چند دن قبل امریکی خلائی تحقیق کے ادارے ناسا (NASA) نے خلائی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز کیا جب اس نے مریخ کی سطح پر ایک چھوٹے ہیلی کاپٹر کو کامیابی سے پرواز کرایا ۔ یہ بجلی کی مدد سے ہونے والی پہلی اڑان تھی جسے 225 ملین کلومیٹر دور کسی دوسرے سیارے سے کنٹرول کیا جارہا […]
مسلمانوں کے تخلیقی اذہان کی مغرب منتقلی (برین ڈرین)
چند دن قبل امریکی خلائی تحقیق کے ادارے ناسا (NASA) نے خلائی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز کیا جب اس نے مریخ کی سطح پر ایک چھوٹے ہیلی کاپٹر کو کامیابی سے پرواز کرایا ۔ یہ بجلی کی مدد سے ہونے والی پہلی اڑان تھی جسے 225 ملین کلومیٹر دور کسی دوسرے سیارے سے کنٹرول کیا جارہا تھا۔ انجینئر لوئے الباسیونی (Loay Elbasyouni) نے اس عظیم سائنسی پیشرفت میں نمایاں ترین کردار ادا کیا جو فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں پل بڑھ کر جوان ہوئے جس پر اسرائیل اس وقت بھی کھل کر بمباری کر رہا ہے۔ اور پھر وہ یونیورسٹی کی تعلیم کے حصول کے لیے امریکہ گئے۔ انہوں نے ایروسپیس کمپنی، انجنیوٹی (Ingenuity) میں ملازمت اختیار کی جس نے انہیں ناسا کےایک تجرباتی منصوبے کے ساتھ کام کرنے کی پیشکش کی جس کے تحت مریخ پر پرواز کرنے کے لیے ایک طیارہ بنانا تھا۔ یہ ہیلی کاپٹر لوئے اور اس کے ساتھیوں کے خیالات ، تصوراتی دستاویزات اور تعمیراتی کوششوں سے تیار ہوا۔ لوئے نے انجنیوٹی کے الیکٹریکل اور پاور الیکٹرانکس لیڈ کے طور پر کام کیا ، جس میں پروپلشن سسٹم کی ذمہ داری بھی شامل ہے۔ اس میں موٹر کنٹرولر ، انورٹر ، سروو کنٹرولر ، موٹر، اور سگنلنگ سسٹم کی ڈیزائننگ شامل تھی۔ دنیا نے ہیلی کاپٹر کی خبر میں بہت دلچسپی لی جسے ناسا نے مریخ پر بڑے جوش و خروش سے لانچ کیا تھا۔ ناسا نے اسے مریخ کے منصوبے میں ایک بڑی کامیابی قرار دیا۔ اس حوالے سے یہ بات جلد ہی واضح ہوگئی کہ ہیلی کاپٹر کے پیچھے تخلیقی ذہن اسلامی امت کے بیٹوں میں سے ایک بیٹے کا ہے۔
اسی تناظر میں ،مشہور غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ (GIKI)آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والے پاکستانی طلباء کی ایک ٹیم نے ایروناٹکس اینڈ ایسٹورنوٹکس (Aeronautics & Astronautics)میں میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) اور اسٹین فورڈیونیورسٹی کو شکست دی۔ ان طلباء نے دونوں تعلیمی اداروں کے طلباء کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے نے بھی طیاروں اور فلائٹ ڈیزائن اور تعمیر کے مقابلے میں ایم آئی ٹی (MIT) اور اسٹین فورڈ کے خلاف عمدہ کارکردگی پر ان طلباء کی تعریف کی۔
تخلیقی ذہنوں کی مسلم دنیا سے مغربی دنیا کی جانب منتقلی کا مسٔلہ جسے اصطلاح میں برین ڈرین (brain drain) بھی کہا جاتا ہے، امت کو اس وقت سے اپنی پوری شدت کے ساتھ در پیش چلا آ رہا ہے جب سے امت کی آخری نظریاتی ریاست، خلافت عثمانیہ کی صورت میں، اختتام پذیر ہوئی۔ بصیرت رکھنے والے کسی شخص کے لئے بھی یہ بات راز نہیں کہ تخلیقی اذہان کی یہ منتقلی مسلمانوں کے علاقوں میں سیاسی ابتری اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی معاشی بدحالی کی وجہ سے ہے۔ چنانچہ قابل ترین مسلمان سائنس اور علم کے مختلف شعبوں میں اپنے تخلیقی ذہنوں کو بروئے کار لانے کے مواقع کی تلاش میں مغرب کی جانب منتقل ہو جاتے ہیں ۔ جبکہ مسلم علاقوں میں موجود حکومتوں کا واحد مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ یا تو امت کی دولت سے اپنی جیبیں اور بینک کھاتوں کو بھرتی ہیں یا پھر اپنے مغربی آقاؤں کے آگے امت کے بیش بہا وسائل ، معدنیات اور دولت کو پیش کردیتی ہیں جسے مغربی ملٹی نیشنل کمپنیاں سستے داموں لوٹ کر لے جاتی ہیں۔ پھرمغرب کی جانب سے مسلمانوں کو انہی کے لٹے ہوئے وسائل پر مبنی اشیاء کئی گناہ مہنگے داموں پر واپس فروخت کی جاتی ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ جب ہم مسلم دنیا سے مغربی دنیا میں منتقل ہونے والے اسلامی اذہان کے اعداد و شمار کو دیکھتے ہیں تو حیرت سے دنگ رہ جاتے ہیں۔ مثال کے طو رپر ترقی پذیر ممالک سے مغربی ممالک کی جانب دماغ کی منتقلی کا ایک تہائی حصہ صرف عرب ممالک کی جانب سے ہے۔ عرب ممالک کے 50 فیصد ڈاکٹر، 23 فیصد انجینئر اور 15 فیصد سائنسدان یورپ، امریکہ اور کینیڈا کی جانب منتقل ہو جاتے ہیں۔ برطانیہ میں اس وقت جتنے بھی ڈاکٹرز موجود ہیں ان میں سے 34 فیصد کا تعلق صرف عرب ممالک سے ہے۔ عرب ممالک سے بیرون ملک منتقل ہونے والے لوگوں میں سے 75 فیصد امریکہ ، کینیڈا اور برطانیہ میں جاتے ہیں۔ اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے عراق پر کڑی پابندیاں (sanctions) عائد کیے جانے کے نتیجہ میں 1991 سے لے کر 1998کے عرصہ میں 7
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں