنوں‘ کی بدن دریدگی شروع کردی۔
الجزیرہ کے بیورو چیف وائل ہمدان دحدوح اسرائیلی فوج کا بنیادی ہدف ہیں۔ اکتوبر میں ان کی اہلیہ، 15 سالہ بیٹا، 7 سالہ بیٹی اور شیر خوار نواسے سمیت خاندان کے تیس افراد شہید کرد یے گئے ۔ پندرہ دسمبر کو ایک اور حملے میں وائل زخمی اور ان کے فوٹوگرافر سامر ابودقہ جاں بحق ہوگئے۔ اتوار 7 جنوری کی صبح جناب وائل کو پھر نشانہ بنایا گیا اور اس بار ان کے جوان سال صحافی صاحبزادے حمزہ شہید ہوگئے۔
اللہ نے وائل کو آہنی اعصاب سے نوازا ہے اور موصوف بہت کم عمری میں حراست و تشدد بھگت رہے ہیں۔ حمزہ کی شہادت پر انہوں نے کہا ’دحدوح خاندان کی نسل کشی آج مکمل ہوگئی‘۔ انہوں نے پرعزم لہجے میں آقا محمد (ﷺ) کا فرمان دہرایا کہ ’سچائی نجات اور جھوٹ ہلاکت ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ میں ’سچائی دنیا کے سامنے لاکر اپنی شریک حیات اور بچوں کو خراج تحسین پیش کروں گا۔ ان معصوموں نے میرے قلم پر اپنی جانیں قربان کی ہیں، میں اپنا قلم سرنگوں کرکے شہیدوں کو شرمندہ نہیں کروں گا‘۔ امریکہ کے وزیرخارجہ انٹونی بلنکن مگر مچھ کے آنسو چھلکاتے ہوئے بولے کہ ’حمزہ کی المناک موت پر میر ادل خون کے آنسو رو رہا ہے‘۔ آدمی جب بے شرم ہو جائے تو جو چاہے کہتا پھرے۔عرب میڈیا کے مطابق 7 اکتوبر سے اب تک غزہ میں 109 صحافی نشانہ بناکر موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں۔
جہاں عالم تمام کے مسلمانوں اور سلیم الفطرت انسانوں کی ہمدردیاں فلسطینیوں کے ساتھ ہیں وہیں دنیا بھر کے مستکبرین اہل غزہ کو نیست ونابود کرنے کے لیے نہ صرف پرعزم ہیں بلکہ دامے، درمے، قدمے، سخنے اس مشن کی مکمل پشتیبانی کررہے ہیں۔ امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا سے آنے والے درجنوں سپاہی غزہ میں جان کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ایک آسٹریلیائی نژاد فوجی افسر اہل غزہ کے ہاتھوں ماراگیا جبکہ مقامی ذرائع بتا رہے ہیں کہ امریکی کے مایہ ناز چھاپہ مار دستے ڈیلٹا فورس کے ایک سینئر کمانڈر کو غزہ کے نشانہ بازوں نے شکار کرلیا۔ یہ یہاں مارا جانے والا دوسرا امریکی افسر ہے۔
جیسا کہ ہم اس پہلے عرض کرچکے ہیں، قوت قاہرہ کے بہیمانہ استعمال اور غزہ کو ریت کا ڈھیر بنادینے کے باوجود اسرائیل عسکری ہدف حاصل کرنے میں اب تک ناکام ہے۔ قیدیوں کو رہا کرنے کی ناکام کوششیں جاری ہیں لیکن ہر مہم تل ابیب کے لیے مزید شرمندی کا سبب بنتی جا رہی ہے۔ سال کے آغاز پر شمالی غزہ میں ایسا ہی ایک چھاپہ اسرائیلی قیدی کی ہلاکت کا سبب بنا جبکہ اس کے دو سپاہی اپنی ٹانگیں گنوابیٹھے۔
اس جنگ میں غزہ ساختہ ہتھیاروں نے خوب نام کمایا ہے۔ ان کے ٹینک شکن یاسین راکٹوں نے اسرائیلی ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کا بھرکس نکال دیا ہے۔ دوسری جانب ان کے ماہر نشانہ باز الغول رائفل سے غنیم کا بہت موثر انداز میں شکار کررہے ہیں۔اس ضمن میں امریکہ کے انسٹیٹیوٹ برائے مشاہدہ جنگ (ISW)نے انکشاف کیا ہے کہ جنوبی غزہ میں جنگ کے دوران مستضعفین، Thermobaric Rockets راکٹ استعمال کر رہے ہیں۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ راکٹ فضا کی آکسیجن سے توانائی حاصل کرکے خوفناک دھماکے کو جنم دیتے ہیں۔ یہ جدید اسلحہ اس سے پہلے اسرائیل کے خلاف استعمال نہیں ہوا۔خبروں کے مطابق اہل غزہ اسرائیلی گن شپ ہیلی کاپٹروں کے خلاف طیارہ شکن میزائیل استعمال کررہے ہیں۔ اب تک ان کے میزائیل کسی ہیلی کاپٹر کو نشانہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوئے لیکن اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مستضعفین جدید اسلحہ بنانے کی صلاحیت حاصل کرچکے ہیں۔
بدترین سینسر کے باوجود چھن چھن کر ہی سہی لیکن ناکامیوں کی خبریں اسرائیلی عوام تک پہنچ رہی ہیں۔ خبروں پر پابندی تو ہے لیکن ایک آدھ خبر اور بصری تراشہ ہی سنسنی پھیلانے کے لیے کافی ہے ۔ دامادِ اول لیفٹینٹ کرنل پیری آئرن کی وزیر اعظم کے ساتھ تصویر اسرائیلی میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے۔ کرنل آئرن صاحب کا ایک پیر اب آئرن کا ہے۔
ایک نامعلوم سپاہی کا فوجی ہسپتال کے دروازے پر صحافیوں سے یہ مکالمہ بھی زباں زدعام ہے
صحافی: کیا ہوا؟ یہاں کیسے؟ آپ تو ٹھیک ٹھاک ہیں
سپاہی: ہم ایک معرکے سے واپس آرہے ہیں، میں دیکھ رہا ہوں کہ میرا کوئی ساتھی زخمی ہوکر یہاں تو نہیں آیا؟
صحافی: کیا آپ کے ساتھی زخمی بھی ہوئے؟
سپاہی: معلوم نہیں، ہم مشن پر 16 جوان گئے تھے ، واپس صرف 7 آئے ہیں۔ پتہ نہیں باقی زخمی ہوئے، قیدی بنے یا ہلاک ہوگئے۔
ایسے بصری تراشے اور معذور جوانوں کو دیکھ کر اسرائیل کے عام لوگ مایوس ہورہے ہیں۔ امریکہ اور مغرب کی غیر مشروط حمایت اور حوصلہ افزائی کے باوجود جنگ کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ ہفتہ 30 دسمبر کو تل ابیب میں زبردست مظاہرہ ہوا جس کا اہتمام فوجیوں کے گھر والوں نے کیا تھا۔ جلوس کے اختتام پر تقریر کرتے ہوئے نوجوان خاتون رہنما روتم تعلیم (Rotem Telem)نے کہا ’ہم انا کی جنگ ہار رہے ہیں۔ غزہ آپریشن بند کرو، ہمارے اور غزہ کے بچے مارے جا رہےہیں۔ بی بی (نتن یاہو) تو سات اکتوبر کو ہی شکست کھا گیا تھا، اب وہ اپنے شکست کا انتقام بے گناہ اہل غزہ اور اسرائیلی سپاہیوں سے لے رہاہے۔ نہتے بچوں پر بمباری جنگی حکمت عملی نہیں مجرمانہ قتل عام ہے‘ اس موقع پر لوگوں نے بی بی استعفیٰ دو اور شکست خوردہ وزیر اعظم نامنظور کے نعرے لگائے۔
اسرائیلی معاشرے کے لیے غزہ حملہ اعتبار سے بے حد سخت ثابت ہوا ہے کہ جانی نقصان تو شاید اتنا زیادہ نہیں لیکن اپاہج ہونے والے فوجیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ حملے کے ابتدائی دس دنوں میں 2000 سے زیادہ سپاہی معذور ہوئے۔اکثر زخمی اپنے پیروں اور آنکھوں سے محروم ہوگئے۔ زخمی اس تیزی سے ہسپتال پہنچ رہے ہیں کہ جدید ترین سہولیات کے باجود ان کا سنبھالنا طبی عملے کے لیے مشکل نظر آرہا ہے۔ حال ہی میں اسرائیلی میڈیا پر ایک تصویر شایع ہوئی جس میں عسکری ہسپتال کا منظر دکھایا گیا ہے جہاں ایک ٹانگ کٹوا کر فارغ ہونے والا جوان اس حالت میں ہسپتال چھوڑ رہا ہے کہ ابھی urine bag کی ضروت بھی ختم نہیں ہوئی۔ جس سے اندازہ ہوتا کہ ہسپتال میں جگہ کم پڑتی جارہی ہے۔ اسرائیلی سپاہیوں میں پھوٹ پڑنے والے جلدی امراض سے بھی فوج کا طبی عملہ شدید دباو میں ہے۔موذی مرض لشمانیہ طفیلیہ(Leishmania parasitic disease )غزہ میں تعینات اسرائیلی فوجیوں میں تیزی سے پھیل رہاہے اور جنگ کے آغاز سے اب تک 35 ہزارسپاہیوں میں اس مرض کے آثار پائے گئے
اسی کے ساتھ غزہ سے اسرائیلی فوج کی جزوی واپسی بھی شروع ہوچکی۔ گزشتہ ہفتے غزہ شہر کے جنوب میں الزیتون محلے سے فوجی گاڑیاں ایک قافلے کی صورت میں واپس ہوتی دیکھی گئیں۔شمالی علاقے سے بھی اسرائیلی فوج پیچھے ہٹ رہی ہے۔ گولانی بریگیڈ کی واپسی کی اطلاع ہم اس سے پہلے ایک نشست میں دے چکے ہیں۔
دسمبر کے اختتام پر اسرائیلی فوج نے اپنے پانچ بریگیڈ غزہ سے واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ فوجی اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ بکتر بند بریگیڈ 460، بریگیڈ 261، پیادہ بریگیڈ 828، ریزرو (Reserve) بریگیڈ 14 اور چھاپہ مار ریرزو بریگیڈ 551 کو غزہ سے واپسی کا حکم دیدیا گیا ہے۔ دوسری طرف فوج کے سربراہ نے یہ بھی کہاکہ غزہ آپریشن دسمبر 2024 تک جاری رہے گا۔
کیا زمینی فوج کی واپسی اہل غزہ کے لیے کسی راحت کا سبب بن سکتی ہے؟بلاشبہ یہ مستضعفین کے صبر اور ثابت قدمی کی فتح ہے کہ زخم چاٹتا غنیم پسپائی اختیار کررہا ہے لیکن اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ اپنا نقصان کم کرنے کے لیے بری دستوں کو واپس بلایا جارہا ہے اور اب قتل عام کے لیے فضائی طاقت استعمال کی جائے گی۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ شمال سے لبنانی حزب اللہ اسرائیلی فوج کو بھاری نقصان پہنچارہی ہے اور اسرائیل، لبنان پر ایک بھرپور حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ گزشتہ دنوں اسرائیلی وزیر دفاع نے دھمکی دی تھی کہ ہم بیروت کو غزہ بناسکتے ہیں۔ تاہم معاملہ اتنا آسان نہیں۔ جنوبی لبنان میں حزب اللہ بے حد مضبوط ہے اور ایران نے وہاں طیارہ شکن میزائیل سمیت جدید ترین ہتھیار پہنچادیے ہیں۔ کھلی جنگ کی صورت میں ایرانی اپنے ترکش کا ہرتیر استعمال کرلیں گے۔ لبنان کا مذہبی جغرافیہ بھی مختلف ہے۔ فلسطینیوں کی غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے کہ جن کی جان دنیا کے لیے اہم نہیں لیکن لبنان نصف کے قریب مسیحیوں پر مشتمل ہے جن کا قتل عام مغرب ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرے گا۔گزشتہ دنوں امریکی وزیردفاع جنرل (ر) لائیڈ آسٹن یہی سمجھانے اسرائیل آے تھے کہ لبنان پر حملہ اسرائیل اور مغرب کے مفاد میں نہیں ہے۔ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے انہوں نے امریکی طیارہ بردار جہاز یو ایس ایس جیرالڈ فورڈ (USS GERALD FORD)کو بحیرہ احمر سے واپسی کا حکم دیدیا۔
ظلم و جبر کے سلسلے کیسے ختم ہوں کہ امریکہ سے ہر روز تین مال بردار طیارے قتل عام کا سامان لے کر روزانہ تل ابیب اتر رہے ہیں۔ دسمبر کے آخر میں صدر بائیڈن نے 10 کروڑ 50 لاکھ ڈالر مالیت کے توپ کے گولے ہنگامی بنیادوں پر اسرائیل بھیجنے کی منظوری دیدی۔ ہنگامی صورتحال میں کسی کلیدی اتحادی کو اسلحے کی فراہمی سے پہلے کانگریس کی توثیق ضروری نہیں۔ ایک ہفتہ پہلے دس کروڑ 60 لاکھ ڈالر مالیت کے 14000آتشیں گولے اسرائیل کو فراہم کیے جاچکے ہیں۔ ان کے استعمال کا یہ عالم کہ اندھا دھند و مسلسل بمباری کےساتھ اسرائیل نہتے اہل غزہ پر توپ کے 200 گولے یومیہ برسا رہا ہے
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
جواب دیں