مسلمانوں کو خوش کرنے کے بجائے … انصاف چاہیے

دینی تعلیم حاصل کرنے والے یہی حفاظ و علماء کرام ملک بھر میں موجود کروڑوں مسلم لڑکے اور لڑکیوں کو قرآن و احادیث نبوی ﷺ اور اخلاق و کردار کی تعلیم سے مزین کرنے میں ہمہ تن مصروف عمل ہیں۔ یعنی عصری علوم حاصل کرنے والے مسلم طلبا و طالبات بھی ان ہی علماء و حفاظ سے دینی علم حاصل کرتے ہیں ۔ اور جو مسلم طلباو طالبات مذہب اسلام کی صحیح طریقہ سے تعلیم حاصل کرتے ہیں ان میں عجز و انکساری، ادب و اخلاق کے ساتھ ساتھ اپنی ، ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کچھ نہ کچھ خدمات انجام دینے کی جستجو ہوتی ہے۔ اس طرح یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہندوستان جیسے اس عظیم الشان میں حفاظ و علماء دین کا ملک کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی میں اہم رول رہا ہے۔ آزادی ہند میں جہاں بہادر شاہ ظفر، ٹیپو سلطان، مولانا ابو الکلام آزاد، علی برادران، سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان جیسی شخصیات کا ذکر ملتا ہے وہیں مولانا فضل حق خیرآبادی، حاجی امداد اللہ ، شیخ الہند مولانا محمود الحسن، مفتی کفایت اللہ، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا احمد علی، مولانا محمد جعفر تھانیسری، مولانا سعید احمد دہلوی، مولانا عطا اللہ شاہ بخاری، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی وغیرہ کی انتھک کاوشوں کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔آج مسلم نوجوان نسل کو ملک کی آزادی میں حصہ لینے والے ان مسلم رہنماؤں کی قربانیوں سے روشناس کرانے کی ضرورت ہے۔ ورنہ جس طرح آزادی کے بعد سے جنگ آزادی میں حصہ لے کر اپنی جانوں کی قربانی دینے والے مسلمانوں کو فراموش کیا جارہا ہے اور ہماری نئی نسل یہی سمجھ رہی ہے کہ جنگ آزادی میں مسلمانوں نے حصہ نہیں لیا ہے جبکہ تاریخ کچھ اور ہے۔
ایسے تو ہندوستان میں ہندوتوا طاقتیں دینی مدارس کے خلاف من چاہے الزامات عائد کرتے رہے ہیں ۔ فرقہ وارانہ تشدد ہو یا بم دھماکے، ہندو مذاہب کی لڑکیوں کا عاشقی کے ذریعہ مسلم نوجوانوں کے ساتھ لومیریج کا مسئلہ، ان سب میں ہندوتوا تنظیموں کو دینی مدارس سے منسلک علماء و حفاظ دکھائی دیتے ہیں۔ ہندوستان کے عظیم اور باوقار دینی مدارس کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ فرقہ وارانہ اور تعصب پرست ذہن رکھنے والوں کی کس طرح تربیت کی جاتی ہے اور ان مدارس میں پڑھنے والے طلبہ کی تعلیم و تربیت کس طرح کی جاتی ہے۔ انہیں ملک کے دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے ابنائے وطن کے ساتھ کس طرح پیش آنا چاہیے یہ اسلامی تعلیمات کے ذریعہ ہی سکھایا جاتا ہے۔ بے شک اسلام میں جہاد کی بڑی اہمیت ہے لیکن جہاد اُس وقت ناگزیر ہوجاتا ہے جب مسلمانوں پر ظلم و بربریت کی انتہاء کی جاتی ہے۔ اپنے دفاع اور سلامتی کے لئے نہیں بلکہ اسلام کی وحدانیت اورحقانیت پر آنچ آنے لگے تو مسلمانوں کیلئے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ دشمنانِ اسلام کے سامنے حق و صداقت کیلئے کھڑے ہوجائیں۔ ہندوستانی مسلمان جو دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ ملک میں خوشگوار فضاء بنائے رکھنے کے لئے دیگر ابنائے وطن کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج ہندوستانی مرکزی حکومت کو یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا کہ ہندوستانی مدارس میں جہاں پر اساتذہ ہندوستانی ہیں ایسے مدارس پرجہادی یا علحدگی پسندسرگرمیوں کے سلسلہ میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ جبکہ بعض پڑوسی ممالک سے ملی ہوئی بین الاقوامی سرحدوں سے متصل ہندوستانی ریاستوں مثلاً اترپردیش، مغربی بنگال ، آسام اور بہار میں بنگلہ دیشی و پاکستانی نژاد علماء شک کے دائرے میں آرہے ہیں اور حکومت ہند کی جانب سے ان ریاستوں کے مدارس میں بیرونی اساتذہ کا پتہ چلانے سروے کیا جارہا ہے تاکہ ملک کی ان ریاستوں کے علاوہ دیگر ریاستوں میں بھی بیرونی اساتذہ کا پتہ چلایا جائے تاکہ جہادی و علحدگی پسند سرگرمیوں کا سدّباب ہوسکے۔ اور ملک میں مسلمانوں کی جانب سے کسی قسم کی دہشت گردی سرابھارنے نہ پائے۔ لیکن کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستانی نژاد یا بنگلہ دیشی نژاد کہہ کر ہندوستانی مسلمانوں کو نشانہ بنایا جائے اس سلسلہ میں مرکزی حکومت یا انٹلی جنس ایجنسیوں کو محتاط رویہ اپنانا ہوگا اور بے قصور علماء کو جس طرح ماضی میں ملوث کرکے دہشت گردانہ سرگرمیوں کے تحت گرفتارکیا گیااور ان میں کئی آج بھی مختلف الزامات کے تحت قید ہیں جبکہ بعض کو قتل بھی کیا گیا۔ ماضی میں پیش آنے والے ایسے واقعات سے موجودہ مرکزی و ریاستی حکومتیں بچیں ورنہ ملک میں حالات بگڑسکتے ہیں کیونکہ ہندوتوا فرقہ پرست تنظیموں کے تعصب پرست قائدین آئے دن مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کررہے ہیں۔
ویسے ہندوستانی مسلمان چاہے وہ دینی مدارس سے تعلق رکھتے ہوں یا عصری علوم کے مدارس، کالجس و یونیورسٹیز سے ۔ان مسلمانوں کو اتنا وقت ہی نہیں ملتا کہ وہ ملک میں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں حصہ لیں۔ تعلیم حاصل کرنے والے بچے، نوجوان، مرد و خواتین اپنے اپنے تعلیمی ، دفتری، کاروباری سرگرمیوں میں اتنے مصروف رہتے ہیں کہ انہیں صبح و شام کا پتہ ہی نہیں چلتا جبکہ بیروزگار نوجوان دن میں آرام کرتے ہیں اور رات دیر گئے تک گھروں سے باہر ہنسی مذاق یعنی وقت ضائع کرتے ہیں ان نوجوانوں میں جہادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا ایسا کوئی شعور نہیں کہ جس سے ملک کو خطرہ لاحق ہو۔ اب رہی بات ہندوتوا نظریات کی حامل تنظیمیں تو آپ دیکھئے صبح صبح لاٹھی سنبھالے کئی افراد اپنی سلامتی و دفاع کے نام پر لاٹھی چلاناسیکھتے ہیں انہیں باضابطہ مسلمانوں کے خلاف تربیت دی جاتی ہے۔ آج ہندوستان میں ایسے ہزاروں ہندوتوا نظریات کے حامل اسکولس جو شیشو مندر ودیالیہ کے نام سے جانے جاتے ہیں ان اسکولوں میں ہندو مذہب کی تعلیم دی جاتی ہے اس سے ہم کو کوئی سروکار نہیںیہ ایک اچھی بات ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان معصوم بچوں کے دماغوں میں ابتداۂی سے مسلمانوں کے خلاف زہر بھر دیا جاتا ہے اور انہیں بتایا جاتا ہے تمہارے اصل دشمن مسلمان ہیں ۔ مرکزی وریاستی حکومتوں کو ایسے اسکولوں کے خلاف بھی کارروائی کرنی ہوگی کیونکہ ملک میں کسی بھی مذہب کے خلاف زہرافشانی ملک کی سلامتی و وقار کے لئے خطرہ بن سکتی ہے۔ آر ایس ایس ، بجرنگ دل ،جیسی ہندوتوا تنظیمیں سارے ملک میں مسلمانوں کے خلاف لڑنے کی تربیت دیتے ہیں۔ موجودہ مرکزی اور بعض ریاستی حکومتوں میں کئی وزراء اور ایم پیزو ایم ایل ایز ،ان نظریات کے حامل ہیں۔ اس کے باوجود عام مسلمان الحمدللہ ڈرو خوف سے بے نیاز اپنے ملک میں مذہبی آزادی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں اور جب کسی ڈرو خوف کے کوئی شخص زندگی گزارتا ہے تو اس میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہونے کا کوئی شائبہ بھی نہیں ہوتا۔ ہاں اُس وقت ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں پر شبہ کیا جاسکتا ہے جب مسلمانوں پر مرکزی و ریاستی حکومتیں ان کے حقوق سلب کرلیں، انہیں کسی قسم کے مراعات دینے سے گریز کریں، تعلیمی، معاشی، سماجی سطح پر مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہ کیا جائے اور مسلمانوں کے مذہب کا تشخص پامال کیا جائے، ان کی عبادتگاہوں کی بے حرمتی کی جائے تو ایسی صورت میں ہندوستانی مسلمان اُٹھ کھڑے ہوسکتے ہیں تاکہ وہ اپنے مذہب کے تشخص کی حفاظت کریں اور اپنے حقوق کے حصول کے لئے آگے آئیں۔ اگر مرکزی و ریاستی حکومتیں دیگر ابنائے وطن کے ساتھ مسلمانوں کو بھی انکے فیصد تناسب کے برابر حقوق دے رہی ہے توپھر ہندوستان کی اس سب سے بڑی اقلیت سے کسی بھی حکومت کو ڈرو خوف کھانے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ جب ممبئی میں 9/11واقعہ پیش آیا تو اس واقعہ میں ملوث دہشت گردوں کو فائرنگ میں ہلاک ہونے کے بعد دفنانے کے لئے ممبئی کے مسلمانوں نے جگہ تک نہیں دی یہی مسلمانوں کی پہچان ہے جو معصوم لوگوں کے ناحق قتل کئے جانے کے خلاف چاہے انہیں نام نہاد مسلم تنظیموں سے وابستہ مسلمان ہی مارے۔ ہندوستانی مسلمانوں نے جب کبھی ملک کے کسی بھی حصہ میں بم دھماکے ہوئے ہیں ان دھماکوں میں ملوث افراد کی کھل کر مذمت کی ہے چاہے ان دھماکوں میں مسلم نام ہی شامل رہے ہوں۔یہ الگ بات ہے کہ ان دھماکوں کی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد ہندوتوا فرقہ پرست نام سامنے آئے اور مسلم نوجوان بے قصور قرار دےئے گئے۔اس کے باوجود آج بھی ان میں سے کئی جیلوں میں قید ہیں ان کی رہائی ابھی تک عمل نہیں آئی ۔
ملک کے وزیر اعظم نریند رمودی نے جس طرح دہشت گردی کے خلاف آسیان چوٹی کانفرس میں کہا کہ دہشت گردی کو مذہب سے نہ جوڑا جائے جبکہ اس سے قبل وزیر اعظم امریکی دورہ کے موقع پر سی این این کو دےئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہندوستانی مسلمان اپنے ملک کے لئے جان دیتے ہیں ان کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اسی طرح گذشتہ دنوں مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بھی ہندوستانی دینی مدارس کے ہندوستانی علماء کو دہشت گرداور علحدگی پسند سرگرمیوں میں ملوث نہ ہونے کا جو سرٹیفکیٹ دیا ہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ ہندوستانی مسلمان واقعی معصوم ہیں وہ مظالم سہہ لیتے ہیں اور پھر قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرتے ہیں۔ آزادی ہند کے بعد سے ہزاروں فرقہ وارانہ فسادات ہوچکے ہیں جن میں لاکھوں مسلمانوں کی جانیں ضائع ہوئی ہیں ، کئی نوجوان لڑکیوں اور خواتین کی عصمتیں لوٹی گئیں ہیں،معصوم بچے یتم و یسیر ہوئے، نوجوانوں کو دہشت گردوں نے قتل کیا گیا یا پولیس فائرنگ میں ہلاککئے گئے یا پھر جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے مختلف جھوٹے الزامات کے تحت قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے لئے چھوڑ دیے گئے۔ اگر واقعی موجودہ مرکزی حکومت ہندوستانی مسلمانوں کے تےءں سنجیدہ رویہ اپنانا چاہتی ہے اور مسلمانوں کے خلاف ماضی کی مرکزی حکومت ہو یاریاستی حکومتوں کے دور میں پولیس و خفیہ اداروں کی جانب سے جو جھوٹے الزامات عائد کرکے مختلف الزامات کے تحت نوجوانوں کی گرفتاریاں عمل میں لائی تھیں ان بے قصور نوجوانوں کے مقدمات کی جلد از جلد سماعت اور انکی رہائی کے لئے اقدامات کرتی ہے تو یہ ہندوستان کے مستقبل کے لئے خوش آئند اقدام ہوگا اور ملک میں کسی بھی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو چاہے وہ بیرونی نام نہاد مسلم تنظیموں کی جانب سے، ہندوستان میں پھیلانے کے بیانات کے ذریعہ جاری کئے جارہے ہیں اُس کے خلاف ملک بھر کے مسلمان متحدہ طور پر حکومت ہند کا ساتھ دیں گے اور مرکزی حکومت یامختلف ریاستوں کی حکومتوں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف جھوٹے الزامات عائد کئے جاتے ہیں اور انہیں کسی نہ کسی بہانے ظلم و بربریت کا شکار بنایا جاتا ہے تو شائد پھر ان ظلم و بربریت کا شکار مسلمان اپنے دفاع و سلامتی کے لئے کوئی دوسرا راستہ اپناسکتے ہیں جو ملک کی سلامتی کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے ۔

«
»

خوف

افغان یوٹرن

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے