مسلمانوں میں اتحاد کی نہیں سیاسی شعور کی کمی ہے

کیوں کانگریس اپنے جنم سے ہی اسی قسم کے لوگوں کا خیر مقدم کرتی رہی ہے۔ کانگریس پارٹی اپنے منشور اور نظرئے سے بھلے ہی ایک سیکولر جماعت ثابت کرنے کی کوشش کی اوروعدہ کرتی رہی ہے لیکن عملی طور پر ہمیشہ اکثریتی طبقہ کے مذہبی نظریات اور ثقافتی برتری کو اہمیت دیتی رہی ہے اور اس کا اندازہ کانگریس پارٹی کے قول اور فعل سے کہا جا سکتا ہے ۔ اس کا اندازہ آپ آزادی سے پہلے کی کانگریس پارٹی میں شامل بہت سے اہم اور نمایاں لیڈروں کی کارکردگی سے کر سکتے ہیں ۔ اور آزادی کے بعد بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر فائز کانگریس اور وزیر کے عہدے پر براجمان مجاہد آزادی جیسے لیڈر بھی اپنی فرقہ پرست ذہنیت سے مسلمانوں کے خلاف ہر وہ کام کرتے رہے جو مسلمانوں کو حکومت اور انتظامیہ سے دور رکھ سکے، اور مسلمان دن بدن مالی، سماجی اور سیاسی طور پر کمزور ہوتا جائے۔ جب کہ ان وزیروں نے ہندستان کے آئین کی قسم کھائی تھی کہ وہ کسی کے سا تھ نا انصافی نہیں کریں گے۔ ان کے نذدیک آئین ہند کسی صحیفے سے کم نہیں تھا ۔ کیوں کہ ان کا دعویٰ تھا کہ انھوں نے اپنی جان کی بازی لگا کر آزادی حاصل کی ہے اور اپنا آئین بنایا ہے۔ لیکن جب مسلمانوں کی بات آئی تو یہی لیڈران بد نیت ہو گئے اور آئین ہند سے ایک مذاق اور کھلواڑ کیا۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ سب ان کے تنگ نظر فکر کے باعث ہوا۔ لیکن یہ تنگ نظری مسلمانوں کو بے انتہا نقصان پہنچانے کے بعد بھی کم نہیں ہوئی بلکہ بڑھتی گئی اور اس کے بعد ان کی زبان تہذیب اور بابری مسجد کا معاملہ سامنے لاکر ہر طرح سے مسلمانوں کو نفسیاتی طور پر توڑنے کی کوشش کی گئی اور یہ سب کام کانگریس پارٹی کے دور حکومت میں سب سے زیادہ شاندار اور کامیاب طریقے سے انجام دیا گیا۔ 
مسلمانوں کی تباہی کے ہر افسانے کا آغاز کانگریسیوں کی سازش سے شروع ہوتا ہے اور ہر داستان اپنے انجام تک کانگریس پارٹی کے لیڈروں کی سازش کے ساتھ اختتام پزیر ہوتی ہے۔ لیکن ہندستان کی سیاست اور مسلم لیڈروں کی نااہلی کے باعث مسلم عوام ہر بار دھوکہ کھانے کے بعد کانگریس کے ساتھ پھر جڑ جاتی ہے اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ سیکولرازم کی حفاظت کے لئے کانگریس کا ساتھ دینا ضروری ہے۔ اس طرح کانگریس مسلمانوں کا ساتھ پانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ اور کانگریس کے اندر مسلم مخالف طاقتیں مسلمانوں کے خلاف ہر کام کامیابی سے انجام دیتی ہیں۔ کانگریس حکومت میں سب سے زیادہ فائدہ فرقہ پرست نظریہ کے لوگ اٹھاتے ہیں اور کانگریس سرکار میں فرقہ پرستوں کو کبھی قانون کا ڈر نہیں رہتاہے۔ 
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کانگریس حکومت میں فرقہ پرست طاقتیں جب چاہتی ہیں قانون کے ساتھ کھلواڑ کر سکتی ہیں اور سرکار ان کے خلاف کوئی نہیں کرتی، عدالتوں میں ان کے خلاف جو کیس بنایا جاتا ہے وہ اتنا کمزور ہوتا ہے کہ وہ باعزت بری ہو جاتے ہیں ۔ ایسے حالات میں مسلسل وہی غلطی کرنا کہاں تک سمجھداری کی بات ہے۔ ہر دھوکہ کے بعد یہ امید لگانا کہ اب دھوکہ نہیں ہوگا، سمجھداری ہے یا بے وقوفی۔ آخر آزمائے ہوئے کو آزمانے بے وقوفی ہوتی ہے۔ 
سیاست میں سب سے اہم طاقت ووٹ کی طاقت ہوتی ہے اور آج کی تاریخ میں مسلم سماج کے پاس ووٹ کی اتنی طاقت ہے کہ اگر اس کا مینیجمنٹ صحیح طریقے سے کیا جائے تو ہم اپنے ساتھ ہونے والی ساری نا انصافیوں سے چھٹکارا پا سکتے ہیں، اور آئین ہند میں دئیے گئے اپنے حقوق کو بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ بس اس کیلئے ووٹ دینے کے شعور کو سیکھ لیں۔ میرے خیال سے مسلمانوں کو اپنے آئینی حقوق کو حاصل کرنے کے لئے سب سے زیادہ ضرورت سیاسی شعور کی ہے۔ کیوں کہ اگر ہم آزادی کے بعد ہندستان میں رہنے والی دیگر قوموں کو دیکھیں جن کے یہاں آزادی کے وقت مسلمانوں سے کم تعلیمی لیاقت تھی وہ قومیں بھی چند دہائیوں میں مسلمانوں سے ترقی میں بہت آگے نکل گئیں اور آج ان میں اور مسلمانوں میں تعلیم کے میدان میں وہ فاصلہ نہیں ہے جو فاصلہ ترقی کے میدان میں ان قوموں نے حاصل کیا ہے۔ اس کی وجہ ہے کہ وہ قومیں اپنے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے ووٹ کرتی ہیں اور سیاسی طور پر بالغ نظری کا ثبوت دیتی ہیں ۔ جب کہ مسلمان مختلف قسم کے جذباتی ایجنڈوں میں بہک جاتا ہے اور شخصیت پرستی اور ذات پات میں بھی بٹ جاتا ہے۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد کی کمی ہے اسی لئے اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے بعد بھی مسلم سماج اپنی سیاسی طاقت نہیں بنا سکا۔ لیکن میرے خیال سے الیکشن میں مسلم سماج جتنا اتحاد سے کام لیتا ہے اور متحد ہوکر ووٹ کرتا ہے اتنا اتحاد صرف دلت سماج میں یوپی کے اندر دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن مسلمانوں کا یہ اتحاد کبھی ملائم سنگھ یادو کے لئے ہوتا ہے تو کبھی لالو یادو یا کانگریس کے لئے ہوتاہے۔ مسلم سماج آج تک اپنے اندر یہ اعتماد پیدا نہیں کر سکا کہ وہ اپنے لئے بھی متحدہوکر ووٹ دے سکتا ہے۔ وہ اکثر یہ دیکھ کر ووٹ دیتا ہے کہ کہیں کوئی فرقہ پرست پارٹی نہ جیت جائے اس لئے وہ بنا کسی مقصد کے اس کو ہرانے والے امیدوار کو ووٹ دے دیتا ہے، لیکن ان سب حرکتوں سے عملی طور پر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور وہ آخرکار خسارے میں ہی ہوتا ہے۔ اب مسلم سماج کو اپنے نظرئیے کو ترقی رخی بنانا ہوگا۔ اور اپنے ووٹ کے پیٹرن کو بدلنا ہوگا۔ اور انھیں سیاسی جماعتوں کو ووٹ دینا ہوگا جو اس کے سماجی ، معاشی اور تعلیمی مسائل ہو حل کرنے کا وعدہ کرے اور آئین ہند میں دئیے گئے تمام حقوق کو دلوانے کا وعدہ کرے ۔ 
سرکاری بجٹ میں آبادی کے حساب سے ان کوحصہ ملے۔ پلاننگ کمیشن سے ان کی ترقی کے لئے پروگرام اور سفارشات کروائے ۔ سرکاری نوکریوں میں ان کو حصہ دلوائے اور سرکار چلانے میں ان کو بھرپور نمائندگی مہیا کروائی جائے۔ظاہر سی بات ہے کہ یہ سب کام کانگریس پارٹی کرنے میں اہل نہیں ہو سکتی ۔ کیوں کہ اگر ایسا کوئی کام کانگریس پارٹی کی سرکار کرے گی تو اس میں بد نیتی شامل ہوگی ۔ جس سے مسلمانوں کا فائدہ نہیں ہو سکتا۔ اس لئے کانگریس کا متبادل مرکز میں ڈھونڈھنے کی اشد ضرورت ہے۔

«
»

16مئی کا سورج کو ن سا پیغام لے کر آئے گا؟

کشمیر پھرتلوار کی دھار پر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے