مسلمانوں کو شیڈولڈ کاشٹ کی سہولتیں ۔

حالانکہ سورۂ ہجرات میں تحقیق کے تعلق سے حکم ہے لیکن ہم میں شخصیت پرستی کا بھوت اتنی گہرائی تک پہنچ چکا ہیکہ ہمارے مذہبی یا سیاسی رہنما نے جو کچھ کہا اسکے تعلق سے اگر ہمیں پتہ بھی چل جائے کہ وہ غلط ہے تو بھی ہم میں جرأت نہیں ہیکہ اس کو غلط کہہ سکے ۔ شیڈولڈ کاشٹ کی سہولتوں سے مسلمانوں کی محرومیت کے تعلق سے ، جب جب گلی سے دلی تک مسئلہ اٹھا تو بڑے سے بڑے پلیٹ فارم سے ہندوستان کے اعلیٰ سے اعلیٰ ترین جیّد سیاسی یا مذہبی مفکر نے اکثر و بیشتر عوامی جلسوں یا میڈیا میں یہی کہا ہیکہ مسلمانوں کو شیڈولڈ کاشٹ ریزرویشن سے متعلق آئین ہند کی دفعہ 341 میں ترمیم کر کے مذہب کی قید کو ختم کیا جائے تاکہ منسلک ذات سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو بھی شیڈولڈ کاشٹ کی سہولیات مل سکے گی۔ اسطرح عام مسلمانوں کے ذہن میں یہ بیٹھ چکا ہیکہ آئین ہند کی دفعہ 341 میں شیڈولڈ کاشٹ کی سہولتوں کیلئے مذہب کا بندھن لگا دیا گیا ہے لیکن جب کوئی آئین ہند کی دفعہ 341 کا مطالعہ کرتا ہے تو اس میں مذہب کے بندھن والی بات کہیں نظر نہیں آتی لہٰذا وہ مغالتے میں پڑجاتا ہے۔ ساتھ ہی اسطرح کے بیانات میڈیا کے ذریعے جب ملک میں جاتے ہیں تو بالخصوص RSS کے طبقہ میں اطمینان ہو جاتا ہیکہ ابھی تک مسلمان قانون سے نا بلد ہے ۔ کیونکہ RSS کو اچھی طرح یہ علم ہو چکا ہیکہ مسلمان لکیر کے فقیر ہوتے ہیں جو ان کے بڑے نے کہہ دیا وہی انکے لئے آخری حرف ہوتا ہے اور جب اس قوم کے بڑے ہی قانون سے نا بلد ہیں تو یہ قوم قانونی طور سے اندھی اور بہری ہی رہنے والی۔ القصہ مختصر یہ کہ اکثر و بیشتر اپنے سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کی غلط بیانیوں کی وجہ سے مسلمانوں کا عام ذہن بن چکا ہیکہ شیڈولڈ کاشٹ میں مسلمانوں کی شمولیت کیلئے آئین کی دفعہ 341 میں مذہب کے بندھن کا ذکر ہے۔ حاظر خدمت آرٹیکل کے ذریعے دفعہ 341 اور اس دفعہ کے تحت The Constitution (Scheduled Caste) Order 1950 (جسے عام زبان میں Presidential Order 1950 کہا جاتا ہے ) ۔ نوٹیفکیشن کی تفصیل دی جا رہی ہے۔ 
لہٰذا ، سب سے پہلے ہم آئین ہند کی دفعہ 341 کو سمجھ لیں تا کہ ہم کبھی بھی اس دفعہ میں ترمیم کی بات یا ترمیم کی مہم چلانے کی بات نہ کرے ۔ دفعہ 341(1) میں درج ہیکہ صدر ہند ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے شیڈولڈ کاشٹ میں جن ذاتوں کا شمار ہونا ہے انکی فہرست جاری کریگا اور ساتھ ہی 341(2)شیڈولڈ کاشٹ کی فہرست جو صدر نے نوٹیفائے کیا ہے اس میں ترمیم کا اختیار پارلیمینٹ کو دیا گیا ہے ۔ لہٰذا ثابت یہ ہوتا ہیکہ دفعہ 341 میں کہیں بھی شیڈولڈ کاشٹ میں کسی ذات کو شامل نہ کرنے کا مذہبی بندھن مطلق نہیں ہے ۔ حقیقت یہ ہیکہ دفعہ 341میں صدر ہند کو پبلک نوٹیفکیشن نکالنے کا جو اختیار دیا گیا تھا اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے 1950میں صدر ہند نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں ملک کی کون کونسی ریاست وغیرہ میں کون کونسی ذات شیڈولڈ کاشٹ میں شامل کی گئی ہے اور ساتھ ہی فہرست کے پہلے ۴ نکات پر مشتمل ایک حکمنامہ شائع کیا جسے The Constitution (Scheduled Caste) Order 1950 اس نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ شیڈولڈ کاشٹ میں مذہب کے بندھن والی بات جو 100% غیر آئینی ہے ، اسی نوٹیفکیشن کے چوتھے مد میں درج ہے ۔ جہاں پر 1950 میں یہ کہا گیا تھا کہ ہندو مذہب کے علاوہ دوسرے کسی مذہب کے ممبر کو شیڈولڈ کاشٹ میں شامل نہیں کیا جائیگا بعد میں اس نوٹیفکیشن میں 1956 میں اسی مد میں ترمیم کر کے ہندو مذہب کے ساتھ سکھ مذہب کیلئے بھی اس سہولت کا نوٹیفکیشن نکالا گیا اور پھر 1990 میں نو بدھ کا شمار کیا گیا۔ اسطرح یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہیکہ اگر ہم کو متذکرہ نوٹیفکیشن میں ترمیم کروانا ہے تو پارلیمینٹ کے ذریعے ہی یہاں ترمیم ہو سکتی ہے ۔ کورٹ کو بھی اختیار نہیں ہیکہ وہ یہ حکم دے کہ ہندو ، سکھ اور نو بدھ کے علاوہ کسی اور مذہب کے افراد کو بھی شیڈولڈ کاشٹ میں شامل کرے ۔ اب مسئلہ یہ آتا ہیکہ جب سیکولر حکومت نے اپنے طویل عرصہ کے دور حکومت میں دفعہ 341(2) کا استعمال نہیں کیا تو مسلم دشمن RSS نواز BJP کیوں کر اس دفعہ کا استعمال کر سکتی ہے۔ اس تعلق سے حال ہی میں ہمارے سامنے ثبوت ہمیں BJP کی مہاراشٹر حکومت نے دیا ہے۔ ہائی کورٹ نے تعلیم کے تعلق سے مسلم ریزرویشن کے آرڈیننس کو قائم رکھا تھا ۔ لیکن متذکرہ آرڈیننس کو جب ایکٹ میں تبدیل کرنے کی مسئلہ آیا تو اس متعصب حکومت نے مسلم ریزرویشن آرڈیننس کو ہائی کورٹ کی رضا مندی ہوتے ہوئے بھی نامنظور کر دیا اور مراٹھا آرکشن ، جسے ہائی کورٹ نے غیر قانونی بتلایا تھا اس آرڈیننس کو کچھ ترمیم کے ساتھ نافذ بھی کر دیا۔ ایسی مسلمانوں کی کھلی دشمن حکومت کے سامنے یہ مطالبہ کرنا کہ 1950 کے Presidential Order کے چوتھے مد کو حذف کیا جائے یا اس میں ترمیم کی جائے تاکہ شیڈولڈ کاشٹ کی فہرست میں مذہبی بندھن کو نہ لایا جائے۔ اس قسم کے مطالبات اور کچھ نہیں وقت ضائع کرنا ہے ۔ 
اب ہمارے سامنے ایک ہی راستہ کھلا ہوا ہیکہ کورٹ میں 1950 کے Presidential Order کے چوتھے مد کو ہی چیلینج کرے ۔ جیسا کہ آئین ہند کی دفعہ 14، مساوات کا دعدہ کرتی ہے اور دفعہ 15 کے تحت مذہب ، ذات وغیرہ کی بنیاد پر حکومت فرق نہیں کر سکتی ہے ساتھ ہی دفعہ 16 میں بھی نوکری کے تعلق سے یہی بات کہی گئی ہے ۔ پھر Presidential Order میں مذہبی بندھن کی شرط ڈالنا بذات خود بھی غیر آئینی ہے۔ اگر ہم کو مسلم مذہب سے تعلق رکھنے والی شیڈولڈ کاشٹ برادریوں کو شیڈولڈ کاشٹ کی سہولتیں چاہئے تو ہمارے پاس ایک ہی راستہ ہے سپریم کورٹ میں دوسرے کسی بھی مسئلے کو یا کسی بھی بات کو نہ رکھتے ہوئے ایک ہی نقطے پر یعنی 1950 کی Presidential Order کے مد نمبر ۴ کو اس بنیاد پر چیلینج کرے کہ آئین ہند کے مطابق مذہب کی بنیاد پر نہ کوئی سہولت دی جاسکتی ہے اور نہ کسی سہولت سے کسی کو محروم رکھا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ میں اس تعلق سے کچھ پٹیشن داخل ہے لیکن ہر پٹیشن میں ایک نقطہ یہ بھی رکھا گیا ہیکہ فلاں ذات کو شیڈولڈ کاشٹ کی فہرست میں شامل کیا جائے حالانکہ یہ اختیار عدالت کو مطلق نہیں ہے اسی لئے یہ تمام پٹیشن سپریم کورٹ میں معلق ہے۔ 
انشاء اﷲ آئندہ آرٹیکل میں مسلمانوں کی پسماندہ ذاتوں کو آئین ہند کی دفعہ 38(2) اور دفعہ 46 کے تحت کس طرح نوکری اور تعلیمی معاملات میں ریزرویشن دیا جا سکتا ہے یا کم سے کم شیڈولڈ کاشٹ کے طلبہ کو جس بڑے پیمانے پر اور جتنی مانگ ہو اتنے بچوں کو اسکالرشپ دی جا رہی ہے وہ تمام اسکالرشپ مسلمانوں کے پسماندہ طبقے کو بھی قانونی طور سے دی جا سکتی ہے اور ساتھ ہی حکومت کی طرف سے تقرر شدہ کمیشن ، سپریم کورٹ کے چند فیصلہ جات ، گیارھویں اور بارھویں پنچ سالہ منصوبے ، یو جی سی اپروچ پیپر، نیشنل پالیسی آن ایجوکیشن 1986 ، رنگناتھ مشرا کمیشن، سچر کمیٹی ، NUEPA کی تحقیقات ، اسٹیرنگ کمیٹی کی رپورٹ وغیرہ میں درج مسلمانوں اور اقلیت کیلئے درج سہولتوں کا تفصیلً جائزہ لیا جائیگا۔

«
»

خبر ہونے تک….

اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے