مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بد تر ہے

مسلمانوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اس کی وجہ بھی مسلمانوں کے لاڈو پیار ہی ہے، مسلمانوں کی چار چار بیویاں ہوتی ہیں’’ہم دو ہمارے دو‘وہ پانچ ان کے پچاس‘‘کا نعرہ لگایا جاتا ہے۔شیواجی مہاراج مسلمانوں کے دوست اور بہی خواں تھے،یہ سچائی چھپائی جاتی ہے۔پاکستان کو وجود میں لانے کے لئے معاون ثابت ہونے والی شخصیت کو سر فہرست درج کیا جانے والا نام جو سنگھ پریوار کو اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے،وہ ہے سردار ولبھ بھائی پٹیل اور اگر اس طرح کی فہرست میں مجبورا گاندھی جی کا نام ڈالا بھی جائے تو وہ سب میں آخر میں ہوگا یہ کہا نہیں جاتا۔مسلم سماج میں عورتوں کی تعداد 50فی صد سے بھی کم ہے، اگر ہرمسلم مرد کی چار عورتیں ہو،تو چار میں سے تین کو عورتیں ہی نہ ہوگی،یہ سچائی چھپائی جاتی ہے۔اگر کسی سماجی طبقہ کے لاڈ و پیار کے جاتے ہیں تو اس سماجی طبقہ کو کل سماج کو ملنے والی سہولیات اورراحتوں کی تعداد و مقدار حصے میں زیادہ ملنا چاہئے، تبھی اس مخصوص طبقے کے لاڈ وپیار کئے جارہے ہیں ایسا کہا جا سکتا ہے۔
ْحقیقت کیا کہتی ہے؟وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے ہندوستان کے مسلمانوں کا جائزہ لینے کے لئے سابق جسٹس سچر کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ جناب سچر نے مسلمانوں کی سماجی،معاشی اور تعلیمی حالات کا جائزہ لے کر ایک رپورٹ پیش کی ہے۔نیشنل سمیپل سروے کی بھی رپورٹ موجود ہے۔،کچھ سال قبل گوپال سنگھ کمیشن نے بھی دی ہوئی رپورٹ موجود ہے۔

ہندو سماج میں دلت ،کل ہندو ؤں کی بہ نسبت کا فی پیچھے ہے، یہ حقیقت ہے،مگر تمام مسلمان اور ہندو سماج کے دلت کا موازنہ کیا جائے تو کیا نظر آتا ہے؟دلتوں سے بھی زیادہ،مسلم تعلیمی،سماجی،اقتصادی،سیاسی نمائندگی اور روزگار کے تعلق سے پسماندہ ہے۔باضابطہ خط افلاس کی کسوٹی کے مطابق 34فی صد مسلمان خط افلاس کے نیچے ہیں۔ہندستان کی کل آبادی کے مطابق یہ تناسب ۰۳ فی صد کے آس پاس کا ہے۔دلت سماج میں ۳۲ فی صد لوگوں کو نل کا پانی ملتا ہے۔مسلمانوں میں یہ تناسب ۹۱ فی صد ہے۔اناج کے معاملے میں ۲۲ فی صد مسلمانوں کو راشن کافائدہ ہوتا ہے۔دلتوں میں اس کا تناسب ۲۳ فی صد ہے۔بیماریوں کی دوائیاں ملنے کی سہولیات کا تناسب مسلمانوں میں ۰۴ فی صد ہے تو دلتوں میں ۷۴ فی صد ہے۔
دلت (ایس۔سی)،دیگر پسماندہ طبقات(او بی سی)اور کل مسلمان سے ان کا موازنہ اور بدلتی حالت بھی قابل غور ہے۔۰۷۹۱ میں ان تین طبقات کے موازنے میں اوبی سی کم پسماندہ طبقہ مانا جاتا تھا۔اس کے بعدمسلمان پسماندہ تھا اور دلت سب سے زیادہ پسماندہ تھے۔اب مسلمانوں کانمبرسب سے آخر میں یعنی تیسرے نمبر پر آگیا ہے۔شہروں میں مسلم بچوں کو اسکول میں داخل کرنے کا تناسب شہری دلت بچوں کے مقابلے میں 10 فی صد کم ہے۔کاروبار اور نوکری کا موازنہ کیا جاے تو 25 سے45سالہ عمر کے50 فی صد ذاتی کاروبارکرتے ہیں، اس میں قلیل آمدنی اور کیسی قسم کا تحفظ یا گارنٹی نہ ہونے کے کاروبا ر میں ہی مسلم زیادہ تعداد میں ہیں۔دلتوں میں اس کا تناسب28فی صد ہے اور ہندوؤں میں اس کا تناسب25 فی صد ہے۔مستقل نوکری کرنے والے مسلمان18 فی صد ہیں اور اس کی شرح ھندوؤ ں میں25فی صد ہے۔
جسٹس سچر کمیٹی نے جن ریاستوں میں مسلمانوں کی تعداد ۵۱ء۴ فی صد زیادہ ہے اس کا جائزہ لیا، اس میں کیا دریافت ہوا؟ تمام سرکاری نوکریوں میں مسلمانوں کا تناسب ۵ء۷ فی صد ہے۔اتر پردیش،بہار،بنگال ان ریاستوں میں مسلمانوں کی آبادی ملک کے دیگر راستوں کے موازنے میں زیادہ ہے۔ان ریاستوں میں سرکاری نوکریوں کا تناسب ان کی کل آبادی کے حساب سے ایک چوتھائی سے بھی کافی کم ہے۔مہارشٹر میں مسلمانوں کی آبادی کے حساب سے سرکاری نوکریوں میں مسلمان ۵ فیصد سے بھی کم ہے۔کیرلا میں مسلمانوں کی کا تناسب ۴۲ء۷ہے مگر سرکاری نوکریوں میں مسلمان ۰۱ء۴ فی صد ہے۔ بنگال میں مسلم آبادی کا تناسب ۵۲ء۲ فی صد ہے،تو وہاں نوکریوں میں مسلمانوں کا تناسب ۴ء۲ فی صد ہے۔ریاست کوئی بھی ہو ،مسلمانوں کے ساتھ سوتیلا سلوک کیا جاتا ہے۔
1952 سے سیدھے2004 تک مسلم ایم پی کی تعداد کا مطالعہ کچھ یوں کہتا ہے کہ مسلمان ایم پی کا شرح تناسب کل ایم پیز کی تعداد کا ۴ء۳فی صد سے ۶ء۶ فی صد تک ہی رہی ہے۔ملک میں مسلم آبادی کا تناسب ۳۱ فی صد ہے۔ملک کے ہر ریاست میں یہی تناسب ہے۔
کیسی بھی طریقے سے ہم اگر جائزہ لیں ،تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مسلمانوں کی سیاسی،معاشی،سماجی اور اقتصادی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے۔اس کے باوجود یہ کہا جا تا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ لاڈ و پیار کیا جاتاہے۔یہ مسلم نفرت پھیلانا جس طرح سنگھ پریوار کے پرچار کا نتیجہ ہے اسی طرح یہ ذرائع ابلاغ کے صحیح حالات و حقیقت پیش کرنے میں بے پرواہی ،کوتاہی اور بعض حالات میں چشم پوشی کا نتیجہ ہے۔عوام کے بھولے پن کا بھی نتیجہ ہے۔

مسلمانوں کے پسماندگی کے لئے کیا حالات اور کون کون ذمہ دار ہیں ، اس بحث ہونا بھی ضروری ہے۔ملک جب آزاد ہوا اور Constitution بنایا جارہا تھا، اس وقت بھی بھارت یہ ہندو راشٹر بنایا جائے ، یہ کہنے ولے طاقتیں اس وقت بھی موجود تھیں۔مگر اس دور میں مذہب کی بنیاد پر ملک نہ بنایا جائے ،ایسے کہنے والوں کی طاقت زیادہ تھی۔مسلم نفرت یعنی حقیقت میں ھندو دھرم،ایسا کہنے والے اورخود کو سیکولر کہنے والی جماعتیں اتنی طاقتور نہیں تھیں، ابھی اس بہ نسبت ایسی جماتیں زیادہ طاقتور ہوگئیں ہیں۔اقتدار میں موجود سیکولر(خود کوسمجھتے ہیں اور لوگوں کو سمجھاتے ہیں ،وہ ہیں نہیں)ایسی سیاسی پارٹیوں کا عوامی مخالف رویہ کی وجہ سےCommunalذہنوں کو توانائی حاصل ہوئی۔
پاکستا ن کی بنیاد مذہب کے نام پر رکھی گی ہے،مگر اس کے اب تک دو ٹکڑے ہوئے ہیں،اللہ کا شکر ہے کہ ابھی تک بھارت کے ٹکڑے نہیں ہوئے ہیں۔بھارت ایک سیکولر ملک ہے، اسلئے اقلیتی فرقہ کے راشٹرپتی عبدلکلام ہیں، اور وزیر اعظم من موہن سنگھ ہے اور اقلیتی عیسائی فرقہ کی ایک خاتون سب سے بڑی سیاسی پارٹی کی سر براہ ہے۔
دلتوں کی حالت بھلے کچھ فیصد کیوں نہ ہو ،بہتر ہے۔اس کی وجہ دلتوں کی ذاتی جدوجہد ہے۔ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کی قیادت انھیں راس آئی ہے۔مسلمانوں نے شروع سے کسی کو اپنا قائد تسلیم ہی نہیں کیا۔کس پارٹی کے ساتھ رہنے میں مسلمانوں کی بھلائی ہے ، یہ فیصلہ کرنے میں مسلم لیڈران اور مسلم سماج مکمل طور سے ناکام نظر آتے رہے ہیں۔مفاد پرست ہمارا استعمال صر ف اقتدار پر قابض ہونے کے لئے ہی کیا کرتے ہیں، اس بات کو مسلمانوں نے کبھی سنجیدگی سے سوچا ہی نہیں ہے۔اصل میں سیکولر کون ہے، اس کا کبھی ٹھنڈے دماغ سے جائزہ ہی نہیں لیا۔
سچر کمیٹی کی پورٹ میں ایک بات یہ بھی ہے کے جیلوں میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے، ان میں جرائم کی وجہ ان کی بیکاری اور تعلیمی پسماندگی ہے۔مسلمانوں میں بھی کئی طبقے ہیں،ایس سی،ایس ٹی،او بی سی جیسے پسماندہ طبقا ت ہیں۔پسماندہ طبقات میں خاندانی پیشہ اور قلیل آمدنی کا کاروبار کرنے والوں کی اکژیت ہے۔ہندو میں برہمن اور پجاری خود کو اعلیٰ سمجھنے والا طبقہ ہے،تھوڑے ہونگے۔،مگر سرمایہ دارہیں،امیر ہیں،زمیندار ہیں،محنت کش مزدور ہیں،پسماندہ زیادہ ہیں۔محنت کش اور پسماندہ مسلمانوں نے ہندو،سیکھ،عیسائی ان مذاہب کے محنت کش اور پسماندہ لوگوں کے ساتھ ملکر ایک آواز بلند کرنا اور ایک سنگھرش شروع کرنا ضروری ہے۔ہندو مذہب میں جس طرح ایس سی،ایس ٹی،او بی سی ہیں ،وہی طبقے مسلمانوں میں بھی ہیں،ان کے نام ہو یا نہ ہو،کاربار کے لحاظ سے ان کی کلاس یا حلقہء کا تعین کیا جاسکتا ہے۔
مسلم او بی سی تنظیم اس سمت میں کچھ کام کررہی ہے۔ان کی مسلم امیروں کے ذریعہ بالراست یا برائے راست امخالفت ہورہی ہے۔وہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں او بی سی اور غیر اوبی سی یہ دو گروپ نہ بنائے جائیں۔مسلم او بی سی جس سمت پر نکل پڑے ہیں وہ صحیح سمت ہے۔مسلم محنت کش،مسلم پسماندہ اور دیگر مذاہب کے پسماندہ اور محنت کشوں نے متحد ہوکر ذاتی فلاح و بہبود کے لئے جنگی پیمانے پر جدوجہد کرنے چاہئے، مانگنا پڑتا ہی ہے، مگر صرف مانگ کر نہیں ملتا۔سنگھرش اور جدوجہد کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔دلتوں نے متحد ہوکر تھوڑا کچھ پالیا،محنت کشوں نے متحد ہوکر کچھ پالیا۔مسلم محنت کشوں اور پسماندہ لوگوں نے بھی وہی راہ اختیار کرنی ہوگی۔مناسب لوگوں کو ساتھ لیکر سنگھرش اور جدوجہد کرناچاہئے، کوئی کچھ دینے والا نہیں ہے ،ہمیں آگے بڑھ کر لینا ہوگا۔
انڈین Constitutionکے ایکٹ ۵۱ اور ۶۱ میں ’’سماجی اور تعلیمی پسماندہ جماعتوں کے لئے خصوصی سہولیات مہیا کرنا‘‘ کے لئے کہا گیا ہے، اس کے تحت ہی مسلمانوں میں موجودپسماندہ جماعتوں کے ساتھ سلوک کیا جائے۔مسلمانوں کی ترقی کے خاطر قائم کردہ کی ادارے مالی عدم موجودگی کی وجہ سے بند ہونے کی دہلیز پر ہیں، انھیں بھر پور مالی تعاون(گرانٹ) مہیا کرنی چاہیے اور اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ سیاسی رضامندی بھی شامل ہو۔ملک کی ۳۱ فی صد مسلم آبادی اور دلتوں کو نظر انداز کرکے یہ ملک کبھی سپر پاور نہیں بن سکتا ہے۔

«
»

سرکا بدلی مگر حالات نہیں بدلے!!

یمن کے ’’حوثی‘‘کون ہیں؟؟؟!!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے